حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کا فتویٰ
حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کا فتویٰ
کفر و اسلام کے حقیقت،مسلمان کون ہے اور کافر کون؟
جس طرح آسمان اور زمین کا فرق ایک بد یہی امر ہے،کفر و اسلام کا فرق بھی اس شخص کے لیے جو کسی مذہبی گھرانہ میں پلا ہو،بداہت و ظہور میں کسی طرح اس سے کم نہیں۔اور اس لیے یہ بحث کے کفر کیا ہے اور اسلام کیا ہے،درحقیقت ایسی بحث ہے جیسے کوئی آسمان و زمین کے باہمی فرق یا شمس و قمر کے فرق پر بحث کرے۔لیکن افسوس کہ آج کل مذہب و ملت سے بیگانگی اور ناواقفیت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ آج اور وقت کا سب سے اہم مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلام اور کفر کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ ناواقفیت سے کسی مسلمان کو کافی نہ کافر کو مسلمان کہنے کی شدید غلطی میں نہ پڑھ جائیں،یا خدا نخواستہ کفر کو اسلام سمجھ کر قبول نہ کر لیں۔
بالخصوص اس وجہ سے کہ کفر کے بعض اقسام ایسے بھی ہیں جو سورت میں اسلام سے ملتے جلتے ہیں اور یہی سب سے خطرناک کفر ہے۔مسلمانوں کو ہر زمانہ میں جتنا نقصان اس قسم کے کفر اور کفار سے پہنچا ہے کھلے ہوئے کفار سے ہرگز نہیں پہنچا۔
اس لیے اس بحث کا اصل مقصد اسی نوعِ کفر کو واضح کرنا ہے اور یہ ایک ایسا اصولی مسئلہ ہے کہ اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو دورِ حاضر کے تمام ملحدانہ فتنے قادیانی،چکڑالوی،مشرقی وغیرہ خود اپنی موت مر جاتے ہیں۔
اسلام کیا چیز ہے اور مسلمان کون ہے:
اس لیے سب سے پہلے اصولی طور پر یہ معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن اور شریعتِ اسلام کہ اصطلاح میں اسلام و ایمان کس چیز کا نام ہے اور کفر کس کا؟مسلمان کس کو کہتے ہیں اور کافی کس کو؟یہ ہے حقیقت اس قدر ظاہر اور بد یہی ہے کہ ہر مسلم و غیر مسلم اس سے واقف ہے کہ اسلام کہ سب سے بڑے ارکان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانے اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ایمان لائے۔
رسول پر ایمان لانے کے معنیٰ:
اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول پر ایمان لانے کا معنیٰ تو یہ نہیں کہ ان کے وجود کا اقرار کرے کہ فلاں جگہ پیدا ہوئے ایسا حلیہ مبارکہ تھا،فلاں فلاں کام کیے۔بلکہ رسول پر ایمان لانے کا معنیٰ یہ ہے کہ اس کے فرمائے ہوئے ہر حکم کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کرے۔اس پر کوئی اعتراض و انکار اس کے قلب و زبان پر نہ ہو قرآن مجید نے خود اس معنیٰ کو آیتِ ذیل کے صریح لفظوں میں واضح کر دیا ہے۔
القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا:
ترجمہ: قسم ہے آپ کے رب کی کہ یہ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک وہ آپ کو اپنے تمام نزاعات و اختلافات میں حٓکم نہ بنا دیں اور پھر جو فیصلہ آپ فرما دیں تو اس سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اور اس کو پوری طرح تسلیم کریں۔
تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر سیدنا جعفر صادقؓ اور دوسرے علماء سلفؒ سے نقل فرمائی ہے۔
روی عن الصادق قال لو ان قوما عبدوا اللہ تعالیٰ واقامو الصلوٰۃ واتو زکوٰۃ و صاموا رمضان وحجو البیت ثم قالو السنی صنعه،رسول اللہ الا صنع خلاف ما صنع اووجدوا فی انفسھم حرجا لکانوا من المشرکین:
ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؓ سے منقول ہے آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے مگر کسی ایسے کام کے متعلق جو حضور اکرمﷺ نے کیا ہے یوں کہے کہ آپﷺ نے اس کے خلاف کیوں نہ کیا یا وہ آپﷺ کے عمل اور حکم سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس کرے تو بلاشبہ وہ (ان سب اعمال و عبادات کے باوجود) مشرکین کفار میں داخل ہو جائے گی۔
قرآن مجید کی آیات اس مضمون پر سینکڑوں کی تعداد میں پیش کی جا سکتی ہے مگر ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے۔
ان آیات سے بو ضاحت معلوم ہو گیا کہ اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کہ ہر حکم کی دل سے تصدیق کرے،اس پر کوئی اعتراض نہ کرے۔اور اسی سے یہ بھی متعین ہو گیا کہ مسلمان وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ہر حکم کی دل سے تصدیق کرنے والا ہو اسی کا خلاصہ درمختار میں ان الفاظ مذکور ہے۔
الایمان وھو تصدیق محمدﷺ فی جمیع ماجآء به عن اللہ تعالیٰ مما علم مجینه به ضرورۃ:
ترجمہ: ایمان یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ کے لائے ہوئے تمام احکام کی دل سے تصدیق کرے۔بشرطیکہ آپﷺ سے ان کا ثبوت قطعی و ضروری طریق پر ہو۔
کفر کیا چیز ہے اور کافر کون ہے:
جب اسلام اور ایمان کے معنیٰ معلوم ہو گئے تو کفر کے معنیٰ بھی اسی سے متعین ہو گئے،کیونکہ جس چیز کے معاملے کا نام اسلام و ایمان ہے،اسی کے نام انے اور انکار کرنے کا نام کفر ہے۔
معلوم ہوا کہ قرآن تو اسلام کی نظر میں کافر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ یا حضور اکرمﷺ کہ کسی حکم کا (بشرطیکہ اس کا حکمِ خدا تعالیٰ یا حکم رسولﷺ ہونا قطعی طور پر ثابت ہو) انکار کرے یہی مضمون: درمختار میں ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے کہ۔
الکفر لغۃ الستر و شرعاً تکذیبه رسول اللہﷺ فی شیء مما جاء به من الدین ضرورۃ:
ترجمہ: کفر،لغت میں تو چھپانے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ شرع میں حضور اکرمﷺ کی تکذیب ایسے احکام میں جن کا ثبوت آپﷺ سے بطریق ضرورت و قطعیت ہو چکا ہے۔
انکارِ خدا تعالیٰ یا انکارِ رسولﷺ کی تین صورتیں:
خدا تعالیٰ یا اس کے رسولﷺ کو نہ ماننے کے معنیٰ قرآن کی تصریح سے معلوم ہو چکے کہ جو حکم اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺ سے ثابت ہو جائے اس کا انکار کرنا یا اس پر اعتراض کرنا در حقیقت اللہ تعالیٰ کے خدا ہونے اور رسولﷺ کے رسول ہونے کا انکار ہے اور اسی وجہ سے کفر ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ یا رسولﷺ کو نہ ماننے کی تین صورتیں ہیں اور تینوں کفر ہیں۔
اول: یہ کے کھلے طور پر اللہ تعالیٰ کو خدا یا رسولﷺ کو رسول نہ مانے۔
دوم: یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی اور رسولﷺ کی رسالت کا اقرار کرے لیکن ان کے فرمائے ہوئے احکام میں سے کسی حکم کو صحیح نہ مانے یا اس پر اعتراض کرے۔
سوم: یہ بھی نام ماننے کی ایک صورت ہے کہ خدائی اور رسالت کا بھی اقرار کرے اور زبان سے بھی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے تمام احکام کو مانتا ہوں لیکن احکام کے معنیٰ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے بتلائے ہوئے اور آپﷺ کے بلا واسطہ شاگردوں (حضرات صحابہ کرامؓ) کے سمجھے ہوئے معنیٰ کے خلاف قرار دے کر آپﷺ کے احکام ٹال دے۔
وجہ ظاہر ہے کہ بغاوت ۔۔۔۔۔ احکامِ شاہی کو نہ ماننے کا نام ہے۔اس میں جس طرح یہ بغاوت کہ صاف طور پر یہ کہہ دے کہ میں بادشاہ کو بادشاہ تسلیم نہیں کرتا۔اسی طرح یہ بھی بغاوت ہے کہ اس کے حکم سے انکار کرے یہ حکمِ شاہی نہیں۔
نیز یہ بھی بغاوت ہی کی ایک صورت ہے کہ بظاہر قانون کو تسلیم کرے،لیکن قانون ساز جماعت کی تصریحات و ہائی کورٹ کے تسلیم کیے ہوئے معانی کے خلاف قانون کے نئے معنیٰ تراش کر قانون کو رد کرنا چاہے۔
الغرض کفر و ارتداد صرف اسی صورت کا نام نہیں کہ کوئی شخص صاف طور پر اللہ تعالیٰ کے وجود یا توحید کا انکار کرے،یا حضور اکرمﷺ کہ رسول ہونے کا منکر ہو جائے یا کھلے طور پر مذہبِ اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب یہودیت یا نصرانیت وغیرہ اختیار کر لے،بلکہ جس طرح یہ صورتِ کفر ہے اسی طرح یہ بھی کفر ہے کہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺ کہ ان احکام میں سے کسی ایک کا انکار کرے جو قطعی اور بد یہی طور پر ثابت ہیں جن کو اصطلاحِ عقائد میں ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے۔اسی طرح یہ بھی کفر و ارتداد ہے کہ آیاتِ قرآنیہ اور احکامِ اسلامیہ کہ ان اجماعی معنیٰ کے خلاف کوئی نئے معنیٰ تجویز کرے جو حضور اکرمﷺ کہ بتلائے ہوئے یا صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے متفقہ طور پر سمجھے ہوئے ہیں۔
(جواہر افقه:جلد:1:صفحہ 313)
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیانِ شرع متین صورت مسئولہ میں کہ ہمارے شہر کٹک میں ایک شخص اطراف بمبئی کا باشندہ قوم سے خواجہ سوداگر رہتا ہے،اپنے آپ کو آغا خان کا مرید اور پیرو ظاہر کرتا ہے،اتفاق سے اس کے یہاں ایک میت ہو گئی،تاجر مذکور نے اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہا،اس پر یہاں کے مسلمانوں میں کچھ کشمکش پیدا ہو گئی ہے۔
ایک فریق کی رائے ہے کہ اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں ہرگز دفن نہ کیا جائے۔کیونکہ سر آغا خان دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔اور اپنی رائے کی تائید میں امور زیل پیش کرتا ہے۔
(1) سر آغا خان کی تصویر کی پرستش کرتا ہے۔
(2) ہندوؤں نے مشہور اوتار کرشن جی کی مورت اپنے عبادت خانہ میں رکھ چھوڑی ہے۔
(3) دیوالی جو ہندوؤں کا مشہور تہوار ہے اس میں اپنے حساب کا بھی کھاتا تبدیل کرتا ہے علاوہ اس کے اور بھی بعض مراسم مشرکانہ ادا کرتا ہے مثلاً:
(4) اپنے کھاتا کی ابتداء میں بجائے (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کہ لفظ :اوم: لکھتا ہے۔
(5) سر آغا خان کے اندر خدائی حلول کا معتقد ہے۔
مسلمانوں کا دوسرا فریق کہتا ہے کہ وہ کلمہ گو ہے،اپنے آپ وہ مسلمان کہتا ہے،اس کو کسی طرح کافی نہیں کہہ سکتے۔
خود تاجر موصوف سے جو دریافت کیا گیا تو اس نے بھی بیان کیا کہ میں مسلمان ہوں،کلمہ پڑھتا ہوں،مسلمانوں کی ضروریات میں چندہ دیتا ہوں،فرق صرف یہ ہے کہ میں سر آغا خان کو اپنا رہنما اور مرشد سمجھتا ہوں،جیسے عام طور پر مسلمان کسی نہ کسی پیر کے مرید ہوا کرتے ہیں بس وہی۔
فریق اول اس تمام بیان کو تاجر مذکور کے ضرورت اور مصلحتِ وقت پر محمول کرنا ہے اب حضور سے چند امور دریافت طلب ہیں۔
(سوال اول) سر آغا خانیوں کے متعلق حضور کی کیا تحقیق ہے؟ان کو شرعاً مسلمان کہیں گے یا کافر؟
(سوال دوم) اگر کافر ہیں تو تاجر مذکور کا اپنی صفائی میں یہ پیش کرنا کہ میں مسلمان ہوں کلمہ گو ہوں وغیرہ وغیرہ اس بیان سے اس کو مسلمان سمجھا جائے گا یا نہیں؟
(سوال سوم) اگر نہیں تو ایک مدعی اسلام کی تکفیر کیسے ہو سکتی ہے؟کافی اور مسلمان ہونے کا آخر معیار کیا ہے؟
(سوال چہارم) بعض بہی خواہانِ قوم کا خیال ہے کہ گو تاجر مذکور شرعی نقطہ نگاہ سے اسلام سے خارج ہو لیکن اس وقت ہم مسلمانوں کو اتحادِ قومی اور ترقی کی ضرورت ہے۔لہٰذا ایسے جھگڑے بکھیڑوں کو نکالنا مناسب نہیں۔یہ وقت نازک ہے سب مدعیانِ اسلام کو مسلمان کہنا اور سمجھنا چاہیے۔ان کو اسلام سے خارج کر کے اپنی تعداد اور مردم شماری کو گھٹانا نہیں چاہیے۔بہی خاہانِ قوم اور ہمدردانِ اسلام کا یہ خیال شرعاً کس قدر وقعت رکھتا ہے؟
(سوال پنجم) سر آغا خانیوں کے معتقدات کا خواہ اسلام روادار ہو یا نہ ہو سر دست یہ امر حل طلب ہے کہ خصوصیت کے ساتھ تاجر موصوف کا بیان اور دعوائے اسلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو کافر کہیں گے یا مسلمان سمجھیں گے؟اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ دی جائے؟یہا کیا معاملہ کرنا چاہیے؟
(سوال ششم) جو نام نہاد مولوی تاجر مذکور کی میت کی نماز جنازہ پڑھتے اور اس کو مسلمان کہتے ہیں اور کہلواتے ہیں اور اس میں کوشش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
نوٹ: اسی اثناء میں گجراتی زبان میں ایک استفتاء دستیاب ہو گیا جی اس میں ان کے عقائد و طریقہ نماز کا طریقہ موجود ہے مزید بصیرت کے لیے منسلک لفافہ ہذا ہے۔
سوال: زید جو مدعی اسلام ہے اس امر کا قائل ہے کہ نماز کا پڑھنے والا کافر ہے،علماء کی غلطی کے باعث یہ نماز ایجاد ہوئی ہے ورنہ شریعت میں کہیں اس کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت دل میں ہونی چاہیے۔ایسے شخص کے لیے اور جو لوگ اس کے ہم خیال ہوں ان کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: شخص مذکور اور اس کے اتباع وہم عقیدہ لوگوں کے کفر و ارتداد میں کچھ شبہ اور تامل نہیں ہے۔ان کے ساتھ معاملہ کفار و مرتدین کا سا ہونا چاہیے اور اہل اسلام ان کو اپنی جماعت سے علیحدہ کر دیں اور ان کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہ رکھیں۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:جلد:12:صفحہ 278)
سوال: ہم ان تمام احکامات پر جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شریعت کے ہیں ایمان رکھتے ہیں اور اس کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کو مجدد اور باتباع پیروی حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور ان کی طرف سے فیض نبوت سے مستفید جانتے ہیں۔ازروئے شریعت محمدیہﷺ ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: مواضع ہو کے اگر کسی شخص میں باوجود تمام عقائد اسلامیہ کے ماننے کے ایک عقیدہ بھی کفریہ ہو اور کسی ایک امر کا ضروریاتِ دین زیبی انکار کرے تو وہ بھی کافر ہو جاتا ہے۔
بس جو شخص باوجود دعویٰ اسلام عقائد و اسلام کے ایک ایسے مرتد و ملحد کو جس کی کتابوں سے اس کی کفریات ثابت ہیں مسلمان سمجھے بلکہ اس کو مجدد اور فیض نبوت سے مستفید سمجھے (معاذ اللہ) وہ بھی قطعاً کافر ہے۔کیونکہ اس نے کافر کو مسلمان اور کفر کو اسلام سمجھا۔
پس جب کہ محقق ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بوجہ دعویٰ نبوت و توہین انبیاء کرام علیہم السلام وغیرہ کے قطعاً کافر ہے،کیونکہ جو شخص ایسے کافر و ملعون کو مجدد و مستفید از فیض نبوت سمجھے اس کے کفر میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:جلد:12:صفحہ 315)
سوال: ایک شخص اہل سنت و الجماعت ہو کر یہ کہتا ہے کہ سیدنا حسنؓ کو جو زہر دیا تھا،اس میں سازش سیدنا امیر معاویہؓ کی بھی تھی،دیگر یہ ہے کہ جس وقت سیدنا امیر معاویہؓ یہ مقام مخصوص پر بچھو نے نیش زنی کی تو اس وقت اپ نے عبید اللہ کی والدہ سے بد فعلی کی تھی،جس سے عبید اللہ کا تولد ہوا (معاذ اللہ) اس صورت میں شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: سیدنا امیر معاویہؓ حضور اکرمﷺ کہ خاص صحابی ہیں،اور حضور اکرمﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی ہے اور بشارت دی ہے اور کاتب وحی تھے ان کی شان میں ایسا گستاخانہ خیال رکھنا اور تہمت لگانا سخت گناہ اور معصیت ہے۔وہ شخص فاسق بدکار ہے۔جو ایسا عقیدہ رکھتا ہے اس کا نماز روزہ کچھ مقبول نہیں ہے،وہ درحقیقت رافضی ہے اس کو ایسے خیال سے توبہ کرنی چاہیے۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:جلد:18: لصفحہ 343)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
روافض میں یہ تفصیل ہے کہ جو فرقہ ان کا قطعیات تو ہم ان کا ہے اور سب شیخینؓ کرتا ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور تہمت لگاتا ہے،یعنی افک کا معتقد ہے وہ صحابہ کرامؓ کی تکفیر کرتا ہے وہ بھی کافر و مرتد ہے۔ان سے مناکحت و مجالست حرام ہے۔
اور واضح ہو کے اور روافض تبرا گو ہی ہوتے ہیں اگرچہ بوجہ تقیہ کہ جو ان کے نزدیک دینی فعل ہے اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور اپنے عقائدِ باطلہ مخفی رکھتے ہیں،لہذا ان کے قول فعل کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ان کے اصولِ مذہب کو دیکھا جاوے۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: مدلل و مکمل: جلد:12صحفہ:369)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
سیدنا امیر معاویہؓ حضور اکرمﷺ یہ خاص وحی ہیں اور حضور اکرمﷺ نے ان کے لیے خاص دعا فرمائی ہے بشارت دی ہے کاتبِ وحی ہے ان کی شان میں گستاخ خانہ خیال رکھنا اور تہمت لگانا سخت گناہ اور معصیت ہے وہ شخص فاسق و بدکار ہے جو ایسا عقیدہ رکھتا ہے اس کی نماز روزے کچھ مقبول نہیں ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:مدلل مکمل:جلد:12:صفحہ446)