فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نویں دلیل: حدیث: سلام امارت]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نویں دلیل: حدیث: سلام امارت]
[اشکال]:شیعہ لکھتا ہے : ’’ اثباتِ امامت ِ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نویں حدیث جمہور علماء نے روایت کی ہے کہ آپ نے صحابہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پرامیر المؤمنین ہونے کی وجہ سلام بھیجنے کا حکم دیا اور فرمایا: آپ سید المسلمین امام المتقین اور پانچ کلیانے گروہ کے قائد ہیں ؛ اور فرمایا: آپ میرے بعد ہر مؤمن کے ولی ہیں ؛نیز آپ کے حق میں یہ بھی فرمایا کہ: ’’بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ‘ اور آپ ہر مؤمن مرد و عوت کو اس کی جان سے بڑھ کر محبوب ومقدم ہیں ۔پس ان نصوص کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ و امام ہوں گے۔یہ روایت اس باب میں واضح ہے ۔ ‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: اس کا جواب کئی وجوہات سے دیا گیا ہے :
٭ پہلا جواب : ہم شیعہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد بیان کریں اور اس کی صحت ثابت کریں ۔ شیعہ مصنف نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کو کسی بھی کتاب کی طرف منسوب نہیں کیا ۔شیعہ مصنف کا یہ کہناکہ :’’ اسے جمہور نے روایت کیا ہے ۔‘‘ سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت صحاح اور قابل اعتماد مسانیدوسنن اور دوسری معتمد کتب میں موجود نہیں ۔اگرچہ اسے بعض اندھیری رات کے مسافروں نے روایت بھی کیا ہے؛ تو اس جیسی اور بھی روایات انہوں نے جمع کی ہیں ۔اس جیسی روایات باتفاق مسلمین حجت نہیں ہوسکتیں کہ لوگوں پر ان کی اتباع واجب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر جھوٹ بولنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی بات نہیں کہہ سکتے جو ہم جانتے نہ ہوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
((مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))۔
’’ جو انسان مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے ‘ اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں بنالے ۔‘‘ [البخارِیِ1؍33 ؛ کِتاب العِلمِ، باب إِثمِ من کذب علی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم؛ مسلِم4؍2298 ؛ ِکتاب الزہدِ، باب التثبِیتِ فِی الحدیثِ وحکمِ ِکتابۃِ العِلمِ، والحدیث فِی سننِ أبِی داود والتِرمِذِیِ وابنِ ماجہ والدارِمِیِ، وہو فِی المسندِ فِی مواضِع کثِیرۃ مِنہا : الأرقام 6486، 9888۔]
٭ دوسرا جواب: اہل علم محدثین کا اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر وہ انسان جسے علم حدیث کی معمولی سی بھی معرفت ہو‘ وہ جانتا ہے کہ یہ روایت محض جھوٹ ہے ؛ اہل علم محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی قابل اعتماد سے روایت نہیں کیا ۔ اور نہ ہی صحاح ستہ ؛ سنن ؛اور قابل اعتماد مسانید میں اس کا کوئی وجود ہے۔
٭ تیسرا جواب : [اس کی اسناد میں متہم بالکذب راوی پائے جاتے ہیں ] ۔بلکہ علماء حدیث اس سے بڑھ کر اسے موضوع قرار دیتے ہیں اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کو حرام سمجھتے ہیں ۔اس حکایت کا روایت کرنے والا بڑا جھوٹا انسان ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ سے منزہ اور بری ہیں ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخص سید المسلمین اور امام المتقین نہیں ہو سکتا؛ اس پر تمام مسلمانو ں کا اجماع ہے۔
’’اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے سردار ہوں گے ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : ’’مذکورہ روایت میں ایسے الفاظ موجود نہیں جو اس تأویل پر دلالت کرتے ہوں کہ علی رضی اللہ عنہ میرے بعد امام المسلمین ہوں گے۔بلکہ روایت اس تأویل کیخلاف ہے۔ اس لیے کہ خیر المسلمین و المتقین وقائدغرالمحجلین ‘‘ قرن اول کے مسلمان تھے ۔اس دور میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ان کا قائد و سید اورامام و سردار نہیں تھا۔تو پھر آپ کیسے ایسی چیز کی خبر دے سکتے ہیں جو ابھی تک موجود نہ ہو ۔ اور پھر اس خبر کو بھی ایسے ہی تشنہ لب چھوڑدیا جائے حالانکہ وضاحت کے ساتھ اس کے بیان کی بہت ہی سخت ضرورت بھی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی بروزِ قیامت مسلمانوں کے قائدہوں گے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کن لوگوں کی قیادت کریں گے؟
نیز یہ کہ جب سب مسلمان شیعہ کی نگاہ میں کافر و فاسق ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کس کی قیادت کریں گے؟ صحیح احادیث میں ثابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا:
((ودِدت أنا قد رأینا ِإخواننا))۔ قالوا: أولسنا إِخوانک یا رسول اللّٰہِ؟۔ قال:(( أنتم أصحابِی؛ وِإخواننا الذِین لم یأتوا بعد))۔ فقالوا: کیف تعرِف من لم یأتِ بعد مِن أمتِک یا رسول اللّٰہِ؟۔ فقال: ((أرأیت لو أن رجلا لہ خیل غرَّ محجل بین ظہری خیل دہم بہم لا یعرِف خیلہ؟))۔ قالوا: بلی یا رسول اللّٰہِ!۔ قال:(( فإِنہم یأتون غرًّا محجلِین مِن الوضوئِ؛ وأنا فرطہم علی الحوضِ؛ ألا لیذادن رِجال عن حوضِی؛ کما یذاد البعِیر الضال أنادِیہِم ألا ہلم۔ فیقال: ِإنہم قد بدلوا بعدک فأقول سحقا سحقا))
’’ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو دیکھوں ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟تو آپ نے فرمایا: ’’ تم میرے صحابہ ہو‘ میرے بھائی ابھی تک نہیں آئے ۔‘‘کہنے لگے :یا رسول اللہ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جو ابھی تک نہیں آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بھلا تم دیکھو اگر کسی شخص کی سفید پیشانی والے سفید پاؤں والے گھوڑے سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے پہچان نہ لے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ وہ لوگ جب آئیں گے تو وضو کے اثرات کی وجہ سے ان کے چہرے؛ ہاتھ اور پاؤں چمکدار اور روشن ہوں گے اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا ۔اور سنو بعض لوگ میرے حوض سے اس طرح دور کیے جائیں گے جس طرح بھٹکا ہوا اونٹ دور کر دیا جاتا ہے؛ میں ان کو پکارونگا ادھر آؤ تو مجھ سے کہا جائیگا کہ : انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دین کو بدل دیا تھا تب میں کہوں گا دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ۔‘‘ [مسلم۔ کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرۃ(ح:۲۴۹) سنن نسائی(۱۵۰)، سنن ابن ماجۃ (۴۳۰۶)۔]
مذکورہ صدر حدیث سے مستفاد ہوتاہے کہ جو شخص وضو کرتے وقت اپنا منہ اور ہاتھ پاؤں دھوتا ہے وہ بروز قیامت ان لوگوں میں سے ہو گا جن کے ہاتھ پاؤں سفید ہوں گے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان جمہور مسلمانوں کے آگے آگے ہوں گے۔
اس کے مصداق شیعہ کے سوا آپ کی جمہور امت ہے، چونکہ شیعہ وضوء کرتے وقت پاؤں نہیں دھوتے۔ لہٰذا ان کے پاؤں سفید نہیں ہوں گے۔اس لیے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بروز قیامت ان کی قیادت بھی نہیں کریں گے۔ اورنہ ہی انہیں سفید پاؤں والوں کے ساتھ چلایا جائے گا۔اس لیے کہ[حدیث میں مذکور]حجلہ [سفیدنشان] پاؤں کی پشت میں ہوتا ہے ۔پاؤں میں یہ نشان ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ہاتھ میں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’ایڑیوں اور پاؤں کی اندرونی جانبوں کو آگ کی وجہ سے بڑی تکلیف کا سامنا ہو گا۔‘‘[مسند احمد (۴؍۱۹۱)، موقوفاً و مرفوعاً۔ صحیح ابن خزیمۃ(۱۶۳)، مرفوعاً وعلقہ الترمذی فی کتاب الطہارۃ، باب ما جاء ’’ وَیْلٌ لِّلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘‘ (تحت الحدیث:۴۱)۔]
[حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں کا جو حصہ خشک رہے وہ آگ میں جلے گا]۔
یہ ایک بدیہی بات ہے کہ محجّل گھوڑا وہی ہوتا ہے جس کے ہاتھ پاؤں پر سفیدی کا نشان ہو ورنہ اسے محجل نہیں کہتے۔ ثابت ہوا کہ محجل پاؤں اور ہاتھ کی سفیدی والے کو کہتے ہیں ۔ بنابریں جو شخص اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک نہیں دھوتا۔ بروز قیامت اس کے پاؤں سفید نہیں ہوں گے۔پس سفید نشان والوں کے قائد بھی ان لوگوں سے برأت کا اظہار کریں گے؛ بھلے یہ کوئی بھی لوگ ہوں ۔
نیز جس حقیقت واقعی سے اس روایت کاجھوٹ واضح ہوتا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا امام ؛سردار اور قائد قرار دینا ہے۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلانیہ اورواضح طور پرحضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیا کرتے تھے اس کی حد یہ ہے کہ خاص و عام [اہل ایمان ہی نہیں ]بلکہ مشرکین بھی اس سے آگاہ تھے۔
احدکے موقع پر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا کہ: کیا تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں ؟ کیا تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ؟ کیا تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں ؟ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اس کا جواب دینے سے منع کردیا تھا۔ پھر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا کہ:’’ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟(یعنی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ )۔ اور پھر تین مرتبہ کہا کہ:کیا تم میں عمر بن الخطاب ہیں ؟کیا تم میں عمر بن الخطاب ہیں ؟کیا تم میں عمر بن الخطاب ہیں ؟ اور پھر اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ :’’یہ تو سب مارے گئے۔‘‘ جس پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو نہ روک سکے اور کہا :
’’ اے اللہ کے دشمن اللہ کی قسم! جن لوگوں کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں ۔ اور جس بات سے تم رنجیدہ ہو وہ برقرار ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد(حدیث:۴۰۴۳)امام بخاری اور دوسرے محدثین نے پوری تفصیل کے ساتھ یہ حدیث ذکر کی ہے [صحیح بخاری:ح 293] یہ امر قابل غور ہے کہ ابوسفیان نے صرف تینوں حضرات کے بارے میں سوال کیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ کفار صرف انہی تینوں کو اہمیت و وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے دوسروں کو نہیں ۔]
یہ کفار کاسالار اعلی ہے ؛اس انتہائی خطرناک موقع پر صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہی پوچھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو علم ہے اور ہر خاص و عام جانتا ہے کہ یہی تین شخصیات اس سارے معاملے کا بنیادی کردار ہیں اور یہ معاملہ ان ہی کی وجہ سے قائم ہے۔ اس سے یہ بھی دلیل سامنے آتی ہے کہ کفار کے ہاں بھی یہ بات
صاف ظاہر تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر یہی دو شخص ہوسکتے ہیں ۔ اوراس معاملہ[یعنی دعوت اسلام کی تبلیغ ] کو یہی حضر ات اس کی آخری حدوں تک لے کر جاسکتے ہیں ۔اور باقی تمام لوگوں میں انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اور اسلام کی نشرو اشاعت میں ان حضرات کی وہ خدمات ہیں جو کسی دوسرے کو حاصل نہیں ۔ اتنی بات مسلمان تو کجا ‘ کفار تک بھی جانتے تھے ۔ اس طرح کی احادیث بھی بہت زیادہ کثرت کے ساتھ اور تواتر کی حدتک پہنچی ہوئی ہیں ۔
بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
’’جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نعش لوگوں کے سامنے لائی گئی توجنازہ اٹھانے سے لوگوں نے اس کو گھیر لیا؛ وہ آپ کے حق میں دعا کرنے اور آپ کی مدح و ستائش کرنے لگے۔میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا ؛ مجھے کو ئی خیال ہی نہیں آرہا تھا کہ اچانک ایک شخص نے میرا کندھا تھام لیا۔ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں رحمت کی دعا کی اور فرمایا تو نے اپنے پیچھے کسی آدمی کو نہیں چھوڑا کہ جس کے اعمال کو لے کر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہونا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ہاں اللہ کی قسم ! میرا یقین تھا کہ اللہتعالیٰ آپ کو دونوں ساتھیوں ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر) کے ساتھ ملا دے گا۔کیونکہ میں اکثر سرور کائنات کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اورابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آئے،میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوئے ، میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نکلے ۔‘‘مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں ساتھیوں کی ملاقات نصیب کرے گا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۶۸۵، ۳۶۷۷)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۹)۔ عبد الرزاق کا قول ہے کہ:’’ میرے لیے یہی جرم کافی ہے کہ میں علی سے محبت کا دعویٰ کروں اور ان کے اس قول کی خلاف ورزی کروں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘ اور اگرمیں تیسرے خلیفہ کانام لینا چاہوں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لوں گا۔‘‘]
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت و فضیلت کسی سے پوشیدہ نہ تھی یہی وجہ ہے کہ متقدمین شیعہ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا؛ وہ آپ کے ساتھ انتہائی الفت و محبت رکھنے کے باوجود حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ان سے افضل قرار دیا کرتے تھے۔سوائے چند ایک ملحدین کے کوئی آپ کو شیخین پر فضیلت نہیں دیتا تھا، البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں افضل تصور کرتے تھے۔
[شیعہ کا اشکال]:اسی طرح شیعہ کا یہ قول:’’ہُو وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِیْ۔‘‘
[جواب]:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد ہر مومن کے دوست ہیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ اوربہتان ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بقید حیات تھے اور بعد از وفات بھی آپ ہر مومن کے دوست ہیں ، اسی طرح ہر مومن زندگی میں اور بعد از وفات آپ کا دوست ہے۔ خلاصہ یہ کہ ولایت جو عداوت کی ضد ہے کسی زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔اور اگر مراد وِلایت ہوتی جو امارت کے معنی میں آتی ہے ؛توآپ یوں فرماتے :
’’ہُو وَالِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِیْ۔‘‘
’’وہ میرے بعد ہر مومن کے امیر ہیں ۔‘‘
جیساکہ نماز جنازہ کے بارے میں اختلاف وارد ہوا ہے کہ جب والی اور ولی جمع ہوجائیں تو اس صورت میں نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کسے امام بنایا جائے گا ؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ : والی [امیر] کو امام بنایا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : میت کے ولی کو امام بنایا جائے گا۔
قائل کا یہ قول کہ::’’ہُو وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِیْ‘‘’’وہ میرے بعد ہر مومن کے دوست ہیں ۔‘‘
یہ ایسا کلام ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ناجائز ہے۔ اس لیے کہ اگر اس سے مراد موالات [دوستی کے معنی میں ] ہے ‘تو پھر میرے بعد کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر اس سے مراد امارت ہے تو پھر آپ کو یوں فرمانا چاہیے تھا کہ : :’’ہُو وَالٍ علی کُلِّ مُؤْمِنٍ‘’’میرے بعد ہر مومن پر امیر ہوں گے ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق :’’اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ‘‘ ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ‘‘ بالکل صحیح ہے ۔اور اس کے علاوہ بھی کئی احادیث ثابت ہیں ۔ آپ نے یہ کلمات اس وقت فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے جب آپ کے سامنے حضرت جعفر ‘حضرت زیدبن حارثہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ؛حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی بچی کی تربیت کے بارے میں جھگڑا کرتے ہوئے پیش ہوئے۔ آپ نے اس کا فیصلہ اس کی خالہ کے حق میں کیا ؛ اوریہ خالہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ آپ نے فرمایا: ’’ خالہ ماں کی منزلت پر ہوتی ہے ۔‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم اخلاق میں اور شکل و صورت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ‘‘ ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ‘ ‘ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:’’اَنْتَ اَخُوْنَا وَ مَوْلَانَا‘‘
’’ تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد(حدیث:۴۰۴۳)]
صحیحین میں ہے کہ:’’ قبیلہ اشعری [حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ والوں ]کی یہ عادت تھی کہ جب جنگ کے موقع پر زاد راہ ختم ہو جاتا تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا اس کو جمع کرتے پھر تقسیم کر لیا کرتے تھے یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہُمْ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُمْ۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الشرکۃ، باب الشرکۃ فی الطعام والنھد (حدیث: ۲۴۸۶)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الاشعریین ، (حدیث: ۲۵۰۰)۔ ]’’وہ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔‘‘
جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریین کے لیے فرمایا:’’ہُمْ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُمْ۔‘‘اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ‘‘ ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ‘ ‘ ۔حضرت جُلَبیْب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’ھٰذَا مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُ۔‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل جلیبیب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۷۲)۔]’’یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘
مندرجہ بالا بیانات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ ان الفاظ سے مدح کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ الفاظ نہ ہی امامت پر دلالت کرتے ہیں ‘ اور نہ ہی جن اصحاب کے بارے میں یہ کلمات کہے گئے ہیں وہ ان کی بنا پر دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہوسکتے ہیں ۔