Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں دلیل:حدیث غدیر خم اور حدیث سفینہ نوح

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دسویں دلیل:حدیث غدیر خم اور حدیث سفینہ نوح

[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں دسویں حدیث جوکہ جمہور علماء نے ذکر کی ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے، یعنی اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے اہل بیت کشتی نوح کی طرح ہیں کہ جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا وہ ڈوب گیا۔‘‘

چونکہ یہ حدیث اہل بیت کے اقوال کے ساتھ تمسک کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل بیت کے سردار تھے، لہٰذا سب پر ان کی اطاعت واجب ہوگی اور وہی امام ہوں گے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

جواب: اس کے جواب کے کئی پہلو ہیں :

٭ پہلا جواب : صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث کے یہ الفاظ ہیں :

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خُمّ نامی چشمہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:امابعد: ’’اے لوگو! بیشک میں بھی بشر ہوں ؛ ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا پیامبر آجائے اور میں اپنے رب کی دعوت قبول کرلوں ؛ اور بیشک میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں : ایک اللہ کی کتاب ‘ اس میں ہدایت اور نور ہے ؛ کتاب اللہ کو تھام لو‘ اور اسے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو۔‘‘ آپ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی؛ اور اس پر ابھارا ۔ پھر فرمایا :

’’ اور میرے اہل بیت ؛ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ،باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۲۴۰۸)۔ پھر آپ نے فرمایا (دوسری چیز)میرے اہل بیت ہیں ، میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ یاد دلاتا ہوں ، حضرت حصین نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اے زید!آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ کے اہل بیت میں سے ہیں ، اور وہ سب اہل بیت میں سے ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ (زکوٰۃ، صدقہ و خیرات وغیرہ)حرام ہے، حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا وہ کون ہیں ؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان، حضرت عقیل کا خاندان، آل جعفر، آل عباس، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ان سب پر صدقہ وغیرہ حرام ہے؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ! ان سب پر صدقہ، زکو وغیرہ حرام ہے۔ ]

یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کا حکم دیا ‘اور اس کیساتھ چمٹے رہنے والے کو گمراہ نہ ہونے کی ضمانت دی ؛وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے ۔

اس کے علاوہ بھی کئی احادیث میں اسی طرح کے الفاظ آئے ہیں ۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے خطبہ حجۃ الوداع نقل کیا گیا ہے ۔ اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اور میں تم میں ایک چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھوگے۔وہ ہے: اللہ کی کتاب ۔[قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا] اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا کہ:’’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کے احکام کی تبلیغ کر دی؛ اپنا فرض ادا کر دیا ؛اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر خواہی کی ۔‘‘

’’یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت والی انگلی کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے اور لوگوں کی طرف منہ موڑتے ہوئے فرمایا:’’ اے اللہ!گواہ رہنا، اے اللہ!گواہ رہنا، اے اللہ !گواہ رہنا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے ۔‘‘اور آپ کے یہ الفاظ :

’’وَعِتْرَتِی(اہل بیتي) وأنہما لن یفترقا حتّٰی یردا عليَّ الحوض۔‘‘ 

’’اور میرے اہل بیت؛اور بیشک یہ دونوں اس وقت جدا نہ ہوں گے یہاں تک حوض پر میرے پاس پہنچ جائیں ۔‘‘یہ الفاظ ترمذی کی روایت میں پائے جاتے ہیں ۔[سنن ترمذی، کتاب المناقب۔باب مناقب اہل بیت النبی رضی اللّٰہ عنہم (حدیث:۳۷۸۶)]

ان کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا تو آپ نے اسے ضعیف کہا ۔ ایسے ہی آپ کے علاوہ بھی بہت سارے اہل علم محدثین نے ان الفاظ کو ضعیف کہا ہے ۔ان کا کہنا ہے: یہ الفاظ صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ۔اور بعض لوگوں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ :تمام اہل بیت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہ ہوں گے۔ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں ؛ جیسا کہ قاضی ابو یعلی سے بھی منقول ہے۔[سنن ترمذی، حوالہ سابق(حدیث:۳۷۸۸) عن ابی سعید و زید بن ارقم رضی اللّٰہ عنہما )۔(]

لیکن الحمد للہ ۔کہ اہل بیت رافضی مذہب کی کسی ایک بات پر بھی کبھی متفق نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ ان کے مذہب اور ان کی من گھڑت شریعت سے بالکل بری ہیں ۔

رافضی کا کہنا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے اہل بیت کشتی نوح کی طرح ہیں کہ جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا وہ ڈوب گیا۔‘‘

یہ روایت صحیح نہیں اورنہ ہی حسن درجہ کی سندکے ساتھ کسی قابل اعتماد کتاب میں موجود ہے۔[اس روایت کے نقل کرنے میں زید بن حسن انماطی متفرد ہوا ہے۔ محدث ابو حاتم نے انماطی کو منکر الحدیث کہا ہے۔ترمذی نے ابوسعید سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر اسے تھامے رکھو گے تو گم راہ نہ ہو گے ایک چیز دوسری سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ کی کتاب جو اﷲ کی رسی ہے اور آسمان سے زمین تک لٹک رہی ہے۔اور میرے اہل بیت۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔ غور کرو کہ تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔ ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔  مستدرک حاکم(۳؍۳۴۳) طبرانی فی الکبیر(۲۶۳۷) والصغیر(۱؍۱۳۹)، و سندہ ضعیف۔ اس کی سند میں مفضل بن صالح ضعیف راوی ہے۔]

اگرچہ اسے بعض رات کے لکڑہاروں نے روایت بھی کیا ہو جو کہ من گھڑت اور ضعیف روایات کی تمیز کا کوئی اہتمام نہیں کرتے ‘ تو ایسے لوگوں سے روایت کا نقل کرنا الٹا ان کے مذہب کے بودے پن کی نشانی ہے۔

٭ دوسرا جواب[الزامی]: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے بارے میں فرمایا: ’’ میرے اہل بیت اورکتاب اللہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ میرے پاس حوض پر آجائیں ۔ آپ صادق و مصدوق ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد’’لَنْ یَتَفَرَّقَا‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اہل بیت کا اجماع حجت ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ قاضی نے المعتمد میں ذکر کیا ہے کہ عِتْرت سے سب بنو ہاشم؛ مثلاً اولاد علی؛ واولاد عباس و اولاد حارث بن عبد المطلب اور تمام بنی ابو طالب مراد ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف اکیلے ہی عترت نہیں ہیں ۔اوراہل بیت کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت کے علماء جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما [اہل بیت میں سے فقیہ تر تھے اور بعض مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا کرتے تھے]اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے فتاویٰ کو کسی پر واجب نہیں ٹھہرایا کرتے تھے ۔اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ہر فتوی کو لوگوں پر مسلط کیا کرتے تھے۔اور نہ ہی ائمہ سلف -بنی ہاشم اور دوسرے اہل بیت - میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہر قول میں ان کی اطاعت کو واجب کہتے ہوں ۔

٭ تیسرا جواب : یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اہل بیت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت یا امامت و خلافت پر اجماع منعقد نہیں کیا تھا ۔ بلکہ ائمہ اہل بیت جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو امامت و افضلیت میں آپ پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ یہی حال تمام بنی ہاشم : عباسیہ ‘ جعفریہ اوراکثر علویہ کا تھا۔ وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی امامت کا اقرار کرتے تھے ۔ اور ان میں سے کئی ایک ایسے بھی ہیں جو امام مالک ‘ ابو حنیفہ شافعی اور احمد رحمہم اللہ کے ساتھی رہے ہیں ۔ ان کی تعداد ان لوگوں سے بہت زیادہ ہے جنہوں نے امامیہ مذہب اختیار و ایجاد کیا ۔

بنی ہاشم کے تمام علماء اہل بیت تابعین اور تبع تابعین جیسے حضرت حسن و حسین نیز علی بن حسین اور دوسرے حضرات بلا شک و شبہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کا دم بھرتے تھے اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیا کرتے تھے۔ [حضرت زید بن علی ان کے بیٹے امام باقر اور پوتے جعفر صادق سب یہی عقیدہ رکھتے تھے] ان سے بتواتر نقل ہو کر یہ عقیدہ ہم تک پہنچا ہے۔ امام حافظ ابو الحسن دارقطنی رحمہ اللہ نے اس ضمن میں ایک کتاب’’ ثناء الصحابہ علی القرابہ ‘‘ و ثناء القرابہ علی الصحابہ‘‘ نامی تصنیف کی ہے۔جس میں اس کا ایک حصہ نقل کیا ہے۔

ایسے ہی محدثین کرام رحمہم اللہ میں سے جن لوگوں نے بھی عقیدہ پر کتابیں تحریر کی ہیں ‘ جیسے ’’ السنۃ ‘‘ از عبد اللہ بن احمد ؛ ’’السنۃ‘‘ از ابوبکر الخلال ؛ ’’ السنۃ‘‘ از ابن بطہ ؛ ’’ الشریعۃ‘‘ از علامہ آجري؛ ان کے علاوہ علامہ لالکائی ؛ بہیقی؛ ابن ذر الہروی ؛ طلمنکی؛ ابن حفص بن شاہین؛ اور ان سے کئی زیادہ کتابیں جن کی طرف نسبت کیا جانا حجت رکھتا ہے ‘ جیسے کتاب ’’ فضائل الصحابۃ ‘‘ ازامام احمد بن حنبل؛ اور ابو نعیم ؛ تفسیر ثعلبی وغیرہ ؛ ان کتابوں میں اصحاب ثلاثہ کے اتنے زیادہ فضائل بیان ہوئے ہیں جو ان پر قائم حجتوں سے کئی گنازیادہ ہیں ۔ اگر رافضی کے ذکر کردہ دلائل حجت ہیں تو باقی دلائل بھی اس پر اور اس کے لیے حجت ہونے چاہیے ۔ اوراگر ایسا نہیں تو پھر اسے ان کتابوں سے استدلال نہ کرنا چاہیے۔ 

٭ چوتھا جواب :یہ اعتراض اپنے سے قوی ادلہ کے معارض ہے۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ کتاب و سنت اور اجماع کی روشنی میں پوری امت کا اجماع بلانزاع حجت ہے ۔اہل بیت امت کا ایک حصہ ہیں ۔ امت کے اجماع سے اہل بیت کے اجماع کا ثابت ہونا لازم آتا ہے۔ اوراہل بیت کا اجماع اس بات پر منعقد ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل الصحابہ تھے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے ‘ اور آگے بھی بیان آئے گا۔ وہ گروہ جس کا اجماع حجت ہے؛ اس میں سے افضل ترین شخص کی اطاعت مطلق طور پر واجب ہے؛ اور اگروہ [قابل اطاعت انسان ]امام نہیں بن سکا [ اور اس نے اپنی جگہ اپنے سے افضل کی بیعت کی ]تو ثابت ہوا کہ پھرواجب الاطاعت امام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ پر شیعہ کا استدلال باطل ٹھہرا۔اس لیے کہ اس قول کی بنیاد پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پوری امت میں وہی نسبت حاصل ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اہل بیت میں حاصل ہے۔