Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....[امامت علی رضی اللہ عنہ کی گیارھویں دلیل:آپ کی محبت کا وجوب]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[امامت علی رضی اللہ عنہ کی گیارھویں دلیل:آپ کی محبت کا وجوب]

[ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں گیارہویں روایت وہ ہے جو جمہور نے آپ کی محبت اور موالات کے وجوب پر نقل کی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ جس نے ان دونوں سے اور ان دونوں کے والد سے اور ان دونوں کی والدہ سے محبت رکھی ؛ وہ قیامت والے دن جنت میں میرے درجہ میں ہوگا۔‘‘[الحدیث عن علِیِ بنِ حسین عن أبِیہِ عن جِدِہِ فِی کِتابِ:’’فضائِلِ الصحابۃ ‘2؍963 ؛ برقم 1185؛ بِألفاظ مقارِبۃ وقال المحقِق فِی تعلِیقِہِ: ’’ فِی ِإسنادِہِ علِی بن جعفرِ بنِ محمد الصادِقِ۔‘‘ لم یذکر بِجرح ولا تعدِیل، والباقون ثِقات۔ قال الذہبِی فِی المِیزانِ(3: 117) فِی ترجمۃِ علِی:’’ ما ہو مِن شرطِ کِتابِی، لأِنِی ما رأیت أحدا لیَّنہ، ولا من وثقہ۔ ولکِن حدیث منکر جِدا، أما صححہ التِرمِذِی ولا حسنہ، ثم ذکر الحدیث۔ وقال فِی سِیرِ النبلاِء : إِسناد ضعِیف والمتن منکر، وأخرجہ التِرمِذِی (5: 641) وقال: ہذا حدیث حسن غرِیب لا نعرِفہ إِلا مِن حدیثِ جعفرِ بنِ محمد ِإلا مِن ہذا الوجہِ۔ وقد رأینا أن الذہبِی أنکر أن یکون التِرمِذِی حسنہ۔قال أحمد شاکِر فِی تعلِیقِہِ عل المسندِ(2: 25) : والتحسِین ثابِت فِی بعضِ نسخِ التِرمِذِیِ دون بعض۔]

٭ ابن خالویہ رحمہ اللہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ؛ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص یاقوت کی ٹہنی کو پکڑنا چاہتا ہو جس کو اللہتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا پھر اسے عالم وجود میں آنے کا حکم دیا اور وہ ظہور پذیر ہو گئی تو اسے چاہیے کہ وہ میرے بعد علی رضی اللہ عنہ سے دوستی لگالے۔‘‘

٭ ابو سعید سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تمہاری محبت علامت ایمان ہے اور تمہارا بغض نفاق کا موجب ہے۔ تیرے محب سب سے پہلے جنت میں جائیں گے اور تجھ سے عداوت رکھنے والے سب سے پہلے جہنم واصل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قابل بنایا ہے ۔سو آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں ۔اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘‘ ۔

٭ حضرت شقیق بن سلمہ حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں : انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور یہ فرمارہے تھے : ’’یہ میرا دوست ہے ‘ اور میں اس کا دوست ہوں ‘‘ میں اس سے دشمنی کا اعلان کرتا ہوں جو اس سے دشمنی رکھے؛ اور جو اس سے صلح کرے ‘اس سے صلح کا اعلان کرتا ہوں ۔‘‘

٭ اور خطیب خوارزمی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ابھی ابھی جبریل میرے پاس ایک سبز ورقہ لے کر آئے ؛ جس میں سفید خط کے ساتھ لکھا ہوا تھا: ’’ بیشک میں نے اپنی مخلوق پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو فرض کردیا ہے ؛ آپ ان کو میری طرف سے یہ پیغام پہنچادیں ۔‘‘

اس باب میں احادیث کثرت تعداد کی وجہ سے شمار سے باہر ہیں ‘ ان کی اسناد کثرت کے ساتھ ہیں ۔ اور یہ احادیث آپ کی افضلیت پر اور امامت کے استحقاق پر دلالت کرتی ہیں ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]

[جواب]:اس کے جواب کے کئی پہلو ہیں : 

٭ پہلا جواب : ہم ان سے ان روایات کی صحیح اسناد کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ہائے افسوس ! انہیں یہ اسناد کہاں سے میسر ہوں گی؟

٭ دوسرا جواب : ’’شیعہ کا یہ کہنا کہ : امام احمد نے روایت کیا ہے ۔‘‘ ہم کہتے ہیں کہ: امام احمد رحمہ اللہ کی کتاب مسند احمد اور فضائل صحابہ مشہور ہیں ۔فضائل صحابہ میں آپ نے وہ احادیث نقل کی ہیں جو مسند میں نہیں لاسکے۔ ان میں ضعیف روایات بھی ہیں ؛ اس لیے یہ روایات مسند میں نقل کرنے کے قابل نہیں تھیں ۔اس لیے کہ یہ روایات یا تو مرسل تھیں ‘ یا پھرمرسل نہیں تھیں مگر بہت ہی ضعیف تھیں ۔ پھر اس کتاب میں آپ کے بیٹے عبد اللہ نے بھی کچھ روایات زیادہ کی ہیں ۔ پھر ان کے بعد ان کے بیٹے کے شاگرد قطیعی نے بھی اس میں کچھ روایات اپنے شیوخ سے زیادہ کی ہیں ۔ اہل معرفت محدثین کا اتفاق ہے کہ اس میں موضوع احادیث بھی موجود ہیں ۔

پس یہ رافضی اور اس کے امثال دوسرے شیوخ الرافضہ جہالت کی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ وہ اس کتاب سے روایت کرتے ہوئے یہ تمیز نہیں کرپاتے کہ عبد اللہ اور قطیعی کی روایات کونسی ہیں ؟ وہ ان کو بھی امام احمد رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔امام احمد اور قطیعی کے شیوخ کے مابین تمیز بھی نہیں کرپاتے ۔ پھر ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ مسند میں جو بھی روایت ہے وہ امام احمد کی ہی روایت ہے۔ میں نے ان کی بہت ساری کتابوں میں دیکھا ہے کہ ایسی روایات امام احمد رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جو امام احمد نے کبھی بھی سنی ہی نہ ہوں گی ۔ جیسا کہ ابن بطریق اور ‘‘الطرائف ‘‘ کے مصنف کے علاوہ دوسروں نے بھی کیا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی جہالت ہے۔ یہ ان کے من گھڑت جھوٹوں کے علاوہ ہے؛ ان کے جھوٹ تو بے شمار اور لاتعداد ہیں ۔

٭ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ تو امام احمد رحمہ اللہ کے کسی روایت کو نقل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صحیح بھی ہے ؛ اوراس پر عمل کرنا واجب ہے۔بلکہ امام احمد رحمہ اللہ نے بہت ساری روایات ایسی نقل کی ہیں جن کے جمع کرنے کا مقصد لوگوں کو ان کی پہچان کروانا اور ضعف بتانا ہوتا ہے۔آپ کے کلام اورجوابات میں یہ بات اتنی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اس میں مزید کسی تفصیل یا بیان کی ہرگزکوئی ضرورت نہیں ۔خصوصاً اس عظیم الشان اصل کے باب میں ۔ مگر یہ روایت ہر گز امام احمد رحمہ اللہ نے ذکر نہیں کی، بلکہ القطیعی نے کتاب الفضائل میں اس کا اضافہ کیا ہے۔اس نے یہ روایت نصر بن علی الجھضمی سے ؛ اس نے علی بن جعفر سے ‘ اس نے اپنے بھائی موسیٰ بن جعفر سے نقل کیا ۔ دوسری حدیث کو امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الموضوعات‘‘ میں موضوع قراردیا ہے۔اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جھوٹ ہے ۔‘‘

جب کہ اہل علم محدثین کا اتفاق ہے کہ ابن خالویہ کی روایت سے بھی حدیث کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا۔یہی حال خطیب خوارزمی کی روایات کا ہے۔اس کی روایات من گھڑت جھوٹ ہوتے ہیں ۔اہل علم کا اتفاق ہے کہ سب سے برے اور ناروا جھوٹ اسی کے ہوتے ہیں ۔

٭ دوسری وجہ : ابن خالویہ کی روایات کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے پر اہل علم محدثین کا اتفاق ہے۔وہ علم ضروری کے طور پر یہ بات جانتے ہیں ‘اور دوٹوک یقین کے ساتھ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا گیا ہے ۔حدیث کی وہ قابل اعتماد کتب جیسے: صحاح ؛ مسانید؛ سنن ؛معجمات اور اس طرح کی دوسری کتب جن پر علماء حدیث کا اعتماد و اتفاق ہے ان میں اس روایت کا نام ونشان تک بھی نہیں ۔

٭ تیسری وجہ :جو انسان اس روایت کے الفاظ پر غور کرے گا اس پر واضح ہوجائے گا کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑی گئی ہے۔مثال کے طور پریہ الفاظ کہ[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]:’’جو شخص یاقوت کی ٹہنی کو پکڑنا چاہتا ہو جس کو اللہتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا پھر اسے عالم وجود میں آنے کا حکم دیا اور وہ ظہور پذیر ہو گئی ۔‘‘یہ خرافات قسم کا کلام ہے۔گویا کہ جب انہوں نے یہ بات سن لی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا‘ اور پھر اس سے کہا: ہوجا؛ تو وہ ظہور پذیر ہوگیا ۔ تو اس یاقوت والی بات کو خلق آدم پر قیاس کرلیا۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ‘ اور پھر کہا گیا: ’’ہوجا۔‘‘ توآپ [زندہ شکل میں ]پیدا ہوگئے [ظہور پذیر ہوگئے]۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں روح پھونک دی تھی۔ جب کہ یہ ٹہنی صرف پیداکرنے سے ہی مکمل ہوگئی۔اس کے بعد کوئی ایسا حال نہیں تھا جس کے لیے کہا جاتا کہ ہو جا ؛ اوروہ ہوجاتی۔اور اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یاقوت کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ۔بلکہ بہت ساری روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے صرف تین چیزیں پیدا کی ہیں : ۱۔ آدم ۔ ۲۔قلم ۳۔جنت عدن۔ پھر باقی ساری مخلوق سے فرمایا : ’’ ہوجا‘‘ تو وہ ہوگئی ۔ اس میں یاقوت کا کہیں پر کوئی تذکرہ نہیں ۔ پھر یاقوت کے امساک میں کون سی ایسی چیز ہے جس پر اتنے بڑے انعام کا وعدہ کیا جارہا ہو؟

[اشکال] :شیعہ مصنف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تجھ سے بغض رکھنے والے سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ یہ صریح جھوٹ ہے، کوئی مسلمان یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خوارج و نواصب فرعون و ابوجہل بن ہشام ؛ ابو لہب اور ان کے امثال دوسرے مشرکین سے پہلے دوزخ میں جائیں گے؟

ایسے ہی یہ قول کہ : ’’تیرے محب سب سے پہلے جنت میں جائیں گے اور تجھ سے عداوت رکھنے والے سب سے پہلے جہنم واصل ہوں گے۔‘‘

[جواب]: کیا کوئی عقلمند یہ کہہ سکتا ہے کہ انبیاء کرام اور مرسلین علیہم السلام کے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کا سبب اللہ اور اس کے رسول اور دوسرے تمام انبیاء و مرسلین کی محبت کو چھوڑ کر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ہے۔جب کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔اورکیا نیک بختی اور بدبختی میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو چھوڑ کر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا اتنا ہی کردار نہیں ہے جتنا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہما کی محبت کاہے؟اگر کوئی انسان یوں کہے کہ : جو کوئی حضرت عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہما سے محبت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا‘اور جوکوئی انسان ان سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا؛ تو اس کا یہ کلام بھی شیعہ کے کلام کی جنس سے ہی ہوگا۔

[ یا کوئی مسلم یہ الفاظ اپنی زبان پر لا سکتا ہے کہ غالی اسماعیلیہ جھوٹے روافض اور فاسق امامیہ حبّ علی کی بنا پر انبیاء کرام سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے؟ یہ بات تو اسی طرح ہے جیسے کوئی ناصبی کہے جو شخص یزید و حجاج سے محبت رکھتا ہو یا خارجی کہے جو ابن ملجم کو چاہتا ہو وہ جنت میں جائے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں داخل ہو گا] [اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ علماء کے نزدیک ایمان امام کی معرفت اور اس سے محبت کا نام ہے۔ اس لیے انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ’’ علی رضی اﷲ عنہ کی محبت ایسی نیکی ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی برائی نقصان دہ نہیں ہے۔اور بغض علی ایسی برائی ہے جس کی موجود گی میں کوئی نیکی بھی فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘ [الفضائل؍ شاذان بن جبرائیل القمی: ۹۶( فی فضائل الامام علی علیہ السلام )۔]کتاب الفضائل ص95؛ فی بعض فضائل الإمام علی ۔کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ1؍123؛ فی فضل مناقبہ لأبی الحسن علی بن عیسی الأربلي] نیز آپ کی طرف یہ بھی منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ( حالانکہ آپ اس الزام سے بری ہیں ):’’ـ اگر تمام مخلوق علی بن أبی طالب کی محبت پر جمع ہوجاتی تو اﷲ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتے۔‘‘ [الفضائل؍ص110 شاذان بن جبرائیل( خبر المقدسی ) ] آپ پر افتراء پردازی کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے صرف وہی شخص جنت میں داخل ہوگا جو علی سے محبت کرتا ہوگا۔ اگلے اور پچھلے لوگوں میں سے جس نے بھی علی سے نفرت کی وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘ [علل الشرائع؍ ابوجعفر محمد بن علی بن بابویہ القمی: ۱؍ ۱۶۲، حدیث نمبر:ـ ۱( باب العلۃ التي من أجلھا صار علی بن أبی طالب قسیم اﷲ بین الجنۃ والنار )۔ الأمالی للطوسی ص330 ح107 ؍ المجلس الحادی عشر؛کشف الغمۃ 2؍23 فصل فی ذکر مناقب شتی وأحادیث متفرقۃ ] اور ایک بہتان یہ بھی تراش کر آپ کی جانب منسوب کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ اولین و آخرین میں سے جنت میں صرف وہی لوگ داخل ہوں گے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہوں گے ۔ اور اولین و آخرین میں سے صرف وہی لوگ جہنم میں داخل ہوں گے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہوں گے ۔‘‘ [علل الشرائع ۱؍۱۶۲؛ ح: ۱؛ باب ۱۳۰۔’’العلۃ التي من أجلہا صار علی بن ابی طالب قسیم اللہ بین الجنۃ والنار۔ مختصر بصائر الدرجات ص ۴۸۵؛ ح: ۵۷۶۔ بحار الأنوار ۳۹؍ ۱۹۵۔ ح: ۵؛ باب أنہ قسیم الجنۃ والنار وجواز الصراط]]