فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بارھویں دلیل :دیگراحادیث]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بارھویں دلیل :دیگراحادیث]
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’خطیب خوارزمی نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ناپسند کرتا ہو وہ کافر ہے اور اللہ و رسول کے خلاف جنگ آزمائی کر رہا ہے۔ اور جوکوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ میں شک کرتا ہو وہ بھی کافر ہے۔‘‘
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :’’ میں اور علی رضی اللہ عنہ بروز قیامت اپنی امت پر حجت ہوں گے۔‘‘
٭ معاویہ رضی اللہ عنہ بن حَیدہ القُشیری کہتے ہیں :
’’ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہتے سنا:’’ جو شخص آپ سے عداوت رکھتے ہوئے مر جائے تو پرواہ نہ کریں وہ یہودی مرا ہے یا نصرانی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:اس کے جواب میں کئی پہلو ہیں :
أولاً: ....ہم شیعہ سے ان روایات کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔یہ برسبیل تنزل کے ۔اس لیے کہ خطیب خوارزمی کا کسی روایت کو نقل کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کلام کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہونا بھی ثابت ہو گیا ۔یہ تو اس صورت میں ہے اگر کسی کو یہ علم نہ ہو کہ اس کی جمع کردہ کتاب میں کتنی ہی جھوٹی اورمن گھڑت روایات ہیں ؛ کیونکہ اس کی تصانیف موضوعات کا پلندہ ہیں ؛جنہیں دیکھ کرایک حدیث دان شخص حیرت کا اظہار کرنے لگتا ہے اور بے ساختہ پکار اٹھتا ہے ’’سبحانک ہذا بہتان عظیم۔‘‘
ثانیاً:....ہر وہ انسان جسے حدیث سے شغف ہو ‘وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہیں ۔
ثالثاً:....وہ حقیقت شناس شخص جو واقعات سے آگاہ ہو اور آثار و اقوال میں مہارت رکھتا ہو اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس قسم کی احادیث کذاب راویوں نے عصر صحابہ وتابعین کے اختتام کے بعد وضع کر لی تھیں ۔ان روایات میں صحابہ و تابعین کاذکر کہاں ہے؟ اور کس کتاب میں انہوں نے یہ روایت کیا ہے ؟پس یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایات خیر القرون کے بعد اپنی طرف سے گھڑکر[ ان کی طرف منسوب کر]لی گئی ہیں ۔
رابعاً:....ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ان موضوع روایات کی نسبت اس بات کا قطعی وحتمی علم حاصل ہے کہ مہاجرین و انصار اللہ و رسول کو چاہتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چاہتے تھے۔ ہم بہ اذعان و ایقان جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باتفاق صحابہ آپ کے بعد امام قرار پائے تھے، پھر ہم ان یقینی اور متواترروایات کو چھوڑ کر شیعہ کی ان روایات کاذبہ کی بنا پر کس طرح جھٹلا سکتے ہیں جو اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انہیں خبرواحد قراردیاجاسکے۔ خصوصاً جب کہ ہمیں ان روایات کے کاذب ہونے کا بخوبی علم بھی ہے ۔بلکہ اہل علم محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے بڑا جھوٹ ہیں ۔اس لیے کہ یہ روایات کسی معتمد کتاب میں باسناد صحیح موجود نہیں ۔بلکہ تمام محدثین انہیں جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے چلے آئے ہیں ۔
[شیعہ مرویات ناقابل اعتماد]:
خامساً:....اس پر مزید یہ کہ قرآن کریم جگہ جگہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار سے رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ [التوبۃ ۱۰۰]
’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی ﴾ [الحد ید ۱۰]
’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ(دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا﴾ [الفتح۲۹]
’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں ، آپ انہیں دیکھیں گے رکوع اور سجدے کر رہے ہیں ؛اوراللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ﴾ (الفتح:۱۸)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿لِلْفُقَرَآئِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانًا﴾ (الحشر:۸)
’’ان تنگدست مہاجرین کے لیے جن کو اپنے گھر بار سے نکالا گیا وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی چاہتے ہیں ۔‘‘
اس قسم کی دیگر آیات قرآنیہ۔ پس جو چیز ہمیں قرآنی دلائل کی روشنی میں یقینی طور پر معلوم ہے ‘اسے ہم ان جھوٹی روایات کی وجہ سے کیسے رد کرسکتے ہیں کہ جن روایات کا گھڑنے والا نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے وقار وعزت کا خیال رکھتاہے۔
سادساً:....ظاہر ہے کہ ان نصوص قطعیہ کو شیعہ کی جھوٹی روایات کی بنا پر کیوں کر ترک کیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ شیعہ کی بعض مرویات سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح وارد ہوتی ہے اوران سے وجوباً معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والے تھے۔ ان روایات کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کا مجروح ہونا بھی لازم آتا ہے۔
[یعنی]جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دعوائے خلافت کی مخالفت کی تھی؛ وہ اس حدیث کی روشنی میں کافر ٹھہرے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان نصوص کے موجب عمل نہیں کیا۔ مثلاً نواصب؛[ جنہیں شیعہ کافر قرار دیتے ہیں جبکہ] حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو مسلم اور اہل ایمان تصور کرتے تھے۔
خوارج جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ؛ وہ آپ کے بدترین دشمن تھے، مگر اس کے باوجود آپ نے ان پر کافر ہونے کا حکم نہیں لگایا۔ بلکہ آپ نے ان کو لونڈی غلام بنانے سے روکا اور ان کے مالوں کو حرام قرار دیا تھا۔بلکہ آپ ان سے قتال کرنے سے پہلے ان سے یوں فرمایا کرتے تھے: ’’ تمہارا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم تمہیں اپنی مساجد میں آنے سے نہ روکیں ۔اور ہمارے مال فئے میں تمہارا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اورجب ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوزخمی کردیا تو انھوں نے فرمایا: ’’ اگر میں زندہ رہا تو جیسے چاہوں گا اپنے خون کا فیصلہ کروں گا۔‘‘آپ نے ابن ملجم کو اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کرنے کی وجہ سے فوری مرتد قراردے کر قتل کا حکم نہیں دیا تھا۔[ اگر وہ مرتد ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے فی الفور قتل کرنے کا حکم صادر کرتے]۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے اہل جمل کا تعاقب کرنے سے منع کیا تھا۔ نیز اس بات سے بھی روکا تھا کہ ان کے زخمیوں کو قتل کیا جائے یا ان کا مال لوٹا جائے؛ یا ان کے بچوں کو جنگی قیدی بنایاجائے۔ اگر شیعہ کی ذکر کردہ روایات؛جن کی روشنی میں یہ لوگ کافر تھے؛ ان کو ترک کرنے سے اگرکوئی شخص کافر ہو جاتا ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے ان احادیث کو جھٹلایا اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا؛ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی کافر ہوئے۔
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کا جنازہ پڑھا تھا جنھوں نے جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا ۔
آپ فرمایا کرتے تھے:’’ ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی تھی تلوار نے ان کو پاک کردیا۔‘‘
اگر یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک کافر ہوتے تو آپ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھتے؛ اورنہ ہی انہیں اپنے بھائی قرار دیتے اور نہ ہی ان کے قتل کیے جانے کو ان کے گناہوں کی طہارت قراردیتے ۔
بالجملہ ہم اضطراری طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے یہ بات جانتے ہیں کہ آپ ان لوگوں کو کافر قرار نہیں دیتے تھے جو آپ کے خلاف جنگ آزما ہوئے۔بلکہ نہ ہی جمہور مسلمین ‘نہ ہی خلفاء ثلاثہ اور نہ ہی حسن و حسین رضی اللہ عنہم نے ان میں سے کسی ایک کو کافر قرار دیا۔ اور نہ ہی علی بن حسین نے اور نہ ہی ابو جعفرنے ایسا کیا۔ اگر یہ لوگ کافر تھے تو ان نصوص کی سب سے پہلے مخالفت کرنے والے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت ہیں ۔ان کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ ایسے کریں جیسے خوارج نے کیا تھاکہ اگرخود ان کے قتال سے عاجز آگئے ہیں تو دار الاسلام کو چھوڑ کرکہیں پڑاؤ ڈال دیتے۔ اور اہل دار اسلام پر کفر اور ارتداد کا حکم لگادیتے۔ جیسا کہ بہت سارے رافضی شیوخ کرتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر واجب ہوتا تھا کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ جب کفار ایمان نہیں لارہے تو پھر اپنے اور اپنے شیعہ کے لیے دار ارتداد و کفر کو چھوڑ کرایک اور دار قائم کرلیتے۔ اور ان سے ایسے جدا ہوجاتے جیسے مسلمان مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں سے جدا ہوگئے تھے۔
یہ اللہ کے نبی[محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] ہیں ۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں انتہائی کمزور تھے۔ مگر اس کے باوجود کفار سے علیحدہ رہتے تھے۔ اور کفارسے ایسے جدا اور ممتاز رہتے تھے کہ مسلمان اورکافر کی پہچان ہوسکتی تھی۔ ایسے ہی ان لوگوں میں سے کتنے ہی ایسے تھے جنہوں نے کمزور ہونے کے باوجود حبشہ کی طرف ہجرت کی۔اوروہ وہاں پر نصاری سے جدا رہتے تھے۔ اور عیسائیوں کے سامنے اپنے دین کااظہار کیا کرتے تھے۔
یہ دار اسلام ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں سے بھرا ہوا ہے ؛ مگر اس کے باوجود یہ لوگ مسلمانوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے دین و مذہب کا کھل کر اظہار کرتے ہیں ۔
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شک کرنے والا ہر انسان حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نزدیک کافر ہوتا ؛ اور ان کے نزدیک صرف وہی شخص مؤمن ہوتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنے والا ہوتا ؛ اورجوشخص یہ عقیدہ نہ رکھتا وہ حضرت علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نزدیک مرتد ہوتا ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے دین کو بدل ڈالا؛ اورکافروں اور مؤمنوں کے درمیان کوئی فرق نہ کیا اور نہ ہی مرتدین اور مسلمانوں کے مابین کوئی تمیز کی ۔
مان لیجیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے قتال کرنے سے عاجز آگئے تھے تو انہیں اپنے حلقہ اطاعت میں داخل نہ کر سکتے تھے ؛ تو آپ کم از کم ان سے جداگانہ حیثیت ثابت کرنے سے تو عاجز نہیں تھے۔ آپ خوارج سے بڑھ کر عاجز تو نہیں تھے جو کہ آپ کے لشکر میں بہت ہی کم تعداد میں تھے؛ مگر خوارج نے جماعت مسلمین کے دار کو چھوڑ کر اپنے لیے علیحدہ دار بنا لیا تھا؛ وہ ان سے جدا ہوگئے اوران پر کفر کا حکم لگایا۔ وہ صرف اپنے ساتھیوں کو ہی مؤمن قراردیتے تھے۔
پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے کیونکر یہ حلال ہوتا کہ وہ مسلمانوں کی زمام کار ایسے مرتد کے سپرد کردیتے جو یہود و نصاری سے بھی برا ہو؟ جیسا کہ ان لوگوں کاحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعوی ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان پر رکھنے والا کوئی انسان ایسی حرکت کرسکتا ہے؟حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ آپ کوفہ میں ہی رہتے ؛ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آ پ سے جنگ نہ کرتے ۔اس لیے کہ انہوں نے آپ سے اپنی مرادطلب کی تھی۔اگرآپ اپنے باپ کی جگہ پر رہتے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ سے جنگ ہر گز نہ کرتے۔[ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا حضرت حسن کے نزدیک کافر ہوتے تو آپ بخوشی ان کے حق میں سلطنت و حکومت سے دست بردار نہ ہوتے۔
خصوصاً جب کہ آپ قوت و شوکت سے بہرہ ور تھے اور لشکر جرار آپ کی پشت پناہی کے لیے بھی موجود تھا ]۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا بنے گا جو آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:
’’بیشک میرا یہ بیٹا سردار ہے،عنقریب اللہتعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان مصالحت کرائے گا۔ ‘‘[صحیح بخاری ، کتاب الصلح، باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم للحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۲۷۰۴)۔]
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت -بشمول حضرت حسن رضی اللہ عنہ - یہ کہتے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اہل ایمان اور مرتدین کے درمیان صلح کرائی ہے ؛ تو پھر معاملہ ویسے ہی ہوتا جیسے رافضی کہتے ہیں ؛ اور یہ حدیث خود شان ِ حسنی اور شان نبوی پر بہت بڑی جرح ہوتی۔[اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو مسلم قرار دیا ہے، مگر شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رفقاء مومن تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے اعوان و انصار مرتد تھے۔ بنا بریں یہ مصالحت مومنین و مرتدین کے مابین وقوع پذیر ہوئی تھی]
پس اس سے ظاہر ہوا کہ اہل بیت پر سب سے بڑا طعن اور جرح کرنے والے خود رافضی ہیں ۔ اوریہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں اہل بیت سے دشمنی رکھتے ہیں ؛ اور اہل بیت کی طرف ایسے برائیاں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والاکافر ہوجاتا ہے۔رافضیوں کی جہالت و حماقت میں یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔
پھر طرفہ تماشہ یہ کہ : ایک طرف شیعہ کا دعویٰ ہے کہ امام معصوم بندوں پر الٰہی لطف و کرم کا آئینہ دار ہوتا ہے،تاکہ لوگ اس کی اطاعت کریں اور ان پر رحم کیا جائے۔ مگر ان کے بیانات سے اس کی تردید ہوتی ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ امام علی رضی اللہ عنہ کے وجود سے بڑھ کر اہل زمین پراللہ تعالیٰ کے عذاب کا مظہر کوئی اور نہیں رہا۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین بقول شیعہ کافر اور مرتد ہوگئے تھے۔اور جو لوگ آپ کے ہم نوا تھے وہ ہر طرح سے مجبور و شکست خوردہ اور مقہور رہے ہیں ۔جن کے پاس نہ ہی کوئی طاقت تھی اور نہ ان کی بات کی کوئی قدر واہمیت تھی۔ [توپھر اس امام کا فائدہ کیا ہوا؟]
اس کے دوش بدوش شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: امام کو پیداکرنا مصلحت اورمہربانی ہے۔ بندوں کے حق میں مفید و سود مند کام انجام دینا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے ۔اور امام کے بغیر دین و دنیا کی کوئی مصلحت پوری نہیں ہوسکتی۔تو رافضیوں کے قول کے مطابق یہ کون سی صلاح ہے؟
پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ : بیشک اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ وہ ایسے امور سر انجام دے جو بندوں کے لیے ان کے دین و دنیا کی مصلحت میں ہوں ۔ حالانکہ اللہتعالیٰ خوارج کو شیعہ پر مسلط کرتا ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرکے آپ کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں ۔انہیں وہاں پراپنے دشمن کے خلاف جنگ کے لیے غلبہ اور استحکام نصیب ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ [اہل بیت اور] شیعہ کے ائمہ معصومین یہود و نصاری اور دوسرے اہل ذمہ سے بڑھ کر خائف و ہراساں ہو جاتے ہیں ۔
ڈر کے مارے ذمیوں کی طرح تقیہ کر لیتے ہیں ]بلکہ اہل ذمہ تو بعض اوقات اپنے مذہب کا اظہار اعلان بھی کرتے ہیں ؛ جب کہ یہ ائمہ جن کے بارے میں شیعہ کا دعوی ہے کہ یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت اور شہروں پر اس کا لطف و کرم ہیں ۔ ان کے بغیر کوئی ہدایت نہیں مل سکتی۔اور ان کی اطاعت کے بغیر کوئی نجات نہیں ؛ اوران کی اتباع کے بغیر کوئی سعادت نہیں ۔ ان کا آخری امام ساڑھے چار سوسال [اب گیارہ سو سال ]سے غائب ہے؛ کوئی بھی اپنے دینی یا دنیاوی امور میں اس سے کوئی فائدہ نہ حاصل کرسکا۔ اور اس کے لیے دین کا اتنا اظہار کرنا بھی ممکن نہیں ہے جتنایہود و نصاری کے لیے ممکن ہے۔
[اس لیے ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ وہ لطف و مصلحت کیا ہوئی جو شیعہ کے نزدیک اللہ پر واجب ہے؟]
یہی وجہ ہے کہ اہل علم ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ : رافضیت زنادقہ اور ملحدین کی ایجاد ہے جو چاہتے ہیں کہ دین اسلام کو خراب کریں ‘ [مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے ]: ﴿وَ یَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [توبہ۳۲]
’’اور اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں ۔‘‘
[ائمہ سے متعلق شیعہ کے بلند بانگ دعوے]:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تمام باتوں کا انجام کارجمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی تکفیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطنی مذہب کی دعوت ان اصولوں پر قائم ہے ۔
[شیعہ اس زعم فاسد میں مبتلا ہیں کہ ائمہ اللہ کے بندوں پر اس کی حجت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ہدایت انہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے اور ان کی اطاعت کے بغیر نجات ممکن نہیں ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آخری امام ہنوز پردۂ غیب میں ہے اور کسی نے بھی ان سے دینی یا دنیوی فائدہ نہیں اٹھایا، اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ عقیدہ رفض زنادقہ کا اختراع کردہ ہے، یہی وجہ ہے کہ فرقہ باطنیہ والے ]سب سے پہلے اپنے دام میں پھنسنے والوں کو شیعیت کی دعوت دیتے ہیں ۔جب کوئی شخص اس کا قائل ہو جاتا ہے تو پھر وہ یوں کہنے لگتے ہیں کہ علی دیگر خلفاء کی طرح تھے، چنانچہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جرح و قدح کا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ جب اس میں پختہ ہو جاتا ہے تو پھر باطنیہ اسے رسول پر اعتراضات وارد کرنا سکھاتے ہیں یہاں تک کہ وہ منکر رسول ہو جاتا ہے پھر اسے باری تعالیٰ کی ہستی کا منکر بناتے ہیں خلاصہ یہ کہ تدریجاً وہ پوری شریعت کا منکر ہوجاتا ہے۔ ان کی کتاب کی یہی ترتیب ہے ۔ اس کتاب کانام ’’ البلاغ الاکبر ‘‘ ہے ‘اور اسے ’’الناموس الاعظم بھی کہتے ہیں ۔ اس کے مصنف نے یہ کتاب قرمطی کو بھیجی تھی جس نے بحرین سے خروج کیا تھا؛ اور پھر مکہ پر غلبہ پاکر وہاں حجاج کرام کا قتل عام کیا ‘ اور حجر اسود اکھاڑ کر لے گئے ؛ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا ‘اور فرائض کو ساقط قراردیا۔ ان لوگوں کے عقائد و اخلاقیات علمائے کرام رحمہم اللہ میں بڑے معروف ہیں ۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ بات کیسے منسوب کی جاسکتی ہے کہ آپ یہ فرمادیں کہ : ’’ جو کوئی علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہوئے مر جائے ؛ وہ یہودی مرے یا عیسائی ؛ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جب کہ حال یہ ہے کہ تمام خوارج آپ کی تکفیر کرتے اور آپ سے بغض رکھتے ہیں ۔اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں یہود ونصاری کی طرح نہیں سمجھتے تھے ؛بلکہ انہیں اہل قبلہ میں شمار کرتے تھے ۔اور ان پر یہود و نصاری کے حکم سے ہٹ کر حکم لگایا کرتے تھے۔ اورآپ کا یہی معاملہ بنوامیہ اور ان کے متبعین میں سے ان لوگوں کے ساتھ تھا جو آپ سے بغض رکھتے تھے۔ تو پھر ان لوگوں کو یہود و نصاری کی طرح کیسے قراردیا جاسکتا ہے جو نمازیں پڑھتے ہوں ؛ رمضان کے روزے رکھتے ہوں ‘ بیت اللہ کا حج کرتے ہوں ‘ اور زکوٰۃ اداکرتے ہوں ؟ اس کی آخری حد یہ ہوسکتی ہے کہ اس انسان پر یا تو آپ کا امام ہونا مخفی رہا یا پھر اس نے معرفت حاصل ہونے کے بعد بھی آپ کی نافرمانی کی ۔
ہر صاحب عقل و خرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ جمہور اہل اسلام کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عداوت ہے نہ کسی اور سے۔ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور آپ کے احکام کی خلاف ورزی سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ۔ نظر بریں اگر مسلمانوں کو معلوم ہوتاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریحاً حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا ہے تو اس کی تصدیق کرنے میں انھیں پس و پیش کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا پتہ نہ چل سکا ۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو دین کی کسی بات کا علم نہ ہو وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کیوں کر ہو سکتا ہے؟
یہاں پر تکفیر میں کلام کرنا مقصود نہیں ‘بلکہ اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ : یہ وہ جھوٹی احادیث ہیں جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہونا اضطراری طورپر معلوم ہے ‘اور یہ روایات دین اسلام کے متناقض ہے۔اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی تکفیر لازم آتی ہے۔ یہ باتیں کوئی ایسا انسان بھی نہیں کہہ سکتا جو اللہ تعالیٰ پر او رآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو؛ چہ جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ فرمایا ہو۔ العیاذ باللہ ؛ ایسی باتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بھی آپ کی ذات پر بہت بڑی قدح اورطعن کا موجب ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسی ملحد او رزندیق کا فعل ہوسکتا ہے جو دین اسلام میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنا چاہتا ہو۔ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہوجو اس کے رسول پر جھوٹ گھڑ لاتے ہیں ۔ شیعہ کی روایات موضوعہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی قابل غور ہے:
آپ فرماتے ہیں :’’ جس نے دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپناگھر دوزخ میں بنا لے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب العلم۔باب اثم من کذب علی النبی رضی اللّٰہ عنہم (ح: ۱۰۷، ۱۰۸)،صحیح مسلم ۔ المقدمۃ۔ باب تغلیظ الکذب علی رسول اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہم (ح:۲،۳)۔]
[البتہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص نص رسول کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے نقطۂ خیال سے چھپا لے وہ یقیناً جہنمی ہے۔]
[قبول ِاحادیث کاوجوب]:
[ اشکال] :شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ جب امامیہ نے دیکھا کہ ہمارے مخالفین ایسی احادیث روایت کررہے ہیں تو ہم نے اپنے ثقہ راویوں سے نقل کرکے اہل سنت کی ذکر کردہ روایات سے کئی گنا زیادہ احادیث بیان کی ہیں ۔ہم پر واجب ہوتا ہے کہ ا ن کی طرف رجوع کریں ۔اور ان سے ہٹنا ہم پر حرام ہے
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے وہ راوی جن کی تم توثیق کرتے ہو ‘ وہ حد سے زیادہ ان راویوں کی جنس سے ہی ہوسکتے ہیں جو جمہور سے روایات نقل کرتے ہیں ؛ لیکن [ایسا ہرگزنہیں ] ۔اہل علم اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ یہ راوی جھوٹے کذاب تھے ؛ اور تم ان سے بڑے کذاب اور پرلے درجہ کے جاہل ہو۔ تم پر ان حدیث کے موجب عمل کرنا اور ان کے مطابق فیصلے دینا حرام ہے۔ اس اعتراض پر کئی طرح سے کلام کیا جاسکتا ہے :
٭ پہلی وجہ :شیعہ سے یہ پوچھا جائے کہ: آپ کو یہ علم کیسے حاصل ہوگیا کہ قدیم زمانے میں جن لوگوں نے یہ روایات نقل کی ہے ؛ وہ ثقہ راوی ہیں ۔ کیونکہ آپ نے تو ان لوگوں کو نہیں پایا اور نہ ہی ان کے احوال جانتے ہو۔ اورنہ ہی تمہارے پاس کوئی ایسی قابل اعتماد کتابیں ہیں جن پر اعتماد کرتے ہوئے ضعیف اورثقہ کے مابین فرق کر سکو۔اور نہ ہی تمہارے ہاں اسناد ہیں جن کی بنا پر تم راویوں کی معرفت حاصل کرسکو۔بلکہ تمہارا بہت ساراوہ علم جو کہ تمہارے سامنے موجود ہے ‘ وہ یہود و نصاری کے ہاں موجود علم سے بھی برا ہے ۔بلکہ یہود کے ہاں تو ہلال اور شماس کی وضع کردہ کتابیں موجود ہیں ‘مگر شیعہ کے ہاں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں وہ جمہور پر رد کرسکیں ۔
جب کہ تمہارا یہ عالم ہے کہ جمہور اہل سنت والجماعت ہمیشہ تمہارے راویوں پرایسی کڑی تنقید کرتے رہے ہیں ،[ جس سے شدید تر تنقید کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا]۔جب کہ تمہیں ان کے احوال کے بارے میں کوئی علم نہیں ۔پھر تواتر کے ساتھ اس بات کا علم بھی حاصل ہے جس کاجھٹلانا کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ تمہارے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے لے کر آج تک جھوٹ کی کثرت ہے۔
تمہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ محدثین خوارج سے بغض رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول بہت ساری صحیح احادیث بھی روایت کرتے ہیں ۔ جن میں سے بعض احادیث امام بخاری نے نقل کی ہیں ۔ دس روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ۔ اورمحدثین اس چیز کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو۔ مگر اس کے باوجود خوارج کے ساتھ ان کا بغض انہیں اس بات پر نہیں ابھار سکا کہ یہ لوگ خوارج پر جھوٹ لگائیں ۔ بلکہ انہوں نے خوارج کو آزمایا تو انہیں سچا پایا۔ تمہارا یہ حال ہے کہ محدثین ‘ فقہاء؛ عام مسلمان ؛ تاجر؛ عوام الناس ؛ اور لشکری وغیرہ جن لوگوں نے بھی تمہارے ساتھ میل جول رکھا ؛ اور تمہیں جدید یا قدیم دور میں آزمایا ؛ اس نے تمہارے گروہ کو تمام گروہوں سے بڑا جھوٹا اور کذاب گروہ پایا۔ اگر ان میں کوئی ایک سچا ہوبھی تو دوسرے فرقوں میں ان سے زیادہ سچے موجودہوتے ہیں ۔ اگر دوسرے فرقوں میں کوئی ایک جھوٹا ہو تو شیعہ میں سب سے زیادہ جھوٹے ہوتے ہیں ۔یہ بات کسی بھی عقلمند منصف پر مخفی نہیں ہے۔ہاں جو کوئی اپنے خواہش نفس کی پیروی کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے دلوں کو اندھا کردیا ہوتاہے۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے انہیں کوئی راہ ہدایت پر لانے والا رہبر نہیں ملتا۔
یہ باتیں جو ہم نے ذکر کی ہیں ؛ قدیم و جدید میں اہل علم کے ہاں معروف رہی ہیں ۔جیسا کہ ہم نے اس سلسلہ میں بعض اقوال بھی نقل کیے ہیں ۔ یہاں تک کہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ دین اہل حدیث [محدثین]کے ہاں ہے؛ جھوٹ رافضیوں کے ہاں ہے؛ کلام معتزلہ کے ہاں ہے؛ حیلے اصحاب فلاں اہل رائے کے ہاں ہیں ۔ اور سوئے تدبیر آل ابی فلاں کے ہاں ہے ۔‘‘
یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کہ انہوں نے فرمایا ہے۔ اس لیے کہ دین وہ چیز ہے جسے دیکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کیا تھا۔آپ کی سنتوں اور احادیث کو سب سے زیادہ جاننے والے محدثین ہیں ۔جب کہ علم کلام میں سب سے زیادہ مشہور گروہ معتزلہ کا ہے ۔اسی لیے خواص کے ہاں معتزلہ بدعات میں بڑے مشہور تھے۔جب کہ رافضی اپنی بدعات میں خواص و عوام کے مابین بہت مشہور و معروف ہیں ؛ یہاں تک کہ اکثرعوام الناس انہیں متضاد اقوال کی وجہ سے جانتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان کے اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات سے متناقض ہیں ؛ خواص و عوام کو اس کا علم ہے۔خود ان کے اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی ایک بڑی دلیل ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ گروہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے کوئی زیادہ شناسائی نہیں ؛مگر انہیں مختلف فرقوں کی کسی قدر معرفت حاصل ہے ؛ اگران لوگوں سے رافضی کہتے ہیں کہ : ہم مسلمان ہیں ؛ تووہ کہتے ہیں :نہیں تم کوئی دوسری جنس ہو ؛ [تمہارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ]۔یہی وجہ ہے کہ رافضی لوگ دین سے دشمنی رکھنے والے ہر گروہ سے دوستی رکھتے ہیں ؛ جیسے کہ یہود و نصاری اور مشرکین ؛ مشرک ترک۔
ان اولیاء اللہ سے دشمنی رکھتے ہیں جو اہل دین میں سے بہترین لوگ اور اہل تقوی کے سردار ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس دین کی تبلیغ کی؛ اسے قائم کیا اور اس کی نصرت کی ۔ یہی وجہ ہے کہ کافر تاتاریوں کے بلاد اسلام میں داخل ہونے کاسب سے بڑا سبب رافضی ہی تھے۔عباسی وزیر ابن علقمی او راس جیسے دوسرے لوگ جیسے نصیر طوسی کے مسلمانوں کے خلاف کفار سے اتحادکو خواص و عوام سبھی جانتے ہیں ۔ایسے ہی ان میں سے جو لوگ شام میں تھے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کاساتھ دیااور ان کی مدد کی؛یہ بات تمام لوگ جانتے ہیں ۔
جب مسلمانوں کا لشکر ٹوٹ پھوٹ کاشکار تھا؛ اورغازان اسلامی ممالک پرحملہ آور تھا؛ توان لوگوں نے نصرانی کافروں اور دوسرے مسلمان دشمنوں کاساتھ دیا۔اور مسلمانوں کے بچوں اور اموال کوان کے ہاتھوں بیچ ڈالا ۔اور خوب کھل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کی۔ ان میں سے بعض نے تو صلیبیوں کا جھنڈا بھی اٹھایا ہوا تھا۔قدیم دور میں بیت المقدس پر نصاری کے قبضہ کا ایک بڑا سبب شیعہ تھے۔یہاں تک مسلمانوں نے بیت المقدس کو دوبارہ حاصل کرلیا۔
رافضی مذہب انہوں نے ہی اختیار کیا ہے جو لوگوں میں سب سے بڑے منافق تھے ؛ جیسے : نصیریہ ؛اسماعیلیہ اور دیگر گروہ۔یہ ایسے لوگ تھے جو باطنی طور پر سب سے بڑے کافر؛یہود و نصاری سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تھے۔
یہ اور اس جیسے دیگر امور جوکہ ظاہر ومعروف ہیں ؛ جنہیں عام و خاص سبھی جانتے ہیں ؛ان کے موجب اور ان کی دین سے مفارقت اورکفار و منافقین کے زمرہ میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کو مسلمانوں سے جدا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ ان کے احوال کو دیکھنے والا ہی سمجھ جائے کہ یہ لوگ مسلمانوں سے علیحدہ ایک جنس ہیں ۔ اس لیے کہ بلاریب جو لوگ قدیم و جدید دور میں اسلام کو قائم کرتے چلے آئے ہیں وہ جمہور مسلمان ہیں ۔جب کہ رافضیوں نے تو ہمیشہ دین اسلام کو مٹانے اور اس کی رسی کو توڑنے ‘اور اس کی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی ہے۔اور جس قدر ان میں دین کا کچھ حصہ باقی ہے ‘ وہ جمہور مسلمانوں کی کوششوں کی وجہ سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان میں قرآن کی تلاوت کرنے والے بہت کم ہیں ۔اور ان میں سے جو لوگ اچھی طرح قرآن پڑھنا جانتے ہیں انہوں نے اہل سنت و الجماعت سے اس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ یہی حال حدیث میں بھی ہے ؛ حدیث کی معرفت و تصدیق اور اخذوقبول میں اہل سنت کا قول ہی معتبر ہے۔ایسے ہی فقہ و عبادت ؛ زہد وجہاد اور قتال میں بھی لوگ حقیقت میں اہل سنت والجماعت کے لشکر میں شامل ہیں ۔اور اہل سنت والجماعت ہی وہ لوگ ہیں جن کے علماء و مجاہدین عباد و زھاد کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس دین کی علماً اور عملاً حفاظت فرمائی ہے۔ رافضی دین اسلام سے پرلے درجے کے جاہل لوگ ہیں ۔اور انسان کے لیے ان کے پاس کوئی خاص چیز نہیں ہے سوائے اس چیز کے جس سے دشمن خوش ہوں اور اہل اسلام کو تکلیف پہنچائے۔ اسلام میں ان لوگوں کے لیل و نہار انتہائی سیاہ ہیں ۔ ان کے عیوب اور بھلائیوں کو سب سے زیادہ جاننے والے اہل سنت ہیں ۔ آپ ہمیشہ ان سے کچھ دیگر اچھنبے امور بھی دیکھتے رہیں گے جن سے ان کی پہچان حاصل ہوجائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا ہے :
﴿وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْہُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ ﴾ [المائدۃ ۱۳]
’’ اورآپ ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر پاتے رہیں گے، سوائے ان میں سے بہت تھوڑے۔‘‘
اگر میں ان کی بعض ایسی باتیں نقل کرنی شروع کردوں جو میں نے خود دیکھی ہیں اور جو ثقہ لوگوں سے نقل کی ہیں ؛ اور جو کچھ ان کی کتابوں میں پڑھا ہے ؛ تو اس کے لیے ایک بہت بڑی کتاب چاہیے۔
یہ لوگ انتہائی درجہ کی جہالت اورکم عقلی کا شکار ہیں ۔ایسی باتوں سے نفرت کرتے ہیں جن سے نفرت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ لوگ حق پر ہیں تو پھربھی ایسے کام کرتے ہیں جن میں ان کے لیے کوئی منفعت نہیں ۔ مثال کے طور پر مرغی کے پر نوچنا؛ گویاکہ وہ اس سے انتقام لے رہے ہوں ۔ [وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ] وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بال نوچ رہے ہیں ۔ -العیاذ باللہ -۔ اور ایسے ہی زین کے نیچے رکھے ہوئے تھڑے کو درمیان سے پھاڑ ڈالنا ؛ اور یہ کہنا کہ ہم نے عمر رضی اللہ عنہ کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔تو کیا مسلمان فرقوں میں سے کسی ایک نے اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا کیا ہے ؟
اگر ایسا کرنا مشروع ہوتا تو ابو جہل اوراس جیسے دوسرے لوگ اس کے زیادہ حق دار تھے ۔ اور جیسا کہ ان لوگوں کا عشرہ مبشرہ کے بغض کی وجہ سے دس کے عدد سے بغض و نفرت رکھنا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پر دس کا ذکربطور مدح کیا ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَالْفَجْرِOوَلَیَالٍ عَشْرٍ﴾ [الفجر]
’’ اور قسم ہے فجر کے وقت کی اور دس راتوں کی ۔‘‘
نیز فرمایا : ﴿ وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ ﴾ [الأعراف ۱۴۲]
’’اور ہم نے مزید دس راتوں سے اسے پورا کردیا۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ﴾ [البقرۃ ۱۹۶]
’’اور وہ ہیں گنتی کے پورے دس ۔‘‘
جب کہ نو کے عدد کو بطور مذمت کے ذکر کیا ہے ؛ فرمان الٰہی ہے :
﴿وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ [النمل ۴۸]
’’اور شہر میں نو گروہ تھے جو کہ فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے ۔‘‘
تو کیا کبھی بھی ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے نو کے عدد کو زبان پر لانے کو ناپسند کیا ہے ۔ جب کہ شیعہ کا یہ حال ہے کہ وہ دس کے بجائے نو کے لفظ کو ترجیح کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔
ایسے ہی شیعہ کا ان اسماء[ناموں ] کوناپسند کرنا جو ان کے ناپسندیدہ لوگوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں ۔جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ موجود تھے جن کے نام اسلام دشمنوں کے ناموں پر تھے۔ جیسا کہ ولید ؛ جسے قرآن نے وحید کے لقب سے ذکر کیاہے ؛اس کا بیٹا بہترین مسلمانوں میں سے تھا؛ اس کا نام بھی ولید رضی اللہ عنہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قنوت نازلہ پڑھ کر اس کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے : ’’ اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات عطاء فرما۔‘‘ [متفق علیہ ]
جیساکہ ابی بن خلف جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیا تھا ۔ جبکہ مسلمانوں میں اس نام کے کئی افراد موجود تھے جیسے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔اور جیسا کہ عمرو بن عبد ود العامری؛اور صحابہ میں بھی اس نام کے لوگ تھے جیسے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کا نام بھی اس وجہ سے تبدیل نہیں کیا کہ اس نام کا کوئی کافر بھی موجود ہے۔
٭ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ جن لوگوں سے شیعہ نفرت رکھتے ہیں ‘وہ کافر ہیں ؛ پھر بھی ان کا ان ناموں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جہالت کی انتہاء ہے ؛کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان صحابہ کو ان ہی ناموں سے پکارا کرتے تھے۔
٭ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ اہل علم و دین میں سے جن لوگوں نے بھی جمہورکا تجربہ کیا ہے ؛ وہ جانتے ہیں کہ جمہور کبھی بھی جھوٹ پر راضی نہیں ہوتے ؛ بھلے وہ ان کی اغراض کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔ خلفاء ثلاثہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں کتنی ہی روایات ایسی ہیں جن کی اسناد شیعہ کی روایات سے زیادہ بہتر ہیں ۔ مثال کے طور پر ابو نعیم اور ثعلبی ؛ ابوبکر النقاش اور أہوازی اور ابن عساکر کی روایات؛ او ران جیسے دوسرے لوگوں کی مرویات ۔مگر علماء حدیث ان میں سے کسی ایک روایت کو بھی ایسے ہی قبول نہیں کرلیتے ۔ بلکہ ان کے ہاں جب کسی روایت کا راوی مجہول ہوتا ہے ؛ تواس کی روایت میں توقف اختیار کرتے ہیں ۔جب کہ رافضی گروہ کی حالت یہ ہے کہ جوروایت بھی ان کی خواہشات کے اور رائے کے مطابق ہو ‘اسے قبول کرلیتے ہیں ؛ اور اس میں سے صحیح یا غلط کسی بھی چیز کا رد نہیں کرتے۔
٭ جب جمہورکے ہاں وہ صحیح اور معروف احادیث موجود ہیں جن کی صحت و صداقت کا ہر مسلمان کو علم ہے ۔ اور آپ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ ان احادیث کو قبولیت حاصل ہے ۔ بلکہ یہ احادیث متواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں ‘جو کہ علم ضروری کا فائدہ دیتی ہیں ‘ اور دل سے ان کا انکار کرنا بھی ممکن نہیں ۔اور یہ ان دلائل کے متناقض ہیں جن کو روایت کرنے والا مجہول لوگوں کا ایک گروہ ہے ؛ یا پھر وہ لوگ ہیں جو جھوٹ بولنے میں مشہور ہیں خواہ وہ تم میں سے ہوں یا جمہور میں سے۔تو پھر کیا یہ بات ممکن ہے کہ جس چیز کو لوگ ضرورت کے تحت جانتے ہوں ‘ اور جو ایسے ثقہ راویوں کی صحیح اسنادسے ثابت ہو جن کی سچائی اور علم کی پختگی معروف ہے ؛ ان کی روایات کو رد کردیا جائے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان روایات کو ان روایات سے رد کیا جائے جو کہ من گھڑت ہیں اور جن کی کوئی نہ ہی زمام ہے نہ لگام ؟
٭ اگرکوئی انسان یہ روایت کرے کہ نمازیں پانچ سے زیادہ واجب ہیں اور دوماہ کے روزے واجب ہیں اور مسلمانوں پر دوبار بیت اللہ کا حج کرنا واجب ہے ۔ پس جس طرح سے ان روایات کا رد کیا جائے گا‘اسی طرح سے ان دوسری روایات کا رد بھی کیا جائے گا۔ اس رد میں ہم نے ان طرق کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جن سے ان لوگوں کا جھوٹ واضح ہوجاتا ہے جو محدثین کے طریقہ سے ہٹ کر روایات نقل کرتے ہیں ۔ اور ہم نے ان لوگوں کا جھوٹ بھی طشت ازبام کیا ہے ۔ کبھی قرآن سے ‘ کبھی علم متواتر سے اور کبھی لوگوں کے اجماع سے ۔ اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ وہ روایات جو قرآن و متواتر احادیث اور اجماع کے خلاف ہوں ‘ او رعقل کے بھی مخالف ہوں ان کا باطل ہونا معلوم ہو جاتا ہے۔ یہ ان جملہ طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جن سے ان روایات کا علم ہوتا ہے جو اہل سنت والجماعت کے مذہب کی مخالفت میں گھڑ لی گئی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ لوگ اپنی روایات میں تین چیزوں میں سے کسی ایک پر انحصار کرتے ہیں :
۱۔ یا تو وہ کسی جھوٹے سے روایت نقل کرتے ہیں ۔
۲۔ یا پھر ان کی دلیل مجمل اور متشابہ ہوتی ہے ۔
۳۔ یا پھر فاسد قیاس ہوتا ہے ۔
یہی حال ان تمام لوگوں کا ہے جو فاسد دلائل سے حجت پکڑتے ہیں او رپھر اسے شریعت کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ اس لیے کہ بنیادی چیزیں یا تو نص ہے ‘ یا پھر قیاس۔ نص کے لیے صحیح سند اوردلالت متن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو ۔ اور لازمی طور پر اپنے مطلوب پر دلالت کرتی ہو۔جب کے[ان لوگوں کے] باطل دلائل یا تو سنی سنائی جھوٹی باتیں ہیں ؛ یا پھر اگر روایت صحیح بھی ہو تو وہ اپنے مقصود پر دلالت نہیں کرتی ۔ یا پھر فاسد قیاس ہوتاہے۔ رافضہ اور دوسرے اہل باطل کے ہاں اس جنس کے علاوہ کوئی بھی دوسری دلیل سمعی موجود نہیں ۔
٭ جب ہم کہتے ہیں : ’’ نقل کرتے ہوئے ‘‘ تو اس میں کلام اللہ اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں شامل ہوتے ہیں ؛ اور اہل اجماع کا کلام بھی ان لوگوں کے ہاں شامل ہوتا ہے جو اسے حجت مانتے ہیں ۔بلاشبہ رافضی اجماع کو حجت ہی نہیں مانتے ۔ ایسے ہی افعال و اقرار اورخاموشی بھی اسی طریقہ پر ہے۔