Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل: جھوٹ کی پہچان کے ذرائع :

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل: جھوٹ کی پہچان کے ذرائع :

یعنی : ان طریقوں کے بیان میں جن سے منقولات میں جھوٹ کا ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔

ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ اس مشہور اور متواتر طریقہ سے معلوم واقعہ کے خلاف نقل کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ: مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ اور بنی حنیفہ کی بہت بڑی تعداد نے اس کی اتباع کی تھی؛ اس وہ جہ وہ لوگ مرتد ٹھہرے تھے کہ وہ اس جھوٹے نبی پر ایمان لے آئے تھے۔

اور یہ کہ ابو لؤلؤ ؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل ؛ مجوسی کافر تھا۔ اور ابو ہرمزان مجوسی تھا؛ پھر مسلمان ہوگیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے جانشین رہے او رلوگوں کو اس ساری مدت میں نمازیں پڑھاتے رہے۔

یہ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا گیا ہے۔ جیسا کہ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان غزوات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جن میں جنگ کی نوبت آئی تھی ؛ جیساکہ غزوہ بدر؛ غزوہ احد؛غزوہ خندق؛غزوہ خیبر؛غزوہ فتح مکہ؛غزوہ طائف؛ اور وہ غزوات جن میں قتال کی نوبت نہیں آئی جیسے :؛غزوہ تبوک اور اس کے علاوہ دوسرے غزوات ۔ اور جوکچھ قرآن کا حصہ ان غزوات میں نازل ہوا ہے ؛ جیسا کہ سورت انفال کے نزول کا سبب غزوہ بدر تھا۔ اورسورت آل عمران کا آخری حصہ ؛غزوہ احد کے بارے میں ؛اور اس کا پہلا حصہ نجران کے عیسائیوں کے بارے میں ؛ اور سورت حشر غزوہ بنی نضیر کے بارے میں ؛اور سورت احزاب غزوہ خندق کے بارے میں ؛اور سورت فتح صلح حدیبیہ کے بارے میں ؛ اور سورت توبہ غزوہ تبوک اور اس کے امثال دیگر واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔

جب غزوات کے بارے میں کوئی ایسی چیزروایت کی جائے جس کا خلاف واقع ہونا معلوم ہو تو اس سے اس روایت کا جھوٹ ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اس رافضی مصنف نے بھی روایت کیا ہے۔ اس کے امثال دوسرے روافض اور دوسرے لوگ بھی غزوات کے بارے میں ایسی چیزیں روایت کرتے ہیں جن کا جھوٹ ہونا ظاہری طور پر معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ اور مثلاً یہ معلوم ہوجائے کہ نزول قرآن کا وقت معلوم ہوجائے کہ [کونسی آیات ]کب [اور کہاں ]نازل ہوئی ہیں ؟جیسا کہ یہ معلوم ہے کہ سورت بقرہ ؛ آل عمران؛ مائدہ اور انفال اور برأت [توبہ] ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں ۔ اور یہ کہ انعام ؛ اعراف؛ یونس ؛ ہود؛ یوسف؛کہف اور طہ ؛ مریم ؛ اوراقتربت الساعہ ؛ اور ھل اتی علی الانسان اور دوسری سورتیں ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی ہیں ۔ اور یہ کہ معراج کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا۔ اور اصحاب صفہ مدینہ طیبہ میں تھے۔ اور اہل صفہ جملہ طور پر ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی جنگ نہیں لڑی۔ یہ کوئی متعین لوگ نہیں تھے۔ بلکہ صفہ ایک جگہ تھی جہاں پر یہ غریب الدیاراجنبی لوگ جمع ہوا کرتے تھے جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوا کرتا۔اورجو لوگ ان میں داخل ہوئے تھے ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص؛ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما اور دوسرے نیکوکار اہل ایمان شامل تھے۔ اور جیساکہ قبیلہ عرینہ کے لوگ جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے لوگ بھیجے؛ [جو انہیں پکڑ لائے]۔ پھر ان کے ہاتھ اورپاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں ۔ اور انہیں حرہ کے پتھروں میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے ؛ مگر انہیں پانی نہ دیا جاتا۔ اور اس طرح کے دوسرے واقعات بھی ہیں جو کہ معلوم شدہ ہیں ۔

جب کوئی جاہل ان کے خلاف روایت کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

مزید جن طرق سے جھوٹ معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں ایک یا دو افراد منفرد ہوں ۔ حالانکہ حالات و واقعات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہوتا تو اسباب اور ہمتیں اس کو نقل کرنے میں کمی نہ کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ کوئی ایک جب کسی بڑے شہر کی [اچھوتی] خبردے؛ جیسے بغداد؛ اورشام اور عراق وغیرہ؛تو ہمیں اس کا جھوٹ ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوا ہوتا تو باقی لوگوں کو اس کی خبر ہوتی۔ ایسے ہی اگر کوئی یہ کہے کہ: حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان میں کوئی ایک دوسرا آدمی بھی خلیفہ بنا تھا؛ یا حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان میں خلیفہ بنا تھا۔ یا کوئی یہ بتائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عید کے دن اذان دی جاتی تھی؛ یا نماز کسوف؛یا نماز استسقاء کے لیے اذان دی جاتی تھی۔ یا یہ کہ آپ کے شہر مدینہ میں جمعہ کے دن ایک سے زیادہ جمعہ کے خطبات ہوا کرتے تھے۔ یا یہ کہے کہ: عید کے دن ایک سے زیادہ عید کی نمازیں ہوا کرتی تھیں ؛ یا کوئی یہ کہے کہ: آپ منیٰ میں عید کی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یا یہ کہے کہ: اہل مکہ آپ کے پیچھے منیٰ اور عرفات اورمزدلفہ میں نمازیں پوری پڑھا کرتے تھے۔ یاکوئی یوں کہے کہ آپ منی میں دو نمازیں جمع کرکے پڑھا کرتے تھے؛ جیساکہ آپ قصر بھی کیا کرتے تھے۔ یا یہ کہ آپ نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں روزے فرض کیے تھے۔ یا یہ کہ آپ نے ایک چھٹی نماز فرض کی تھی وہ چاشت کے وقت کی نماز تھی یا تہجد کی۔ یا آپ نے کعبہ کے علاوہ کسی اور گھر کا حج فرض کیا تھا۔ یا یہ کہ عربوں کے ایک گروہ نے یا کسی دوسرے گروہ نے قرآن کے مقابلہ میں اس کے مشابہ کوئی کلام پیش کرکے قرآن سے مقابلہ کیا تھا۔ اور اس طرح کے دیگر جتنے بھی امور ہیں ؛ ہم ان کے بیان کرنے والے کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہم ان امور کے لازم کے انتفاء کی وجہ سے ان امور کا انتفاء یقینی طور پر جانتے ہیں ۔ کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوتا تو ہمتیں اور اسباب موجود تھے کہ ایسے واقعات کو عام بنی آدم کے لیے نقل کیا جائے۔ اور خصوصاً ہماری امت کے لیے بطور شریعت ۔ پس جب اہل علم میں سے کسی ایک نے ایسی کوئی بات نقل نہیں کی؛کجا کہ ایسی باتوں کو تواتر کی حیثیت حاصل ہو؛ تو اس سے ان واقعات کا جھوٹ ہونا معلوم ہوجاتاہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نصوص کا تعلق بھی اسی باب سے ہے۔ ان کا جھوٹ ہونا کئی طریقوں سے معلوم کیاجاسکتا ہے۔کیونکہ ان نصوص کو اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی صحیح اسناد کے ساتھ نقل نہیں کیا۔ چہ جائے کہ یہ نصوص متواتر ہوں ۔ اور نہ ہی یہ نقل کیا گیا ہے کہ کسی ایک نے عہد خلفائے راشدین میں مسئلہ خلافت پر کوئی جھگڑا یا تنازعہ نقل کیا ہو۔ اور یوم سقیفہ میں مشورہ کے وقت اور پھر حضرت عمر کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا؛ جس وقت آپ نے خلافت کے لیے چھ افراد کی شوری بنادی تھی۔پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر اس قسم کی نصوص کا کوئی وجود ہوتا جیسا کہ روافض کا دعوی ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ایسی واضح اور قطعی نص جلی ہے جس سے مسلمانوں کا عذر ختم ہو جاتا ہے؛ اگر ایسی بات ہوتی تو پھر ضرورت کے تحت یہ معلوم شدہ تھا کہ لوگ اسے نقل کرتے؛ جیسا کہ اس جیسی دوسری روایات نقل کی گئی ہیں ۔اور یہ بھی ضروری تھا کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد اسے روایت کرتی ۔بلکہ اکثر لوگوں کو اس کا علم ہوتا۔اس جیسے مواقع پر ایسی باتیں نقل کرنے کے لیے ہمتیں خوب ساتھ دیتی ہیں ؛ اور ان میں انتہاء درجہ کی چستی اور تندہی پائی جاتی ہے۔ پس لازم کے انتفاء کا تقاضا ہے کہ ملزوم بھی منتفی ہو۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔

خلاصہ کلام! جھوٹ سچائی کی نقیض[الٹ ]ہے۔ کسی ایک نقیض کا انتفاء یا تو اس کے نقیض کے اثبات سے ہوجاتا ہے اور کبھی اس کی خصوصیات کی نفی بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

شیعہ کے ساتھ اکثر کلام نقل پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کو واقعات کی خبر ہو؛اوران سچی روایات کا بھی علم ہو جن سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے ؛ تو اسے یقینی طور پر اس کی نقیض کا علم بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث نبویہ کا علم رکھنے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کہ شیخین کی فضیلت اور ان کی امامت کے درست ہونے کے عقیدہ کو واجب نہ کہتا ہو اور روافض کے دعووں کو جھوٹ کہہ کر رد نہ کرتا ہو۔

پھر جوکوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے احوال کا خوب علم رکھتا ہو؛ وہ زیدیہ اور دوسرے ان مذاہب کے دعووں کے باطل ہونے کو اچھی طرح جانتا ہے جو نص خفی کا دعوی کرتے ہیں ۔ اوریہ کہ حضرت علی خلفائے ثلاثہ سے افضل تھے۔ یا پھر جوکوئی ان کی فضیلت میں توقف کرتا ہو۔ بیشک یہ لوگ اپنے کمزور علم اور اور جہالت کی وجہ سے جہل مرکب یا جہل بسیط کا شکار ہیں ؛ ان کے پاس وہ علم نہیں ہے جو حدیث و آثار کے ماہرین کے پاس ہے۔