فصل:....وہ احادیث جن کا رافضی نے ذکر نہیں کیا
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....وہ احادیث جن کا رافضی نے ذکر نہیں کیا
یہ ایسی احادیث ہیں جو کہ اس کی ذکر کردہ روایت سے زیادہ دلالت کرتی ہیں ۔
اور پھر یہ بات جان لینی چاہیے کہ ا ن کے علاوہ دیگر بھی کئی ایک احادیث ہیں جن کاذکر اس رافضی مصنف نے نہیں کیا۔ اگروہ احادیث صحیح ہوتیں تو اپنے مقصود پر دلالت کرتی تھیں ۔ کیونکہ ان میں سے بعض روایات میں مصنف کی ذکر کردہ روایت سے زیادہ واضح دلائل تھے مگر یہ تمام روایات جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ؛حضرت عثمان و علی اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے فضائل میں بھی جھوٹی احادیث روایت کی ہیں ۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں من گھڑت روایات زیادہ ہیں ۔ کیونکہ نواصب کی نسبت شیعہ زیادہ جرأت کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ۔
ابو الفرج ابن جوزی فرماتے ہیں : حضرت علی کے فضائل کثرت کے ساتھ ہیں بس اتنی بات ہے کہ روافض نے ان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے ایسی روایات گھڑ لیں جن سے آپ کے مقام و مرتبہ میں کمی ہی آئی ہے کچھ اضافہ نہیں ہوا ۔ اورایسے خاموش طریقے سے ان میں حواشی داخل کیے جنہوں نے اسے کو باطل کی طرف دھکیل دیا۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ روافض کی تین اقسام ہیں : ایک قسم : جنہوں نے کچھ احادیث سن لیں اور پھر اپنی طرف سے احادیث گھڑ کر ان میں کمی اور زیادتی کردی۔
دوسری قسم وہ ہے جنہوں نے کوئی حدیث نہیں سنی آپ انہیں دیکھیں گے کہ امام جعفر صادق پر جھوٹ بولتے رہتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں :امام جعفر نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ اور تیسری قسم جہلا عوام الناس ہیں وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کی دل میں آتی ہیں خواہ وہ عقلا ممکن ہو یا نا ممکن ہو۔
اس طرح کی جھوٹی روایات کی ایک مثال جو ابن جوزی نے نسائی کے حوالے سے اپنی کتاب میں نقل کی ہے نسائی نے اسے خصائص علی میں عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت کیا ہے وہ کہتا ہے ہم سے علا بن صالح نے حدیث بیان کی وہ منہال بن عمرو سے روایت کرتا ہے وہ عباد بن عبداللہ سدی سے روایت کرتا ہے کہا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد صرف جھوٹا ہی اس چیز کا دعوی کرے گا۔ میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔یہ حدیث امام احمد رحمہ اللہ نے الفضائل میں روایت کی ہے۔ اور اسی سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے: میں نے باقی لوگوں سے سات سال پہلے اسلام قبول کیا ہے۔
یہ روایت علا بن صالح نے منہال بن عبادسے بھی روایت کی ہے۔
ابو الفرج رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ من گھڑت روایت ہے۔ اس میں جھوٹ بولنے والا عباد بن عبداللہ ہے ۔
علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ حدیث میں بہت کمزور تھا۔
ابو الفرج رحمہ اللہ نے کہاہے: حماد الازدی نے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن کی متابعت میں کوئی دوسری روایت نہیں ملتی۔ جب کہ منہال سے روایت کو شعبہ نے ترک کیا ہے۔ ابوبکر الاثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے متعلق پوچھا : کہ میں عبداللہ ہوں میں رسول اللہ کا بھائی ہوں تو آپ نے فرمایا:یہ روایت اس کے منہ پر دے مارو وہ حدیث کا منکر تھا۔
میں کہتا ہوں : عباد اپنی سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایس چیزیں روایت کرتا ہے جن کے جھوٹ ہونے کے بارے میں قطعی اور یقینی علم حاصل ہے۔ جیسا کہ یہ حدیث۔ ہم یقین طور پر جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نیک سیرت اور سچے انسان تھے۔ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف تھا؛ وہ ایسا جھوٹ ہر گز نہیں بول سکتے۔ ان کے تقوی سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسا کھلا ہوا جھوٹ بولیں جس کی دروغ گوئی صاف ظاہر اور ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے جس میں شک و شبہ نہیں ۔ اور ہمیں یہ بھی یقینی علم ہے کہ حضرت علی نے کوئی ایس بات نہیں ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ آپ جان بوجھ کر ایسا قبیح جھوٹ نہیں بول سکتے۔اور یہ کوئی ایسا مشتبہ معاملہ نہیں ہے جس میں خطاء ہو جائے۔پس یہ واقعات نقل کرنے والا یا تو جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہے یا پھر بہت بڑی غلطی اور خطا کا مرتکب ہورہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے خوارج اور بنی مروان کے لیے تعصب رکھنے والوں کی قدح ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صداقت ؛ نیکی و بھلائی اور تقوی کے بارے میں کسی شک میں نہیں ڈال سکتی۔ ایسے ہی روافض کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پرقدح کرنا؛بلکہ شیعہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کرنا ہمیں ان حضرات رضی اللہ عنہم کی صداقت؛ تقوی اور نیکی کے بارے علم میں کسی شک و شبہ میں نہیں ڈال سکتا۔ بلکہ ہم یقینی طور پر دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ : ان میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا آپ کے علاوہ کسی بھی دوسرے انسان پر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
جب آپ سے ایسی روایت منقول تھی کہ اس جیسی چیزوں کے نقل کرنے غلطی نہیں کی جاتی تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ بولا گیا ہے۔ اور اس کے ناقل کے بارے میں ہمیں یقین ہوگیا کہ یا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے یا پھر غلطی سے ایسی حرکت کررہا ہے۔
جیسے کہ عبداللہ نے ’’المناقب‘‘ میں نقل کیا ہے؛ وہ کہتا ہے :
(( حدثنا یحی بن عبدِ الحمِیدِ، حدثنا شرِیک، عنِ الأعمشِ، عنِ المِنہالِ بنِ عمرو، عن عبادِ بنِ عبدِ اللہِ، عن علِی۔
وحدثنا أبو خیثمۃ، حدثنا الأسود بن عامِر، حدثنا شرِیک، عنِ الأعمشِ، عنِ المِنہالِ بنِ عمرو، عن عبادِ بنِ عبدِ اللہِ الأسدِیِ، عن علِی۔))
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛ فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی :
﴿ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ [الشعراء:21]
’’اورآپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ۔‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے مردوں کو بلایا؛ اوران میں سے ایک آدمی ایسا تھا کہ پورا ایک بکرا کھا لیتا۔؛ اور پورا ایک ٹب پی لیتا........‘‘الخ
یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہے ؛ آپ نے کوئی ایسی چیز روایت نہیں کی۔ اور اس کا جھوٹ ہونا کئی وجوہات کی بنا پر ظاہر ہے۔یہ حدیث امام احمد نے ’’الفضائل‘‘ میں روایت کی ہے۔ [اس کی سند یہ ہے ]
((حدثنا عثمان، حدثنا أبو عوانۃ، عن عثمان بنِ المغِیرۃِ، عن أبِی صادِق، عن ربِیعۃ بنِ ناجِز، عن علِی....۔))
ان کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ لوگ باطل حکایات روایت کرتے ہیں ۔
اجلح کی سند سے ابو الفرج نے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے؛ وہ حبہ بن جوین سے روایت کرتا ہے؛ وہ کہتا ہے: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرمارہے تھے:
’’ میں نے اس امت کس کسی بھی آدمی سے سات سال قبل یا پانچ سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عباد ت کی ہے ۔‘‘
ابو الفرج رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حبہ لا یساوی حبۃ‘‘ حبہ کی قیمت ایک دانے کے برابر بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ بہت ہی کذاب ہے۔
یحی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کوئی چیز نہیں ۔‘‘سعدی رحمہ اللہ نے کہاہے: ’’ ناقابل اعتماد ہے ۔‘‘
ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’شیعیت میں بڑا غالی اور حدیث میں بہت کمزور تھا۔‘‘
جب کہ پہلے راوی اجلح کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ منکر روایات روایت کرتا ہے ۔‘‘
ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس کی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ۔‘‘
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا کہتا ہے ۔‘‘
امام ابو الفرج ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اور جن امور سے ان احادیث کا بطلان ثابت ہوتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ حضرت خدیجہ ؛ حضرت ابوبکر اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے متقدم الاسلام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اوریہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سن چھ نبوی میں اسلام لائے۔ اس وقت تک ابھی چالیس لوگ اسلام لائے تھے۔ تو پھر یہ روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے۔ ؟
پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ أنا الصدیق الاکبر‘‘ میں صدیق اکبر ہوں ۔ یہ حدیث احمد بن نصر الذراع نے اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہے۔ یہ انسان بہت بڑا جھوٹا تھا اور احادیث گھڑا کرتا تھا۔
ایسے ہی ایک اور حدیث بھی ہے جس میں ہے :
’’ میں ان سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں ؛ اور میں اللہ کے ساتھ عہد کو سب سے بڑھ کر پورا کرنے والا ہوں ‘ اور میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کو سب سے زیادہ قائم کرنے والا ہوں ۔ اور سب سے بڑھ کر انصاف کے ساتھ تقسیم کرنے والا ہوں ۔اور رعایا میں سب سے زیادہ عدل کرنے والا ہوں ۔ اور قضایا و مسائل میں سب سے زیادہ بصیرت رکھتا ہوں ۔‘‘
یہ بھی ایک من گھڑت روایت اور حکایت ہے۔ اس کے بارے میں بشر بن ابراہیم پر الزام ہے۔ ابن عدی اور ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے : ’’ یہ ثقات کے نام لیکر ان کے نام پر احادیث گھڑا کرتا تھا۔‘‘ اور ابزاری حسین بن عبیداللہ نے ابراہیم بن سعید الجوہری سے؛ اور اس نے مامون سے اس نے رشید سے روایت کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں :’’ابرازی انتہائی جھوٹا انسان تھا۔‘‘
یہ حدیث بھی بیان کی ہے جس میں ہے : ’’ تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے ہو؛ اور بروز قیامت تم سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کروگے۔اور تم ہی صدیق اکبر ہو؛ اورتو وہ فاروق ہو جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ اورتم یعسوب المؤمنین ہو....‘‘
فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث موضوع ہے۔اس کی پہلی سند میں عباد بن یعقوب ہے۔
ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ مشاہیر علماء کے نام لیکر منکر روایات روایت کیا کرتا تھا؛ اس لیے ترک کیے جانے کا مستحق ٹھہرا ہے ۔‘‘ اور اس کی سند میں علی بن ہاشم بھی ہے۔ اس کے بارے میں ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ یہ کچھ بھی نہیں ہے ؛ یہ مشاہیر علماء کے نام لیکر منکر روایات روایت کیا کرتا تھا؛ اور انتہائی غالی شیعہ تھا۔‘‘
اس کی سند میں محمد بن عبداللہ بھی ہے۔ اس کے بارے میں یحی بن معین کہتے ہیں : ’’ کچھ بھی نہیں ۔‘‘
اس کی دوسری سند میں ابو صلت ہروی ہے ۔جو کہ انتہائی جھوٹا اور خبیث قسم کا رافضی تھا۔ اس روایت میں ابو صلت اور عباد دونوں جمع ہوگئے ہیں ۔ اب اللہ جانتا ہے کہ کس نے دوسرے سے یہ روایت چوری کی ہے ۔
میں کہتا ہوں : اس آفت کا سہرا محمد بن عبداللہ کے سر ہے۔
یہ روایت ابن عباس کے طریقہ سے بھی مروی ہے۔ اس میں عبداللہ بن زاہر ہے ۔ ابن معین کہتے ہیں :’’ یہ کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی روایتکوئی ایسا انسان لکھ سکتا ہے جس میں کوئی ذرہ بھر بھی خیر و بھلائی ہو۔‘‘
ابو الفرج ابن جوزی کہتے ہیں : انتہائی غالی قسم کا رافضی تھا۔