فصل :....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کثرت عبادت]
امام ابنِ تیمیہؒفصل :....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کثرت عبادت]
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:....
دوم : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔ دن بھر روزہ رکھتے اور راتوں کو قیام کیا کرتے تھے۔ نماز تہجد اور دن کے نوافل لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سیکھے تھے۔ آپ سارا وقت عبادات و وظائف میں بسر کیا کرتے تھے۔ شب و روز میں آپ ایک ہزار رکعات پڑھا کرتے تھے ۔آپ نے انتہائی ٹھنڈی راتوں میں بھی کبھی قیام اللیل ترک نہیں کیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے حالت جنگ میں آپ کو دیکھا کہ سورج کا انتظار کررہے تھے ۔ میں نے پوچھا : اے امیر المؤمنین ! کیا ہورہا ہے ؟ آپ نے فرمایا: زوال کا انتظار کررہا ہوں تاکہ نماز پڑھ لوں ۔ میں نے کہا : اس وقت میں نماز ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ ہم تو نماز کی وجہ سے ان سے قتال کرتے ہیں ۔ سو آپ ان سخت اوقات و حالات میں بھی پہلے وقت میں نمازپڑھنے سے غافل نہیں ہوئے ۔‘‘ اور جب آپ اپنے جسم سے تیر وغیرہ نکالنا چاہتے تو اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ نماز شروع کرتے ؛ پھر آپ باقی تمام چیزوں سے غافل ہوکر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ اور آپ کو کسی قسم کی تکلیف کا کوئی احساس نہ ہوتا ۔ آپ نے نماز اور زکوٰۃ کو جمع کیا ۔ آپ نے حالت رکوع میں صدقہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں قرآن نازل کیا جو قیامت تک پڑھا جاتا رہے گا ۔ اور آپ نے تین دن تک اپنی اور اپنے بچوں کی روزی صدقہ میں دی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِِنسَانِ﴾ ’’کیا انسان پرایسا وقت گزرا ہے۔‘‘[الدھر۱]
آپ نے دن اور رات میں ؛ خفیہ اور اعلانیہ طور پر صدقہ کیا ۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سر گوشی کی تو اس سے پہلے صدقہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں قرآن نازل کیا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے ایک ہزار غلام آزاد کیے، آپ مزدوری کرکے جو کچھ کماتے وہ شعب ابی طالب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے۔جب آپ لوگوں میں سب سے بڑے عابد تھے ؛ تو آپ ہی افضل ہوئے ؛ لہٰذا آپ ہی امام بھی ہوں گے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: ہم کہتے ہیں :اس کلام میں اتنی من گھڑت اور جھوٹی باتیں ہیں جو صرف اس انسان پر مخفی رہ سکتی ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال سے پرلے درجے کا جاہل ہو۔ حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اور اس میں مدح کا کوئی پہلو بھی نہیں ؛ اورنہ ہی اس طرح کی عام جھوٹی کہانیوں میں کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ : ’’ آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام کرتے تھے ۔‘‘یہ محض جھوٹ اور آپ پر الزام ہے۔ اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گزر چکا ہے کہ آپ نے فرمایا:’’لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ۔ قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ بیویوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ؛ جس نے میری سنت سے انحراف کیا اس کا مجھ سے کچھ تعلق نہیں ۔‘‘ [البخاری، کتاب الصوم۔ باب حق الجسم (ح:۱۹۷۵) مسلم کتاب الصیام، باب النھی عن صوم(ح:۱۱۵۹)۔]
بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دروازے پر دستک دے کر مجھ سے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :’’کیا تم دونوں بیدار نہیں ہوتے اورنماز نہیں پڑھتے؟ تومیں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، جب وہ جگانا چاہتا ہے توہمیں جگا دیتا ہے۔‘‘
یہ سن کر آپ ازراہ افسوس اپنی ران پر ہاتھ مارتے اور یہ کہتے ہوئے واپس تشریف لے گئے کہ:﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا﴾ ’’ انسان بڑا جھگڑالو واقع ہوا ہے۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب صلاۃ المسافرین باب الحث علی صلاۃ اللیل(حدیث:۷۷۵)۔]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رات کو سویا کرتے تھے۔ نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جگایا؛اور آپ کے اسلوب کلام کو پسند نہیں فرمایا تھا؛ اور آپ یہ کہتے ہوئے واپس پلٹے :
﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا﴾ ’’ انسان بڑا جھگڑالو واقع ہوا ہے۔‘‘
[اشکال] :شیعہ مصنف کا یہ قول ہے کہ ’’ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رات کی نمازیں اور دن کے نوافل سیکھے۔‘‘
[جواب] : اگر شیعہ کی مراد یہ ہے کہ بعض مسلمانوں نے یہ باتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سیکھیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ تمام صحابہ نے کچھ نہ کچھ لوگوں کوتعلیم دی ہے۔[ لوگ ہمیشہ اپنے اکابر سے اچھی باتیں سیکھتے چلے آئے ہیں ] اور اگر شیعہ مصنف یہ کہنا چاہتا ہے کہ اکثر[یاسب] لوگوں نے یہ آداب آپ سے سیکھے تو یہ بڑا مکروہ [اور بھونڈا]جھوٹ ہے۔[ اس لیے کہ صحابہ نے یہ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی تھیں ، جہاں تک تابعین کا تعلق ہے] ان میں سے اکثر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا تک نہ تھا۔[ ان سے آداب عبادت سیکھنا تو درکنار]۔مگر وہ راتوں کے شب بیدار دن کو نمازیں پڑھنے والے تھے۔ اکثر بلاد اسلامیہ حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں فتح ہوئے۔ جیسے شام ‘ مغرب ‘ خراسان‘ [وغیرہ]۔ ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا بھی نہیں تھا ‘ کچھ سیکھنا تو درکنار رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی حال تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چیزوں کی تعلیم پائی۔ اس قسم کے دعوی صرف
اہل کوفہ کے متعلق ممکن ہے۔ اور ان کے بارے میں بھی سبھی جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوفہ آنے سے پہلے ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تعلیم پائی تھی۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوفہ آمد سے قبل لوگوں میں علم و عمل کے لحاظ سے سب سے کامل لوگ تھے۔ یہی حال باقی صحابہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کا ہے۔
[اشکال] :شیعہ کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سب وقت ادعیہ ماثورہ پڑھتے ہوئے گزرتا تھا۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ادعیہ زیادہ تر موضوع ہیں ۔[محمد باقر اصبہانی(۱۰۳۷۔۱۱۱۰) نے ادعیہ ماثورہ پر مشتمل ایک کتاب ’’ زاد المعاد ‘‘ نامی ۱۱۰۷ھـ میں شاہ حسین صفوی کے لیے تصنیف کی تھی۔ یہ کتاب خلاف دین اکاذیب کا مجموعہ ہے۔]
ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اور صحابہ کرام کی شان اس سے بہت بلند تھی کہ وہ اس قسم کی دعائیں پڑھا کرتے ۔ ان میں سے کسی دعا کی کوئی سند ہی نہیں ۔ سب سے افضل دعائیں وہ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اور ثابت ہیں ۔اوراس امت کے اولین و آخرین میں سے بہترین لوگ یہی دعائیں کیا کرتے تھے۔
[اشکال ]:شیعہ کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دن اور رات میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے۔‘‘
[جواب]: یہ ایسا باطل جھوٹ ہے جس میں مدح کا کوئی پہلو نہیں ۔بیشک شب و روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجموعی فرض و نفل نماز چالیس رکعت تھی۔ ایک امیرِ امت جو لوگوں کے امور متنازعہ فیصلے کرتا اور ان کے سیاسی مصالح میں مشغول رہتا ہو ‘ وہ ایک ہزار رکعت ادا کرنے پر اسی صورت میں قادر ہو سکتا ہے جب وہ کوّے کی طرح ٹھونگے مارنے والی نماز ادا کرتا ہو۔ یہ منافقین کی نماز ہے ؛ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن ایسی بے کار نماز سے پاک ہے۔
٭ جہاں تک صفین کی راتوں میں ذکر کا تعلق ہے تو صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ وہ اذکار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے سکھائے تھے ؛ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنے ہیں ؛ کبھی انہیں ترک نہیں کیا ۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا: ’’ صفین کی راتوں میں بھی؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ صفین کی راتوں میں بھی انہیں ترک نہیں کیا؛ سحر کے وقت مجھے یاد آگیا تو میں نے وہ اذکار پڑھ لیے تھے ۔‘‘ [مسند احمد‘ح:۸۳۸]
٭ جہاں تک آپ کے جسم سے لوہا نکالنے کی بات ہے تو یہ سفید جھوٹ ہے۔کبھی آپ کو ایسے لوہا لگا ہو؛ کسی بھی صحیح روایت سے ثابت نہیں ۔
[اشکال]:شیعہ کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز کے دوران زکوٰۃ ادا کردی تھی۔‘‘[یعنی نماز اور زکوٰۃ کو جمع کیا ]
[جواب]: یہ بھی صریح جھوٹ ہے، جیسا کہ اس سے پہلے گزرچکا ؛ نیزاس میں مدح کی کوئی بات نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایسا کرنا مستحب ہوتا تو اسے مسلمانوں کے لیے مشروع کیا ہوتا۔اور اگر مسلمان نماز میں صدقہ دینے کو مستحب سمجھ رہے ہوتے تو وہ ضرور ایسا کرتے۔جب مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اس چیز کو مستحب نہیں سمجھا تو پتہ چلا کہ شرعاً نماز میں ایسی حرکت کرنا ناروا [مکروہ] ہے۔
٭ یہی حال نذر ماننے اور چار درہم صدقہ کرنے والے قصہ کا ہے؛ یہ تمام جھوٹ ہے ۔ نیز اس میں مدح کا کوئی پہلو نہیں ۔