Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اعلم الناس تھے

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اَعْلَمُ النَّاس تھے

[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اعلم الناس تھے۔‘‘

[جواب]: ہم کہتے ہیں :اہل سنت والجماعت اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔اہل سنت والجماعت کے علماء کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ’’ اعلم الناس حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تھے۔‘‘ 

کئی علماء کرام نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بڑے عالم تھے۔اس مسئلہ میں اپنی جگہ پر بڑے وسیع اور مضبوط دلائل ہیں ۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی شخص فیصلہ صادر کرتا نہ فتویٰ دیتا اور نہ وعظ کہہ سکتا تھا۔جب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی دینی معاملہ میں شبہ ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس شبہ کا ازالہ کیا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات لوگوں پر مشتبہ ہو گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کا یہ شبہ دور کیا تھا۔ پھر انھیں آپ کی تدفین میں شبہ لاحق ہوا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا ازالہ کیا۔ پھر مانعین زکوٰۃ سے نبرد آزما ہونے کے بارے میں تنازع بپا ہوا توآپ نے نص کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اس کی حقیقت واضح کی۔پھر [عمرہ کے لیے مسجد الحرام داخلے کے بارے میں شبہ ہوا؛ کیونکہ ] اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ﴾(الفتح:۲۷)

’’اگر اللہ نے چاہا تو تم خانہ کعبہ میں کامل امن و امان سے داخل ہو گے۔‘‘[توسیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس شبہ کو رفع کیا ]

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی تشریح کی تھی کہ:’’ اللہتعالیٰ نے اپنے بندے کواختیار دیا تھا کہ دنیا و آخرت میں سے جسے چاہو پسند کرلے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم ، سدوا الابواب الا باب ابی بکر(ح:۳۶۵۴)، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)]

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو بتایا کہ کلالہ کسے کہتے ہیں ؛ پھراس بارے میں کسی نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔[مصنف عبد الرزاق،(۱۹۱۹۰)، سنن الدارمی(۳؍۳۶۵۔۳۶۶)، سنن کبرٰی بیہقی(۶؍۲۲۴) ]

حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ نے بھی آپ سے [روایت حدیث میں ]استفادہ کیا تھا۔ جیسا کہ سنن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ’’جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو جتنا فائدہ اللہتعالیٰ چاہتے مجھے پہنچاتے؛اور جب کوئی اور دوسرا شخص مجھے حدیث سناتا تو میں اس سے حلف لیتا ؛جب وہ حلف اٹھاتا تو میں اس کی تصدیق کرتا ؛ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث سنائی اور انھوں نے سچ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جو شخص بھی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر وضوء کرکے دو رکعت نماز ادا کرتا اور اللہ سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہے تو اسے بخش دیا جاتا ہے۔‘‘ [سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار (ح:۱۵۲۱)، سنن ترمذی کتاب الصلاۃ، ۔ باب ما جاء فی الصلاۃ عند التوبۃ(ح:۴۰۶)، سنن ابن ماجۃ۔ کتاب اقامۃ الصلوات،باب ما جاء فی صلاۃ کفارۃ(ح:۱۳۹۵)۔]

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کوئی ایک فتوی بھی ایسا منقول نہیں جو نص کے خلاف ہو۔جبکہ حضرت عمر‘حضرت علی کے علاوہ دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسے فتاوی منقول ہیں جو نصوص کے خلاف ہیں ۔حتی کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف پر ایک مجلد کتاب لکھی ہے۔ اور امام محمد بن نصر المروزی نے ان اختلافات پر ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔صحابہ کرام کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کیساتھ دادا کی میراث میں اختلاف ہوا ہے ‘ مگر حق بات وہی ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمائی ہے۔ہم نے یہ مسئلہ ایک مستقل کتاب میں بیان کردیاہے۔اس میں ہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کے صحیح ہونے کی دس وجوہات بیان کی ہیں ۔ جب کہ جمہور صحابہ میں سے دس سے زائد حضرات اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں ۔ جن لوگوں سے اختلاف نقل کیا گیا ہے ‘ ان میں حضرت زیداورابن مسعود رضی اللہ عنہما شامل ہیں اور ان کے اقوال بھی اضطراب کا شکار ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حق بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔

[فضائل شیخین]:

بہت سے علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے۔ ان اجماع نقل کرنے والوں میں شافعیہ کے ایک بڑے امام منصور بن عبد الجبار سمعانی مروزی کا نام بھی شامل ہے۔آپ اپنی کتاب ’’ تقویم الادلہ‘‘ میں کہتے ہیں :’’ علماء اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے۔‘‘ اور ایسے ہوتا بھی کیوں نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں فتوی دیتے ؛ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے؛ برائی سے منع کرتے ؛ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے ۔ آپ ایسا اس وقت کیا کرتے جب آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلتے۔ اور جب آپ نے ہجرت کی۔او رحنین کے موقعہ پر اور دیگر مغازی میں بھی ایسا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اورآپ کے فرمودات کو برقرار رکھا۔یہ مرتبہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل فقہ و رائے سے مشورہ کرتے وقت شوری میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو دوسروں پر مقدم رکھا کرتے تھے۔یہی وہ دو شخصیات تھیں جو علمی مسائل میں گفتگو کیا کرتے تھے؛اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو باقی تمام صحابہ پر مقدم کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بدر کے جنگی قیدیوں کے متعلق اوردیگر امور میں مشورہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے حق میں فرمایا:

’’ جب تم دونوں کسی بات پر متفق ہو جاؤگے تو میں تمہاری مخالفت نہیں کیا کروں گا۔‘‘[مسند احمد(۴؍۲۲۷) ]

سنن میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے بعد حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کرو۔‘‘ [سنن ترمذی ، کتاب المناقب باب (۱۶؍۳۵) (حدیث:۳۶۶۲)، سنن ابن ماجۃ۔ المقدمۃ۔ باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۹۷)۔]

یہ مقام ان دوحضرات کے علاوہ کسی کو نہ مل سکا۔بلکہ آپ نے فرمایا:

’’ تم پر میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے ۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]۔

اس میں خلفاء اربعہ کی اتباع کا حکم دیاگیا ہے ‘اور ان میں سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اقتداء کے ساتھ بطور خاص ذکر کیاہے۔مسلمانوں کے لیے اقوال و افعال کی سنت میں متقدٰی کا مرتبہ متبع کے مرتبہ سے اوپر ہوتا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ دوران سفر بہت سے مسلمان تھے....۔ایک لمبی حدیث ہے ؛ جس میں آپ نے فرمایا۔ ’’اگر لوگ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی اطاعت کریں تو راہ راست پر قائم رہیں گے۔‘‘[مسلم ۱؍۴۷۲] 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ کتاب اللہ سے فتوی دیا کرتے؛جب وہاں کوئی بات نہ ملتی تو سنت میں حل تلاش کرتے ؛اگر وہاں بھی کوئی نص نہ پاتے تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔یہ معاملہ حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ نہیں کیا کرتے تھے۔ ابن عباس حبر امت تھے ؛اور اپنے زمانہ کے صحابہ میں سب سے بڑے عالم تھے ۔ آپ ترجیحاًحضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی:

’’ اے اللہ ! اسے دین کا فہم عطا کر اورقرآن کی تفسیر سکھا دے۔‘‘ [صحیح مسلم ، کتاب المساجد۔ باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ(ح:۶۸۱)، مطولاً۔]

حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو باقی تمام صحابہ میں خصوصیت حاصل تھی۔ان میں بھی زیادہ خصوصیت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اس لیے کہ آپ عام طور پر رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر علوم دین اور مصالح مسلمین کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے ؛ آپ فرماتے ہیں : ہم سے ابو معاویہ نے حدیث بیان کی ؛ ان سے اعمش نے اور ان سے ابراہیم نے ؛ان سے حضر ت علقمہ رضی اللہ عنہ نے۔آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختلف امور کے سلسلہ میں بات چیت کیا کرتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔‘‘

صحیحین میں حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ غریب لوگ تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارفرما یا:

’’ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو ان میں سے لے جائے ۔اور اگر چار کا ہو تو پانچواں اورچھٹا ان میں سے لے جائے ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی لے گئے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمی لے گئے۔‘‘

حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں :’’ ....ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کھانا کھایا اور وہیں عشاء کی نماز ادا کی اس کے بعد بھی اتنی دیر ٹھہرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی۔اس کے بعد اپنے گھر میں آئے ان سے ان کی بی بی نے کہا کہ تمہیں تمہارے مہمانوں سے کس نے روک لیا؟ یا یہ کہ تمہارے مہمان انتظار کر رہے ہیں ۔ وہ بولے: کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا :آپ کے آنے تک ان لوگوں نے کھانے سے انکار کیا؛ کھانا ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا مگر انہوں نے نہ مانا....۔‘‘ [صحیح بخاری:حدیث نمبر۵۷۵]

ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں : ’’ میرے والد رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ’’ہجرت کے موقع پر میرے اباجی کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کوئی نہ تھا۔‘‘اور جنگ بدر میں سائبان کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔‘‘

[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ] فرمایا:

’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال او ررفاقت کاممنون ہوں ۔اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔‘‘ [بخاری (ح:۳۶۵۴)مسلم، (ح:۲۳۸۲)]

یہ سب سے صحیح ترین اور مشہور حدیث ہے جسے کئی صحیح اسناد سے صحاح ستہ میں روایت کیا گیا ہے ۔

صحیحین میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اسی دوران ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے اور اپنے دونوں زانوں ننگے کیے ہوئے آئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہارا ساتھی کسی سے جھگڑ پڑا ہے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کے بعد عرض کیا: میرے اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تنازع تھا۔ میں نے جلد بازی سے کام لیا، پھر مجھے ندامت کا احساس ہوا تو میں نے کہا:’’ معاف کردیجیے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے، میں اس مقصد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اے ابوبکر! اللہ تمھیں معاف فرمائے۔‘‘

پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کو آئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ پاکر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈر کردوبار کہا:اے اللہ کے رسول! مجھ سے زیادتی سرزد ہو ئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہتعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ تم نے مجھے جھٹلایا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری ہمدردی کی۔ اب کیا تم میرے رفیق کو میرے لیے رہنے دو گے یا نہیں ؟ ‘‘ آپ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے رنج نہ پہنچایا۔‘‘ [البخاری،(ح:۳۶۶۱)]

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ آپ خیر کے کام میں سبقت لے گئے تھے۔‘‘

اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ابوسفیان نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں سوال کیا تھا؛ اس کے لیے وہ خود اور دیگر تمام لوگ جانتے تھے کہ یہی لوگ اسلام کے اصل سردار ہیں ؛ اور اسلام ان لوگوں کے ساتھ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے منصب و مقام کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا:’’ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو جو درجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حاصل تھا، وہ آپ کی وفات کے بعد بھی اسی مرتبہ پر فائز ہیں ۔‘‘ یہ سن کر ہارون نے دوبار کہا:’’ اے مالک! آپ نے مجھے تشفی بخش جواب دے دیا۔‘‘

صحبت میں کثرت کے ساتھ اختصاص ؛ کمال مودت و الفت و محبت ؛علم اوردین میں مشارکت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ دوسروں لوگوں سے بڑھ کر اس معاملہ کے حق دار تھے۔ جوکوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال سے واقف ہے ؛ اس کے لیے یہ بات کھلی ہوئی اور واضح ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ علم و فقہ کے حصول میں اس طرح سے قائم تھے کہ دوسرے لوگ اس سے عاجز آگئے تھے ؛ آپ باقی لوگوں کے لیے مسائل کی وضاحت کرتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کوئی ایسا قول منقول نہیں جو خلاف نص ہو۔یہ بات علم میں آپ کے تبحر ومہارت کی نشانی ہے[اس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی علمی فوقیت کا اظہار ہوتا ہے]۔جب کہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کئی اقوال نصوص کے خلاف منقول ہیں اس لیے کہ ان لوگوں تک یہ نصوص[ شرعی دلائل ] نہ پہنچ پائی تھیں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نصوص[ شرعی دلائل ]سے موافقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موافقات سے زیادہ ہیں ۔یہ بات ہر وہ انسان جانتا ہے جسے علمی مسائل؛ ان میں علماء کے اقوال اور شرعی ادلہ اور ان کے مراتب کی معرفت ہو۔اس کی مثال بیوہ کی عدت کو لیجیے ۔اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہی نص کے موافق ہے کسی دوسرے کا نہیں ۔ایسے ہی حرام کا مسئلہ بھی ہے ۔ اس مسئلہ میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ کرام کا قول نصوص[ شرعی دلائل ]کے زیادہ موافق ہے۔ اور ایسے ہی وہ عورت جسے اس کے شوہر نے طلاق کا اختیار دے رکھا ہو؛ اور ایسے ہی وہ عورت جس کا مہر اس کے سپرد کردیا گیا ؛ اورخلیہ ؛ بریہ ؛ بائین؛ اور طلاق البتہ ؛ اوردوسرے بہت سارے فقہی مسائل کا یہی حال ہے۔

بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اُمم سابقہ میں مُلہَم موجود تھے، اگر میری امت میں کوئی ملہم من اللہ ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۳۶۸۹)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۲۳۹۸)، عن عائشۃ، رضی اللّٰہ عنہا ۔]

بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مجھے خواب میں ایک پیالہ پیش کیا گیا جس میں دودھ تھا، وہ میں نے پی لیا، یہاں تک کہ سیری کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہرہونے لگا، پھرجو بچ گیا میں نے وہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ نے عرض کیا:’’ پھر آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ فرمایا:’’ دودھ سے علم مراد ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، حوالہ سابق(حدیث:۳۶۸۱)، صحیح مسلم، حوالہ سابق (حدیث: ۲۳۹۱) ]

ترمذی کی ایک روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر میں مبعوث نہ کیا گیا ہوتا تو عمر مبعوث ہوتے ۔‘‘

ترمذی میں ہی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔[سنن ترمذی، کتاب المناقب ، باب(۱۷؍۵۲)، (حدیث:۳۶۸۶)]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھانے کے لیے؛ جوکہ اسلام کا اصلی ستون ہے؛ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کرنے سے پہلے مناسک حج ادا کرانے کے لیے بھی آپ کو ہی امیربنایا گیا؛ اور مکہ میں منادی کرائی گئی کہ : اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے او رنہ ہی کوئی ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے۔

پھر آپ کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجاتو آپ نے پوچھا : کیا امیر بن کر آئے ہو یا مامور بن کر؟ تو عرض کی : مامور بن کر۔ پس اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر امیر مقرر کیا۔ آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سننے اور حکم ماننے کا حکم دیا تھا۔یہ اس غزوہ تبوک کے بعد کا واقعہ ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں جانشین مقرر کیا گیاتھا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مرتب کردہ کتاب صدقات سب سے آخری اور صحیح ترین کتاب ہے ؛ اسی لیے فقہاء کا اس پر عمل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو کتابیں تھیں ؛ وہ متقدم اور منسوخ تھیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ناسخ ومنسوخ میں بھی دوسروں سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا:

’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ واقف تھے۔‘‘ [صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’سدوا الابواب الا باب ابی بکر‘‘ (ح:۳۶۵۴)، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)۔]

ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی بھی مسئلہ میں اختلاف نہیں ہوا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا فیصلہ کردیا؛ اور جھگڑا ختم ہوگیا۔ آپ کے زمانے میں کسی ایک بھی ایسے مسئلہ کا علم نہیں ہوسکا جس میں اختلاف ہوا ہو او رپھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے وہ جھگڑااور اختلاف ختم نہ ہوا ہو۔مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آپ کی تدفین ؛ میراث ؛ لشکر اسامہ کی روانگی؛ مانعین زکوٰۃ سے جنگ؛ اور ان کے علاوہ دوسرے کئی بڑے مسائل بھی ہیں ۔

آپ صحیح معنوں میں لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے خلیفہ تھے۔انہیں تعلیم دیتے؛ ان کی اصلاح کرتے ؛ انہیں آشیرباد دیتے؛ اور مسائل کو ایسے دلائل سے واضح کرتے کہ شبہ اٹھ جاتا او رجھگڑ ا ختم ہوجاتا ۔

آپ کے بعد کوئی دوسراایسا نہیں آیا جو علم و کمال میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو پہنچ سکتا ہو۔پس وہ لوگ بعض مسائل میں اختلاف کیا کرتے تھے ؛ جیساکہ دادا او ربھائی کی میراث میں ؛ حرام میں ؛ تین طلاق کے مسئلہ میں ؛ متعۃالحج میں اختلاف ؛ طلاق بائین والی عورت کے نان و نفقہ اوررہائش کے بارے میں اختلاف۔ اوران کے علاوہ دیگر ایسے بہت سارے مسائل ہیں جن میں عہدِ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اختلاف نہیں ہواتھا۔ جب کہ حضرت عمر و عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے بہت سارے اقوال میں مخالفت کیا کرتے تھے۔ لیکن کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتوی دیا ہو ؛ یا فیصلہ کیاہو؛او رلوگوں نے اس میں آپ کی مخالفت کی ہو۔ یہ آپ کے سب سے بڑے عالم ہونے کی نشانی ہے۔

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام بنے ‘اور آپ نے صحیح معنوں میں اسلام کو قائم کیا ؛ اور کسی چیز میں خلل نہیں ڈالا؛ بلکہ لوگوں کو اسی دروازہ سے واپس اسلام میں داخل کیا جس سے وہ نکل گئے تھے ؛ حالانکہ اس وقت بہت بڑی تعداد میں آپ کے مخالفین موجود تھے جو کہ مرتد ہوچکے تھے۔ بہت سارے رسوا ئی چاہنے والے تھے۔ مگر آپ کی وجہ سے ان لوگوں کا دین و ایمان مکمل ہوا؛ اس باب میں کوئی دوسرا آپ کے برابر نہیں ہوسکتا۔

لوگ آپ کو خلیفہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب دیا کرتے تھے۔ پھر آپ کی موت سے یہ اتصال لفظی منقطع ہوگیا ۔ ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس وقت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے اسرار لفظی اور معنوی طور پر ظاہر ہوئے:

﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰]

’’جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

اس لیے کہ لوگوں نے آپ کو خلیفہء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب دیا تھا جو کہ آپ کی موت کے ساتھ ہی منقطع ہوگیا۔

مزید برآں یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بعض سنتوں کی تعلیم پائی۔ جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔اس کی وضاحت اس چیز سے ہوتی ہے کہ وہ علمائے کوفہ جنہوں نے حضرت عمرو علی رضی اللہ عنہما کی صحبت پائی ؛جسے:علقمہ ؛ الاسود؛ شریح وغیرہم؛یہ حضرات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ جبکہ مکہ و مدینہ اور بصرہ کے تابعین کے ہاں تو یہ بات اتنی زیادہ ظاہر و مشہور تھی کہ اس کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں ۔بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علم کوفہ میں آپ کی مدت خلافت کے قیام کے لحاظ سے ظاہر ہوا۔وہ تمام شیعان علی رضی اللہ عنہ جو آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے؛ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ آپ کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر علم و عمل ؛ فقہ اور دین میں سے کسی ایک چیز میں بھی ترجیح دیتا ہو۔ بلکہ وہ تمام شیعہ جو آپ کے ساتھ ملکر شریک جنگ تھے ؛ ان کا عام مسلمانوں کے ساتھ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و تقدیم پر اتفاق تھا۔ سوائے ان چند لوگوں کے جو آپ کی بات بھی نہیں مانتے تھے ؛ بلکہ آپ کو برا بھلا کہتے ؛ حقیر جانتے اور مذمت کرتے تھے۔ اس وقت یہ قلیل تعداد چند ایک حقیر قسم کے اوباش تھے جن کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔

یہ تین قسم کے لوگ تھے:ان میں سے ایک گروہ وہ تھا جنہوں نے آپ کی شان میں غلو کیا‘ اور آپ کے رب ہونے کا دعوی کرنے لگے۔ ان لوگوں کوآپ نے آگ میں جلا ڈالا تھا۔

ان میں سے ایک دوسرا گروہ ایسا بھی تھا جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کااظہار کیا ؛ ان کا سرغنہ عبد اللہ بن سباء تھا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے قتل کرنا چاہتے تھے ؛ مگروہ مدائن کی طرف بھاگ گیا۔

ایک گروہ آپ کی فضیلت کا قائل تھا ؛ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا:

’’جس شخص کے متعلق مجھے پتہ چلا کہ وہ مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتا ہے تو میں اس پرحد قذف قائم کروں گا ۔‘‘ [المحلی لابن حزم(۱۱؍۲۸۶)۔ ]

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تقریباً اسّی مختلف طرق سے مروی ہے انھوں نے کوفہ میں اپنے منبر پر فرمایا:

’’ لوگو آگاہ ہوجاؤ ! اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہستیاں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘

امام بخاری اور دوسرے محدثین نے ہمدان کے کچھ لوگوں سے روایت کیا ہے ؛ جو کے آپ کے خواص سمجھے جاتے تھے ؛ جن کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :

’’اگر میں جنت کا دربان ہوتا تو ہمدانیوں سے کہتا : سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ۔‘‘

ان لوگوں نے محمد بن حنفیہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا بیٹا ! کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں ؟ میں نے کہا:’’ نہیں ‘‘ فرمایا :ابوبکر رضی اللہ عنہ ‘‘ میں نے عرض کیا ان کے بعد کون ؟ فرمایا: عمر۔میں نے کہا: پھر اسکے بعد آپ ہیں ؟ فرمایا: ’’بیشک تمہارا باپ تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہے ۔ ‘‘[البخاری، ....باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’ لو کنت متخذاً خلیلاً‘‘ (ح:۳۶۷۱)]

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

((حدثنا محمد بن کثیر؛ حدثنا سفیان الثورِی، حدثنا جامِع بن شداد، حدثنا أبو یُعلی منذِر الثورِی، عن محمدِ ابنِ الحنفِیۃِ، قال: قلت لِأبِی: یا أبتِ من خیر الناسِ بعد رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم ؟ فقال: یا بنی! أوما تعرِف؟ فقلت: لا، فقال: أبو بکر، قلت: ثم من؟ قال: ثم عمر۔ ))

’’محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:اے میرے اباجی! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا بیٹا ! کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں ؟ میں نے کہا:’’ نہیں ‘‘ فرمایا : ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ‘‘ میں نے عرض کیا: ان کے بعد کون ؟ فرمایا : ’’عمر رضی اللہ عنہ ۔‘‘

یہ باتیں آپ اپنے بیٹے سے کہہ رہے ہیں جس سے کوئی تقیہ بھی نہیں کررہے۔اور اپنے خواص لوگوں کو بتا رہے ہیں اوراس انسان کو سزادینے کا اعلان کرتے ہیں جو آپ کو حضرات شیخین پر فضیلت دیتا ہے ؛ آپ کی نظر میں وہ تہمت باز ہے۔ جب کہ متواضع کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان لوگوں کو سزا دے جو آپ کو حضرات شیخین پر فضیلت دیتا ہو‘ اس لیے کہ وہ حق بات کہہ رہا ہے ؛ اورنہ ہی اسے مفتری [تہمت باز ] کہنا جائز ہوتا ۔‘‘

جو کوئی بھی آپ سے افضل تھا ؛ خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے ہو یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ؛ وہ آپ سے بڑا عالم بھی ہے ۔ اس لیے کہ فضیلت کی اصل بنیاد علم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ [الزمر۹]

’’فرما دیجیے: کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے۔‘‘

اس مسئلہ پر دلائل بھی بہت زیادہ ہیں اور علماء کرام کا کلام بھی بہت زیادہ ہے ۔