Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

[حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی؟]:

  امام ابنِ تیمیہؒ

[حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی؟]:

[اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اَقْضَاکُمْ عَلِیٌّ۔‘‘

’’سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔‘‘ اور فیصلہ کرنا علم خصومات و دین کو مستلزم ہے۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں حدیث:’’اَقْضَاکُمْ عَلِیٌّ‘‘ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی اس کی کوئی اسناد معلوم ہیں تاکہ اس سے احتجاج کیا جا سکے۔ اس سے یہ حدیث صحیح تر ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حلال و حرام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔‘‘ [سنن ترمذی، کتاب المناقب ، باب مناقب معاذ بن جبل و زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ ما(ح:۳۷۹۰،۳۷۹۱)، سنن ابن ماجۃ، المقدمۃ۔ باب فضائل خباب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۱۵۴)۔]

حلال و حرام کا علم دین اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے؛ یہ علم حلال و حرام سے زیادہ علم قضاء کو شامل ہے۔ شیعہ کی ذکر کردہ حدیث سنن مشہورہ اور معروف مسانید میں سے کسی ایک میں بھی صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ مندرج ہی نہیں ۔یہ جس اسناد کے ساتھ مروی ہے اس میں متہم بالکذب راوی پائے جاتے ہیں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’عَلِیٌّ اَقْضَانَا ‘‘ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہ میں ایک بڑے قاضی تھے۔‘‘ 

بیشک قضاء فصل خصومات کو کہتے ہیں ۔یہ ظاہر کے اعتبار سے ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلہ حقیقت حال کے برعکس صادر کیا جاتا ہے، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’تم میرے پاس فصل خصومات کے لیے آتے ہو۔ اس بات کا احتمال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنا نقطہ نظر زیادہ وضاحت سے بیان کر سکتا ہو اور میں جس طرح سنوں اس اعتبار سے اس کے حق میں فیصلہ صادر کردوں ۔پس یاد رکھو جس شخص کے لیے میں نے اس کے مسلمان بھائی کے حق میں سے کچھ فیصلہ کر دیا؛تو وہ اسے نہ لے۔بیشک میں نے اسے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیاہے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الشہادات باب من اقام البینۃ بعد الیمین(ح:۲۶۸)، صحیح مسلم، کتاب الأقضیۃ، باب بیان ان حکم الحاکم لا یغیر الباطن، (ح: ۱۷۱۳)۔]

اس حدیث میں سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ آپ کے فیصلہ کر دینے سے حلال چیزحرام ہو جاتی ہے نہ حرام چیز حلال ٹھہرتی ہے۔حلال و حرام کا علم ظاہر و باطن دونوں کو شامل ہے ۔ جو حلال و حرام کا بڑا عالم ہو وہ دین کا بڑا عالم ہے۔

مزید برآں یہ کہ قضا کی دو اقسام ہیں : ۔ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ دو فریق جھگڑ رہے ہوں ان میں فیصلہ کیا جائے ۔ یعنی ایک انسان کسی چیز کا دعوی کررہا ہے اوردوسرا اس کا منکر ہے ؛ تو ان دونوں کے مابین فیصلہ ثبوت کے اعتبار سے ہوگا۔

دوسری قسم یہ ہے کہ : اس میں کسی کو انکار نہیں ۔ بلکہ ایک دوسرے کے حق کااعتراف کررہے ہیں ؛ لیکن ان کو علم نہیں کہ دوسرے کا کیا استحقاق ہے ۔ مثلاً وراثت میں جھگڑا؛یا زوجین کا آپس میں حقوق کا جھگڑا یا دو شریک کاروں کا باہمی معاملہ ۔

پس یہ علم بھی علم حلال و حرام کا ایک باب ہے ۔جب انہیں کوئی ایسا آدمی فتوی دیدے جس کی بات پر دونوں فریق راضی ہوں تو یہ ان کے لیے کافی ہے۔ پھر ان کے درمیان فیصلہ کرنے کی نوبت نہیں آتی۔فیصلہ کرنے والے کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب وہ اس کا انکار کررہے ہوں ۔ غالب طور پر یہ فسق و فجور کی وجہ سے ہوتا ہے او رکبھی نسیان کی وجہ سے بھی۔

پس جن لوگوں کا قضاء کے ساتھ تعلق نہیں ہے ؛ انہیں اس علم کی ضرورت بھی نہیں ؛ سوائے چند نیک افراد کے۔جب کہ حلال و حرام کے علم کی ضرورت تمام لوگوں کو ہوتی ہے خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فیصلے کرنے کے لیے قاضی بنایا تو ایک سال تک آپ کے پاس دو آدمی بھی اپنا جھگڑا لے کر نہیں آئے۔

اگر اس قسم کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں کو جمع وشمار کیا توان کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ تو پھر اس کی اُس حلال و حرام کے سامنے کیا اہمیت ہے جو دین اسلام کی اصل بنیاد ہے ۔ جب کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حلال و حرام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے ]۔

اس کی سند صحیح تر اور دلالت میں صاف واضح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسری روایت سے یہ استدلال کرنے والا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے ؛ جاہل انسان ہے ۔تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے عالم تھے۔ حالانکہ وہ حدیث جس میں حضرت معاذ اورحضرت زید رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے بعض علماء اسے ضعیف کہتے ہیں اور بعض اسے حسن کہتے ہیں ۔اور جس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے ‘ وہ سرے سے ضعیف اور باطل ہے۔

[حدیث ’’ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ‘‘ کی حیثیت ]:

شیعہ کی پیش کردہ حدیث’’اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُہَا‘‘ حد درجہ ضعیف اورواہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگرچہ اسے ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ تاہم یہ موضوعات میں شمار کی جاتی ہے۔[سنن ترمذی کتاب المناقب، باب (۲۰؍۷۳)، (حدیث:۳۷۲۳)، بلفظ ’’ انا دار الحکمۃ و علی بابھا‘‘ و سندہ ضعیف ، شریک قاضی راوی مدلس ہے۔ مستدرک حاکم(۳؍۱۲۶،۱۲۷) باسناد أخر ضعیفۃ۔]

ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اس کے جملہ طرق موضوع ہیں ۔‘‘

ا س کا متن خود اس کے موضوع ہونے کی شہادت دیتا ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات علم کا شہر ہوئی اور اس کا دروازہ صرف ایک(حضرت علی رضی اللہ عنہ ) ہوئے‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات کے مبلغ صرف علی رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ اس سے دین اسلام کا فساد لازم آتا ہے۔اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم پہنچانے کے لیے صرف ایک شخصیت کا ہونا جائز اور کافی نہیں ؛ بلکہ آپ کے اقوال و ارشادات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اتنے کثیر التعداد لوگ ہونے چاہئیں کہ جن سے غائب لوگوں تک خبر متواتر حاصل ہو۔ اس لیے کہ خبر واحد سے قرائن کے بغیر علم حاصل نہیں ہوتا۔ اور کبھی خبر واحد اکثر لوگوں سے منتفی یا مخفی ہوتی ہے۔ پس انہیں وہ علم حاصل نہیں ہوتا جو قرآن اور احادیث [وسنن] متواترہ سے حاصل ہوتا ہے۔

اگر شیعہ کہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ واحد ہیں ، مگر معصوم ہیں ، اس لیے آپ کی خبر سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ شیعہ پہلے آپ کا معصوم ہونا ثابت کریں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معصومیت ان ہی کے قول سے ثابت نہیں ہو جائے گی ؛اس دعوی سے پہلے عصمت کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ اس طرح کرنے سے دور لازم آتا ہے۔

اجماع سے بھی آپ کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا، اس لیے کہ آپ کی معصومیت پر اجماع منعقد نہیں ہوا ۔ اگرچہ امامیہ کے ہاں اجماع اس لیے حجت ہے کہ اس میں امام معصوم کی رائے بھی شامل ہے۔ مگر بات پھر وہیں پہنچتی ہے کہ صرف اس دعوی کرنے سے کام نہیں بنے گا اس پر معصوم ہونے کے لیے ثبوت بھی چاہیے۔ پس معلوم ہوا کہ اگر دعوی عصمت حق ہوتا تو امام معصوم کے خبر دینے کے علاوہ بھی کسی ذریعہ سے اس کا علم ہونا ضروری تھا۔

پھر یہ بھی ہے کہ اگر اس شہر علم کا آپ کے علاوہ کوئی دروازہ نہ بھی ہو تو تب بھی اس سے نہ ہی عصمت ثابت ہوگی اورنہ ہی باقی امور دین۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت کسی زندیق نے گھڑ لی ہے ؛ جسے جاہل لوگ مدح خیال کرتے ہیں ؛ حالانکہ اس سے اسلام میں قدح لازم آتی ہے ؛ اس لیے کہ دین اسلام صرف ایک فرد واحد سے نہیں پھیلا۔

پھر یہ بات متواتر حقائق کے بھی خلاف ہے۔یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتاب و سنت کا جو علم اکناف عالم پر محیط اسلامی شہروں میں پھیلاتھااور اس سے سب کرۂ ارضی معمور ہو چکاتھا؛ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بڑا کردارہے۔ اہل مکہ اور اہل مدینہ کے احوال تو صاف ظاہر ہیں [ کسی بیان کی ضرورت نہیں ]۔یہی حال اہل بصرہ اور شام کا بھی ہے۔ان شہروں کے علماء کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منفرد روایات حد درجہ قلیل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم کی غالب روایات اہل کوفہ کے ہاں ہیں ۔

اہل کوفہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے بھی پہلے قرآن وسنت جانتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ تو بہت بعد میں آئے۔

[پھر یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا واحد دروازہ تھے]۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فقہاء مدینہ [میں اجلہ التابعین وہ تھے]جنہوں نے خلافت فاروقی میں اکتساب علم کیا۔[ جو خلافت عثمانی سے بھی پہلے کے تربیت یافتہ تھے نہ کہ علوی خلافت کے۔ایسے ہی] حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اہل یمن کو جو تعلیم دی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعلیمات سے بہت بڑھ کر تھی؛ اوروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ عرصہ یمن میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ اہل یمن کی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایات سے بڑھ کرہیں ۔حضرت شریح اور دوسرے اکابر تابعین نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ وارد کوفہ ہوئے تو[ وہاں جلیل القدر تابعین کی خاصی تعداد موجود تھی۔ مثلاً ]شریح وہاں کے قاضی تھے؛انہوں نے اور عبیدہ سلیمانی [اوردوسرے فقہاء جیسے علقمہ، مسروق اور ان کے نظائر و امثال] نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر تربیت حاصل کی تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوفہ آنے سے پہلے کوفہ اور دوسرے شہروں میں اسلام اور اسلامی تعلیمات پھیل چکے تھے۔

امام محمد بن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’روافض میں سے بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ اعلم الناس تھے‘‘حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ کسی صحابی کے علم کا پتہ دوباتوں میں سے کسی ایک بات سے چلتا ہے؛ ان کے علاوہ کوئی تیسری بات نہیں :

پہلی بات:اس کے فتاویٰ و روایات کی تعداد کس قدر ہے۔

دوسری بات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حد تک اسے مختلف کاموں پر مامور کیا۔‘‘

یہ بات انتہائی محال اورباطل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے انسان کو ذمہ داری سونپیں جسے کوئی علم ہی نہ ہو ۔ یہ [ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی] وسعت علم کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اس بات کو جانچ پرکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی پوری بیماری کے دوران نمازوں کا امام مقرر کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت حضرت عمر، علی، ابن مسعود،ابی ابن کعب اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔یہ غزوہ تبوک کو جاتے وقت جب آپ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کرنے سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ مدینہ میں اس وقت صرف[معذورلوگ اور] بچے اور عورتیں تھیں ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کرنے سے یہ بات ضرورت کے تحت وجوباً معلوم اور واضح ہوتی ہے کہ آپ دیگر صحابہ کی نسبت نماز کے مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے اور نماز دین اسلام کا رکن رکین ہے۔ مزید برآں کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ و صدقات کی وصولی پر بھی مقرر فرمایا تھا؛ تو یہ بھی ضرورت کے تحت وجوباً معلوم ہوگیا کہ آپ کو زکوٰۃ وصدقات کے احکام کا بھی علم تھا۔ جیسے کہ آپ کے علاوہ دوسرے کافی تعداد میں صحابہ اس علم سے بہرہ ور تھے۔ ان صحابہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا علم زیادہ ہی ہوسکتا ہے کم نہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو بھی زکوٰۃ کی وصولی پر عامل مقرر کیا تھا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی انسان کو ذمہ داری تفویض کرتے تھے جسے اپنی ذمہ داری سے متعلق شرعی مسائل کا علم ہوتا تھا۔ زکوٰۃ نماز کے بعد اسلام کا ایک اور بڑا رکن ہے۔

ہمارے اس دعوی پر کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسائل زکوٰۃ کا پورا پورا علم تھا ؛ دلیل یہ ہے کہ زکوٰۃ کے بارے میں وارد صحیح احادیث جن کے خلاف کرنا جائز نہیں ‘ وہ حضرت ابوبکراور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں ۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سند سے منقول روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ اور ان میں ایسی چیزیں بھی ہیں جنہیں جملہ طور پر فقہاء نے ترک کردیا ہے ۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پچیس اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔

علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کیا تھا ۔ اس سے ضرورت کے تحت وجوباً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ حج کے مسائل کو دیگر صحابہ کی نسبت بہتر طور پر اور زیادہ جانتے تھے۔حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔

علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لشکر کا سپہ سالار بھی بنایا تھا۔ اس سے صحت کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ دیگر تمام سالار مجاہدین کی طرح جہاد کے احکام و مسائل سے بھی آگاہ تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذمہ داری صرف اہل علم کو تفویض فرمایا کرتے تھے۔ اوراس ضمن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا پایہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر سالاران لشکر سے کسی طرح بھی فروتر نہ تھا۔ جب علمی مسائل صلوٰۃ و زکوٰۃ اور حج کے احکام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تفوق ثابت ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کے مسائل جاننے میں آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہ تھے تو اس سے آپ کا علمی پایہ وا ضح ہو جاتا ہے۔

جہاں تک روایت اور فتوی کا تعلق ہے توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآپ نے صرف دو سال چھ ماہ کا عرصہ مہلت پائی۔ اس عرصہ میں آپ حج اور عمرہ کے علاوہ مدینہ طیبہ سے باہر نہیں نکلے۔ اور لوگوں کو آپ کے پاس موجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کی ضرورت بہت ہی کم پیش آئی۔ اس لیے کہ آپ کے گرد و نواح میں جتنے بھی لوگ تھے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا۔پس یہی وجہ ہے کہ آپ سے منقول روایات کی تعداد دو سو بیالیس ہے۔جو کہ سند کے ساتھ منقول ہیں ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات کی تعداد پانچ سو ڑسٹھ مسند حدیث ہے۔ان میں سے پچاس احادیث صحیح ہیں ۔حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریبا تیس سال کا عرصہ زندہ رہے۔ اس عرصہ میں آپ صفین سے بھی گزرے اور کئی سال کوفہ میں بھی گزارے۔ بصرہ بھی گئے اور مدینہ میں بھی لمبا عرصہ گزارا۔ اگر ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی کی نسبت آپ کی زندگی اور شہر شہر اور بستیوں میں آمدو رفت کو شمار کریں کہ آپ سے احادیث سننے والے کس کثرت سے تھیاور پھر ان کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایات سے مقابلہ کریں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فتاوی سے تقابل کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایات اور فتاوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ بنتے ہیں ۔ اور ہر ذی علم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت کئی گنا زیادہ علم تھا۔

اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے جس نے کم عمر پائی ہے اس سے منقول روایات کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اور جس نے طویل عمر پائی اس سے روایات بھی کثرت کے ساتھ منقول ہیں ۔ سوائے ان چند صحابہ کے جن کی طرف سے دوسروں نے لوگوں کوتعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد سترہ سال اور چند ماہ تک زندہ رہے۔ مسند عمر میں پانچ سو تہتر احادیث ہیں ۔ ان میں سے تقریبا پچاس احادیث صحیح ہیں ۔ یعنی جتنی صحیح احادیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ تو اتنے بڑے عرصہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیادہ روایات کی تعداد صرف انچاس ہے۔ اور جب کہ صحیح میں صرف ایک یا دو احادیث زائد ہیں ۔

جب فقہ کے ابواب کو دیکھا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتاوی ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی کے برابر ہیں ۔ اور جب ہم ان کے درمیان مدت کی نسبت نکالتے ہیں اور مختلف شہروں میں گردش کو دیکھیں اور پھر احادیث کا مقابلہ کریں اور فتاوی کے مقابلہ میں فتاوی کو دیکھیں توہر باشعور اورعقل مند کو اس بات کا علم ضروری حاصل ہوجائے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت کئی گنا زیادہ علم تھا۔

ہم مسند عائشہ میں دیکھتے ہیں کہ دو ہزار دو سو دس مسند احادیث ہیں ۔ اور حضرت ابوہریرہ کی مسند میں پانچ ہزار تین سو چوہتر مسند احادیث ہیں ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسند ابن عمر میں اور مسند انس میں مسند عائشہ کے قریب قریب احادیث ہیں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسند جابر اور مسند ابن عباس میں سے ہر ایک میں پندرہ سو سے زیادہ احادیث ہیں ۔ اور حضرت ابن مسعود سے آٹھ سو سے کچھ زیادہ مسند احادیث مروی ہیں ۔

یہ جتنے لوگوں کا بھی ہم نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی سب کے فتاوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی سے زیادہ ہیں ۔ اس سے اس جاہل کا یہ قول باطل ہو گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے عالم تھے ۔

یہاں تک کہ اس نے کہا ہے :اگر وہ یہ کہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خمس پر اور یمن میں قضا پر عامل بنایا تھا؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے:ہاں ! حضرت ابوبکر کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کا مشاہدہ علم میں بہت زیادہ قوی اور ثابت تھا اس علم کی نسبت سے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں تھا۔ ایسے رسول اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کئی سرایا پر عامل بنایا تھا جن میں مال خمس بھی حاصل ہوا۔ اس حکم کے اعتبار سے بغیر کسی شک و شبہ کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا علم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم کے مساوی ہوا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کوئی ذمہ داری اسی وقت تفویض کرتے تھے جب اسے مطلوبہ ذمہ داری کے متعلق علم بھی ہوتا۔ اور یہ بھی صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتوی دیا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ کو اس چیز کا علم بھی تھا۔ اور محال ہے کہ ان دونوں حضرات سے بڑھ کر کوئی دوسرا عالم موجود ہو مگر پھر بھی اس اہم منصب پر یہ دوحضرات کام کرتے رہیں ۔ جہاں تک یمن کی قضاکا تعلق ہے تو رسول اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو بھی قاضی بنا کر روانہ فرمایا تھا۔ اور اس میں منصب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شریک کار کئی دوسرے لوگ بھی ہیں ان میں سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی ہیں ۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غالب طور پر پوری جمہور امت سے علم میں منفرد ہیں ۔

[خلفاء اربعہ کے مسائل و فتاویٰ میں موازنہ]:

پھر یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں ؛ نشست وبرخاست گفت و شنیدوقیام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت میں رہا کرتے تھے ۔اور اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتاوی و احکام سے بذات خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ آگاہ تھے۔توصحت کے ساتھ بطور ضرورت معلوم ہوا کہ آپ احکام و مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے۔ علم کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسروں پر فائق نہ ہوں یا کم از کم اس میں دوسروں کے برابر نہ ہوں ۔اس سے روافض کا یہ دعوی باطل ثابت ہوگیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے بڑے عالم تھے۔ وللّٰہ الحمد۔

[نیوش پرگوش علی رضی اللہ عنہ ]:

[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: 

﴿وَتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ ﴾ (الحاقۃ 12)

’’ اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ حدیث اہل علم کے ہاں بالاتفاق موضوع ہے۔اور یہ بات بھی اضطراری طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر گزیہ نہیں ہے کہ صرف ایک کان کے علاوہ کوئی دوسرا اسے یاد نہ رکھے ؛ اور نہ ہی اس سے کسی متعین شخص کے کان مراد ہیں ۔ یہاں پر مقصود صرف نوع ہے۔ اس میں ہر یاد رکھنے والا کان شامل و داخل ہے۔ 

[فطانت ِعلی رضی اللہ عنہ ]:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نہایت ذہین و فطین اور علم کے بہت بڑے حریص تھے ؛آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے؛دن رات میں ہر وقت آپ کی صحبت میں رہتے ۔ بچپن سے لے کر تا وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ کامل صحبت کا شرف حاصل ہوا ۔ ‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ بات کیسے ثابت ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ ذہین اور ان سے زیادہ شائق علم تھے؟ اور آپ نے ان دونوں حضرات سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اُمم سابقہ میں مُلہَم موجود تھے، اگر میری امت میں کوئی ملہم من اللہ ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘

ملہم یا محدث وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف الہام ہو؛ یہ بشری تعلیم سے زائد ایک قسم کی تعلیم ہے۔

[بخاری ومسلم کی متعدد احادیث سے بھی حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے علم و فضل پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً]متفق علیہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مجھے خواب میں ایک پیالہ پیش کیا گیا جس میں دودھ تھا، وہ میں نے پی لیا، یہاں تک کہ سیر ہونے کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہرہونے لگا، پھرجو بچ گیا میں نے وہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ نے عرض کیا:’’ پھر آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ فرمایا:’’ دودھ سے علم مراد ہے۔‘‘

ایسی کوئی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نہیں ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

’’میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے قمیصیں پہن رکھی ہیں ، بعض کی قمیص سینہ تک پہنچتی ہے اور بعض کی اس سے نیچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب پیش کیے گئے تو وہ قمیص کا دامن کھینچتے ہوئے گزرے۔ لوگوں نے پوچھا:’’ پھر آپ نے اس کی کیاتعبیر کی؟ فرمایا۔ قمیص سے دین مراد ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب تفاضل اہل الایمان فی الاعمال(ح:۲۳)، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۹۰)]

یہ دونوں احادیث صحیح ہیں جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم و دین کی شہادت دیتی ہیں ۔ ایسی کوئی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے منقول نہیں ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

’’ علم کے نو حصے رخصت ہو گئے اور ایک حصہ باقی رہا، جس میں سب لوگ شریک ہیں ۔‘‘ [اسد الغابۃ(۴؍۱۶۶)۔]

اور اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابہ سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا التزام کیا کرتے تھے۔ ان کے بعد پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ آتا ہے۔ آپ دیگر تمام صحابہ کی بہ نسبت بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھا کرتے۔ [اور مسلمانوں کے معاملات میں مشاورت کرتے]

صحیحین میں ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:

’’ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نعش کو چارپائی پر رکھا گیاتو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اس کااحاطہ کر لیا اور آپ کے لیے دعائے خیر کرنے اور توصیفی کلمات کہنے لگے ۔ اتنے میں ایک شخص نے اچانک آکر میرا کندھا تھام لیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحم کی دعا فرمائی اور کہا:’’ اے عمر! تو نے اپنے پیچھے کوئی آدمی نہیں چھوڑا جس کے اعمال کو لے کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا مجھے تجھ سے عزیز تر ہو۔‘‘ہاں اللہ کی قسم ! میرا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں ساتھیوں ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر) کے ساتھ ملا دے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اکثر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اورابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آئے،میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوئے؛میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نکلے۔‘‘مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں ساتھیوں کی ملاقات نصیب کرے گا۔‘‘[یہ روایت بھی صحیح ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں : البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۶۷۷۔۳۶۸۵) صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل عمر رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۹)۔]

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رات کو بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مسلمانوں کے مسائل میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔

جن مسائل میں حضرت عمر اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کا اختلاف ہوا ہے ؛ اکثر طور پر ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہی راجح ہوا کرتا تھا۔ مثلاً حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے اس کی عدت کا مسئلہ(عدت ِوفات اور وضع حمل میں سے جس کی مدت بعید تر ہو) ؛ اورحرام کا مسئلہ ۔جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل مدینہ کا مذہب اہل عراق کے مذہب کی نسبت زیادہ راجح ہے۔

اہل مدینہ غالب طور پر حضرت عمر اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کی اتباع کرتے ہیں جبکہ اہل عراق حضرت ابن مسعود اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کی اتباع کرتے ہیں ۔صورت حال یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو بات بھی کہتے تو اس میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جو فتوی ان لوگوں کیساتھ تھا؛ وہ ان کے انفرادی فتوی سے زیادہ قوی ہے ۔جیساقاضی عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ نے آپ سے کہا تھا:

’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفقہ رائے آپ کے انفرادی قول سے ہمیں زیادہ عزیز ہے۔‘‘[تخریج گزرچکی ہے]

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیتے توہم اندر داخل ہوجاتے۔ہم آپ کو سہل ونرم پاتے۔آپ کے پاس ایک مسئلہ پیش ہواکہ:ایک آدمی اپنے والدین اور بیوی اور اس کے والدین کو چھوڑ کر مر گیا ہے(اس کی میراث کا کیا حکم ہے؟)۔توآپ نے فرمایا:’’ لِلأمِ ثلث الباقِی۔‘‘’’ ماں کے لیے باقی کا تیسرا حصہ ہے ۔‘‘پھرحضرت عثمان وعلی وابن مسعود وزید رضی اللہ عنہم نے بھی [اس مسئلہ میں ]آپ کی اتباع کی۔‘‘

مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ تابعین میں سب سے بڑے عالم تھے۔آپ کے فقہ کی اصل بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان سے اس بارے میں سوال کیا کرتے تھے۔

ترمذی میں [ ہی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ]ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔[سبق تخریجہ]

یہ بھی جان لیجیے کہ اہل کوفہ اور صحاب ابن مسعود، جیسے کہ علقمہ، الاسودِ، شریح، والحارِث بن قیس، وعبیدہ السلمانی، ومسروق، وزِر بنِ حبیش، ابی وائل رحمہم اللہ ،اور ان کے علاوہ دیگر بہت سارے علماء ایسے تھے جو عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے علم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم پر فضیلت دیتے تھے۔ اور ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے برعکس حضرت عمر اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔