امام حاکم نیشاپوری اور اہل تشیع کا الزام
علمائے اہل سنتامام حاکم نیشاپوریؒ اور اہلِ تشیع کا الزام:
امام حاکمؒ کے متعلق محدثین کی رائے یہ تھی کہ وہ تشیع کی طرف مائل تھےچند محدثین کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
أنبأنی أحمد بن سلامة، عن محمد بن إسماعيل الطرسوسی، عن ابن طاهر: أنه سأل أبا إسماعيل عبد الله بن محمد الهروی، عن أبی عبدالله الحاكم، فقال: ثقة فی الحديث ، رافضی خبيث قلت: كلا ليس هو رافضيا، بل يتشيع۔
ترجمہ: ابنِ طاہر نے ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد الہروی سے ابو عبداللہ حاکم کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حدیث میں ثقہ ہیں رافضی خبیث ہیں میں نے کہا: ہرگز نہیں وہ رافضی نہیں بلکہ شیعہ تھے۔
أخبرنا المؤمل بن محمد وغيره كتابة قالوا: أخبرنا زيد بن الحسن، أخبرنا أبو منصور القزاز، أخبرنا أبوبكر الخطيب قال: كان أبو عبدالله بن البيع الحاكم ثقة وكان يميل إلى التشيع۔
ترجمہ: ابو بکرؒ خطیب فرماتے ہیں کہ ابو عبداللہ بن البیع حاکم ثقہ ہیں البتہ شیعہ کی طرف مائل تھے۔
(سیر اعلام النبلاء الطبقۃ الثانیہ والعشرون: جلد، 17 صفحہ، 163)
فائدہ: یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب شیعہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے تو امام حاکمؒ اتنا بڑا محدث ہو کر شیعہ کیسے ہوسکتا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ اثناء عشری تو دائرہ اسلام سےخارج ہیں اور ہمارے ہاں عام طور پر وہی ہوتے ہیں البتہ امام حاکمؒ وہ شیعہ نہیں جو موجودہ دور میں ہیں اور دائرہ اسلام سےخارج ہیں بلکہ اس دور میں شیعہ اور رافضی ایک مخصوص نظریے والوں کا نام تھا جس کی وضاحت امام اہلِ سنت شیخ التفسیر والحدیث استاد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے یوں فرمائی ہے۔
شیعہ: اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سیدنا علیؓ کو سیدنا عثمانؓ سے افضل سمجھے تو اسے متقدمین کی اصطلاح میں شیعہ کہا جاتا ہے۔
رافضی: جو شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بغض رکھے اماموں پر وحی کے نزول کے قائل ہیں اسی طرح تحریفِ قرآن کے قائل وغیرہ ان کو رافضی کہا جاتا ہے۔
(طائفہ منصورہ: صفحہ، 8)
واللہ اعلم بالصواب
مزید پڑھیں۔