Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ حضرات کی طرف سے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنا اثر رسوخ ورعب دبدبہ سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت حاصل کی تھی اور اسلام میں قیصر وکسری کی سنت کو رائج کیا تھا جبکہ انہیں یزید کے فسق و فجور کا علم تھا۔

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

شیعہ حضرات کی طرف سے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنا اثر رسوخ ورعب دبدبہ سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت حاصل کی تھی اور اسلام میں قیصر وکسری کی سنت کو رائج کیا تھا جبکہ انہیں یزید کے فسق و فجور کا علم تھا۔ 

الجواب اہلسنّت

اس سے پہلے کہ یزید کی ولی عہدی کے متعلق کچھ عرض کریں ایک دو باتیں بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں 

 پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ وحی اور نبوت کا دروازہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے ساتھ بند ہوچکا تھا خلافت کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور ایک اجتہادی مسئلہ میں رائے کا اختلاف ایک فطری بات ہے گزشتہ کسی الزام میں اس کی کچھ مثالیں عرض کر چکے ہیں اور ہم یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ اجتہادی مسائل میں ہر کسی کی رائے میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے کیونکہ معصوم عن الخطاء صرف انبیاء کی ذات ہے سلسلے میں اہلسنت کا موقف یہ ہے کہ ہر صحابی سے غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے لیکن ہم اس خطاء کو اجتہادی خطا سمجھیں گے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت کی نیت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے اہلسنت کا متفقہ فیصلہ ہے الصحابہ کلھم عدول

ارشاد باری تعالی ہے کل وعد اللہ الحسنی

یزید کی ولی عہدی کے بارے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو صحابہ میں انتہائی ذہین فہیم اور مدبر مانے جاتے تھے مشہورہ دیا تھا اور یہ اصحابِ شجرہ میں سے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زبردست مداحوں اور حامیوں میں سے تھے  انہوں نے گزشتہ پانچ برس کے کشت و خون اور آپس کی خانہ جنگی کی وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اپنی جانشینی کا مسئلہ اپنی زندگی میں ہی طے کر جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے بعد پھر وہی اختلافات پیدا نہ ہو جائیں اور انہوں نے ہی مشورہ دیا کہ اس وقت بنو امیہ پورے ملک پر چھائے ہوئے ہیں وہ کسی اور خاندان میں خلافت کی منتقلی کو پسند نہیں کریں گے اس لئے امت کو آئندہ کی خونریزی سے بچانے کے لئے یزید کو نامزد کر دیں۔ اب کوئی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ پر لالچ اور چاپلوسی کا فتوی لگا دے لیکن ہم یہ رائے نہیں دے سکتے کیوں کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ انہوں نے امت مسلمہ اور دین اسلام کی بھلائی کی نیت سے اور سابقہ تلخ تجربات کی بنیاد پر یہ مشورہ دیا تھا۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ جن حضرات نے یزید کی ولی عہدی سے اختلاف کیا تھا انہوں نے بھی نیک نیتی سے امت کی بھلائی کے پیش نظر کیا تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پانچ حضرات کے علاوہ حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس  حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر، حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہم؛ امت کی عظیم اکثریت نے بیعت قبول کر لی تھی جس میں کثیر تعداد صحابہ کرام کی بھی تھی۔ اب کوئی ان سب کو بے ضمیر قرار دے یا لالچ اور خوف میں انہوں نے اپنے ایمان بیچ دیے تھے (نعوذباللہ )

اب ہم کسی کی زبان کو تو پکڑ نہیں سکتے لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ سب سے پہلے اس آدمی حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابرین بنی ہاشم آئیں گے جنہوں نے دولت کے عوض حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ خلافت فروخت کر دی تھی۔ (نعوذباللہ* لیکن ہم اہلسنت ان سب کو نیک نیت سمجھتے ہیں۔ جو بھی صحابہ کرام اس وقت موجود تھے سب کے پیش نظر امت کی بھلائی تھی اور پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے  حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جو ایثار فرمایا تھا وہ قیامت تک امت پر احسان عظیم ہے۔ 

سیرت نبویﷺ میں ایسے کافی واقعات موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہادی مسائل میں اللہ کے حکم کے مطابق  وشاورھم فی الامر صحابہ سے مشورہ لیا تھا اور پھر اپنی ذاتی رائے کے خلاف اکثریت کی رائے پر فیصلہ دیا گیا ہے مسلمان جنگ اُحد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر صرف دفاع کرنا چاہیے لیکن اکثر کی رائے پر باہر نکل کر جنگ لڑی ہے۔ رسول اللہ اپنی ذاتی رائے پر اکثریت کی رائے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تو پھر کسی اور کی انفرادی رائے کی اکثریت کے مقابلے میں کیا اہمیت رہ جاتی ہے لیکن اہل سنت کیوں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کو بھی اپنا ایمان سمجھتے ہیں اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کی رائے کو بھی اخلاص نیت کی بدولت درست خیال کرتے ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیٹے کو خلیفہ بنا کر اسلام میں قیصر وکسریٰ کی سنت کو رائج کیا ہے یہ سراسر غلط ہے۔ قرآن مجید احادیث صحیح اور سلف صالحین کے اقوال میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ خلیفہ کا کوئی رشتے دار باپ بیٹا اور بھائی خلیفہ نہ بنایا جائے بلکہ اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے۔ 

وورث سلیمان داود حضرت سلیمان نبوت اور سلطنت میں اپنے باپ حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بنے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب اپنے بیٹے کی خلافت کے لیے کہا گیا تو انھوں نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ شریعت میں ناجائز ہے اور قیصر و کسریٰ کی سنت ہے بلکہ خلافت کے فرائض اور ذمہ داری کے بوجھ کو نہ اٹھانے کا عُذر پیش کیا اس کا دوسرا اور آسان جواب یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی سنت پر عمل کیا تھا مختصر یہ کہ مسلمانوں کی اکثریت نے وقتی مصلحت اور ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے یزید کی خلافت پر اتحاد و اتفاق کیا تھا کیونکہ بنی امیہ یزید کے علاوہ کسی اور کی ولیعہدی پر رضامند ہونے والے نہیں تھے اور دوسری بات یہ ہے کہ امیر معاویہ کے زمانے تک یزید سے کوئی فسق وفجور ظاہر نہیں ہوا تھا انہوں نے اس کی صلاحیت اور عمدگی کے خیال سے خلیفہ بنایا تھا آئندہ کے حالات کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو علم نہیں تھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض قبائل کے ایمان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی درخواست پر چند صحابہ کرام کو تعلیم کے لئے بھیج دیا تھا مگر ان لوگوں نے انہیں شہید کر دیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفیوں پر اعتماد کیا لیکن وہ لوگ بضد ہو گئے اور قافلہ حسین کو شہید کر دیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے اعتماد کے بعد نقصان کا ذمہ دار نہیں کہا جا سکتا اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یزید پر نیک نیتی کا گمان کرنے سے بعد کے واقعات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف جو تاریخی روایات اور من گھڑت قصے کہانیاں اور افسانے بیان کیے جاتے ہیں وہ سب مردود ہیں کیونکہ صحابہ کرام کے ایمان و تقویٰ اور طہارت و عدالت پر سینکڑوں آیات اور احادیث صحیحہ شاہد عدل ہیں۔