حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کا فرمان
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کا فرمان:
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے لئے صرف وحدانیت پر ایمان کافی ہے، رسالت پر یقین ضروری نہیں ۔ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: قال الله تعالىٰ ان الذين يكفرون بالله ورسله ويريدون ان يفرقوا بين الله ورسله ويقولون تؤمن ببعض ونكفرببعض ويريدون ان يتخذوا بين ذلك سبيلا، اولئك هم الكفرون حقا، واعتدنا للكفرين عذا مهينا، والذين آمنوا بالله ورسله ولم يفرقوا بين احد منهم اولئك سوف يؤتيهم اجورهم ، وكان الله غفورا رحيما:
ترجمہ: جو لوگ منکر ہیں اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسولوں سے اور چاہتے ہیں کہ فرق نکالیں اللہ تعالیٰ میں اور اس کے رسولوں میں اور کہتے ہیں ہم مانتے ہیں بعضوں کو اور نہیں مانتے بعضوں کو اور چاہتے ہیں کہ نکالیں اس کے بیچ میں ایک راہ، ایسے لوگ وہی ہیں اصل کافر ، اور ہم نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے واسطے ذلت کا عذاب۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر اور جدا نہ کیا ان میں سے کسی کو، ان کو جلد دے گا ثواب اور اللہ تعالیٰ ہے بخشنے والا مہربان ۔
فائدہ نمبر 1: آیت مذکورہ بالا سے معلوم ہو گیا کہ نہ فقط اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کا ایمان بغیر رسول کے ایمان کے معتبر ہے اور نہ فقط رسول پر ایمان بغیر اللہ تعالیٰ کے، اور اس کی توحید کے ایمان معتبر ہے اور نہ بعض رسولوں پر ایمان اور بعض پر عدم ایمان معتبر ہے ، اس لئے یہ قول کہ صرف *لا اله الا اللہ:* کا قائل یا عامل قابل نجات ہے اس کو اقرار بر سالت کی ضرورت نہیں باطل ہے۔
فائدہ نمبر 2: ہر نص میں بہت سی قیود بوجہ ظہور ملحوظ ہوتی ہے جن کو بسا اوقات ذکر نہیں کیا جاتا اور وہ بالاتفاق ضروری ہوتی ہے، مثلاً: اس حدیث شریف میں قلبی یقین اور تصدیق کا تذکرہ نہیں ہے فقط یہی کہا گیا ہے من قال لا اله الا الله دخل الجنة: تو کیا اگر کسی نے یہ کلمہ استہزاء اور مذاق کے طور پر یا کسی کے کلام کی نقل کے طور پر کہا تو وہ بھی اس کا مستحق ہوگا؟ یا کسی نے مسلم جیش کے سامنے جان بچانے کیلئے یہ کلمہ قلب میں تصدیق نہیں ہے تو کیا وہ اس اجر کا مستحق ہوگا؟ یا اس کلمہ کہنے کے بعد انکار کر دیا یا کلمہ شرک کا بول دیا۔ یقیناً معلوم ہے کہ وہ توحید نجات کیلئے کافی نہیں ہے اور حسبِ تصریحات روایات و آیات قیدِ تصدیق قلبی کی ضرور لگانی ہوگی اور عدم انکار کی بھی قید ضروری ہوگی۔ اسی طرح اس روایت میں ایمان بالرسالة: کی بھی قید لگانی ضروری ہے۔جیسا کہ آیت مذکورہ سے ظاہر ہے۔اور سورۃ الحجرات میں ہے
انما المؤمنون الذين أمنوا بالله ورسله ثم لم يرتابوا وجاهدوا باموالهم وانفسهم في سبيل الله اولئك هم الصدقون:
ترجمہ : ایمان والے لوگ وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر، پھر شبہ نہ لائے اور بڑے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور اپنے جان سے،وہ لوگ جو ہیں وہی ہیں سچے ۔
لفظ انما: جو کہ صیغہ حصر ہے یہاں استعمال کیا گیا ہے۔ حدیث جبرائیلؑ میں اور حدیث وفد عبد القیس میں ایمان کی تفصیل اور تعریف اس لئے بیان فرماتے ہوئے۔
ایمان بالرسل والملائكة والكتب والقيامة والقدر:
کو ذکر فرمایا گیا ہے۔
فائدہ نمبر 3: توحید کا دعویٰ تو یہود و نصارٰی مشرکین عرب اور ہنود ہند سب کرتے ہیں مگر اسی توحید کے ساتھ یہود ۔۔۔۔۔ حضرت عزیرؑ کو بن الله: اور يد الله مغلوله: اور ان الله فقير ونحن اغنیاء: اور تجسیم وغیرہ کے قائل ہیں۔
نصاریٰ اسی توحید کے ساتھ تثلیث اور ابن اور روح القدس اور زوجہ وغیرہ کے قائل ہیں، بت پرستان ہندو نر انکار صرف خدا کے قائل ہوتے ہوئے تاروں اور عبادت غیر اللہ کے قائل ہیں، تجسیم اور حلول وغیرہ ان کے عقائد ہیں، کیا ایسی توحید قابل اعتبار ہو گی؟ اس لئے قائل من قال لا اله الا اللہ: ہی سے جو تفسیر توحید منقول ہے وہ ہی موجب نجات ہوگی اور جب اس کی تعلیم کا اعتبار کیا گیا تو تصدیق رسالت لازم آگئی ورنہ توحید حقیقی نہیں لفظی ہے، جو کہ قابل اعتبار نہیں ۔
فائدہ نمبر 4: اسی روایت میں من قال لا اله الا الله: الحديث کے جملہ طرق اگر جمع کئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ روایت مختصر واقع ہوئی ہے۔ اس میں کچھ اور بھی زیادتی ہے جو کہ راوی نے بوجہ ظہور یا اختصار یا نسان یا عدم ضرورت بعض اوقات میں چھوڑی ہے اور بعض اوقات میں ذکر کیا ہے مثلاً: مخلصاً من قلبه:بخاری شریف وغیرہ میں اسی روایت میں موجود ہے۔ دوسری روایتوں میں وانی رسول الله: بھی موجود ہے۔ اسی لئے آئمہ فن فرماتے ہیں کہ جب تک کسی روایت کو اس کے تمام طرق سے نہ دیکھا جائے جب تک معنیٰ متعین کرنے میں غلطی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ سیدنا سیوطیؒ ستر اور اسی تک کی قید لگاتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ روایت مذکورہ کے جملہ طرق کو جمع کئے ہوئے بغیر کسی معنیٰ کو متعین کرننی ناواقفی اور بے اصولی ہے ۔ کسی فن میں اس کے اصول اور قوانین کو ترک کر کے داخل ہونا اہل فن کے نزدیک انتہائی غلطی ہوتی ہے جس کو تمام اہل فن ضروری مانتے ہیں مگر افسوس کہ طباعت، ڈاکٹری، انجینئری، نقشہ نویسی، تاریخ، سائنس وغیرہ میں تو قاعدہ یہ ضروری قرار دیا ہے مگر فن حدیث وفقہ میں ہر ناواقف بغیر اصول و قوانین رائے زنی ضروری سمجھتا ہے اور اپنی رائے کے خلاف تحمیق کرتا ہے۔
(فتاویٰ شیخ الاسلام:صفحہ:113)