Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ کا فتاویٰ


حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ

حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ کا فتاویٰ

سوال: حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس شخص نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کو مانا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے۔

جواب: اس حدیث شریف میں مسلمان کی تعریف نہیں بلکہ علامات بتائی گئی ہیں۔ اگر اسے مسلمان کی تعریف قرار دیا جائے تو توحید و رسالت کا منکر بھی کافر نہ ہوگا۔ لہٰذا لازماً کہنا پڑے گا کہ یہ امور مسلمان کی علامات میں سے ہیں اور محض علامات سے حقیقت ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً جھوٹ بولنے کو حضور اکرمﷺ نے منافق کی علامت بتایا ہے، مگر پوری امت کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان محض جھوٹ بولنے سے منافق نہیں ہو جاتا۔ نیز زمانے کے اختلاف سے علامات بدلتی رہتی ہیں۔

حضور اکرمﷺ کے زمانے میں کوئی مسلمان ضروریاتِ دین کا منکر نہ تھا اس لئے امور بالا مسلمان کی حتمی علامات شمار ہوتے تھے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی میں کفر کی کوئی وجہ ظاہر ہونے کے بعد بھی محض علامات مذکورہ کی بنا پر مسلمان سمجھا جائے گا اگر یہ مسلمان کی تعریف ہے تو آخر منافقین بھی تو یہ کام کیا کرتے تھے ان کو مسلمان کیوں نہیں شمار کیا گیا؟سیدنا صدیق اکبرؓ نے باجماعِ صحابہؓ، مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ جہاد کیا حالانکہ وہ مذکورہ افعال کے پابند تھے۔ مسیلمہ کذاب بھی نماز پڑھتا تھا، اذان دلاتا تھا، اور اس کی اذان میں اشهدان محمد رسول الله:  کا اعلان بھی ہوتا تھا۔ پھر اسے کیوں مسلمانوں کی فہرست سے نکالا گیا؟

(احسن الفتاوىٰ:جلد:1:صفحہ:69)

سوال: مرتد کی تعریف کیا ہے؟

جواب: ارتداد کے معنیٰ ہیں کسی مسلمان کا دین اسلام سے پھر جانا۔ ارتداد عام ہے، خواہ صاف صاف اسلام سے پھر جائے مثلاً کوئی شخص اپنے ہندو، آریہ، قادیانی یا شیعہ ہونے کا اقرار کر لے یا اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک بات کا انکار کر دے۔

ضروریاتِ دین وہ تمام قطعی احکام ہیں جو نص قرآن سے ثابت ہوں یا حضور اکرمﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہوں، ان میں سے کسی ایک حکم کا انکار بھی کفر وارتداد ہے۔مثلاً کوئی شخص زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتا ہے مگر ختم نبوت کا مفہوم و مطلب ایسا بیان کرتا ہے جو امت کے متفق علیہ اجماعی مفہوم سے مختلف ہے، اور کسی بھی مفہوم میں اجراء نبوت کا قائل ہے۔

یا کوئی شخص دعوائے ایمان کے باوجود تحریف قرآن کا عقید ہ رکھتا ہے، یا ختم نبوت پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی کسی امتی میں نبی کی سی صفات تسلیم کرتا ہے، مثلاً اسے معصوم عن الخطاء اور افضل الانبیاء قرار دیتا ہے تو یہ شخص مرتد اور زندیق ہے جو عام کفار کی بنسبت کہیں زیادہ خطر ناک اور ضرر رساں ہے۔

خلاصہ یہ کہ جیسے پورے دین اسلام کو ترک کر دینا کفر و ارتداد ہے ایسے ہی دین کی قطعی اور بدیہی باتوں میں سے کسی ایک بات کا انکار بھی کفر و ارتداد ہے، گو کہ ایسا شخص دین کی بقیہ تمام باتوں کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہو، اپنے تئیں پابند عمل اور دیندار ہو۔ قرآن مجید میں واضح اعلان ہے۔

فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما:

ترجمہ: پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ( جو صرف زبانی ایمان ظاہر کرتے پھرتے ہیں، عند الله) ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے ( اور آپ نہ ہو تو آپ کی شریعت سے ) تصفیہ کرائیں (پھر جب آپ تصفیہ کرا دیں تو ) اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں (انکار کی ) ) تنگی نہ پائیں اور ( اس فیصلہ ) کو پورا پورا ( ظاہر سے باطن سے ) تسلیم کرلیں ۔ 

جلیل القدر تابعی سیدنا جعفر صادقؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔

لو ان قوما عبدوا الله تعالی و اقاموا الصلوة وأتوا الزكوة وصاموا رمضان و حجوا البيت ثم قالو الشي ، صنعه رسول اللهﷺ الاصنع خلاف ما صنع ؟ او وجدوا في انفسهم حرجا لكانوا مشركين ثم تلا هذه الآية:

ترجمہ: کوئی قوم اگر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ دے، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور حج بیت اللہ کرے، پھر حضور اکرمﷺ کے کسی فعل کے متعلق یوں کہے کہ آپﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے خلاف کیوں نہ کیا؟ یا اس حکم کے تسلیم کرنے میں دلوں میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرک و کافر ٹھہرے گی۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

(احسن الفتاوىٰ:جلد:6:صفحہ:369)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

عوام بلکہ اکثر خواص بھی شیعہ اور قادیانی وغیرہ کو بھی مرتد ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ ان کے احکام مرتدین سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔

زندیق کی تعریف:

جو اسلام کا مدعی ہو اور اپنے کفریہ عقائد کا برملا اعلان کرتا ہو اور انہی کفریہ عقائد کو اسلام قرار دیتا ہو، وہ زندیق ہے۔ شیعہ، یہ زنادقہ کا قدیم ترین فرقہ ہے اور سب سے بڑا دشمن اسلام اور سب سے زیادہ بدترین خبیث، زنادقہ کے اس اخبث الخيانث: فرقہ نے اسلام اور مسلمانوں کو جتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے اور پہنچا رہے ہیں ، اتنا نقصان زنادقہ کے دوسرے سب فرقوں کا مجموع بھی نہیں پہنچا سکا، بلکہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکا۔

زنادقہ کے احکام:

(1) حکومت پر فرض ہے کہ ان کے قتل کا حکم دے، خواہ کوئی خود زندیق بنا ہو یا باپ دادا سے اس مذہب میں چلا آتا ہو ، جبکہ مرتد کی اولاد واجب القتل نہیں۔اسی طرح عورت مرتدہ ہو جائے تو واجب القتل نہیں مگر زندیقہ عورت بھی واجب القتل ہے۔

(2) گرفتار ہونے کے بعد ان کی توبہ قبول نہیں، جبکہ مرتد کی توبہ گرفتاری کے بعد بھی قبول ہے۔

(3) ان کے کسی مرد یا عورت سے کسی مسلمان کا نکاح جائز نہیں ۔

(4) ان سے کسی قسم کا کوئی معاملہ بھی جائز نہیں۔

(5) ان کے جنازہ میں شرکت جائز نہیں ۔

(6) ان کا ذبیحہ حرام قطعی ہے۔

(7) مسلمانوں، بلکہ کافروں کے قبرستان میں بھی دفن کرنا جائز نہیں۔ کہیں گڑھا کھود کر اس میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائیں۔

(احسن الفتاوىٰ:جلد:6:صفحہ:387)

 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

قرآن وحدیث میں غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی تعریف بہت جامع، مختصر اور بہت سہل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ہر حکم کو صحیح ماننا اسلام ہے۔ علمائے اسلام نے اس کی تعبیر یوں کی ہے۔

امنت بالله كَمَا هُوَ بِأَسْمَائهِ وَصِفاته وقبلت جميع احكامه:

قرآن وحدیث کی نصوص میں جہاں کہیں  ایمان بالله: کے ساتھ دوسری اشیا مذکور ہیں، مثلاً کتب، رسل، یوم آخرت وغیرہ یہ مستقلا مراد نہیں اور نہ ہی ان میں حصر مقصود ہے بلکہ یہ سب ایمان باللہ ہی کے چند اہم شعبے ہیں۔ ان کی اہمیت ظاہر کرنے کی خاطر ان کو مستقلاً ذکر کر دیا گیا ہے، استیعاب مقصود نہیں ۔

یہ امر ظاہر اور مسلم ہونے کے علاوہ اس لئے بھی انکار کی گنجائش نہیں رکھتا کہ اگر ان جملہ امور کی مستقل حیثیت تسلیم کر لی جائے تو قرآن وحدیث میں اسلام کی تعریف میں ہر مقام پر ان تمام امور کا ذکر لازم تھا،حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف مقامات پر یہ امور کمی بیشی کے ساتھ مذکور ہیں حتیٰ کہ بہت سی جگہوں پر تو صرف ایمان بالله ہی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔

اسی طرح ایمان باالرسولﷺ کے لئے صرف رسالت کی تصدیق کافی نہیں بلکہ آپﷺ کے ہر حکم کی تصدیق لازم ہے۔

اسی طرح ملائکہ اور آخرت کے دن کے صرف وجود اور وقوع کو ماننا کافی نہیں بلکہ ان سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ہر ہدایت کی تصدیق ضروری ہے۔

معترض نے آیت ۔۔۔۔۔

فامنوا بالله وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِالله وكلمته واتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ:

ان میں ایمان باللہ کی تفسیر میں خدا تعالیٰ کی توحید لکھا ہے۔ حالانکہ ایمان باللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر ایمان لائے توحید بھی صرف وہی معتبر ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوگی ورنہ یہود و نصاری حضرت عزیرؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینے اور عقیدہ تثلیث کے باوجود توحید کے مدعی تھے ۔ بلکہ مشرکین بھی ہزاروں معبودوں کی پرستش کرنے کے باوجود اپنے کو موحد ہی سمجھتے تھے اور برملا کہتے تھے۔ لا شریک لک الا شریکا هولک تملکه و ما ملک: مگر ان کی توحید اس لئے معتبر نہیں کہ حکم الٰہی کے مطابق نہیں۔

(احسن الفتاویٰ:جلد:1:صفحہ:67)

 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

شیعہ کو اہل کتاب کے حکم میں سمجھنا بالکل غلط ہے۔ اس لئے کہ یہ بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اندرونی طور پر عقائدِ اسلام میں تحریف و الحاد کے ذریعہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی مساعی میں سرگرم رہتے ہیں۔ ایسے کفار کو زنادقہ کہا جاتا ہے۔

(احسن الفتاوىٰ:جلد:10:صفحہ:37)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

جب حضور اکرمﷺ کا وصال ہوا اور سیدنا صدیق اکبرؓ خلیفہ مقرر ہوئے اور بعض قبائل عرب مرتد ہو گئے تو سیدنا فاروق اعظمؓ نے کہا اے ابوبکرؓ! آپ صرف انکار زکوٰۃ پر مرتد قرار دے کر کیوں لوگوں سے قتال کر رہے ہیں؟حالانکہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے اُس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم ہے جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لیں، جس نے کلمہ پڑھ لیا اُس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لی مگر اس کے حق کے ساتھ۔ یعنی کلمہ پڑھ کر بھی موجب قتل کام کیا تو قتل کا سزاوار ٹھہرے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے جواب دیا واللہ! میں اُس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز و زکوٰة کے درمیان فرق کرے، ایک کو مانے دوسرے کا انکار کرے۔

(احسن الفتاوىٰ:جلد:6:صفحہ:372)

 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

حضوراکرمﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔۔ آخر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی کمسن ، کم عقل ، تمام مخلوق کی بنسبت عمدہ ترین گفتگو کریں گے مگر ان کا ایمان حلق سے نیچے نہ اترے گا ، دین سے ایسے نکل جائے گے جیسے تیر شکار سے پار ہوتا ہے، جہاں کہیں انہیں پاؤ قتل کر دو۔ ان کے قاتل کیلئے روزِ قیامت اجر ہے۔ مراد زندیق خوارج ہیں۔

(احسن الفتاوىٰ:جلد:6:صفحہ:374)