حضرت مولانا مفتی تقی عثمانیؒ کا فرمان
حضرت مولانا مفتی تقی عثمانیؒ کا فرمان
اصولِ تکفیر کے سلسلے میں ہمارے معاشرے میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ ایک طرف بعض ایسے لوگ ہیں کہ جو ذرا ذرا سے اختلاف کی بناء پر دوسروں پر کفر کے فتوے عائد کر دیتے ہیں اور یہ نہیں لکھتے کہ تکفیر یعنی کسی کو کافر قرار دینا بہت ہی سنگین کام ہے۔ اور دوسرے بعض لوگ، خاص طور پر جو جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ دوسری طرف انتہا پر چلے گئے ہیں کہ کوئی شخص کتنا ہی کافرانہ عقائد رکھے اس کے باوجود اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو یہ روشن خیال لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کو کافر نہ کہو۔ چنانچہ ان کے نزدیک قادیانی بھی مسلمان ، منکرین حدیث بھی مسلمان ، آغا خانی بھی مسلمان ہیں، اور یہ ان سب کو مسلمان قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ حق ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔
تکفیر کے سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر ہم یوں کہیں کہ جو بھی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے گا اسے کافر نہ کہو تو نتیجہ نکلے گا کہ اسلام کی اپنی حقیقت نہیں ہے اور نہ اسلام کے کوئی لوازم اور تقاضے ہیں، لہٰذا جو شخص توحید کو مانے ، رسالت و آخرت کو نہ مانے لیکن اس کے باوجود اگر وہ کہے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کو مسلمان تصور کیا جائے، تو یہ بات بالکل ہی باطل ہے۔
(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات:صفحہ:119)