فصل:....[امام شافعی رحمہ اللہ اورمحمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کی شاگردی]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[امام شافعی رحمہ اللہ اورمحمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کی شاگردی]
[اشکال] :شیعہ مصنف کا یہ قول کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ سے استفادہ کیا تھا۔‘‘
[جواب]:یہ غلط ہے، ایسا بالکل نہیں ؛ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ محمد بن حسن رحمہ اللہ کی صحبت میں رہے؛ان کے طرز فکر و نظر کو جانچا۔ ان سے مناظرے کیے [اور ان کی تردید میں کتابیں لکھیں ]۔آپ پہلے انسان تھے جنہوں نے محمد بن حسن کے ساتھ کھل کر اختلاف کیا ۔ اس لیے کہ محمد بن حسن رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ او راہل مدینہ پر رد کیا تھا[اور الحجۃ علی أہل المدنیۃ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی] ۔محمد بن حسن رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اپنے مخالفین پر رد لکھا۔سو امام شافعی رحمہ اللہ نے ان کی باتوں کو اچھی طرح دیکھا۔ اور جو چیز آپ کے سامنے حق تھی کہ اہل مدینہ کا مذہب حق پر ہے ‘ آپ نے اس کی نصرت کی ۔آپ اکثر طور پر اہل حجاز اور محدثین کے مذہب کی تائید کیا کرتے تھے۔ پھر عیسی بن ابان نے امام شافعی رحمہ اللہ کے رد پر ایک کتاب لکھی ؛ اور ابن سریج نے عیسی بن ابان پر رد لکھا۔
ایسے ہی امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے تعلیم نہیں پائی۔لیکن آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔جس طرح کہ امام شافعی رحمہ اللہ محمد بن حسن رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے سے استفادہ بھی کیا ہے ۔
امام شافعی اور احمد بن حنبل رحمہما اللہ اصول میں متفق تھے۔یہ اتفاق محمد بن حسن رحمہ اللہ کے ساتھ اتفاق سے زیادہ تھا۔ امام شافعی احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دس سال سے زیادہ بڑے تھے۔ امام شافعی پہلی بار ۱۸۰ھکے کچھ عرصہ بعد امام ابو یوسف کی موت کے بعد اور محمد بن حسن کی زندگی میں بغداد تشریف لائے ۔پھر دوسری بار ۱۹۰ھ کے بعد تشریف لائے۔ اس بار آمد کے موقع پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔
بہر کیف ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک نے بھی امام جعفر رحمہ اللہ سے مسائل و اصول اخذ نہیں کیے تھے۔ مانا کہ انھوں نے امام جعفر رحمہ اللہ سے چند روایات نقل کی ہیں تو اس سے کئی گنا روایات انھوں نے غیر اہل بیت راویوں سے بھی اخذ کی ہیں ۔ امام زہری رحمہ اللہ اور امام جعفر رحمہ اللہ کی مرویات کے درمیان کوئی نسبت ہی نہیں ؛ نہ ہی قوت حدیث کے اعتبار سے اور نہ ہی کثرت تعداد کے اعتبار سے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کو بعض احادیث میں اس وقت شک گزرا جب انہیں یہ بات پتہ چلی کہ یحی بن سعید القطان کو ان روایات میں کلام ہے؛ پھر آپ نے وہ احادیث اپنی کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ میں نقل نہیں کیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ امام جعفر صادق پر جس قدر بہتان طرازی کی گئی ہے اور کسی پر نہیں کی گئی۔ تاہم ان کا دامن ان اتہامات سے پاک ہے۔ [امام جعفر صادق کے بارے میں شیعہ نے جو جھوٹ تصنیف کیے ہیں ، ان میں سے مضحکہ خیز جھوٹ وہ ہے جسے شیعہ کے فخر العلماء محمد بن محمد نعمان المفید نے اپنی کتاب ’’الارشادفی تاریخ حجج اللہ علی العباد‘‘ مطبوعہ ایران،ص:۱۰۴، پر جعفر بن محمد کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ ’’امام جعفر صادق نے فرمایا: میرے پاس سیدنا موسیٰ کی تختیاں ہیں ، جن پر تورات مکتوب تھی۔ میرے پاس عصائے موسیٰ اور خاتم سلیمان بھی ہے۔ نیز میرے پاس وہ طشتری بھی ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام قربانی دیا کرتے تھے۔‘‘ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ امام جعفر فی الواقع صادق تھے، مگر شیعہ آپ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین ان کی روایات پر اعتماد نہیں کرتے۔ آج کل کے لوگ امام بخاری پر طعن کرتے ہیں کہ وہ اہل بیت سے بہت تھوڑی روایات نقل کرتے ہیں کیا لوگ یہ چاہتے ہیں کہ امام بخاری اس بات پر مہر تصدیق ثبت کریں کہ عصائے موسیٰ اور قربانی کی طشتری فی الواقع امام جعفر کے پاس موجود تھی۔ اﷲ تعالیٰ ایسے عقائد سے بچائے۔‘‘]چنانچہ شیعہ نے یہ علوم امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیے ہیں :
(۱) علم البطاقہ۔(۲) علم الہفت۔ (۳) الجدول ۔(۴) اختلاج الاعضاء۔(۵) علم الجفر۔(۶) منافع القرآن۔(۷) الرعود والبروق۔(۸) احکام النجوم۔(۹) القرعہ۔(۱۰) استقسام بالازلام۔(۱۱) ملاحم۔کلام علی الحوادث؛ اور تفسیر قرآن میں کئی قسم کے اشارات ؛ اور خواب میں سورت پڑھنے کی تعبیر ۔ یہ تمام کتابیں آپ کی طرف جھوٹ سے منسوب کی گئی ہیں ۔
امام جعفر الصادق رحمہ اللہ نے اپنے والد اور دوسرے لوگوں سے اکتساب فیض کیا تھا ؛جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ آپ کے والد نے علی بن الحسین سے علم حاصل کیا تھا۔ علی بن حسین نے اپنے والد حسین سے اور ان سے زیادہ دوسرے علماء کرام سے اکتساب فیض کیا تھا۔ اس لیے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ سن ۶۱ھ میں شہید کردیئے گئے تھے ؛ اس وقت حضرت علی رحمہ اللہ چھوٹے تھے۔ جب آپ واپس مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے علماء کرام سے علم حاصل کیا ۔ نیز آپ نے امہات المؤمنین حضرت عائشہ ؛ام سلمہ ‘صفیہ ؛ اور حضرت ابن عباس؛ مسور بن مخرمہ ؛ اورابو رافع مولی النبی ؛ رضی اللہ عنہم ؛ مروان بن الحکم اورسعید بن مسیب رحمہما اللہ وغیرہ سے بھی علم حاصل کیا تھا۔ ایسے ہی حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد کے علاوہ دوسرے صحابہ اور تابعین تک سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔یہ آپ کا علم و دین تھا ۔
علماء کرام رحمہم اللہ نے حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کی بہت تعریف کی ہے اور بڑے مناقب بیان کیے ہیں ۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے علی بن حسین رحمہ اللہ سے افضل مدینہ میں کسی کو نہیں پایا۔‘‘
یحی بن سعید انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مدینہ میں سب سے افضل ہاشمی میں نے آپ کو ہی دیکھا ہے ۔‘‘
حماد بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مدینہ میں میں نے سب سے افضل ہاشمی آپ کو ہی پایا۔آپ فرمایا کرتے تھے: اے لوگو ! ہم سے اسلام کی محبت کرو۔تم ہم سے محبت کا مسلسل دعوی کرتے رہے یہاں تک کہ تمہاری محبت ہمارے لیے عار ہو گئی۔‘‘یہ کلام محمد بن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے ۔[۵؍۲۱۴]۔
ابن سعد لکھتے ہیں : [علماء نے ] کہا ہے:’’علی بن حسین رحمہ اللہ ثقہ اورمامون تھے؛ کثرت احادیث والے‘ رفیع الشان اور عالی منزلت کے انسان تھے۔ آپ نے شیبہ بن نعامہ سے روایت نقل کی ہے۔آپ فرماتے ہیں : علی بن حسین رحمہ اللہ بخل کیا کرتے تھے۔جب آپ کا انتقال ہوا تو پتہ چلاکہ چپکے سے اہل مدینہ کے ایک سو گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔