فصل:....[حضرت امام مالک رحمہ اللہ اورکلام رافضی پر رد]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[حضرت امام مالک رحمہ اللہ اورکلام ِ رافضی پر ردّ]
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امام مالک سے منقول ہے کہ انھوں نے ربیعہ سے پڑھا۔ ربیعہ نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور ابن عباس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ جھوٹ ہے۔ ربیعہ نے عکرمہ سے کچھ نہیں پڑھا تھا؛بلکہ امام مالک نے اپنی کتاب میں عکرمہ سے ایک دو روایات کے علاوہ کوئی بھی روایت نقل نہیں کی۔اور نہ ہی اپنی کتاب میں عکرمہ کا کوئی ذکر کیا ہے۔اس لیے کہ آپ کو یہ بات پتہ چلی تھی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ کوعکرمہ پرکچھ کلام تھا؛ اس لیے آپ نے ان سے روایت نقل کرنا ترک کردیا تھا۔ایسے ہی امام مسلم نے بھی ان سے کوئی روایت نقل نہیں کی۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ عکرمہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ اوران کے امثال فقہاء اہل مدینہ کے شاگرد ہیں ۔ سعید رحمہ اللہ نے حضرت عمر، زیدبن ثابت اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے استفادہ کیا تھا۔اور قضایا میں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال تلاش کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے سوال کیا کرتے تھے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ موطا امام مالک کے اصول امام ربیعہ کی سند سے سعید ابن مسیب سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لیے ہیں ۔خلیفہ رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا تھا: ’’ آپ نے موطا میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ روایات لی ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت کم ہیں ۔‘‘توآپ نے جواب میں فرمایا: ’’اے امیر المؤمنین آپ ان دونوں میں سے زیادہ صاحب ورع تھے ۔‘‘ [یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ]۔
یہ موطا پکار پکار کر بتا رہا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق اس قسم کی من گھڑت روایات کھلا ہوا جھوٹ ہیں ۔
[ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت علی کی شاگردی رضی اللہ عنہ ]:
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا تھا۔‘‘
[جواب] :یہ بات بھی غلط ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں ۔ اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت کم روایات نقل کی ہیں ۔ ان کی اکثر روایات حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اکثر امور میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے اوربہت سے مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس زنادقہ کی ایک جماعت لائی گئی۔آپ نے انہیں جلادیا۔ جب یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو میں کبھی بھی انہیں نہ جلاتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے عذاب دینے سے منع فرمایا ہے۔میں انہیں صرف قتل کردیتا ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ جو اپنے دین کو بدل ڈالے ‘ اسے قتل کر ڈالو ۔‘‘ جب اس بات کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے افسوس ہے ۔‘‘ [تخریج گزر چکی ہے]