Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم تفسیر

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم تفسیر

[ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’علم تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ کے شاگرد تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ’’ بسم اللہ‘‘ کی ’’با‘‘ کی تفسیر پوری رات بھر میں بیان کی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جواب]:پہلی بات : [ہم کہتے ہیں :یہ صاف جھوٹ ہے]۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے ثبوت کی سند کہاں ہے؟منقولات سے استدلال کرنے والے پر واجب ہوتا ہے کہ وہ کم ازکم اس سند کا ذکر کرے جس سے منقول کی صحت کا علم ہوسکے۔ وگرنہ کتابوں میں منقولات میں سے جوکچھ خالی ذکر کیا گیا ہوتا ہے ‘ اس سے استدلال کرنا جائز نہیں ؛کیونکہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ ایسی روایات میں بہت ساری جھوٹی روایات بھی ہیں ۔

دوسری بات:....محدثین کرام جانتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ ہے۔ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول یہ اثر آپ پر جھوٹ ہے۔ اس کی کوئی معروف سند نہیں ۔اس قسم کی حکایات بلا اسناد ہی ذکر کی جاتی ہیں ۔اوران کو روایت کرنے والے بھی مجہولات کے دلدادہ لوگ ہوتے ہیں ؛ جو ایسا کلام کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔اور پھر اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام قراردیتے ہیں ؛یہ بھی اسی جنس سے ہے۔ [اس قسم کی روایات بیان کرنا جاہل صوفیا کا کام ہے۔جیسے صوفیاء روایت کرتے ہیں کہ]: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق باتیں کیا کرتے تھے اور میں ان کے پاس یوں بیٹھا رہتا جیسے کوئی حبشی ہو۔‘‘اس روایت کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔

٭ جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی سے صرف اس لیے نکاح کیا تھا تاکہ اس سے دریافت کریں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ خلوت میں کیا کام کیا کرتے تھے؟ اس نے کہا:’’ میں آپ سے جلی ہوئی کلیجی کے کباب کی خوشبو سونگھا کرتی تھی۔‘‘یہ صریح کذب ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس کیساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح ہی نہیں کیا ؛ بلکہ ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تھا؛ اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد بن ابی بکر بھی تھا؛ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیر کفالت تربیت پائی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جتنا اللہ کو منظور تھا اتنی تفسیر صحیح اور ثابت شدہ اسناد کے ساتھ منقول ہے۔ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام تک نہیں ۔نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے متعدد صحابہ کرام جیسے: حضرت عمر‘ ابو ہریرہ ؛ عبد الرحمن بن عوف ‘ زید بن ثابت ‘ ابی بن کعب‘اسامہ بن زید‘اور دیگر مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم سے استفاد ہ کیا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی تفسیری روایات بہت کم ہیں ۔اصحاب صحیح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی کوئی روایت نقل نہیں کہ جب کہ حضرت عمر ؛حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت ابوہریرہ اوردیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آ پ کی روایات منقول ہیں ۔نیزیہ کہ تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی منقول ہے۔ یہ علم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے ایسے صحابہ کرام سے منقول ہیں جنہوں نے یہ علم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ علم حاصل نہیں کیا۔ اور نہ ہی مسلمانوں کے ہاں آپ سے منقول کوئی تفسیر موجود ہے۔کتب احادیث و تفاسیر صحابہ و تابعین کے آثار سے بھری پڑی ہیں ؛ ان میں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات بہت کم ہیں ۔

تفسیری اقوال آپ نے حضرت ابن مسعود اور صحابہ و تابعین کی ایک کثیر جماعت سے اخذ کیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ تفسیری اقوال کسی کتاب میں موجود نہیں ۔ آپ سے بہت کم تفسیری اقوال نقل کیے گئے ہیں ، ابو عبد الرحمن سلمی نے ’’حقائق التفسیر ‘‘میں جو اقوال جعفر صادق رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں وہ بالکل جھوٹ ہیں ؛ جیسا کہ دوسرے لوگوں نے بھی حضرت جعفر رحمہ اللہ پر جھوٹ بولا ہے۔ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں ۔