فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم تصوف
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور علم تصوف
[ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’علم طریقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔تمام صوفیہ خرقہ کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:پہلا جواب : ہم کہتے ہیں :تمام اہل معرفت اور حقائق ایمان کے جانکار جوکہ امت میں سچائی و امانت کے ساتھ مشہور ہیں ؛ وہ تمام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تقدیم پر متفق ہیں ۔اور یہ کہ آپ اس امت میں حقائق ایمان اور احوال عرفان کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔تو پھر وہ ان حقائق سے -جنہیں شیعہ بھی افضل امور میں سے مانتے ہیں -کتنے دور ہیں جوآپ کی طرف لوگوں کے منسوب کردہ ایک لباس کی وجہ سے آپ کو تقدیم [اور فضیلت ]دیتے ہیں ۔
٭ صحیحین میں مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِن اللہَ لا ینظر إِلی صورکِم وأموالکِم، وإِنما ینظر إِلی قلوبکِم وأعمالِکم))۔
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نہ ہی تمہاری صورتوں کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے امول کو دیکھتے ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کواور اعمال کو دیکھتے ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
دوسری بات: خرقہ جات کی تعداد بہت ہے، مگر مشہور دو خرقے ہیں :
۱۔ایک خرقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے۔
۲۔دوسرے خرقہ کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے۔
جو خرقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے اس کی دو اسنادہیں ایک اُوَیس قرنی تک اوردوسری سند ابو مسلم خولانی تک پہنچتی ہے۔
جس خرقہ کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے اس کی اسناد حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تک پہنچتی ہے ۔ متاخرین اسے معروف کرخی رحمہ اللہ تک پہنچاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنید سری سقطی کی صحبت میں رہے ہیں اور سری سقطی بلا ریب معروف کرخی کی صحبت میں رہے ہیں ۔ اس سے آگے سند کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ کہنے لگتے ہیں کہ معروف کرخی رحمہ اللہ علی بن موسیٰ رضا رحمہ اللہ کی صحبت میں رہے تھے۔ یہ بات قطعی طور پر باطل ہے۔ وجہ بطلان یہ ہے کہ معروف کرخی کے حالات نقل کرنے والے مصنفین اس کی کوئی متصل سند ذکر نہیں کرتے۔جیسے ابو نعیم اور ابو الفرج ابن جوزی رحمہ اللہ جس نے معروف کرخی کے فضائل میں کتاب بھی لکھی ہے۔ معروف اپنے شہر کرخ میں منقطع ہوکر رہ گئے تھے۔[آپ کرخ سے باہر کہیں نہیں گئے تھے]۔ جب کہ علی بن موسیٰ خلیفہ مامون کے یہاں خراسان میں سکونت گزین تھے۔جنہیں مامون نے اپنے بعد ولی عہد مقرر کردیا تھا۔اس نے اپنا شعار[مونو]سبز لباس بنا لیا تھا۔پھر اس سے رجوع کرلیا اور دوبارہ کالا لباس پہننا شروع کردیا تھا۔
معروف کرخی [عمر میں علی بن موسیٰ سے بڑے تھے، بنا بریں ] کسی ثقہ راوی سے یہ ثابت نہیں کہ دونوں کبھی باہم ملے یا ایک دوسرے کو دیکھا اور استفادہ کیا۔ معروف رحمہ اللہ علی بن موسیٰ کے دربان بھی نہ تھے کہ انھیں موسٰی کا شرف صحبت حاصل ہوا ہو اور ان کے ہاتھ پر اسلام بھی نہیں لائے تھے۔یہ تمام کہانیاں اور جھوٹ ہیں ۔
اس کی دوسری اسناد یوں بیان کی جاتی ہے کہ: معروف کرخی مشہور بزرگ داؤد طائی کی صحبت میں رہ چکے تھے۔ یہ بھی بے اصل بات ہے ۔آپ کے مشہورومعروف حالات زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی۔[اس لیے کہ ان دونوں حضرات کی ملاقات ثابت نہیں ]۔
خرقہ کی روایت میں یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ داؤد طائی حبیب عجمی سے ملے تھے۔ اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ:’’ حبیب عجمی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ تھے؛ یہ درست ہے۔اس لیے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے کثیر اصحاب و تلامذہ تھے؛مثلاً ایوب سختیانی ؛ یونس بن عبید ؛ عبد اللہ بن عوف ؛ محمد بن واسع و مالک بن دینار و حبیب عجمی و فرقد سنجی اور بصرہ کے دیگر عابد و زاہد لوگ۔ رحمہم اللہ ۔
صوفیاء کایہ قول کہ: حسن بصری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحبت سے فائدہ اٹھایاتھا۔یہ باتفاق اہل معرفت باطل ہے۔کیونکہ اہل علم کااجماع ہے کہ حضرت حسن رحمہ اللہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں سے علم حاصل کیا تھا۔آپ نے احنف بن قیس ‘ قیس بن عباد اور دوسرے لوگوں سے استفادہ کیا تھا۔ اہل صحیح نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔
حضرت حسن رحمہ اللہ کی پیدائش خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے خاتمہ سے دوسال پہلے ہوئی۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تو اس وقت آپ مدینہ میں تھے۔آپ کی والدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی تھی۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا تو آپ کو بصرہ لے جایا گیا۔اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں تھے۔ اوراس وقت حضرت حسن بچوں کے ساتھ بچے تھے۔ نہ ہی آپ کی کوئی پہچان تھی اور نہ ہی تذکرہ۔[حسن ابن ابی الحسن ابن یسار ابو سعید البصری؛ مولی زید بن ثابت ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دو سال باقی تھے کہ آپ پیدا ہوئے۔اور ۱۱۰ہجری میں وفات پائی۔حسن بصری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد تحصیل علم کا آغاز کیا تھاحالانکہ انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ابن ابی حاتم نے ان صحابہ کا ذکر کیا ہے جن سے صحیح سند کیساتھ آپ کا سماع ثابت ہے۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوئی ذکر نہیں ۔دیکھیں : الجرح و التعدیل م ۱ص۴۰۔ تذکرۃ الحفاظ ۱؍۷۱۔ میزان الاعتدال۱؍۵۲۷۔]
باقی رہی یہ روایت کہ علی جب بصرہ میں داخل ہوئے تھے تو وہاں جتنے بھی افسانہ گو تھے سب کو نکال دیا صرف حسن کو رہنے دیا ۔ تو اس کے صریح جھوٹ ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں پر ایک قصہ گو کو پایا جو قصہ بیان کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے؟اس نے کہا : ابو یحی۔آپ نے پھر پوچھا : کیا تم ناسخ اورمنسوخ بھی جانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں ۔تو آپ نے فرمایا:
’’خود بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کردیا ۔ بیشک تم صرف ابو ’’اعرفونی‘‘ [یعنی مجھے پہچانو]ہو ۔ پھر آپ نے اس کا کان پکڑ کر اسے مسجد سے باہر نکال دیا۔‘‘
ابوحاتم نے اپنی کتاب ’’ الناسخ والمنسوخ ‘‘میں [یہ واقعہ ایسے ]نقل کیا ہے:
حدثنا الفضل ابن دکین[ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا ذکر اپنی کتاب ’’تہذیب التہذیب ‘‘۸؍۲۷۰ میں کیا ہے۔ فضل ابن دکین ان کا لقب ہے‘ جب کہ ان کا نام : عمرو بن حماد بن زہیر بن درہم التیمی ہے ۔ آپ آل ابی طلحہ کے موالی تھے۔]حدثنا سفیان ‘عن ابی حصین ‘ عن ابی عبد الرحمن السلمی ‘ قال:إنتہی عليٌ إلی قاص و ہو یقص؛ فقال: أعلمت الناسخ والمنسوخ ؟ قال :لا۔ قال: ہلکت و أہلکت ۔‘‘
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ اایک قصہ گو کے پاس پہنچے جو کہ قصہ بیان کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ناسخ اور منسوخ بھی جانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں ۔فرمایا : خود بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کردیا ۔
اور فرمایا: زہیر بن عباد الرواسی نے ہم سے حدیث بیان کی ‘ان سے اسد بن حمران نے‘وہ جویبر سے اوروہ ضحاک سے روایت کرتے ہیں :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی ایک مسجد میں داخل ہوئے وہاں پر ایک قصہ گو کو پایا جو قصہ بیان کررہا تھا۔ آپ نے پوچھا : کیا تم ناسخ اورمنسوخ بھی جانتے ہو؟ کہنے لگا نہیں ۔فرمایا : کیا مکی اور مدنی بھی جانتے ہو ؟ کہنے لگا نہیں ۔ فرمایا : خود بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کردیا ۔پھر فرمایا:’’لوگو! جانتے ہو یہ کون ہے ؟
یہ کہتا ہے : لوگو مجھے پہچانو‘لوگو مجھے پہچانو‘لوگو مجھے پہچانو۔‘‘
ابن الجوزی نے حسن بصری کے فضائل و مناقب کے بارے میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔[اس کتاب کا نام ہے :’’فضائل الحسن البصری : أدبہ و حکمتہ و نشأتہ ....‘‘ یہ کتاب قاہرہ میں چھپ چکی ہے۔]
ابو عبداللہ محمد بن عبدالواحد المقدسی نے بھی ایک کتاب ان لوگوں کے بارے میں لکھی ہے جن کی صحابہ کرام سے ملاقات ہوئی ہے۔حضرت حسن رحمہ اللہ کے متعلق اخبار تاریخ البخاری ‘ اور اسانید خرقہ کی کتابوں میں موجود ہیں ۔چونکہ ہمارے پاس بھی اس کی کچھ اسناد ثابت ہیں تو میں نے ان کو بیان کردیاتاکہ حق اور باطل واضح ہوجائے۔
خرقہ پوشی کی ابتداء کی حقیقت:
خرقہ کی ایک دوسری اسناد حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے، مگر وہ منقطع ہے۔ ہمیں قطعی طور پر معلوم ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اپنے مریدین کو خرقہ پہناتے تھے نہ ان کے بال تر شوایا کرتے تھے۔ تابعین نے بھی ایسا نہیں کیا تھا۔ یہ فعل مشرق کے بعض متأخر پیروں کاہے۔
حضرت حسن رحمہ اللہ کے واقعات صحیح اور ثابت اسناد کے ساتھ بہت ساری کتابوں میں موجود ہیں ۔ اس کا اندازہ ان واقعات سے بھی ہوسکتا ہے جو ہم نے ذکر کیے ہیں ۔ابن جوزی نے آپ کے حالات و واقعات پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے۔اس سے بھی ضعیف سند حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب’’ فتوۃ ‘‘کی ہے۔اس کی سند میں ایسے مجہول راوی پائے جاتے ہیں جن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا ہمیں علم نہیں ۔
ہر وہ انسان جسے صحابہ کرام اور تابعین کے احوال کا علم ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین شلوار نہیں پہنا کرتے تھے اور نہ ہی نمکین چیزیں پیاکرتے تھے۔او رنہ ہی ’’فتوۃ‘‘ نامی کوئی طریقہ کسی کے ساتھ خاص تھا۔لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ صحابہ کی صحبت میں بیٹھے اور ان کے آداب و علوم سے بہرہ ور ہوئے تھے۔اور ان کے ہاتھوں پر ان کی تربیت ہوئی۔ اوران کی صحبت میں رہے۔ تابعین کے ہر گروہ نے ان صحابہ سے استفادہ کیا جو ان کے شہر میں بودوباش رکھتے تھے۔ اصحاب ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عمر ‘ حضرت علی اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہم سے روایات لیا کرتے تھے۔اور ایسے ہی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سے روایات اخذ کیا کرتے تھے۔ اور ایسے ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھی حضرت ابن عمر ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی اصحاب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کرتے تھے۔[اہل مدینہ نے حضرت عمر؛و اُبی ؛و زید؛ و ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایات اخذ کیں ]
ان میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مشئیت کے مطابق لوگوں کونفع دیا ۔ ان سب کا ایک دین اور ایک طریقہ پر اتفاق تھا۔وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کیاکرتے اور اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیا کرتے تھے۔ اور سچے راویوں کے ذریعہ جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان تک پہنچتی؛ اسے قبول کرلیتے۔ بعض لوگوں نے کتاب و سنت اور ان کے مدلولات کاعلم سیکھایا اور بعض نے لوگوں کو اس چیز کی طرف بلایا جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے تھے اور انہوں نے اس دعوت کو قبول کرلیا تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اپنے مشائخ کو رب بناتا اور ان سے مدد کا طلب گار ہوتا۔ گویاکہ وہ معبود ہے جس سے سوال کیا جاتا ہے اور اس کی طرف رغبت رکھی جاتی ہے۔ اوراس کی بندگی کی جاتی ہے اور اس پر توکل کیا جاتا ہے۔ اور اس سے زندگی میں اور موت کے بعد مدد طلب کی جاتی ہے ۔ اورنہ ہی اس نبی کی طرح بناتے تھے جس کے ہر حکم میں اس کی اطاعت واجب ہو۔اور جس چیز کو وہ حلال کہہ دے وہ حلال اور جس کو حرام کہہ دے وہ حرام ہے۔یہی ڈگر تو عیسائیوں کی تھی جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ۳۱ ]
’’انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں ، کوئی معبود نہیں مگر وہی ، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘
وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے؛ برائی اوربدی کے کام پر نہیں ۔ اور ایک دوسرے کو حق بات اورصبر کی تلقین کیا کرتے تھے۔امام اور شیخ ان کے ہاں نماز کے امام کی منزلت پر ہوتا تھا۔ یا حج کے لیے رہنماء کی طرح۔پس مقتدی نمازمیں امام کی اقتداء کرتے ہیں اور اس کی طرح وہ نماز پڑھتے ہیں ‘ اس کی طرف سے نمازنہیں پڑھتے۔ اور اس امام کے ساتھ وہ نمازادا کرتے ہیں جس کاحکم انہیں اللہ اوراس کے رسول نے دیا ہے۔اگر امام جان بوجھ کر یا بھول کر اس اطاعت سے ذرا بھی پھر جائے تو لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے۔
حج کا رہنما لوگوں کوبیت اللہ کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے تاکہ لوگ خود وہاں پہنچ کر حج کریں ؛ وہ لوگوں کی طرف سے حج نہیں کرتا۔ اوراگر یہ رہنماء کہیں خطأ کا مرتکب ہوجائے تو اس کی اطاعت نہیں کی جاتی۔اگر دو ائمہ یا دوحج رہنماؤں کے مابین اختلاف ہوجائے تودیکھا جاتا ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے ؛ اوران کے درمیان فیصلہ کرنے والی چیز اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾[النساء۵۹]۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
صحابہ کرام میں سے ہر ایک سے ؛جوکہ مختلف شہروں میں جاکرآباد ہوگئے تھے؛ لوگوں نے دین وایمان اخذ کیا ۔ مشرق و مغرب کے اکثر مسلمانوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی استفادہ نہیں کیا۔اس لیے کہ آپ مدینہ میں سکونت پذیر تھے۔ اور اہل مدینہ آپ کے علوم کی طرف اتنے زیادہ محتاج نہ تھے جتنے آپ سے پہلے خلفاء کے علوم کے محتاج تھے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ والے قصہ اور اس طرح کے دیگر واقعات سے صاف ظاہر ہے۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ وارد کوفہ ہوئے تواہل کوفہ حضرت ابن مسعودو سعد بن ابی وقاص و عمارابو موسی‘ و حذیفہ رضی اللہ عنہم سے علمی فیوض حاصل کر چکے تھے جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ روانہ فرمایا تھا۔
اہل بصرہ نے حضرت عمران بن حصین؛ابو بکرۃ ؛ عبدالرحمن بن سمرۃ اور انس رضی اللہ عنہم سے اخذ و استفادہ کیا۔ اہل شام نے کتاب و سنت کا علم حضرت معاذ و ابوعبیدہ و ابو الدرداء و عبادہ بن صامت و بلال رضی اللہ عنہم سے سیکھا۔
ان شہروں کے عباد و زھاد نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علوم حاصل کیے جن کوانہوں نے دیکھا تھا۔پھران بیانات کی روشنی میں یہ بات کہنا کس حد تک درست ہے کہ اہل زہد و تصوف کا طریقہ دیگر صحابہ کو چھوڑ کرصرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ماخوذ ہے؟ زہد کے بارے میں متعدد کتب تصنیف کی گئی ہیں ۔ چند کتب کے نام ملاحظہ ہوں ۔
۱۔ امام احمد کی کتاب الزہد ۲۔ ابن المبارک کی کتاب الزہد
۳۔ کتاب الزہد وکیع بن جراح ۴۔ کتاب الزہد ہنادبن السری
اوروہ کتابیں جن میں زہاد و عباد کے حالات وواقعات ہیں ‘ان میں :
۵۔ حلیۃ الاولیاء ۶۔ صفۃ الصفوۃ اور دیگر کتابیں ۔
مذکوہ بالا کتب میں مہاجرین و انصارصحابہ نیز تابعین کے بہت سارے اقوال مذکور ہیں ۔ان کتب میں زہد سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو اقوال و احوال مذکور ہیں وہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما و معاذ و ابن مسعود و ابی بن کعب و ابو ذر و ابو امامہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال سے زیادہ نہیں ہیں ۔