Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فصاحت و بلاغت

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فصاحت و بلاغت

[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ فصاحت کا سرچشمہ تھے۔یہاں تک کہا گیا ہے کہ:’’ آپ کا کلام مخلوقات کے کلام سے بہتر اور کلام خالق سے کم تر تھا۔خطباء نے آپ سے ہی خطابت سیکھی تھی۔‘‘

[جواب]: ہم کہتے ہیں :بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہ میں بہت بڑے خطیب تھے۔ علاوہ ازیں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما و ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ بھی فن خطابت میں مہارت رکھتے تھے؛ آپ خطیب رسالت کے لقب سے معروف تھے۔جیساکہ حضرت حسان بن ثابت‘کعب بن مالک اورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم آپ کے شعراء تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو اور آپ کی عدم موجودگی دونوں حالات میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب موسم حج میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کیساتھ ہوتے؛اور تقریر کیا کرتے۔آپ اپنے خطاب میں لوگوں کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دیا کرتے تھے؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہ کر سنتے اور اس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تائید فرمایا کرتے تھے۔آپ کا کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے پہلے تمہید اورمقدمہ کے ہوا کرتا تھا؛ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد [اور لوگوں میں آپ کا تعارف ]مقصودہوتا تھا۔نہ کہ آپ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سبقت لیتے۔ 

جس طرح شماس بن قیس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خطبہ دیا کرتے ؛ تبھی توآپ کو خطیب رسول کالقب ملا۔

ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں بڑے خطیب تھے۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے بڑے خطیب تھے جیسا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواس بات کا اعتراف تھا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایسا بلیغ خطبہ دیا تھا ‘جس سے مسلمانوں کے دل اسلام پر ثابت رہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے لوگوں میں سخت اضطراب پایاجاتا تھا۔اس لیے کہ یہ مصیبت ہی اتنی بڑی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر لوگوں میں خطبہ دینا شروع کردیا۔یہاں تک کہ بعض لوگوں کویہ خیال گزرا کہ آپ ہی اللہ کے رسول ہیں ؛ یہاں تک کہ بعدمیں معلوم ہوگیاکہ بیٹھی ہوئی ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفود کی ملاقات کے لیے نکلتے؛اور ان سے خطاب کرتے ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں بھی خطاب کیا کرتے تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ نے اس وقت بھی ایک خطبہ دیا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے دن بڑا بلیغ خطبہ دیا تھاجس سے تمام حاضرین کو فائدہ ہوا۔حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے سقیفہ کے دن بڑا عمدہ خطبہ تیار کیا تھا۔جسے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پہلے پیش کرنا چاہتا تھا۔میں آپ کے ساتھ کسی حد تک مدارت سے کام لیتا تھا۔ جب میں نے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ ذرا ٹھہریے ! چنانچہ میں نے انھیں ناراض کرنا پسند نہ کیا۔ میرے جذبے قدرے تیز و تند تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب گفتگو کی تو وہ مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار ثابت ہوئے۔ اللہ کی قسم! آپ نے میرے تیار کردہ خطبہ کا ایک بھی پسندیدہ جملہ باقی نہ چھوڑا بلکہ وہ فی البدیہ کہہ سنایا اور اس سے کچھ بہتر ہی کہا ہو گا۔[صحیح بخاری، کتاب الحدود۔ باب رجم الحبلی فی الزنا (حدیث:۶۸۳۰)۔]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ہمیں خطاب کیا تو ہم لومڑی کی طرح بزدل تھے‘ آپ کی مسلسل حوصلہ افزائی نے ہمیں شیر بنا دیا۔

حضرت زیادہ بن ابی لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ خطیب تھے۔ یہاں تک کہ امام شعبی فرماتے ہیں :

’’کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے بات کی ہو‘ مگر میں اس ڈر سے اس کے خاموش ہونے کی تمنا کیا کرتا تھا کہ کہیں بات بڑھانے میں وہ غلطی نہ کرجائے ؛ سوائے زیادکے۔آپ جتنی بھی لمبی گفتگو کرتے اتنی ہی زیادہ عمدہ ہوا کرتی تھی۔‘‘

لوگوں نے حضرت زیاد کے خطبات لکھے ہوئے ہیں ۔

ایسے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خطیب تھے ؛ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے بڑی خطیب تھیں ۔یہاں تک کہ احنف بن قیس نے کہا ہے کہ : ’’ میں نے ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے خطبات سنے ؛ لیکن میں مخلوق میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کا مسکت اور دل اندوز خطاب نہیں سنا۔‘‘ [مستدرک حاکم(۴؍۱۱)]

اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی عربوں میں بہت سارے خطباء اور فصحاء تھے۔ ان میں سے اکثر تعداد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی خطابت نہیں سیکھی۔ نہ انھوں نے اس باب میں ان سے کچھ استفادہ کیا تھا۔

پھر کسی کی یہ بات کہ’’ آپ فصاحت کا منبع تھے ‘‘سوائے جھوٹ کے اور کیا ہوسکتی ہے؟ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی نہ ہوتا تو بھی آپ لوگوں میں سب سے بڑے خطیب تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک لفظ تک نہیں سیکھا۔

[ قوتِ خطابت اللہداد ہے]۔ فصاحت منہ پھاڑ کر بولنے ‘اورکلام کی گہرائی میں جانے کا نام نہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر خطباء عرب صحابہ اور دوسرے لوگوں کے کلام میں سجع اور تجنیس کا التزام نہیں ہوا کرتا تھا۔ جو علم البدیع کی مشہور اصطلاحات ہیں ، بلکہ ان کے خطبات میں آمد ہوا کرتی تھی اور یہ سجع کا تکلف نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ تکلفات متاخرین شعراء وخطباء اور مراسلین کی ایجاد ہیں ۔ قرآن نے اس جیسی چیزوں کو ہی بیان کیا ہے ‘ فرمایا:

﴿وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًا﴾۔[الکہف ۱۰۴]

’’اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں ۔‘‘

نیز فرمایا: ﴿اِِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ[ یَوْمَئِذٍ لَّخَبِیْرٌ ]﴾ [عادیات۱۱]

’’بیشک ان کا رب اس دن ان سے خبر دار ہوگا۔‘‘

اوراس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں ۔پس آپ نے کبھی بھی مجانست کے لیے تکلف نہیں کیا۔بلکہ تابع بغیر قصد کے خود ہی آتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں شعری اوزان تو موجود ہیں لیکن ان سے مقصودشعر نہیں ؛جیساکہ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍرّٰسِیٰتٍ﴾ [سباء ۱۳]

’’ اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿نَبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم﴾ [الحجر۴۹]

’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَوَضَعْنَا عَنکَ وِزْرَکَ Oالَّذِیْ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ ﴾ [انشراح ۲۔۳]

’’اور ہم نے تجھ سے تیرا بوجھ اتار دیا۔ وہ جس نے تیری پیٹھ توڑ دی۔‘‘

جب کہ بلاغہ مامور بہ علم ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ قُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیْغًا ﴾ [النساء۶۳]

’’ ان سے ایسی بات کہہ جو ان کے دلوں میں بہت اثر کرنے والی ہو۔‘‘

یہ علم بیان و معانی پر مشتمل ہے۔پس اس کے ایسے معانی ذکر کیے جاتے ہیں جو مطلوب کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہوں اوروہ الفاظ ذکر کیے جاتے ہیں جو ان معانی کے بیان کرنے میں زیادہ کامل ہوں ۔

بس بلاغت غایت مطلوب یا غایت ممکن تک پہنچنے کا نام ہے۔ یعنی ان معانی میں بیان کیا جائے جن میں زیادہ سے زیادہ بیان ہونا ممکن ہو۔ پس بلیغ انسان دو چیزوں کو جمع کرتا ہے : معانی مقصودہ کی تکمیل اور ان کا اچھے انداز میں بیان ۔ بعض لوگوں کی ساری ہمت علم معانی کی طرف ہوتی ہے ‘مگر وہ بیان کے الفاظ میں اس کا حق پورا نہیں کرسکتا۔ اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے نفس میں معانی کو تو بیان کرلیتے ہیں ۔مگر ان معانی سے وہ مقصود حاصل نہیں ہوتا جو اس مقام پر مطلوب ہے۔پس مخبر کا مقصد تو مخبر بہ کی تحقیق ہے ۔ جب وہ اسے بیان کرے ‘ اور اس چیز کو بھی بیان کرے جس سے اس کا ثبوت محقق ہوسکتاہو‘تو اس کی یہ منزلت نہیں ہوگی جس سے مخبر بہ محقق ہوسکے ۔یا وہ اس طرح سے بیان نہیں ہوگا جس سے اس کے ثبوت کاعلم ہوسکے۔

حکم دینے والے کا مقصود مطلوبہ حکمت کا حاصل ہونا ہے۔ پس جو کوئی حکم دے او راچھی طرح حکم نہ دے سکے‘ یا اس میں موجود حکمت کو نہ بیان کرسکے‘ وہ اس انسان کی طرح نہیں ہوسکتاجو حکمت کے ساتھ حکم دے اور حکمت کی وجہ کو بھی بیان کرے۔

گلا پھاڑنافصاحت نہیں اور نہ ہی تجنیس اور مسجع اوزان کو بلاغت کہتے ہیں ۔ یہ سب کچھ متأخر شعراء و ادباء اور وعاظ کی اور لے لگانے والوں کی ایجاد ہے۔صحابہ اور تابعین میں سے خطباء کرام کی یہ عادت نہیں تھی۔حالانکہ ان میں بڑے بڑے فصحاء موجود تھے۔ اورنہ ہی عرب لوگ ایسی باتوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اکثر طور پر جو لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں وہ معانی مطلوبہ کے بغیر صرف الفاظ کو ہی خوبصورت بناتا ہے ۔اس کی مثال اس مجاہد کی جو اپنے اسلحہ پر تونقش و نگار کرتا ہو‘مگرخود و ہ بڑا بزدل ہو۔‘‘ [بخلاف ازیں بلاغت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کم از کم الفاظ میں اپنا مافی الضمیرواضح کردیا جائے۔ چنانچہ ایک بلیغ آدمی معانی مقصودہ کو بطریق احسن سامعین پر واضح کردیتا ہے]۔

اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ایسے شاعر بھی ہیں جب وہ مدح یا ہجو میں زیادہ گہرائی میں جاتے ہیں تو حقیقت سے ہٹ کر افراط و تفریط اور جھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ؛ اور تخیلات و تمثیلات سے مدد لینے لگتے ہیں ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نہج البلاغۃ کے اکثر خطبات من گھڑت ہیں [1]وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام نہیں ہوسکتے۔بلکہ آپ پر جھوٹ گھڑاگیا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان ومنزلت اور قدر اس سے بہت بلند ہے کہ وہ اس قسم کا کلام کریں ۔ مگر شیعہ نے مدح گوئی کے نقطہ خیال سے ان کو وضع کیا تھا حالانکہ ان میں صداقت و مدح دونوں کا کوئی عنصر شامل نہیں ہے۔

[ [اشکال ]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کلام کلام مخلوق سے بالا ہے۔‘‘]

[جواب]:یہ قول[ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر مشتمل ہے اور] بہت بڑی غلط بیانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہر کلام سے بلند و بالا ہے۔ اور یہ دونوں کلام مخلوق ہیں ۔یہ اسی طرح ہے جیسے ابن سبعین نے کہا تھا:یہ کلام ایک لحاظ سے انسانی کلام سے ملتا جلتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی کلام کو کلام الٰہی کے مماثل قرار دیا جائے، ظاہر ہے کہ ایک مسلم اس طرح نہیں کہہ سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ کلام حضرت علی رضی اللہ عنہ میں جو باتیں صحیح ہیں ، وہ دوسروں کے کلام میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ مگر صاحب نہج البلاغۃ کی ستم ظریفی پر ہے کہ اس نے بہت سارے دوسرے لوگوں کے کلام کو آپ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ بعض باتیں جو آپ کی طرف منسوب ہیں وہ درست ہیں ۔ نہج البلاغۃ میں مندرج بعض باتیں بجائے خود صحیح ہیں اور وہ کلام علی ہو سکتی ہیں ، مگر دراصل وہ آپ کی فرمودہ نہیں ہیں ، بلکہ دوسروں کا کلام ہے۔ مشہور ادیب جاحظ کی کتاب ’’البیان والتبیین‘‘ میں کثرت سے دوسرے ادباء کا کلام نقل کیا گیا ہے۔ مگر صاحب نہج البلاغۃاسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ نہج البلاغۃ کے خطبات اگر فی الواقع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمودہ ہوتے تو نہج البلاغۃ کے مصنف سے پہلے ان کا بااسناد یا بے اسناد پایا جانا ضروری تھا۔ حالانکہ ان میں سے اکثر کا نہج البلاغۃ کے مصنف سے قبل کہیں پتہ نہیں ملتا۔ اس سے ان خطبات کا جھوٹا ہونا واضح ہوتا ہے۔ ورنہ ناقل ہمیں بتائے کہ یہ خطبات کس کتاب میں مذکور ہیں ؟ کس نے ان کو نقل کیا اور ان کی اسناد کیا ہے ؟ ورنہ صرف دعویٰ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، ہر کوئی دعوی کرسکتا ہے ۔جو شخص محدثین کے طریق کار سے آشنا ہے اور اخبار و آثار کو اسانید کے ساتھ پہچاننے کا سلیقہ رکھتا ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی باتیں نقل کرتے ہیں ، وہ منقولات سے بے بہرہ ہیں اور صدق و کذب میں تمیز نہیں کر سکتے۔