فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آسمانوں کے راستہ کا علم
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آسمانوں کے راستہ کا علم
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے گم ہوجانے سے پہلے جو پوچھنا چاہو، پوچھ لو، مجھ سے آسمان کے راستوں کے بارے میں پوچھو مجھے زمین کے راستوں سے ان کا زیادہ علم ہے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ یقیناً یہ بات مدینہ میں ہرگزنہیں کہا کرتے تھے جہاں ان کی طرح اور بھی مہاجر و انصار اہل علم صحابہ موجود تھے ۔جنہوں نے ویسے ہی علم حاصل کیا تھا جیسے آپ نے علم حاصل کیا تھا۔اور ویسے ہی معرفت حاصل کی جس طرح آپ نے معرفت حاصل کی تھی۔ بلکہ آپ نے یہ الفاظ اس وقت فرمائے جب آپ عراق چلے گئے ۔وہاں بہت سارے لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے جو دین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔آپ میں ان لوگوں کے درمیان اقامت گزیں تھے جو علم دین سے بے بہرہ تھے، آپ وہاں ایک امام کی حیثیت رکھتے تھے جس پر رعایا کی تعلیم و تربیت اور فتوی دینا واجب ہوتا ہے۔آپ یہ بات ان لوگوں سے اس لیے فرمایا کرتے تھے کہ :لوگ علم حاصل کریں ‘ اور فتوی پوچھیں ۔ جس طرح وہ صحابہ کرام جو بہت بعد تک زندہ رہے ؛ اور لوگ ان کے علوم کی طرف محتاج ہوئے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ احادیث روایت کی ہیں جو خلفاء اربعہ یا دوسرے اکابر صحابہ کرام نے روایت نہیں کیں ۔اس لیے کہ پہلے کے لوگ ان کونقل کرنے سے مستغنی تھے۔اس لیے کہ اس دور میں تمام لوگوں نے ایک ہی مصدر سے تعلیم پائی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عمر؛ ابن عباس ‘ عائشہ ‘ انس و جابر ‘ابوسعید رضی اللہ عنہم اوراس طرح کے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ روایات نقل کی گئی ہیں وہ جو حضرت علی اورحضرت عمر رضی اللہ عنہما سے منقول نہیں ہیں ۔جب کہ حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ عنہما ان بقیہ صحابہ کرام سے زیادہ بڑے عالم تھے۔لیکن لوگوں کو ان کے علوم کی ضرورت محسوس ہوئی ؛ اور اس لیے بھی کہ ان کی تاریخ وفات متأخر ہے ۔ انہیں ان تابعین نے پایا جو ان سے پہلے لوگوں کو نہیں پاسکے تھے۔پس انہیں سوال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اوروہ لوگ یہ سمجھے کہ انہیں سمجھائیں او رحدیث بیان کریں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کوفہ میں یہ ارشادفرمانا کہ :’’مجھ سے پوچھ لو ‘‘ یہ بھی اسی باب سے تعلق رکھتا ہے۔ایسی بات حضرت عبداللہ بن مسعود ‘ ابی بن کعب ‘ معاذ‘ ابی درداء؛اورسلمان اور ان کے امثال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ارشاد نہیں فرمائی ۔ چہ جائے کہ حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے ایسی بات کہتے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحابہ کرام عام طور پر سوال نہیں کیا کرتے تھے۔ حضرت معاذ؛ حضرت ابی بن کعب ‘ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اور دوسرے ان سے کم مرتبہ کے صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی آپ سے اس طرح کا کوئی سوال نہیں کیا۔ ہاں یہ بات ضرورہے کہ جب کوئی فتوی لینے والا آپ سے کرتا تو وہ ویسے ہی ہوتا تھا جیسا کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی سوال کیا جاتا ہو۔ حضرت عمراورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما اپنے امور میں آپ جیسے دوسرے لوگوں سے بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشیران میں حضرت عثمان ‘ حضرت علی ‘ حضرت طلحہ ‘حضرت زبیر؛ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ ابن مسعود ‘ زید بن ثابت ‘ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کے نام بھی آتے ہیں ۔ یہاں تک حضرت ابن عباس صغر سنی کے باوجود مشاورت میں شامل ہوا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو باہم مشورہ کرنے کا حکم دیا اور اس بات پر ان کی مدح فرمائی ہے؛ارشاد فرمایا :
﴿وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾ (الشوری:۳۸)
’’وہ اپنے امور باہم مشورہ سے طے کرتے ہیں ۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تدبیر و سیاست صحت و صواب کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی۔آپ کے بعد آپ جیسا کوئی عبقری پیدا ہی نہیں ہوا۔اور جیسا آپ کے دور میں اسلام پھیلاتھا؛اور اسے غلبہ و عزت اور قدرت نصیب ہوئے؛ بعد کے کسی بھی دور میں ایسا نہ ہوسکا۔آپ نے ہی کسری کا غرور توڑ کر رکھا؛روم اور فارس کی سپر پاورز کو خاک میں ملایا۔ شامی لشکر پر آپ کے امیر عام حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے اور عراقی لشکر پر حضرت سعد بن ابی وقاص۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آپ جیسے امراء لشکر ‘ لشکر اور اہل مشاورت کسی دوسرے کو میسر نہ آئے۔
پس یہ کہنا کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ’’اَنَا اَعْلَمُ بِطُرُقِ السَّمَآئِ من طرق الأرض‘‘
’’ میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمانی راستوں کو جانتا ہوں ۔‘‘[اگر فی الواقع حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ فرمائے تھے کہ’’اَنَا اَعْلَمُ بِطُرُقِ السَّمَآئِ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں جانتا ہوں کہ آسمان والے کن اوامر و نواہی پر عمل کرکے تقرب حاصل کرتے ہیں ۔اوریہ کہ میں عبادت کرنے کے طریقہ اور جنت و ملائکہ سے بخوبی آگاہ ہوں ، جب کہ زمین پر مجھے ان چیزوں کا علم حاصل نہیں ۔ یہ مراد نہیں کہ آپ بجسد عنصری آسمان پر چڑھ گئے ہیں ۔ کوئی مسلم یہ بات نہیں کہتا۔ یہ روایت موضوع ہے اور اس کی اسناد کا کچھ پتہ نہیں ۔]
یہ باطل کلام ہے۔کوئی عاقل ایسی بات نہ کہہ سکتا ہے [اور نہ ہی آپ جیسی شخصیت کی طرف منسوب کرسکتا ہے]
نہ ہی صحابہ کرام اورتابعین میں سے کوئی ایک اپنے بدن کے ساتھ آسمانوں پر چڑہاہے۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے بارے میں کلام کیا ہے۔ کیا آپ کو بدن کے سمیت معراج ہوئی تھی یا صرف روح کے ساتھ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے متعلق سلف میں یہ اختلاف نہیں رہا کا کسی کو بدن کے ساتھ معراج ہوئی ہو۔
غالی شیعہ میں سے جو کوئی اپنے مشائخ یا اہل بیت میں سے کسی ایک کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں حقیقت میں وہ لوگ گمراہی کا شکار ہیں ۔یہ بالکل اسی کلام کی جنس میں سے ہے جو کہ غالی شیعہ ان میں سے کسی ایک کے نبی ہونے یا اس سے بھی افضل یعنی خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
یہ تمام عقائد ایسا کھلا ہوا کفر ہیں جس میں کسی بھی مسلمان عالم کو ذرا بھر بھی شک نہیں ہوسکتا۔یہ بالکل وہی عقیدہ ہے جو کہ میمون قداح کی اولاد اسماعیلیہ کا عقیدہ تھا۔ان کا دادا ایک یہودی کے پاس لے پالک تھا۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لوگ محمد بن اسماعیل بن جعفر کی اولاد ہیں ۔ ان کے بہت سارے پیروکاران ان کے خدا یا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔اور ان کا عقیدہ ہےکہ محمد بن اسماعیل بن جعفر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیا تھا۔
یہی حال اس گروہ کا بھی ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ یا بعض دیگر اہل بیت کے خدا ہونے یا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ خواہ یہ لوگ اثنا عشریہ میں سے ہوں یا دوسروں میں سے ۔
یہی حال جھوٹے صوفیاء اور زہاد کے ایک گروہ کا ہے جو اپنے مشائخ اور پیروں کے خدا ہونے یا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔یا پھر ان کے انبیاء کرام سے بھی افضل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ : خاتم الاولیاء خاتم الانبیاء سے افضل ہے۔ اور ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اولیاء کو انبیاء کرام سے افضل مانتے ہیں ۔
ابن عربی اور اس طرح کے بعض دوسرے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خاتم الانبیاء خاتم الاولیاء سے استفادہ کیا کرتے تھے۔اور بعض لوگ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ: ’’ ایک کامل فلسفی نبی سے بڑھ کر علمی حقائق او رمعارف الٰہیہ کا جانکار و شناساہوتا ہے۔
اہل اسلام کا اتفاق و اجماع ہے کہ یہ عقائد کفر اور دین اسلام کے مخالف ہیں ۔اور جو کوئی انسان اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو اس سے توبہ کروائی جائے گی۔جیسا کہ ان جیسے دوسرے کفریہ کلمات کہنے والے اور کھلم کھلا مرتدین سے توبہ کروائی جاتی ہے۔ اگر ان عقائد کا کھل کر اظہار نہ کیا جارہا ہو تو پھر بھی یہ عقیدہ رکھنے والوں کا شمار اہل نفاق اور زندیق لوگوں میں سے ہوتا ہے۔
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ بعض لوگوں پر ایسے عقائد کا دین اسلام کے مخالف ہوتا مخفی رہ جاتا ہے اس کی وجہ یا تو ان لوگوں کا نیا نیا مسلمان ہونا ہے ‘اور پھر ایسے لوگوں میں ان کا موجود ہونا ہے جو بالکل جاہل ہوں اور اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں ۔ تویہ انسان بھی اسی انسان کی طرح ہوگا جو نماز کے واجب ہونے سے لاعلم ہو ؛یا اس کا نظریہ ہو کہ واجبات عوام الناس پر عائد ہوتے ہیں خواص پر نہیں ۔
[ صحابہ اورفتاویٰ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع ]:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’صحابہ مشکل مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہت سے فیصلے مسترد کردیے تھے؛ یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ اگر علی نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہو جاتا۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی امور میں صرف آپ کی طرف ہی؛یا کسی دوسرے فرد واحد کی طرف ہی رجوع نہیں کیا کرتے تھے۔بلکہ جب کوئی نیا مسئلہ پیش آتا تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت علی، عثمان، ابن عوف، ابن مسعود، زید بن ثابت اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشورہ فرمایا کرتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما صغیر السن ہونے کے باوجود اس مشورہ میں شرکت فرماتے۔اور سوال کرنے والا کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کرتا اور کبھی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مسائل دریافت کیے گئے۔اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مشکل مسائل کے جوابات دیے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے ؛ بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے بڑے عالم تھے ؛ مگر اس کا سبب یہ ہوا کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پاسکے تھے ؛ انہیں اس چیز کی ضرورت پیش آئی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی ایک نے بھی یہ نقل نہیں کیا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ علمی استفادہ کیا ہو۔ بلکہ یہ منقولات موجود ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے علمی استفادہ کیا ہے جیسا کہ نماز توبہ کی حدیث (اوراس طرح کے دیگر مسائل)۔ [سنن الترمذی ‘ و أبوداؤد و ابن ماجۃ ]۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کثیر العلم ہونے کے باوصف مشکل مسائل میں مشورہ لینے کے عادی تھے۔لوگ اکثر آپ کے قول کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ مثلاً عمر یتین اور ’’عول‘‘ کے مسئلہ میں صحابہ نے آپ کے قول پر عمل کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ جب میت کا خاوند اور والدین یا بیوی اور والدین موجود ہوں تو میت کی ماں کو باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی ملے گا۔ اکابر صحابہ و فقہاء مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود، علی، زید اور ائمہ اربعہ نے اس مسئلہ میں آپ کا اتباع کیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا پتہ نہ چل سکا اور انھوں نے یہ فتویٰ دیا کہ میت کی ماں کو پورے ترکہ کا ایک تہائی ملے گا۔ صحابہ کی ایک جماعت نے آپ کے قول کو اختیار کیا ہے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اقرب الی الصحت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے صرف ایک مسئلہ میں فرمایا تھا کہ:’’ اگر علی نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہو جاتا۔‘‘
بشرطیکہ اس روایت کی صحت ثابت ہو جائے، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس قسم کے الفاظ ان لوگوں کے حق میں بھی کہہ دیا کرتے تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فروتر درجہ کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ جس عورت نے مہر کے مسئلہ میں آپ سے تکرار کی تھی اس کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا:’’آدمی نے غلطی کھائی اور عورت کی بات صحیح نکلی۔‘‘[المقصد العلی فی زوائد ابی یعلی الموصلی(۷۵۷)، مجمع الزوائد(۴؍۲۸۴)۔]
اس کی اصل یہ ہے کہ آپ کی رائے یہ تھی کہ عورت کے مہر کی شریعت میں مقدار مقرر ہونی چاہیے۔لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور بیٹیوں کے مہر سے زیادہ مہر نہیں ہونا چاہیے۔ جیساکہ بہت سارے فقہاء کا خیال ہے کہ عورت کے مہر کی کم ازکم مقدار اتنا مال ہے جس کے چوری کرنے پر حد لازم آتی ہو۔جب اسے شریعت میں مقدرمانا جائے اور جو اس سے زیادہ ہوگا وہ شوہر کی طرف سے خرچ ہوگا ‘ اوروہ اس کا بدلہ پالیتا ہے۔عورت اس کی مستحق نہیں ہوتی۔لہٰذا اسے بیت المال میں رکھا جائے۔ جیسے کہ اگر کوئی مسلمان شراب بیچ دے تو اس سے وہ رقم وصول کرکے مسلمانوں کے بیت المال میں شامل کر لی جائے گی۔اور اس مزدور کی مزدوری بھی ضبط کرکے بیت المال میں شامل کرلی جائے گی جو خود کو شراب اٹھانے پر مزدور بنائے۔اور اس طرح کے دیگر اقوال بھی ہیں جن پر علماء کرام کا فتوی ہے۔
بلاشک وشبہ جو انسان عوض کے بدلے حرام چیزسے منفعت حاصل کرلے؛ جیسا کہ وہ انسان جو کسی چیز کے بدلے زنا کرتا ہے ‘ یا پھر حرام گانے وغیرہ سنتا ہے ‘ یا شراب پیتا ہے ‘ تواس کی غرض پوری ہونے کے بعد یہ مال اسے واپس نہیں کیا جائے گا ‘ اس لیے کہ اس میں معصیت ونافرمانی پر تعاون اوراسے فروغ دینا ہے۔ اگرچہ وہ دوبارہ اپنی چیز کومعاوضہ کے بدلہ میں ہی حاصل کرنا چاہے۔ اوراگریہی چیز بیچنے والے یا مزدور کو دی جائے تو گویا کہ اس کے لیے خبیث چیزکو مباح کیا گیا ہے ‘ لہٰذا اس مال کو مسلمانوں کی مصلحت کے امور میں صرف کیا جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک عادل حکمران تھے۔آپ کا نکتہ نظر یہ تھا کہ زیادہ مہر شرعی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ توایک عورت آئی اور اس نے کہا: ’’ آپ ہم سے وہ چیز کیوں روکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہمارے لیے حلال کی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’ کتاب اللہ میں کہاں ہے ؟وہ کہنے لگی : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰلہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا﴾ [النساء۲۰]
’’اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے آپ سے یہاں تک کہا:’’ کیا ہم آپ کی بات سنیں یا قرآن کی بات سنیں ۔ توآپ نے فرمایا: نہیں بلکہ کتاب اللہ کی بات سنو۔ تو اس نے یہ آیت پڑھ کرسنائی ؛ اس پر آپ نے فرمایا تھا:’’مرد نے؛ غلطی کھائی اور عورت کی بات صحیح نکلی۔‘‘[تفسیر ابن کثیر۲؍۲۱۲۔ مسند احمد برقم ۲۸۵۔ اس کی سند جید اورقوی ہے۔نیز دیکھیں : سنن الترمذی‘ ابن ماجہ ‘ اور ابوداؤد اورسنن کبری۔]
اس کے باوجود کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں علم ودین کے الہام کی خبر دی تھی؛ ایسی خبر حضرت عثمان‘علی؛ طلحہ زبیر رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے بھی حق میں وارد نہیں ہوئی۔
سنن ترمذی میں حضرتِ ابن عمر سے روایت ہے : بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِن اللہ جعل الحق علی لِسانِ عمر وقلبِہِ ))۔[سبق تخریجہ]
’’بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل و زبان پر حق کو جاری کردیا ہے ۔‘‘
اورامام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایاہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ::
((ما نزل بِالناسِ أمر قط، فقالوا فِیہِ، وقال عمر فِیہِ، إِلا نزل فِیہِ القرآن علی نحوِ ما قال عمر)) [ترمذی ۵؍۲۸۰]
’’ لوگوں کوکوئی بھی مسئلہ ایسا پیش نہیں آیا جس کے بارے میں لوگوں نے بھی کوئی بات کی ہو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہو‘ مگر قرآن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوا۔‘‘
سنن أبی داود میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں :
(( سمِعت النبِی صلی اللہ علیہ وسلم یقول:’’إِن اللّٰہ وضع الحق علی لِسانِ عمر یقول بِہِ)) [سنن أبی داؤد من حدیث أبي ذر الغفاري رضی اللّٰہ عنہ : ۳؍۱۹۱]
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے حق عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے ‘اورآپ وہی حق بولتے ہیں ۔‘‘
سنن ترمذی حضرت عقبہ بن عامِر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لو کان بعدِی نبِی لکان عمر )) [سبق تخریجہ]
’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا ۔‘‘
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لقد کان فِیمن کان قبلکم مِن الأممِ ناس محدثون مِن غیرِ أن یکونوا أنبِیاء، فإِن یکن فِی أمتِی أحد فعمر))
’’ اُمَم سابقہ جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں ‘ ان میں مُلہم من اللہ ہوا کرتے تھے؛ جو کہ انبیاء نہیں ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
ابن وہب رحمہ اللہ محدثون کی کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ملہمون ؛ یعنی جن کی طرف الہام کیا جاتا ہو۔ صحیحین میں ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((سمِعت النبِی رضی اللّٰہ عنہم یقول:’’ بینا أنا نائِم رأیت الناس یعرضون وعلیہِم قمص، فمِنہا ما یبلغ الثدِی، ومِنہا ما یبلغ دون ذلک، وعرِض علی عمر وعلیہِ قمِیص یجرہ ۔قالوا: فما أولتہ یا رسول اللّٰہِ؟ قال:’’الدِین)) [سبق تخریجہ]
’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا:’’ میں نے خواب دیکھا کہ مجھ پر لوگ پیش کیے جا رہے ہیں ‘ اور انہوں نے قمیص پہن رکھے ہیں ۔ان میں سے کسی کی قمیص چھاتی تک پہنچتی ہے تو کسی کی اس سے کم ہے ۔ اور میرے سامنے عمر کو لایا گیا ‘ ان پر قمیص تھے ؛ اور آپ اسے کھینچتے ہوئے جارہے تھے ۔‘‘لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟ آپ نے فرمایا: ’’دین سے تعبیر کی ہے ۔‘‘
صحیحین میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((سمِعت النبِی صلي اللّٰه عليه وسلم یقول:’’ بینا أنا نائِم أتِیت بِقدحِ لبن فشرِبت مِنہ، حتی إِنِّی لأری الرِّیَّ یخرج مِن تحتِ ظفارِی، ثم أعطیت فضلِی عمر بن الخطابِ؛ قال من حولہ: فما أوَّلت ذلک یا رسول اللّٰہِ؟ قال: ’’العِلم‘‘)) [سبق تخریجہ]
میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :’’مجھے خواب میں ایک پیالہ پیش کیا گیا جس میں دودھ تھا، وہ میں نے پی لیا، یہاں تک کہ سیری کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہرہونے لگا، پھرجو بچ گیا میں نے وہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ نے عرض کیا:’’ پھر آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ فرمایا:’’ دودھ سے علم مراد ہے۔‘‘
صحیحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یا ابن الخطابِ! والذِی نفسِی بِیدِہِ ما لقِیک الشیطان سالِکاً فجاً ِإلا سلک فجاً غیر فجِّک)) [سبق تخریجہ]
’’ اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب بھی شیطان تمہیں کسی وادی میں ملتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کردوسری وادی میں بھاگ جاتا ہے ۔‘‘
صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((وافقت ربِی فِی ثلاث: قلت: ’’لوِ اتخذت مِن مقامِ ِبراہِیم مصلی‘‘ فنزلت: ﴿ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی ﴾[البقرۃ:125]۔وقلت: یا رسول اللّٰہِ: یدخل علی نِسائکَ البر والفاجِر، فلو أمرتہن یحتجِبن؛ فنزلت آیۃ الحِجابِ۔ واجتمع نِساء النبِیِ- صلی اللّٰہ علیہِ وسلم ـفِی الغیرۃِ، فقلت:﴿ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ﴾۔[التحریم:۵]فنزلت ذلکِ ۔)) [سبق تخریجہ]
’’ میں نے اپنے پرودگار سے تین باتوں میں موافقت کی(ایک مرتبہ)میں نے کہا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش ! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنا تے، پس اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
﴿ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی﴾ [البقرۃ ۱۲۵]
’’ اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالو۔‘‘
حجاب کی آیت بھی میری خواہش کے مطابق نازل ہوئی ۔کیونکہ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ! کاش آپ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں ، اس لیے کہ ان سے ہر نیک وبد گفتگو کرتا ہے۔ پس حجاب کی آیت نازل ہوئی۔ اور ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ پر نسوانی جوش میں آکر جمع ہوئیں ، تو میں نے ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو طلاق دے دیں گے، تو عنقریب آپ کا پروردگار تم سے اچھی بیویاں آپ کو بدلے میں دے گا، جو مسلمان ہوں گی، تب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿عَسٰی رَبُّہٗ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہُ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ﴾ [التحریم۵]
’’اگر آپ انہیں طلاق دے دیں تو بہت جلدآپ کا رب تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائیگا۔‘‘
اس باب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔
جب کہ روٹیوں میں فیصلہ کا قصہ [ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہاں پر روٹیوں کا قصہ ذکر نہیں کیا جیسا کہ ابن مطہر نے ذکر کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے: آپ نے دیگر کئی مشکل مسائل حل کیے۔ آپ کے پاس دو آدمی حاضر ہوئے۔ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین ۔جب دونوں کھانے کے لیے بیٹھ گئے تو ایک تیسرا آدمی بھی آگیا۔ اور کھانے میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا۔جب کھانا کھا چکے تو وہ ان کی طرف آٹھ درہم پھینک کر چلا گیا۔ زیادہ روٹیوں والے نے ان میں سے پانچ درہم طلب کیے مگر کم روٹیوں والا نہ مانا۔ یہ دونوں اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اس آدمی نے کہا: ’’اے امیر المؤمنین! میرا حق زیادہ بنتا ہے؛اور میں تمہارے پاس انصاف کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر ایسا ہی ہے تو ایک درہم لو ‘ اور اپنے دوسرے ساتھی کو باقی دراہم دے دو۔‘‘ ]؛ اور اس سے بھی زیادہ باریک مسائل ایسے امور ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت ادنی مرتبہ کے لوگ بھی فیصلہ کرلیتے ہیں ۔ فقہاء کرام کے ہاں فروعی مسائل اور قضاء میں اس سے زیادہ باریک و دقیق مسائل میں وہ لوگ بھی درست فیصلے کرلیتے ہین جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مانند بھی نہیں ہوتا۔
قرعہ کا قصہ[ابن مطہر نے لکھا ہے کہ : دو مالک ایک لونڈی پر ایک ہی طہر میں واقع ہوگئے۔لونڈی حاملہ ہوگئی۔پس مسئلہ میں اشکال پیدا ہوگیا۔ یہ معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پیش کیا گیا۔تو آپ نے قرعہ اندازی کرنے کا حکم دیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلہ کو درست قرار دیا۔ اور فرمایا: ’’ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم اہل بیت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا جو حضرت داؤد علیہ السلام کی سنتوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔یعنی ان کے فیصلے الہام پر مبنی ہوتے ہیں ۔‘‘یہ قصہ دیکھیں : ’’ سنن ابی داؤد ‘ کتاب الطلاق ‘ باب : من قال بالقرعۃ إذا تنازعوا في الولد۔ یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔اس کی سند میں یحیٰ بن عبداللہ الکندی نامی ایک راوی ہے جسے اجلح کہا جاتاہے۔یحیٰ بن معین اور عجلی نے اسے ثقہ کہا ہے۔ علامہ منذری کہتے ہیں : اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ابن عدی فرماتے ہیں : اس کا شمار شیعہ میں سے ہوتا ہے؛مستقیم الحدیث ہے۔ امام نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ امام خطابی کہتے ہیں : حضرت زید بن ارقم والی حدیث کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔علامہ منذری فرماتے ہیں : یہ روایت مرسل سند سے نقل کی گئی ہے۔‘‘ ابو داؤد نے یہ روایت دو سندوں سے نقل کی ہے۔ ایک روایت عبداللہ بن خلیل نے زیدبن ارقم سے نقل کی ہے اور دوسری سند میں عبد خیر نے زید سے روایت کیا ہے۔ ] امام احمد اور ابو داود نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ لیکن جمہور فقہاء اس کے قائل نہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے اس روایت کا ضعیف ہونا نقل کیا گیا ہے۔ اورآپ نے اس روایت کو قبول نہیں کیا۔اوریہ بھی کہا گیا ہے : کہ بعد میں آپ اسی قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔امام احمد رحمہ اللہ قرعہ کے مسئلہ میں زیادہ وسیع علم رکھتے ہیں ۔نیز آپ نے زبیہ کے مسئلہ میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔[زبیہ کا مسئلہ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں نقل کیا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا۔ہم ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جنہوں نے شیر کو مارنے کے لیے ایک گڑھا کھودا تھا۔ وہ لوگ ایسے ہی شیر سے اپنا دفاع کررہے تھے کہ ان میں(]
یہ حدیث دوسری حدیث کی نسبت زیادہ ثابت ہے؛ جسے سماک بن حرب روایت کیا ہے ؛ اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسے قبول کیا ہے۔جب کہ وہ تین جو کہ اپنی منزل کو نہ پاسکے ؛ ان کی روایت یا توآپ تک پہنچی نہیں ‘ یا پھر آپ کے نزدیک وہ روایت ثابت نہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کو آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بہت زیادہ علم اور صحیح وسقیم کی معرفت حاصل تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عادل قاضی ہونا آپ کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ اس میں کسی کو کوئی جھگڑا ہی نہیں ۔لیکن اس میں یہ دلیل کہیں بھی نہیں پائی جاتی کہ آپ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر عادل تھے۔
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ مسائل کا حل الہام کے ذریعے معلوم کرلیا کرتے تھے۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ یہ غلط بات ہے۔ اس لیے کہ صرف الہام کی بنا پر فیصلہ کرنا ؛ یعنی اس طرح سے کسی انسان کے بارے میں الہام ہوگیا کہ وہ حق پر ہے؛ صرف اس الہام کی اساس پر دین اسلام میں کوئی فیصلہ کرنا حلال و جائز نہیں ہے ۔صحیح حدیث میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیشک تم میرے پاس اپنے جھگڑے پیش کرتے ہو؛ اوربسااوقات ایک انسان اپنی بات پیش کرنے میں دوسرے کی نسبت زیادہ تیز زبان والا ہوتا ہے؛ اور اس میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جس طرح سنتا ہوں ۔پس جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں ‘ اسے چاہیے کہ وہ نہ لے ؛ بیشک میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں ۔‘‘
اس حدیث میں آپ نے خبر دی ہے کہ میں خود سن کر فیصلہ دیتا ہوں ‘ صرف الہام کی بنیاد پر نہیں ۔ اوراگر الہام کے ذریعہ شرعی احکام ثابت ہو جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اللہتعالیٰ وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کرتے کہ حق دار کون ہے اور اس طرح آپ کو شہادت کی ضرورت بھی لاحق نہ ہوتی؛اور نہ ہی مجرم سے اقرار کروانے
[سے ایک آدمی اس گڑھے میں گرگیا۔ اس نے گرتے گرتے دوسرے آدمی کو پکڑ لیا؛ دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو پکڑ لیا۔ یہ چاروں انسان اس گڑھے میں گر گئے اور شیر نے انہیں زخمی کردیا۔ پھر ایک آدمی بھالا لیکر آیا اور اس نے شیر کو مار ڈالا۔ مگریہ چاروں زخمی بھی مر گئے۔ پہلے انسان کے رشتہ دار کھڑے ہوگئے تاکہ وہ دوسرے مرنے والے کے رشتہ داروں سے دیت وصول کریں ۔ یہاں تک کہ یہ لوگ اسلحہ نکال لائے ۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے پاس پہنچے ۔ آپ نے فرمایا:’’ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک دوسرے سے جنگ کرو گے؟میں تمہارے درمیان ایک فیصلہ کرتا ہوں ؛ اگر تم اس پر راضی ہوجاؤ تو ٹھیک ہے؛ ورنہ تمہیں بند کردوں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان سے فیصلہ کروالاؤ۔اس کے علاوہ کوئی تیسری چیز نہیں ہوسکتی۔ فیصلہ یہ ہے کہ : جن لوگوں نے گڑھا کھودا تھا؛ ان سے دیت جمع کرو ۔دیت ایک چوتھائی ؛ ایک تہائی نصف اور پوری دیت ہونی چاہیے۔ پہلے انسان کے لیے چوتھائی دیت ہے۔اس لیے کہ اس نے اپنے اوپر والے کو بھی ہلاک کیا ہے۔ دوسرے انسان کے لیے ایک تہائی دیت ہے۔ اور تیسرے کے لیے آدھی دیت ہے۔ ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے ۔ آپ اس وقت مقام ابراہیم کے پاس تھے۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا قصہ سنایا۔ ....ان میں سے ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہ ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ کیا تھا۔ اور پھر پورا قصہ سنایا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو باقی رکھا۔ مجمع الزوائد ۶؍۲۸۷۔ صحح أحمد شاکرسندہ في أربعۃ مواقع۔]
کی ضرورت پیش آتی۔اور نہ ہی جس کے حق میں فیصلہ کردیا ہوتا اسے وہ چیز لینے سے منع فرماتے ۔ اور نہ ہی زوجین میں لعان کے ذریعہ تفریق کی جاتی۔اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’ اگریہ عورت اس شکل وصورت کا بچہ پیدا کرے تو وہ اس کے شوہر کا ہوگا اوراگر اس شکل و صورت کا ہوا تو اس کا ہوگا جس پر الزام لگایا گیا ہے ۔‘‘
پھرجب عورت کوبچہ پیدا ہوا تو وہ ناپسندیدہ شکل و صورت کا تھا ؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر کتاب اللہ میں اس کا فیصلہ پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو میں اس کا فیصلہ خود کرتا۔ ‘‘[البخاری کتاب التفسِیرِ، سورۃ النورِ، باب ویدر عنہا العذاب۔سننِ بِی داود۲؍۳۷۰:کتاب الطلاقِ، باب فِی اللِعان۔سننِ التِرمِذِیِ۵؍۱۲؛ کتاب التفسِیرِ، سورۃ النورِ۔ ] پس آپ نے قسم کی بنا پر حکم کو نافذ کیا گواہی کی بنیاد پر نہیں ۔
اگر شیعہ کہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الہام کے ذریعہ شرعی احکام سے باخبر کیا جاتا تھا تو اس کے اثبات کے لیے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہے؛ صرف الہام کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائزنہیں ۔اس لیے کہ جس انسان کے بارے میں نص سے ثابت ہے کہ اسے الہام ہوتاہے وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ؛ احادیث صحیحہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اُمَم سابقہ میں مُلہم من اللہ ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے دل میں کیے جانے والے الہام کی بنا پر کوئی فیصلہ صادر کرنے ؛ فتوی دینے یا عمل کرنے کا حق نہ تھا جب تک کہ وہ اسے کتاب و سنت پر پیش نہ کرتے۔ اگر ان کا الہام کتاب و سنت کے معیار پر پورا اترے گا تو اسے قبول کیا جائے گا ورنہ نہیں ۔
[اشکال] :شیعہ مصنف ذکر کرتا ہے کہ:’’ ایک گائے نے ایک گدھے کو مارڈالا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں فیصلہ صادر کیا تھا۔‘‘
[جواب]: [شیعہ نے اس کی کوئی اسناد ذکر نہیں کی]اورنہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے۔اور نہ ہی کتب حدیث و فقہ میں اس کا کوئی وجود ہے؛حالانکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ کو اس قسم کے مسائل میں نص کی بہت سخت ضرورت ہوتی ہے۔ توپھر کسی ایسی چیز سے صحت امر پر کیسے استدلا کیا جاسکتا ہے ؛ جب کہ خود اس میں کوئی صحت نہیں پائی جاتی؛ بلکہ دلائل اس کی تردید کرتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی یہ جو حکم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے ‘ اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔اگر اس کو اس کے ظاہر پر محمول کیا جائے تو یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماع مسلمین کے خلاف ہوگا۔ اس لیے کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جُرْحُ الْعُجَمَآئِ جُبَارٌ‘‘[صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب المعدن جبار(حدیث:۶۹۱۲)، صحیح مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب جرح العجماء جبار(حدیث:۱۷۱۰)۔]
’’اگر جانور کسی کو زخمی کردے تواس کے مالک سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری ومسلم اور دوسرے محدثین نے روایت کیا ہے ‘اوراس کے صحیح ہونے پر علماء کرام کا اتفاق ہے ؛ اور اسے قبولیت بھی حاصل ہے اوراس پرعمل بھی ہے۔
عجماء أعجم کی تانیث ہے۔ہر چوپایہ جیسے :گائے؛ بھیڑ وغیرہ عجماء کہلاتاہے۔
اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب کوئی گائے یا بکری یا گدھا کسی چراگاہ میں چر رہے ہوں اوروہ کسی کے کھیت میں جا داخل ہوں ؛ کھیت کو تباہ کردے یا گدھے کو مار دے[یازخمی کردے]۔ دن کا وقت ہو اور مالک کا اس میں کوئی قصور نہ ہو؛ تو مویشی کے مالک سے کھیت کا تاوان وصول نہیں کیا جائے گا۔اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔اس لیے کہ اس میں اس چوپائے کے مالک کا قصور نہیں ہے۔
ہاں اگر رات کے وقت کسی کا مویشی کھیت میں داخل ہو کر نقصان کردے تو بقول اکثر علماء جیسے : امام مالک و شافعی و احمد رحمہم اللہ مویشی کا مالک نقصان کا ضامن ہو گا۔انکی دلیل حضرت سلمان علیہ السلام کے پاس پیش ہونے والا بکریوں اور کھیت کا معاملہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کا قصہ ہے ؛ جوکہ ایک کھیت میں داخل ہوگئی تھی اور اسے تباہ کردیا تھا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: جن کے مویشیوں نے رات کو نقصان کیا ہے ‘ان پر تاوان ہے ۔ اور باغ والوں کو اس باغ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔[سنن أبي داؤد ۳؍۴۰۳؛ کتاب البیوع و الإجارات ‘ باب المواشی تفسد زرع قوم؛ (ح: ۳۵۶۹؛ ۳۵۷۰۔ سنن ابن ماجۃ ۲؍۷۸۱؛ کتاب الأحکام ‘ باب: الحکم فیما أفسدت المواشي۔ الموطأ ۲؍۷۴۷؛کتاب الأقضیۃ باب القضاء في الضواري والحریسۃ ۔اس روایت کا شمار مراسیل ثقات میں ہوتا ہے۔اہل حجاز اوراہل عراق علماء کے ہاں اسے قبول حاصل ہے۔اہل مدینہ کے ہاں اسی پر عمل ہے ۔]
جب کہ امام ابوحنیفہ و ابن حزم اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ مالک ضامن نہیں ہوگا۔‘‘
اور اسے بھی جملہ طور پر عجماء کے حکم میں شامل مانا ہے۔ اور ان میں سے بعض نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کے واقعہ کو ضعیف قراردیا ہے۔[المحلی ۸؍۱۴۶۔ ابن حزم فر ماتے ہیں : ’’رات اوردن میں کسی وقت بھی چوپایہ کوئی جانی یا مالی نقصان کردے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔لیکن اس کے مالک سے کہا جائے گا کہ اسے باندھ کر رکھے۔اگروہ اسے باندھ کر رکھے تو درست ہے ۔ اگر دوبارہ ایسی حرکت کا ارتکاب کیا تو جانور بیچ کر تاوان ادا کیا جائے گا۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے :’’اگر جانور کسی کو زخمی کردے تواس کے مالک سے تاوان نہیں لیا جائے گا۔‘‘ یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ابو سلیمان رحمہ اللہ کامسلک ہے ۔ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ چوپایہ رات یا دن میں کسی وقت بھی کوئی نقصان کردے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ قاضی شریح اور امام شعبی رحمہما اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔انہوں نے اسی حدیث براء سے استدلال کیا ہے۔ ابو محمد ابن حزم فرماتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہوجاتی تو ہم اسے ہی اختیار کرتے۔ مگر یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ نیز انہوں نے حضرت سلیمان کے فیصلہ سے بھی استدلال کیا ہے ۔ اورکہا ہے : اس کی موجود گی میں اگر کوئی حدیث ہوتی بھی تو اس کا کوئی تاوان نہ ہوتا۔]
ہاں اگر مویشیوں کے مالک نے ظلم کیا ہو‘اور مویشیوں کو لوگوں کے کھیتوں کی طرف چھوڑا ہوا؛ یا کھیتیوں کے قریب لے جاکر چھوڑا ہو؛ یا پھر گدھے کے اصطبل میں اسکے مالک کی اجازت کے بغیر داخل کیا ہو؛ اوراس نے گدھے کو ماردیا [ یا نقصان پہنچایا] تو اس موقعہ پر مالک اپنے ظلم کی وجہ سے تاوان ادا کرے گا۔
یہ مسئلہ توگدھے اور گائے کا ہے اور اگر گائے کے مالک نے کوئی کوتاہی نہ کی ہو؛ کوتاہی گدہے کے مالک کی طرف سے ہو؛تو پھر جیسا کہ اگر دن کے وقت مویشیاں کھیتی میں داخل ہوکر اسے تباہ کردیں ‘ [ویسے ہی یہ فیصلہ بھی ہوگا] اس لیے کہ گدھے کے مالک نے اس کا دروازہ بند نہیں کیا۔جیسا کہ اگر گائے گدھے کے اصطبل میں داخل ہوجائے ‘ اور گدھا سویا ہوا ہو ؛ اور گائے کے مالک نے جان بوجھ کر گائے کو وہاں چھوڑا ہو تو اس صورت میں گائے کے مالک پر تاوان ہوگا۔ مجرد گائے کی گدھے پر زیادتی یا گدھے کی گائے پر زیادتی کو مالک کی کوتاہی کے بغیر ہی اگر تاوان کا سبب قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چوپاؤں کو بھی انسان کی طرح سمجھا جانے لگا ہے اور اس کے نقصان کا تاوان اس پر لگایا جارہا ہے۔حالانکہ یہ مسلمانوں کا حکم نہیں ہے۔ جوکوئی ایسی باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے نقل کرتا ہے ‘ وہ حقیقت میں آپ پر جھوٹ بولتا ہے۔
ہم کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں : یہ[شیعہ] لوگ جاہل ہیں ۔ جس چیز کو اپنے تئین مدح سمجھتے ہیں ‘ وہ اپنی طرف سے تراش کر جھوٹی مدح سرائی شروع کردیتے ہیں ۔ پس جھوٹ اور مدح کوجمع کرتے ہیں ۔نہ ہی اس میں کوئی مدح ہوتی ہے نہ ہی علم اور نہ ہی عدل ۔ وہ اپنی ان حرکات کی بنا پر خیر و عدل کی راہوں سے گمراہ ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بارے میں کلام پہلے اس آیت کی تفسیر میں گزرچکا ہے: ﴿یَہْدِی إِِلٰی الحَقِّ﴾ [یونس 35]