Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری]

[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:چوتھی دلیل: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ شجاع تھے۔ آپ کی تلوار سے اسلام کے قواعد و ارکان ایمان میں پختگی آئی۔آپ کبھی بھی کسی بھی موقع پر پسپا نہیں ہوئے۔اور نہ ہی کبھی اپنے کسی قرابت دار کو تلوار سے قتل کیا اور تلوار ہی سے آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تکلیفات کو دور کیا۔ آپ دوسرے لوگوں کی طرح جنگ سے کبھی نہیں بھاگے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بستر پر رات گزاری تو اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر لپیٹ کر سو گئے۔ مشرکین نے آپ کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم گمان کیا۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے پر تمام مشرکین کااتفاق ہو گیا تھا ؛ اورا نہوں مسلح ہوکر آپ کا گھیراؤ کرلیا تھا۔وہ [نماز] فجر کا انتظار کررہے تھے تاکہ آپ کو کھلے عام قتل کریں ۔اور آپ کا خون قبائل میں بٹ جائے۔اور بنی ہاشم دیکھ لیں کہ قاتلین میں ہر قبیلہ کے لوگ موجود ہیں ؛ اور ان کے لیے اتنی بڑی تعداد کے قتل میں شریک ہونے کی وجہ سے خون کا بدلہ لینا ممکن نہ رہے۔اور ہر قبیلہ اپنے افراد کی حفاظت کے لیے مستعد رہے۔یہ[تدبیر] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کی حفاظت کا سبب بن گئی ۔سلامتی پوری ہوئی۔ اس غرض نے ان کو ایک ملت کی لڑی میں پرو دیاتھا ۔لیکن جب لوگوں نے صبح کی اور انہوں نے آپ کی یہ بہادری دیکھی تو انہیں اپنے آپ پر غصہ آیا ‘اورآپ کو پہچان لینے کے بعد وہ لوگ بکھر گئے۔وہ اس حالت میں پلٹے کہ ان کے تمام حیلے ناکام ہوچکے تھے اور ان کی تدبیریں الٹ چکی تھیں ۔ ‘‘ [شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا]

[جواب]: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادر ترین صحابہ میں سے تھے۔جن کی شجاعت سے اللہ تعالیٰ نے نصرت اسلام کی خدمت لی ہے۔آپ کا شمار مہاجرین و انصار کے بڑے بزرگ سابقین اولین میں سے ہوتا ہے۔آپ ان لوگوں کے سردار ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا؛ اور اپنی تلوار سے کئی کفار کوقتل کیا ۔ مگر یہ آپ کی خصوصیت نہیں ، بلکہ متعدد صحابہ اس میں آپ کے سہیم و شریک تھے۔اس وجہ سے دوسرے بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ کی فضیلت ثابت نہیں ہوسکتی۔تو پھر چہ جائے کہ باقی خلفاء راشدین پر آپ کی فضیلت ثابت ہوجائے‘خلیفہ کے لیے متعین ہونا تو دور کی بات ہے۔

’’شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ :’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے ۔‘‘

یہ بات جھوٹ ہے۔بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اشجع الناس[تمام لوگوں سے بہادر] تھے۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک روز اہل مدینہ گھبرا کر جدھر سے آواز آرہی تھی ادھر کو چل پڑے، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو طلحہ کے گھوڑے پر سوار تلوار گلے میں ڈالے اس طرف سے واپس آتے ہوئے ملے ؛ آپ پہلے ہی اس آواز کی سمت چل پڑے تھے۔ آپ فرما رہے تھے ’’ مت گھبراؤ۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الحمائل و تعلیق السیف (حدیث:۲۹۰۸)، صحیح مسلم ۔ کتاب الفضائل باب شجاعتہ رضی اللّٰہ عنہم (حدیث:۲۳۰۷)۔]

امام بخاری فرماتے ہیں : آپ واقعہ کی خبر لیکر واپس آرہے تھے کہ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔‘‘

مسند میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سخت خطرہ کا موقع ہوتا تو آپ سب سے آگے آگے دشمن کے قریب تر ہوا کرتے تھے۔[مسند احمد(۱؍۸۶)۔صحیح۔]

شجاعت [بہادری]کی تفسیر دو چیزوں سے کی جاسکتی ہے :

۱۔ قوت قلب اور خطرات میں ثابت قدم رہنے کا نام ۔

۲۔ جسمانی طور پر سخت جنگ وقتال کرنا‘ بہت سارے لوگوں کو قتل کرنا؛ تاکہ ایک عظیم مقتل سجادیا جائے۔

پہلی چیز شجاعت ہے ۔جب کہ دوسری چیز جسمانی قوت پر دلالت کرتی ہے اور ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ جس کا بدن قوی ہو اس کا دل بھی قوی ہے ‘یا اس کے برعکس معاملہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کوئی انسان بہت سخت جنگ و جدال کرتا ہے اور بہت سارے لوگوں کو قتل کرتا ہے ؛ لیکن یہ اس وقت جب کوئی اسے حفاظت فراہم کرنے والا ہو۔ اور اگر اسے خوف محسوس ہوجائے تو پھر اس پر بزدلی چھاجاتی ہے۔ اوراس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔اور آپ کسی ایسے انسان کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ثابت القلب ہو ‘مگر اس نے اپنے ہاتھ سے بہت سارے لوگوں کو قتل نہ کیا ہو۔ ایسا انسان خوف کے اوقات میں ثابت قدم رہنے والا اور انتہائی خطرناک موڑ پر پیش قدمی کرنے والاہوتا ہے۔ جنگی سالاروں اور قیادت میں اور ہر اول دستہ کے لوگوں میں اس خصلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پیش قدمی کرنے والا جب بہادر اور ثابت ِ قلب ہو ؛ تو وہ آگے ہی بڑھتا رہتا ہے ؛ پیچھے نہیں ہٹتا۔ پس اس کے ساتھی بھی جنگ و قتال کرتے ہیں ۔ اوراگر بزدل اور کمزور ڈرپوک ہو تو وہ پسپا ہوجاتا ہے ‘آگے نہیں بڑھ سکتا ‘اورنہ ہی ثابت قدم رہ سکتا ہے۔بھلے اس کا بدن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ [شدید گرفت اور جنگی مہارت بھی شجاعت میں داخل ہے]۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت ہر لحاظ سے کامل تھی‘وہ شجاعت جو میدان جنگ میں سالار لشکر سے مطلوب ہوتی ہے۔اس انتہائی شجاعت کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن خلف کے سوا کسی کو قتل نہیں کیا تھا۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۳۸۹)۔] اسے غزوۃ احد میں قتل کیا تھا۔اس سے پہلے یا بعد آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل نہیں کیا۔حالانکہ آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ آپ تمام صحابہ سے زیادہ بہادر تھے۔تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ حنین میں منتشر ہو گئے تھے۔ مگر آپ خچر پر سوار ہو کر بدستور دشمن کی طرف بڑھے جا رہے تھے۔آپ کی خچر نہ بھاگتی تھی اورنہ ہی پیچھے ہٹتی تھی۔اور اس کیساتھ ساتھ آپ 

فرماتے جارہے تھے:

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ ....اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

’’ میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ....میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿ وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ....﴾ (ح: ۴۳۱۵۔ ۴۳۱۷)۔ صحیح مسلم، کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ حنین(حدیث:۱۷۷۶)۔]

پس آپ اپنا نام لے کر آگے بڑھ رہے تھے ‘ جب کہ صحابہ کرام بکھر چکے تھے۔اوردشمن مسلسل آپ کی طرف بڑھ رہاتھا۔اور آپ اپنی خچر پر سوار دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے ؛ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کی خچر کی لگام تھامی ہوئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ لیا کرتے تھے ‘اس لیے کہ آپ ان سب سے زیادہ بہادر تھے ؛ اگرچہ لوگوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا تھا۔

جب امام میں قلبی شجاعت کی ضرورت ہوتی ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی زیاد دلیر وبہادر تھے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان و علی ‘طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر بہادر تھے۔ جو انسان بھی صحابہ کرام کے حالات وواقعات جانتا ہے ‘ اسے ان باتوں کا علم ہے۔ 

آپ آغاز اسلام ہی سے ان خطرات میں گھرے رہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبتلا تھے۔مگر کبھی بزدلی دکھائی نہ بے قراری کا اظہار کیااورنہ ہی پیچھے ہٹے۔ بلکہ خطرات و مہالک میں کود کراپنی جان پر کھیل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے۔مشرکین سے مال و جان اور زبان سے جہاد میں حصہ لیتے۔یہ تمام باتیں گزر چکی ہیں ۔

جنگ بدر میں سائبان کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ تھے؛ حالانکہ سب یہ بات جانتے تھے کہ مشرکین کا اصل ہدف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔مگر آپ بالکل ثابت قلب تھے‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت کر رہے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے لگے تو آپ فرما رہے تھے:

’’ اللہم أنجزلي ما وعدتني ؛ اللہم إن تہلک ہذہ العصابۃ ‘ لا تعبد؛ اللہم اللہم ۔‘‘

’’اے اللہ !جو وعدہ مجھ سے کیا ہے اس کو پورا کر۔اے اللہ! اگر یہ مختصر سی جماعت ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا؛ اے اللہ ! اے اللہ!....‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر، (حدیث: ۱۷۶۳)۔ [ دعا کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی، بلکہ یہ آپ کے کمال کی دلیل ہے اسباب پر تکیہ کرنا توحید کے منافی ہے اور اسباب سے بالکلیہ اعراض کرلینا بھی خلاف شرع ہے۔ رسول پر یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ جہاد کے ذریعہ اقامت دین کی پوری پوری کوشش کرے اور اس راہ میں اپنی جان و مال اور بارگاہ ایزدی میں دعا کرنے اور اس پر مسلمانوں کو آمادہ کرنے سے گریز نہ کرے۔ بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہونا ایک عظیم جہاد ہے اور پیغمبر اس کا مامور ہوتا ہے ۔ جب دل پر خوف و ہیبت چھا جائے اور عجز و انکسار کا غلبہ ہو تو بعض چیزیں جو ذہن میں محفوظ ہوتی ہیں یاد نہیں رہتیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو تھے۔ اور آپ کی مدافعت کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔[دراوی جی ]]

ابو بکر رضی اللہ عنہ برابر کہتے جا رہے تھے :

’’ اے اللہ کے رسول! آپ کی یہ دعا کافی ہے، اللہتعالیٰ آپ سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کریں گے۔‘‘

اس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یقین کامل؛اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اعتماد اور عزم و ثبات؛شجاعت وبہادر پر روشنی پڑتی ہے؛ اور قدرتی بہادری پر ایمانی شجاعت وبہادری زیادہ تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت آپ سے زیادہ کامل تھی ‘اورآپ کا مقام ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقام سے اعلی تھا۔یہاں پر مقصودیہ بیان کرنا ہے کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد] لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ان سے بڑھ کر کوئی دوسرابہادر نہیں تھا۔

معاملہ ایسے نہیں جیسا کہ بعض جاہل لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے اعلی ہیں-نعوذ باللہ من ذلک-۔اس موقعہ پر دعا کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی۔جیسا کہ بعض لوگوں نے اس بارے میں گفتگو کی ہے۔ اس میں ابن عقیل اور دوسرے لوگوں نے بھی بحث کی ہے۔[اس موقعہ پر دعاکرنا] یہ آپ کے کمال اور جامعیت کی دلیل ہے ۔آپ ہر مقام پر عظمت ورفعت کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہیں ۔پس اس سے معلوم ہوا کہ صرف اسباب پر تکیہ کرنا توحید کے منافی ہے اور اسباب کو سرے سے ترک کردینا عقل و خردمیں قدح کا باعث ہے؛اور اعراض و اسباب سے بالکلیہ اعراض کرلینا بھی خلاف شرع ہے ۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ جہاد کے ذریعہ اقامت دین کی پوری پوری کوشش کریں اور اس راہ میں اپنی جان و مال اور بارگاہ ایزدی میں دعا کرنے اور اس پر مسلمانوں کو آمادہ کرنے سے گریز نہ کریں ۔ بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہونا ایک عظیم جہاد ہے؛ اور مرغوب کے حصول اور مکروہ سے نجات کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے؛اور پیغمبر اس کا مامور ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمزور اور مفلس مہاجرین سے فتح کی دعاء کروایا کرتے تھے۔ اور جب بدر کے موقعہ پر قریش آئے ؛ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ[مقام بدرپر] موجود تھے ؛ اور آپ نے اپنے صحابہ کو کفار کے مقتل کی خبر بھی دیدی تھی ؛ آپ نے فرمایا تھا:

’’ یہاں پر عتبہ بن ربیعہ قتل ہوگا؛ یہاں پر شیبہ بن ربیعہ قتل ہوگا؛ یہاں پر امیہ بن خلف قتل ہوگا؛ یہاں پر ابو جہل بن ہشام قتل ہوگا۔ یہاں پر فلاں انسان قتل ہوگا۔‘‘[مسلم ۳؍۱۴۰۳’کتاب الجہاد والسیر‘ باب : غزوۃ البدر۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا ۔ ....اے حدیث کے آخر میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’ یہ فلاں کی قتل گاہ ہے‘‘ اور اپنا دست مبارک اس جگہ زمین پر رکھ دیتے۔ان میں سے کوئی انسان بھی اپنی اس بتائی گئی جگہ کے علاوہ نہیں مرا۔ اس سے ملتی جلتی ایک روایت سیرت نگاروں نے حضرت جہیم بن صلت سے نقل کی ہے: آپ فرماتے ہیں : میں نیند او ربیداری کی درمیانی حالت میں تھا کہ میں نے دیکھا: ایک گھوڑے سوار آکر رکا اور اس کے ساتھ اس کا اونٹ بھی تھا۔ پھر اس نے کہا: عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ بن ربیعہ ‘ ابو الحکم بن ہشام ‘ اور امیہ ابن خلف اور فلاں فلاں لوگ قتل ہوگئے ....‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیں : سیرت نبی از ابن کثیر۲؍۳۹۸۔ زاد المعاد ۳؍۱۷۳۔ سیرت ابن ہشام ۲؍۲۶۷۔]

پھر اس کے باوجودکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ ایسا ضرور ہوکر رہے گا۔ اور آپ جانتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو پھر اس کے ہونے میں اسباب کا ہونا یا نہ ہونا رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

یہ کہ بعض اسباب ایسے ہیں جن کے اختیار کرنے کا حکم بندوں کو دیا گیا ہے۔ وہ سب سے بڑا سبب جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیاہے ‘ وہ اس سے مدد طلب کرنا ہے ۔تو آپ نے وہ فریضہ ادا کیا جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا۔

حالانکہ آپ جانتے تھے کہ جس چیز کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے وہ ضرور ہوکر رہے گی۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراطاعت گزاری کرتے تھے ؛ حالانکہ آپ جانتے تھے کہ دنیاء وآخرت کی سعادت آپ قدموں میں ہے۔

جب دل پر خوف و ہیبت چھا جائے اور عجز و انکسار کا غلبہ ہو تو بعض چیزیں جو ذہن میں محفوظ ہوتی ہیں یاد نہیں رہتیں ۔ یہ چیز کسی کے عالم ہونے میں مانع نہیں ہوسکتی۔اور نہ ہی اس کے اجتہاد و جہاد میں اسباب کے اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔اور جس انسان کو علم ہو کہ جب وہ مریگا تو جنت میں داخل ہوگا۔لیکن یہ علم موت کی بعض سختیاں پیش آنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔اورجب مریض کو خبر دی جائے کہ اس دواء میں شفاء ہے تو یہ بشارت دواء کی ترشی یا کڑواہٹ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مامور بہ دعاء کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔یہی چیز تمام معاملات کی اصل اوردین کی چکی کا ایک پاٹ ہے۔آپ پر واجب ہوتا تھا کہ جو واجب دوسرے لوگ ادا کررہے ہوں وہ زیادہ اچھے طریقہ سے آپ ادا کریں ۔دعا کرنا اورمدد طلب کرنا نصرت الٰہی نازل ہونے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم ہے ۔ آپ کی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو تھے۔ اور آپ کی مدافعت کرنے میں پیش پیش رہتے تھے ۔ اور آپ نے یہ بھی عیاں کردیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کامل یقین ہے ؛ اور آپ دشمن کی طرف دیکھتے تھے کہ کیا وہ مسلمانوں سے کس طرح جنگ کررہے ہیں اور مسلمانوں کی صفوں پر نظر ڈالتے تھے کہیں کوئی خلل واقع نہ ہوجائے۔ اور اس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کا حکم دیا کرتے تھے وہ جاکر مسلمانوں تک پہنچایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کے بارے میں فرمایاہے :

﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ

’’اگر تم ان(نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے ۔‘‘ [التوبۃ۴۰]

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہیں کی تھی تب بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی اور آپ کے ساتھی کی اس وقت مدد کی جب وہ دونوں غار میں تھے۔ اس حالت میں تو خوف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کسی اور کے متعلق نہیں ۔اس قصہ کے متعلق تفصیلی گفتگو اس کتاب کے آخر میں آئے گی۔وزیر کا بادشاہ کے ساتھ اپنا حال ہوتا ہے اور بادشاہ کا وزیر کے ساتھ اپنا حال ہوتا ہے ۔

وفاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے کارنامے:

یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے بہادر تھے۔ ان سے زیادہ بہادر کوئی دوسرا نہیں تھا۔ جب سالار رسُل صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو مسلمانوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہر شخص اپنی جگہ بے چین تھا اور ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ؛عقلیں کام نہیں کررہی تھیں ۔ہر طرف اضطراب ہی اضطراب تھا۔ کوئی آپ کی موت کا انکار کررہا تھا۔اور کوئی اپنی جگہ پر بیٹھ کر رہ گیا تھا۔اور کوئی اوسان باختہ ہوچکا تھا اسے کسی گزرنے والے یا سلام کرنے والے کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔کوئی رورہا تھا اوراس کی ہچکی بندھ گئی تھی ۔ گویاکہ قیامت تھی۔ قیامت صغریٰ بپا ہو گئی۔ اکثر بدو عرب دین اسلام سے منحرف ہو گئے۔اس مشکل ترین وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق صبر ویقین کی دولت سے بہرہ ور ہو کر کامل استقلال اورثابت قلبی وبہادری کے ساتھ کھڑے ہو گئے؛ نہ آپ نے گریہ کیا؛نہ ہی گھبرائے؛ آپ نے اور صحابہ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اپنے پاس موجود نعمتوں کا انتخاب کرلیا ہے۔نیز آپ نے فرمایا:

’’ جو شخص محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاپرستار تھا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ وفات پا چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا، اسے واضح ہو کہ اللہتعالیٰ زندہ ہے اور اسے موت نہیں آئے گی۔‘‘

پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی:

﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ

’’اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو صرف ایک رسول ہیں ، آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر گئے، اگر آپ وفات پا جائیں یا قتل کیے جائیں تو کیا تم دین اسلام سے منحرف ہو جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا تو اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘ ( آل عمران۱۴۴)

لوگوں نے جب یہ آیت سنائی تو یوں لگتا تھا کہ انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تلاوت سے پہلے کبھی یہ سنی ہی نہ تھی۔ پھرکوئی بھی ایسا نہیں رہ گیا تھا جو اس آیت کی تلاوت نہ کررہا ہو۔پھرآپ نے ایک خطبہ کے ذریعہ ان کی ڈھارس بندھائی اور ان میں جرأ ت و جلادت کے جذبات پیدا کیے۔[صحیح بخاری،کتاب المغازی، باب مرض النبی رضی اللّٰہ عنہم ووفاتہ (حدیث: ۴۴۵۳،۴۴۵۴)۔]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ہمیں خطاب کیا تو ہم لومڑی کی طرح بزدل تھے‘ آپ کی مسلسل حوصلہ افزائی نے ہمیں شیر بنا دیا۔‘‘

نیز جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔حالانکہ لوگوں نے اس لشکر کوروکنے کامشورہ دیا تھا۔ پھر جلد مرتدین کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ لوگ ان کے ساتھ جنگ کے بجائے نرمی سے کام لینے اور انتظار کرنے کا مشورہ دے رہے تھے ۔

پھر اس کے بعد آپ نے مانعین زکواۃ سے جنگ چھیڑ دی۔اس کے ساتھ ہی اگر کوئی صحابی کسی مسئلہ سے لاعلم ہوتا تو آپ اسے تعلیم دیتے ‘ اور جب کوئی کمزوری دیکھاتا توآپ اسے آشیر باد کے ذریعہ طاقتور بناتے۔اگر لوگ تھک جاتے تو آپ انہیں ترغیب دلاتے۔ پس آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے دین ‘علم اور وقت کو تقویت بخشی۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ انتہائی شجاعت اورکمال قوت کے باجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے :’’ اے خلیفہ رسول ! لوگوں سے الفت و محبت کا سلوک کیجیے۔‘‘تو آپ فرماتے : کس بات پر ان کے ساتھ الفت کا سلوک کروں ؟ کیا اپنی طرف سے گھڑے ہوئے دین پر؟ یا بے ڈھب شعروں پر ؟ یہ باب بہت وسیع ہے ۔[یہاں اسکی گنجائش نہیں ]۔

امام سے مطلوب شجاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ کامل کسی میں نہ تھی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کادرجہ آتاہے۔

جہاں تک قتل اور کفار کو تہ تیغ کرنے کا تعلق ہے، بلاشبہ اس ضمن میں دیگر صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سبقت لے گئے تھے۔اگرہر قتل کرنے والا ہی بہادر ہوتا ہے تو پھر دوسرے بہت سارے ایسے صحابہ بھی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا ؛ تووہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہادر ہوں گے۔ [جو شخص سیر و مغازی کے احوال و واقعات بہ امعان نظر پڑھتا ہے، وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔]

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے مبارزت طلبی کرکے سو کافروں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ جن کے خون میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک تھے وہ اس پر مزید ہیں ۔[مستدرک حاکم(۳؍۲۹۱)، مصنف عبد الرزاق(۹۴۹۶)، طبقات ابن سعد(۷؍۲)]

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جو کفار و اصل جہنم ہوئے ان کاشمارتو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ غزوۂ موتہ میں ان کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹی تھیں۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام(حدیث:۴۲۶۵)۔]

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت کئی گنا زیادہ لوگوں کو قتل کیا تھا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر طبیعی شجاعت کے ساتھ ساتھ دینی شجاعت بھی کمال درجہ کی تھی۔یہ اللہ تعالیٰ پر یقین کی قوت ‘ اور مؤمنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی نصرت پر ثقہ اعتماد۔ یہ شجاعت تو ہر قوت قلب والے کو حاصل نہیں ہوتی۔ یہ قوت ایمان ویقین کے زیادہ ہونے سے بڑھ جاتی ہے اوراس کے کم ہونے سے کم ہوجاتی ہے ۔ جس انسان کو یقین کو ہو کہ وہ دشمن پر غالب آئے گا تو وہ یقیناً ایسی پیش قدمی کرتا ہے جو عام پیش قدمی کی طرح نہیں ہوتی۔ یہ بات مسلمانوں کی اپنے دشمن کے خلاف پیش قدمی اوران کی شجاعت کے بڑے اسباب میں سے ایک تھی۔

وہ بلاشبہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خبر پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ آخرکار ان لوگوں کو کامیابی ملے گی اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں پر دنیا کے شہروں کوفتح کرے گا۔

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شجاعت کی ایک اور مثال جسے صحیحین میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا وہ سخت ترین بات کون سی تھی جو مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی؟ انہوں نے فرمایا:’’ میں نے عقبہ بن ابی معیط کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے اس نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر آپ کا گلا بہت زور سے گھوٹنا شروع کیا اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور آ کر اس کو آپ سے ہٹایا اور کہا:

﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّی اللّٰہُ وَقَدْ جَائَکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ﴾ [غافر۲۸]

’’ کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے ’’میرا رب اللہ ہے ‘‘حالانکہ یقیناً وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘[البخاری ۵؍۱۰؛ کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ وکتاب مناقب الأنصار‘ باب : ما لقي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ من المشرکین بمکۃ۔تفسیر ابن کثیر ۷؍۲۹۲۔]