فصل:....[حقیقت شجاعت]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[حقیقت شجاعت]
اس چیز کا جانناضروری ہے کہ دین میں شجاعت کی فضیلت و اہمیت جہاد فے سبیل اللہ کی وجہ سے ہے۔ وگرنہ وہ بہادری وشجاعت جس سے جہاد فے سبیل اللہ کا کام نہ لیا جائے ؛ وہ یاتو خود انسان پر وبال ہے جب وہ اس بہادری سے شیطان کی اطاعت میں مدد لے گا۔ اور یا پھر اگر اسے اللہ تعالیٰ کی قربت و اطاعت کے کاموں میں نہ صرف کرے تو اس کے لیے غیر نفع بخش ہے۔
پس حضرت علی ‘ حضرت زبیر، حضرت خالد اور ابو دجانہ‘ اور براء بن مالک ( رضی اللہ عنہم ) بڑے بہادر مجاہد صحابہ کرام میں سے تھے۔اور یہ بہادری ان کے فضائل میں شمار ہونے لگی۔اس لیے کہ انہوں نے اس بہادری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد میں مدد لی ؛ اور اس وجہ سے وہ اس حمد وثنا کے مستحق ٹھہرے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مجاہدین کی ثنا بیان کی ہے۔
جب یہ بات معلوم ہوگئی تویہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ جہاد کی ایک قسم ہاتھ سے قتال کرنا ہے ۔ اور دوسری قسم دلیل و بیان اور دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَذِیرًا Oفَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا﴾
’’اوراگر ہم چاہتے تو ضرور ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔پس تو کافروں کا کہنا مت مان اور اس کے ساتھ ان سے جہاد کر، بہت بڑا جہاد۔‘‘[الفرقان ۵۱۔ ۵۲]
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کفار کو قرآن سنا کر ان کے ساتھ بڑا جہاد کیا جائے۔ یہ مکی سورت کی آیات ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں ۔اس وقت تک ابھی قتال کرنے کا حکم نہیں ملاتھا۔اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ یہ جہاد علم و قلب ‘اوربیان و دعوت کے ساتھ تھا قتال نہیں تھا۔اس لیے کہ قتال میں رائے اور تدبیر کے ساتھ شجاعت ِ قلب اور زور بازو کی ضرورت ہوتی ہے۔قوت بدن کی نسب سے شجاعت قلب اور رائے وتدبیر کی عام مجاہد سے بڑھ کر قائد اور سالار میں بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ سو حضرت ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما جسمانی قتال کے علاوہ بھی جہاد کی جملہ اقسام میں دوسرے صحابہ کرام پر مقدم تھے۔[ بلاشبہ اس جہاد میں حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے بھی شرکت کی تھی، اگرچہ وہ اس ضمن میں ان مجاہدین تک نہ پہنچ سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مرتبہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اطراف ملک میں امیر لشکر بنا کر بھیجا تھا۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے بعض قلعے یقیناً فتح کیے تھے]
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’شیعہ کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جہاد و قتال ‘کفار پر ضرب و کرب میں دیگر صحابہ پر فائق تھے اورجہاد افضل الاعمال ہے۔‘‘یہ غلط بات ہے۔ اس لیے کہ جہاد کی تین قسمیں ہیں :
۱۔ جہاد کی پہلی قسم دین اسلام کی طرف زبان کے ساتھ دعوت دیناہے[ یہ جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم ہے]۔
۲۔ جہاد کی دوسری قسم یہ ہے کہ لڑائی کے وقت رائے و تدبیر سے کام لیا جائے۔
۳۔ تیسری قسم کا جہاد جہاد بالید[ہاتھ کا جہاد] ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کی قسم اوّل[ یعنی دعوت الی اللہ]میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا ہم پلہ نہیں ۔ اکابر صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی تھی۔یہ افضل اعمال میں سے ہے۔اس میدان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اتنا بڑا کردار نہیں ۔ باقی رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو جس دن آپ اسلام لائے اس دن اور اس وقت سے اسلام زور پکڑ گیا؛ اور اعلانیہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہونے لگی۔یہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ [حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے ہم معزز ہو گئے۔‘‘][بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۶۸۴)۔]
خلاصہ کلام! حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جہادکی ان دونوں اقسام میں عدیم النظیر تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس میں بڑا حصہ نہیں تھا۔
دوسری قسم کا جہاد جس میں رائے و مشورہ سے کام لیا جاتاہے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مختص ہے۔
تیسری قسم کے جہاد میں سرور کائنات نے بہت کم حصہ لیا، مگر اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ بزدل تھے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کی اس قسم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ منفرد نہ تھے۔ بلکہ دیگر صحابہ اس میں برابر آپ کے سہیم و شریک تھے۔ مثلاً یہ صحابہ کرام، حضرت طلحہ، زبیر، سعد، حمزہ، عبیدہ بن حارث، مصعب بن عمیر،سعد بن معاذ اور سماک بن ابی دجانہ ( رضی اللہ عنہم ) بڑے مجاہد تھے۔ بلاشبہ اس جہاد میں حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے بھی شرکت کی تھی، اگرچہ وہ اس ضمن میں ان مجاہدین تک نہ پہنچ سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ مرتبہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اطراف ملک میں امیر لشکر بنا کر بھیجا تھا۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے بعض قلعے یقیناً فتح کیے تھے۔
شیعہ کا قول کہ شمشیر علی رضی اللہ عنہ سے ارکان اسلام مضبوط ہوئے:
[اشکال ]:شیعہ مصنف کا قول ہے کہ:’’ شمشیر علی رضی اللہ عنہ سے قواعدِ اسلام و ارکان ایمان مضبوط ہوئے۔‘‘
[جواب]: صاف جھوٹ ہے اور اسلامی غزوات سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص اس کے کذب کا گواہ ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات بھی ان اسباب و وسائل میں سے ایک تھی جن کے باعث دین اسلام نے تقویت پائی۔ جس طرح بدر میں بہت سی تلواریں آپ کی تلوار کے علاوہ اور بھی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غزوات جن میں قتال کی نوبت آئی تھی کل نو تھے۔ سرور کائنات کی وفات کے بعد فارس و روم کی خطرناک لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مطلقاً حصہ نہیں لیا تھا۔ عہد رسالت کی لڑائیوں میں جو غلبہ حاصل کیا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کامیابی نہ تھی بلکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کارہین منت تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جمل و صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں جو غلبہ حاصل کیا تھا اس کی وجہ ان کے لشکر کی کثرت تعداد تھی۔ اس کے باوصف آپ نے اہل شام کے خلاف کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی تھی بلکہ فریقین برابر تھے اور کسی کا پلہ بھی دوسرے سے بھاری نہ تھا۔
[اشکال ]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ سے کبھی فرار اختیار نہیں کیا تھا۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ، بلکہ حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ بھی اس وصف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر شریک ہیں ، اور اگر اس قسم کی کوئی معمولی چیز وقوع میں آئی بھی ہے تو وہ پوشیدہ ہے اور نقل ہو کر ہم تک نہیں پہنچی۔ اس بات کا احتمال ہے کہ احد و حنین میں ایسی لغزش حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی سرزد ہوئی ہو مگر ہم اس سے آگاہ نہ ہو سکے۔
مسلمانوں کو دوبار پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ ایک بار احد کے موقعہ پر اوردوسری بار حنین میں ۔ اور یہ بات منقول نہیں ہے کہ ان مذکورہ بالا صحابہ کرام میں سے کوئی ایک پسپا ہوا ہو۔بلکہ سیرت اور مغازی کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما غزوہ احد و حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فرارہونے والوں کے ساتھ فرار نہیں ہوئے تھے۔ جس نے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ حضرات حنین کے موقعہ پر فرار ہوگئے تھے ‘تواس کاجھوٹ صاف ظاہر اور ہر ایک کومعلوم ہے۔ احد کے موقعہ پر پسپا ہونے والوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شامل تھے ؛ [اس لغزش کو] اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ جو کچھ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق نقل کیا جاتا ہے کہ آپ حنین کے موقعہ پر جھنڈا لیکر فرار ہوگئے تھے؛ یہ محض جھوٹ ہے جو ان لوگوں نے گھڑلیا ہے جنہیں افتراء پردازی کی عادت اور لت پڑی ہوئی ہے۔
شیعہ مصنف کا دعوی کہ : ’’ آپ نے اپنی تلوار سے کبھی کسی قریبی رشتہ دار کو قتل نہیں کیا ۔‘‘
[جواب]: اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کے ثبوت معلوم نہیں ہوسکے۔اور اس مسئلہ میں ہمارے پاس کوئی قابل اعتماد روایت بھی موجود نہیں ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان حضرت خالد بن ولید ‘حضرت زبیر ‘ براء بن مالک ‘ابو دجانہ اور ابو طلحہ وغیرہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایسا دعوی کرے کہ انہون نے کبھی اپنے کسی خونی رشتہ دارکو قتل نہیں کیا۔ یہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق دعوی جیسا دعوی ہے۔بلکہ یہ مثال حضرت خالد اور براء بن مالک رضی اللہ عنہما پر زیادہ صادق آتی ہے۔
اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا تھا:
’’آپ مشرکین پر اللہ کی تلواروں میں سے ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہیں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
پس اگر یہ کہا جائے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تلوار بنایا ہووہ کبھی اپنے کسی قریبی خونی رشتہ دار کوقتل نہیں کرے گا تو یہ بات سچائی کے زیادہ قریب ہوگی۔ حالانکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق معلوم ہے کہ آپ نے جنگوں میں کس کثرت سے لوگوں کو قتل کیا ۔اور آپ ہمیشہ کامیاب ہی ہوتے رہے ۔
[ اشکال ]: شیعہ کا یہ قول کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشکلات کا ازالہ کیا۔‘‘
[جواب]: دعویٰ بلا دلیل ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی ایک تکلیف کو بھی دور نہیں کیا تھا۔ البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وقت آپ کی امداد کی تھی جب مشرکین نے مکہ میں آپ کو پیٹنا اور قتل کرنا چاہا تھا قرآن کریم میں اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا:﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ﴾ (غافر:۲۸)
’’کیا تم اس لیے ایک شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔‘‘
مشرکین نے اس جرم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیٹا تھا۔[صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ سورۃ المؤمن(حدیث:۴۸۱۵،۳۶۷۸)۔]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی ایسی خدمت کی انجام دہی کا علم نہیں ہوسکا۔
یہ بات غلط ہے کہ مشرکین نے احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تلوار کے ساتھ چھڑایا تھا۔اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی یہ واقعہ نقل نہیں کیا ‘اور نہ ہی اس کی کوئی حقیقت ہے۔ غالباً شیعہ مصنف کاماخذ قصہ کہانی کے طرز پر لکھی ہوئی مغازی و سیرت کی کتابیں ہیں جو افسانہ گو قسم کے لوگوں نے تصنیف کی ہیں ۔ مثلاً البکری کی ’’تنقلات الانوار‘‘ نیز سیرۃ البطال وعنترہ و احمد الدنف وغیرہ یا وہ کتابیں جو سکول کے طالب علم پڑھائی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کرایہ پر لے کر پڑھتے ہیں اور ان بے ہودہ کہانیوں کو پڑھ کر وہ رات بھر سو نہیں سکتے۔
کذابین نے مغازی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی کہانیاں گھڑلی ہیں جو اسی جنس سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کی تصدیق وہ جاہل لوگ کرتے ہیں جنہیں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح روایات کا علم نہ ہو۔ جے کہ اہل علم جانتے ہیں کہ ایسی سب روایات کورا جھوٹ ہیں ۔
٭ شیعہ مصنف نے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رات گزارنے کا ذکر کیا ہے ‘ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہاں پر اصل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خوف والی کوئی بات نہیں تھی۔
اہل ایمان کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کا جو سب سے مشہور واقعہ ومعرکہ ہے وہ احد کے دن کا ہے۔جس دن مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے۔تو دشمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں بھر پور کوشش کرنے لگا۔
امیہ بن خلف آپ کو قتل کرنے کی کوشش میں آگے بڑھنے لگا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے قتل کیا۔ اس موقعہ پرمشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کردیا؛ آپ کے سر پر خود تھا جس پر وار کیا گیا ؛ آپ کے سامنے کے دو اوپر والے دوانت ٹوٹ گئے ۔اس وقت جو صحابہ کرام آپ کے ارد گرد باقی رہ گئے تھے وہ بھر پور دفاع کرنے لگے۔جیسے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تیر چلاتے جارہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ’’ میرے ماں باپ تجھ پہ قربان ! خوب تیر چلاؤ ‘‘[الحدیث عن علي ابن ابي طالب۔البخاری ۴؍۳۹۔ کتاب الجہاد والسیر ‘ باب: المجن ومن یتترس بترس صاحبہ۔ مسلم ۴؍۱۸۷۶؛ کتاب فضائل الصحابۃ ‘ باب فضل سعد بن ابی وقاص۔] [البخاری ۴؍۳۹]
حضرت طلحہ نے غزوۂ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی تھی۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب ﴿اِذْ ہَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْکُمْ....﴾ (حدیث:۴۰۶۳)]ا سی دوران آپ کا ایک ہاتھ کٹ گیا تھا۔[صحیح بخاری ، حوالہ سابق(ح:۴۰۶۴)، صحیح مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ النساء مع الرجال(ح:۱۸۱۱)، اس میں ہے کہ یہ کہنے والا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ واللہ اعلم۔]
آپ کے ارد گرد مسلمانوں کی ایک جماعت آپ کا دفاع کرتے ہوئے مقام شہادت پر سرفراز ہوگئی۔
حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یوم احد کے موقع پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی تلوار دھونے کو کہا ‘ اور فرمایا : ’’ اسے دھونا ‘اس پر کوئی مذمت نہیں ہے ۔‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر تم نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو فلاں فلاں نے بھی بھی اچھا کام کیا ہے ۔‘‘ اور آپ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کے نام گنوائے۔[سیرۃ ابن ہشام ۳؍۱۰۶؛ البدایہ والنہایۃ ۴؍۴۷۔]