فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور مقتولین بدر
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ اور مقتولین بدر
[ اشکال] : شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’غزوہ بدر کے موقع پر؛ جو کہ پہلا غزوہ ہے؛اورمدینہ طیبہ ہجرت کرکے آنے کے اٹھارہ ماہ بعد پیش آیا؛اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمرصرف ستائیس برس کی تھی آپ نے تنہا چھتیس آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ جس قدر کفار کو غزوۂ بدر میں قتل کیا گیا تھا یہ تعداد اس کے نصف سے بھی زیادہ ہے، اس کے علاوہ آپ دیگر کفار کے قتل میں بھی شریک ہوئے تھے۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں :باتفاق اہل علم وعارفین ِاہل سیرت ومغازی یہ صریح جھوٹ اور من گھڑت بہتان ہے۔ یہ بات کسی بھی ایسے راوی نے نقل نہیں کی جس کی روایت پر اعتماد کیا جاتا ہو۔بلکہ یہ جھوٹے اور جاہل لوگوں کی خود ساختہ بات ہے ۔بلکہ روایات صحیحہ سے بہت سے کفار کا بدر میں قتل کیا جانا ثابت ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شرکت نہیں کی تھی۔ مثلاً ابوجہل و عقبہ و عتبہ بن ربیعہ[یا شیبہ بن ربیعہ] و ابی بن خلف وغیرہ۔
٭ یہ واقعہ ایسے ہے کہ جب مشرکین کی طرف سے تین آدمی : عتبہ ‘شیبہ اور ولید نکلے ‘اور انہوں نے مبارزت طلب کی تو ان کے مقابلہ میں تین انصاری نکلے۔ انہوں نے پوچھا : تم کون ہو؟ توانہوں نے نام لیکر اپنا تعارف کروایا ۔ تومشرکین نے کہا:آپ عزت والے ہم پلہ لوگ ہیں ؛ مگر ہم اپنے چچازادوں سے لڑناچاہتے ہیں ۔
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقارب کو نکلنے کا حکم دیا۔اور فرمایا : اے حمزہ ! کھڑے ہوجاؤ۔ اے عبیدہ ! کھڑے ہوجاؤ ۔ اے علی ! کھڑے ہوجاؤ ۔‘‘ اس وقت مشرکین میں سب سے چھوٹا ولید تھا اور مسلمانوں میں حضرت علی ؛ تو ان دونوں میں مقابلہ ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے فریق مخالف کو قتل کیا ؛ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اپنے فریق مخالف عتبہ کو۔جب کہ حضرت عبیدہ کو ان دشمن نے زخمی کردیا۔حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما نے جاکر کی ان کی مدد کی اور تیسرے کافر کو بھی قتل کردیا۔
نقل کیا گیا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دس ؛یا اس سے بھی کم یا اس سے کچھ زیادہ کافروں کو قتل کیا تھا۔
جوکچھ ابن ہشام ‘اوراس سے پہلے موسیٰ بن عقبہ ‘اور اموی نے ذکر کیاہے ؛ ان تمام نے زیادہ سے زیادہ آپ کے ہاتھوں سے گیارہ کفار کا قتل ہونا بتایا ہے ۔جب کہ چھ کفار کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کا قتل کرنے والا کون تھا۔ تین کفار کے قتل میں آپ نے شراکت کی ہے ۔اہل صدق و امانت نے یہی نقل کیا ہے۔
غزوۂ احداورشیعہ کی افتراء پردازی:
[الزام] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ احد کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا سب لوگ بھاگ گئے تھے، بعد ازاں چند صحابہ لوٹ آئے سب سے پہلے عاصم بن ثابت و ابودجانہ و سہل بن حُنیف آئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تین دن کے بعد آئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ نے بہت دیر لگا دی۔‘‘ فرشتوں نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ثبات و استقلال پر تعجب کا اظہار کیا تو جبریل نے آسمان پر چڑھتے ہوئے کہا:’’ تلوار ہے تو ذوالفقار اور جوان ہے تو علی۔‘‘ اس جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اکثر مشرکین کو قتل کیا تھا اور آپ کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے : ’’ احد کے دن مجھے سولہ زخم پہنچے ۔ان میں سے چار زخم کھا کر میں زمین پر گر گیا تھا۔تومیرے پاس ایک خوبصورت چہرہ والا خوبصورت زلفوں والا ‘اور پاکیزہ خوشبو والا ایک آدمی آیا۔اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کردیا ۔اور پھر کہا : آگے بڑھو‘اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں قتال کرو۔ یہ دونوں تم سے راضی ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوراس واقعہ کی خبر دی۔تو آپ نے فرمایا: اے علی ! کیاتم اسے نہیں جانتے ؟ میں نے کہا نہیں ؛ لیکن دحیہ کلبی سے مشابہت رکھتا تھا۔‘‘آپ نے پھر فرمایا: ’’ اے علی! اللہ تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کردے وہ جبریل امین تھے ۔‘‘
[جواب]: اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی ان بڑی جھوٹی روایات میں سے ہے جو صرف ان لوگوں کو جچتی ہیں جنہیں اسلام کی کوئی معرفت نہیں ۔[ شیعہ مصنف شرم و حیاء کے جذبات کو بالائے طاق رکھ کر ایسے اکاذیب نقل کرتا چلا آرہا ہے جن کو چوپائے تو تسلیم کر سکتے ہیں ، مگر ایک سلیم العقل انسان کبھی ماننے کے لیے تیار نہیں]۔ گویا کہ وہ یہ باتیں ایسے لوگوں کو بتارہا ہے جنہیں غزوات کے واقعات کے بارے میں کچھ بھی علم ہی نہ ہو۔‘‘
اس کا یہ قول بڑا حیرت ناک ہے کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے غزوۂ احد میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ : جھوٹ کی اصل بنیادی آفت جہالت ہوتی ہے۔کیا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تھی؟ شروع میں تو مسلمانوں نے دشمن کوپسپا کیا تھا ؛ مگر جبل الرماۃ پر متعین دستہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال میں اپنی جگہ پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی تھی؛اور فرمایا تھا:خواہ انہیں فتح ہویا شکست مگریہ لوگ اپنی جگہ نہ چھوڑیں ۔پس جب مشرکین پسپا ہوئے تو بعض لوگ چیخ کر آواز لگانے لگے : لوگو! مال غنیمت!۔انہیں ان کے امیر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے منع کیا [کہ پہاڑ چھوڑ کر نیچے نہ اتریں ؛ مگر انہوں نے اس پرتوجہ نہ دی اور پہاڑ چھوڑ کر نیچے اتر گئے]دشمن نے پلٹ کر اس پہاڑی درّے سے حملہ کردیا۔اس وقت مشرکین کے رہنما وقائد خالد بن ولیدتھے۔انہیں پشت کی طرف سے پلٹ کر حملہ کردیا۔اس وقت شیطان نے چیخ لگائی کہ:’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوگئے ہیں ۔‘‘[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک زخمی ہو گیا اور اگلے دانت ٹوٹ گئے۔ خُود آپ کے سر میں دھنس گیا اور اس کی کڑیاں آپ کے سر مبارک میں پھنس گئیں ۔ اسی حالت میں آپ فرمانے لگے :’’ وہ قوم کیسے نجات پائے گی جس نے اپنے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا۔‘‘ تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾(آل عمران:۱۲۸)’’ اس امر میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘البخاری۔کتاب المغازی باب﴿ لَیْس لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ....﴾ تعلیقاً قبل ح(۴۰۶۹)، صحیح مسلم، کتاب الجہاد‘باب غزوۃ احد،(ح:۱۷۹۱)۔]
اس دن تقریباً ستر مسلمان شہید ہوئے؛ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ افراد ثابت قدم رہے جن میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی شریک تھے۔[سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۸۸) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بہت سے صحابہ نے شہادت پائی۔ رئیس المشرکین نے کہا:’’ ہُبَل کی جَے! آج کا دن بدر کے دن کا جواب ہے۔‘‘ [البخاری۔ کتاب المغازی ۔ باب غزوۃ احد، (ح:۴۰۴۳)] یہ غلط ہے کہ علی غزوۂ احد میں زخمی ہوئے تھے۔ اور جبریل نے آپ کو اٹھایا تھا۔ ہم رافضی مصنف سے پوچھتے ہیں کہ اس کی اسناد کہاں ہے اور اس کا ماخذ موضوعات کی کون سی کتاب ہے؟]
ابو سفیان نے ان لوگوں کے احوال جاننے کے لیے کہا: ’’کیاتم میں محمد ہیں ‘کیا تم میں محمد ہیں ؟‘‘یہ الفاظ پہلے گزر چکے ہیں ؛ اوریہ حدیث صحیحین میں ہے۔یہ دن سخت آزمائش و ابتلاء و فتنہ کا دن تھا۔اس دن دشمن کامیاب لوٹا تھا ؛ اور راستہ میں انہوں نے دوبارہ پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کاپروگرام بنایا؛ مگر اس سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پیچھا کرتے ہوئے چل پڑے۔[بڑا تفصیلی واقعہ ہے]۔کہاجاتا ہے کہ ان ہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَآ اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ﴾ (آل عمر ان:۱۷۲)
’’وہ جنھوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا، اس کے بعد کہ انھیں زخم پہنچا۔‘‘
[اس موقع پر]اللہ اوراس کے رسول کا حکم ماننے والوں میں حضرت ابوبکر حضرت زبیر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بن زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتی تھیں یہ آیت تمہارے باپ اور دادا کے بارے میں نازل ہوئی ہے :
﴿اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَآ اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ﴾ (آل عمر ان:۱۷۲)
غزوہ احد میں مشرکین کے صرف چند آدمی قتل کیے گئے تھے۔اس دن مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوششوں میں سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔اس دن حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آپ کے دفاع میں ثابت قدم تیر چلاتے جارہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:
’’ میرے ماں باپ تجھ پہ قربان ! خوب تیر چلاؤ ۔‘‘ [البخاری ۴؍۳۹]
صحیحین میں ہے حضرت سعد بن ابی وقاص فرمایا کرتے تھے : ’’ أحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے ماں اور باپ کو جمع کیا ۔‘‘حضرت سعد مستجاب الدعاء اور پختہ تیر انداز تھے۔
ان[ثابت قدم رہنے والوں ] میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو انتہائی سخت جنگجو اور تیر انداز تھے۔اورطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے؛ جواپنے ہاتھ پر وار روک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمارہے تھے۔اورآپ کا یہ ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو درعیں پہن رکھی تھیں ؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بہت سے صحابہ نے شہادت پائی۔
ابن اسحق رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ سیرت ‘‘ میں ان لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے ؛ ان میں ابو دجانہ تھے ‘ جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی؛آپ کی پیٹھ دشمن پر کی طرف سے تیر لگتے ؛ مگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک کر آپ کو بچارہے تھے۔ آپ کو تیروں کے کئی زخم آئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص آپ کے سامنے کھڑے تیر چلارہے تھے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تیر اٹھا کر انہیں دیتے ؛ اور فرماتے جاتے :
’’ میرے ماں باپ تجھ پہ قربان ! خوب تیر چلاؤ ۔‘‘
یہاں تک کہ آپ انہیں ایسا تیر بھی تھما دیتے جس کا پھل نہ ہوتا۔اورفرماتے :’’ یہ تیر بھی چلاؤ ۔‘‘
جب دشمنوں نے آپ پرہلہ بول دیاتو آپ نے فرمایا: ’’ کون ہے جو ہمارے لیے اپنی جان قربان کرے گا؟‘‘ یہ سن کر حضرت زیاد بن سکن انصاری رضی اللہ عنہم پانچ انصاری صحابہ کے ایک گروہ کے ساتھ کھڑے ہوئے؛ بعض نے ان کا نام عمارہ بن زید بن سکن بتایاہے؛ یہ ایک ایک کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر لڑتے ؛اور شہید ہوتے جاتے ۔یہاں تک کہ سب سے آخر میں زیادیا عمارہ رضی اللہ عنہ آئے ؛ اور انہیں زخموں نے بہت بری طرح چور کردیا تھا؛مگر آپ ثابت قدم رہے یہاں تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت لوٹ کر آگئی؛ اور آپ کی حفاظت میں لڑنے لگی ۔اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ کو اپنے قریب کرنے کا حکم دیا۔آپ نے ان کے سر کو اپنے قدم مبارک پر رکھ کر سہارا دیا۔اوران کا انتقال اس حال میں ہوا کہ ان کے گال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر تھے۔‘‘[السیرۃ لابن ہاشم ۳؍۸۷]
[آپ فرماتے ہیں ]: ہم سے عاصم بن عمر بن قتادہ نے حدیث بیان کی ؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمان سے احد کے دن تیر چلائے ‘یہاں تک کہ وہ کمان ٹوٹ گئی ۔پھر وہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے لے لی؛ جو کہ پھر آپ ہی کے پاس رہی۔ اس دن حضرت قتادۃ بن نعمان کی آنکھ نکل گئی تھی۔یہاں تک کہ وہ آپ کے گالوں پر لٹک رہی تھی۔عاصم بن عمر فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ آنکھ واپس اپنی جگہ پر رکھ دی؛ تووہ دوسری آنکھ سے بھی خوبصورت لگتی تھی۔‘‘
حضرت علی اورابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی اس وقت دوسرے لوگوں کے ساتھ جنگ وقتال میں مصروف تھے ‘ ان میں سے کوئی ایک بھی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے موجود نہیں تھا جب آپ کی پیشانی پر زخم آئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی تو زخمی نہیں ہوئی ۔
٭ ’’شیعہ مصنف کا یہ دعوی کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ احد کے دن مجھے سولہ زخم پہنچے ۔ان میں سے چار زخم کھا کر میں زمین پر گر گیا تھا۔‘‘
٭ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اس طرح کی کوئی روایت اہل علم کے ہاں ان کی معروف کتابوں میں موجود نہیں ہے۔ اس روایت کی سند کہاں ہے ؟ اوراہل علم میں سے کس نے اسے صحیح کہا ہے؟ اور جن قابل اعتماد کتابوں سے روایات نقل کی جاتی ہیں ان میں سے کس کتاب میں یہ روایت موجود ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس موقعہ پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سارے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زخمی ہوئے تھے۔
ابن اسحق فرماتے ہیں : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار کے منہ پر پہنچ گئے توحضرت علی رضی اللہ عنہ نکلے اور مہراس نامی چشمہ سے پانی لے کر آئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلاسکیں ۔لیکن اس پانی سے کچھ بو آرہی تھی ؛ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پیا۔ پھر اس پانی سے آپ کا خون دھویا گیا۔اور آپ کے سر کے زخم دھوئے گئے۔ اسی حالت میں آپ فرمانے لگے:’’ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہوا جس نے اپنے نبی کے چہرہ کو خون آلود کیا۔‘‘
٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تین دن کے بعد آئے۔‘‘ یہ ایک اور جھوٹ ہے ۔
٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’جبریل نے آسمان پر چڑھتے ہوئے کہا تھا: ’’لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفَقَارِ۔‘‘
جواب:شیعہ کے اس قول کے جھوٹ ہونے پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ اس لیے کہ ذوالفقار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کا نام نہیں ہے، بلکہ ابو جہل کی تلوار کا نام تھا۔ مسلمانوں نے جنگ بدر میں یہ تلوار مال غنیمت میں پائی تھی۔امام احمد ‘ ترمذی اورابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ:’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کی ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن نفل(وہ حصہ جو امیر لشکر باقی مجاہدین کی نسبت زائد وصول کرتا ہے) کے طور پر خود لے لی تھی۔ اسی تلوار کے متعلق آپ نے احد کے روز خواب دیکھا تھا کہ اس میں دندانے پڑ گئے ہیں ۔‘‘[مسند احمد(۱؍۲۷۱)، الترمذی، کتاب السیر، باب فی النفل (حدیث: ۱۵۶۱) سنن ابن ماجۃ، ۔ کتاب الجہاد، باب السلاح(حدیث:۲۸۰۸)۔]
اس کی تعبیر آپ نے مسلمانوں کی شکست سے فرمائی۔ نیز فرمایا کہ میں نے دیکھا میں اپنے پیچھے ایک مینڈھے کو سوار کیے ہوں ، اس سے میں نے سالار لشکر مراد لیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں ایک مستحکم قلعہ میں ہوں ، میں نے اس کی تعبیر مدینہ سے کی۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک بیل کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ اللہ کی قسم! بیل اچھا ہے۔ آپ نے یہ الفاظ دہرائے۔
غزوۂ احزاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’غزوہ احزاب میں ؛ اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے ؛ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خندق کھودنے سے فارغ ہوگئے ؛ تو قریش ابو سفیان کی قیادت میں ؛ کنانہ اوراہل تہامہ کے دس ہزار کے لشکر کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ ایسے ہی غطفان اور ان کے تابعین بھی اہل نجد بھی چڑھ آئے تھے ؛ مدینہ کی بالائی اورزریں جانب سے دشمن امڈ پڑے تھے بالکل جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کانقشہ کھینچا ہے :
﴿اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُم﴾
’’جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آ گئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین ہزار صحابہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلے اور خندق کو اپنے اور کفار کے درمیان حائل کردیا۔مشرکین نے یہود کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔یہودیوں سے معاہدہ اور کفار کی کثرت کے پیش نظر ان لوگوں کی طمع اوربڑھ گئی۔ کفار میں سے عمر و بن عبدوُدّ اور عکرمہ بن ابی جہل نے خندق کے ایک تنگ شگاف میں سے داخل ہو کر مقابلہ کے لیے للکارا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ عمرو ہے‘‘ علی رضی اللہ عنہ چپ رہے۔ پھر عمر و نے دوسری اور تیسری مرتبہ للکارا۔جب ہر بار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی مقابلہ کے لیے کھڑے ہوئے تو چوتھی بارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی۔جب عمرو بن عبد ود سے سامنا ہوا تو اس نے کہا:’’ اے میرے بھتیجے ! تم واپس چلے جاؤ میں تمہارے خون سے اپنی تلوار کو رنگین نہیں کرنا چاہتا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ جب میں مشرکین سے ٹکراؤوں گاتو قریش میں سے جو بھی انسان دو میں سے ایک بات قبول کرلے گا؛ میں اس کی وہ بات مان لوں گا۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔عمرو نے کہا: ’’ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘پھر آپ نے فرمایا : میں تمہیں مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں ۔‘‘ عمرو نے کہا: میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ لیکن میں تو تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں ۔اس پر عمرو کو تپ چڑھ گئی [یعنی وہ گرم ہوگیااورغصہ میں آگیا]۔ اس نے گھوڑے سے نیچے چھلانگ لگائی اور داؤ کھیلنے لگا۔ آخر کار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمر و کو قتل کردیا ؛ اور عکرمہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا۔پھر باقی مشرکین اوریہود بھی شکست کھا کر بھاگ گئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’علی رضی اللہ عنہ کا عمر وبن عبد ود کو قتل کرنا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘[شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا]
[جواب]:ہم کہتے ہیں :پہلی بات : اس واقعہ کی سند اور صحت کہاں ہے؟
٭ دوسری بات: اس نے غزوہ کے واقعہ میں چند در چند جھوٹ جمع کردیے ہیں ۔پہلا جھوٹ کہ : قریش وکنانہ اور اہل تہامہ دس ہزار کی تعداد میں تھے۔ جب کہ احزاب کی تمام جماعتیں :قریش ‘کنانہ ‘ اہل نجد‘تمیم ‘ اسد ‘ غطفان‘ اور یہود سب ملاکر دس ہزار کے قریب تھے۔
٭ احزاب تین قسم کے لوگ تھے:
۱۔ قریش اوران کے حلیف۔ یہ اہل مکہ اور اس کے گرد و نواح کی بستیوں کے لوگ تھے۔
۲۔ اہل نجد : تمیم ‘ غطفان ‘اور ان کے ساتھ شامل باقی کے لوگ
۳۔ یہود بنی قریظہ ۔
٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’جب علی رضی اللہ عنہ نے عمر و کو قتل کردیا تو باقی مشرکین اور یہود بھاگ نکلے۔‘‘ یہ صاف ٹھنڈا جھوٹ ہے؛ کفار بھاگے نہیں تھے، بلکہ انھوں نے یہود کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نُعیم بن مسعود غطفانی رضی اللہ عنہ نے ان میں پھوٹ ڈال دی۔اور اللہ تعالیٰ نے آندھی اور فرشتے بھیج کر کفار کو منتشر کردیا اور وہ واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآئَ تْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاo ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًاo وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًاo (....إلی ....) وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا وَ کَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا﴾ (الأحزاب:۲۵)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔ جب وہ تم پر تمھارے اوپر سے اور تمھارے نیچے سے آ گئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کے بارے میں گمان کرتے تھے، کئی طرح کے گمان۔ اس موقع پر ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئے، سخت ہلایا جانا۔ اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے، کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔(....آگے تک ....) اور اللہ تعالیٰ نے کفار کو غصہ کی حالت میں لوٹا دیا اور وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ اور اللہ مومنوں کو لڑائی سے کافی ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد قوت والا، سب پر غالب ہے۔‘‘
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہتعالیٰ نے مشرکین کو لڑائی کے ذریعہ واپس نہیں لوٹایا تھا [اور نہ مسلمانوں نے انھیں شکست دی تھی]۔یہ بات اہل علم محدثین و مفسرین ؛ مؤرخین اورسیرت نگاروں کے ہاں تواتر کے ساتھ معروف و معلوم ہے۔ تو پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عمرو بن عبد ود کی لڑائی اور عمرو کے قتل ہوجانے سے مشرکین شکست کھا گئے۔
شیعہ نے جو روایت بیان کی ہے کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’علی رضی اللہ عنہ کا عمر وبن عبد ود کو قتل کرنا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘ وہ یقیناً جھوٹی ہے۔[ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایسی مبالغہ آمیزی سے پاک ہے]۔یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام میں سے کسی ایک نے بھی یہ روایت اپنی ان قابل اعتماد کتابوں میں نقل نہیں کی جن سے احادیث روایت کی جاتی ہیں ۔اور نہ ہی اس کی کوئی صحیح سند معروف ہے اورنہ ہی ضعیف۔اس جھوٹ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ۔ بھلا ایک آدمی کا قتل جن و انس کی عبادت سے افضل کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انسانوں کی عبادت میں تو انبیاء کرام علیہم السلام کی عبادت بھی داخل ہے۔اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو پھر [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے والے کفار]ایسے کفار بھی قتل ہوئے جن کا قتل ہونا عمرو بن عبدود کے قتل سے بڑھ کر تھا؛اس لیے کہ اس عمرو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کو اتنی تکلیف نہیں پہنچی جتنی دوسرے قریشی سرداروں سے پہنچی تھی ؛ یعنی وہ صنادید قریش جو کہ بدر کے موقع پرقتل ہوئے تھے ؛ مثلاً ابوجہل ؛ عقبہ بن ابی معیط ؛ شیبہ بن ربیعہ ؛ نضر ابن حارث؛ اور دیگران کے امثال جن کے بارے میں قرآن بھی نازل ہوا ۔جب کہ اس عمرو کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔اور نہ ہی اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان سے کوئی انفرادی دشمنی معروف تھی۔
اس پر طرہ یہ کہ کسی [بھی صحیح ]روایت میں مذکور نہیں کہ عمر وبن عبد ود نے غزوہ بدر یا احد میں حصہ لیا ہو۔اورنہ ہی ان کے علاوہ دیگر مغازی وسرایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آئے تھے ؛ ان میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ اس کا قصہ صرف غزوہ خندق میں مشہور ہوا ہے۔حالانکہ یہ قصہ صحاح ستہ اور اس طرح کی دوسری کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ جیساکہ بدر کے موقعہ پر تین افراد کی مبارزت طلبی کاذکر روایت کیا گیاہے کہ حضرت حمزہ ‘ عبیدہ اور علی رضی اللہ عنہم عتبہ ‘ شیبہ اور ولید کے مقابلہ میں نکلے تھے۔
احادیث و تفسیر کی کتابیں ان مشرکین کے تذکرہ سے بھری پڑی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتے تھے ‘ مثلاً ابو جہل ‘ عقبہ بن ابی معیط ؛ نضر بن الحارث ؛ وغیرہ اورسرداران کفارجیسے : ولیدبن مغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی بھی گروہ میں عمرو بن عبد ود کا تذکرہ تک نہیں کیا۔اورنہ ہی یہ جنگ میں پیش پیش رہنے والوں میں سے تھا۔ توپھر اس کو قتل کرنا جن و انس کی عبادت سے کیسے افضل ہوسکتا ہے ؟ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ خبر تواتر کیساتھ منقول ہے کہ اس کے قتل سے مشرکین شکست کھا کر نہیں بھاگے تھے ؛ بلکہ وہ اپنی جگہ پر محاصرہ کیے رہے جیسا کہ اس سے پہلے تھے۔