حضرت مولانا محمد عبد السلام چانگامیؒ کا فتویٰ
حضرت مولانا محمد عبد السلام چانگامیؒ کا فتویٰ
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ ابوطالب نے زندگی بھر حضوراکرمﷺ کی حمایت کی،اپنے بیٹے سیدنا علیؓ کو ایمان لانے کیلئے کہا۔ دین اسلام کو حق جانتا تھا، تب ہی تو آپﷺ کی حمایت کی، اور اپنے بیٹے کو ایمان لانے کے لئے کہا تھا۔ ورنہ کون اپنے بیٹے کو غلط راستہ اختیار کرنے کیلئے کہتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اندر سے تو ایمان لا چکا تھا مگر اس کا اظہار کفار و کشرکین کے سامنے نہیں کر سکا تھا۔ کیا اتنا ایمان نجات کیلئے کافی نہیں ؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ ابو طالب دینِ اسلام کو حق جانتا تھا، اسی طرح حضور اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ کا سچا رسول جانتا تھا، مگر شرعاً کسی چیز کو جاننے سے ایمان دار نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس کو ماننا، یعنی دل سے اس کا یقین کرنا اور زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ابو طالب نے ان میں سے کسی چیز کو اختیار نہیں کیا۔
بالآخر حضوراکرمﷺ نے جب بوقت وفات ان کو یہ کہہ کر ایمان کی دعوت دی کہ چچا! آپ اس وقت صرف زبان سے کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانتا ہوں،اور مجھے یعنی محمدﷺ کو رسول مانتا ہوں تو میں عند اللہ معافی کیلئے سفارش کر سکوں گا لیکن ابو طالب نے جواب انکار میں دیا۔ حدیث شریف کی عبارت پڑھئے اور غور کیجئے ...
يا ابن اخي الولا ان تعيرني ، لأقررت عينك بها فنزلت انك لا تهدى من احببت الآية واخرج مسلم بلفظ لولا ان تعيرني قريش يقولون انما حمله على ذلك المجزع لا قررت بها عینک فانزل الله تعالی انک لا تهدى من احببت الآية : باب الدليل على صحة الاسلام من حضره الموت: جلد:1:صفحہ:40: ايضا اخرجه الترمذى بلفظ مسلم فى تعيرني:
سورة القصص:جلد:2:صفحہ:154)
غرض ابوطالب نے کفر و شرک کے مقابلہ میں ایمان کو ظاہر نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے جاننے کا اعتبار نہیں کیا۔
(آپ کے سوالات اور ان کا حل:جلد:1:صفحہ:99)