فصل:....غزوہ بنی نضیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....غزوہ بنی نضیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’غزوہ بنی نضیر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس یہودی کو قتل کردیا تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانتوں پر پتھر مارا تھا۔اس کے بعد انھوں نے مزید دس یہودیوں کو قتل کردیا، باقی یہودی بھاگ نکلے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ اس غزوہ یا دیگر غزوات کے بارے میں جوکوئی بات نقل کی جاتی ہو تو سب سے پہلے اس کے لیے سند کا ہونا ضروری ہوتاہے۔ وگرنہ انسان اگریہ چاہے کہ مولی کی ایک جڑ پر بغیر کسی سند کے دلیل پیش کرے تواس کی بات نہیں مانی جائے گی۔توپھر اصولی مسائل میں ان سے استدلال کیسے ممکن ہوسکتاہے؟
دوسری بات : ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ:یہ قصہ بالکل واضح جھوٹ ہے۔ سورۂ حشر بالاتفاق بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی؛ یہ لوگ یہودی تھے۔ یہ واقعہ غزوۂ خندق و احد سے قبل پیش آیا تھا۔[منہاج کے معتمد ترین نسخہ میں اوراس کے اختصارات میں یوں ہی آیا ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غزوہ بنی نضیر غزوہ احد کے بعد اور غزوہ خندق سے پہلے کے درمیانی عرصہ میں پیش آیا تھا۔دیکھیں : سیرت ابن ہشام ؛ الرحیق المختوم و کتب السیرۃ المعتبرۃ۔[أبو شفاء]]
اس میں نہ ہی مصاف کا ذکر ہے اورنہ ہی شکست کا۔اورنہ ہی کسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانتوں پر پتھر مارا۔ پتھر مارنے کا واقعہ غزوہ احد کاہے۔ جب کہ مسلمانوں نے بنی نضیر کا بہت سخت محاصرہ کرکے ان کے کھجوروں کے درخت کاٹ ڈالے تھے۔ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی اُصُولِہَا فَبِاِِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ ﴾
’’جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا، یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے ۔‘‘[الحشر5]
وہ قتال کے لیے اس وقت تک نہیں نکلتے تھے جب تک ان میں سے کوئی ایک شکست کھا کر بھاگ نہ جاتا۔وہ پشت کی جانب پر واقع ایک قلعہ سے جنگ لڑرہے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نقشہ بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:
﴿ لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِِلَّا فِیْ قُرًی مُحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَائِ جُدُرٍ بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی﴾ [الحشر14]
’’وہ اکٹھے ہو کر تم سے نہیں لڑیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں ، یا دیواروں کے پیچھے سے، ان کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے۔ تو خیال کرے گا کہ وہ اکٹھے ہیں ، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں ۔‘‘
پھر یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلاوطن کردیا تھا‘ ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کیا ۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الحشر مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَظَنُّوا اَنَّہُمْ مَانِعَتُہُمْ حُصُونُہُمْ مِّنْ اللّٰہِ فَاَتَاہُمْ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا ....إلیَ....فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِ﴾ [الحشر2]
’’وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا پہلے اکٹھ ہی میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تم نے گمان نہ کیاتھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انھوں نے سمجھ رکھا تھا کہ یقیناً ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچانے والے ہیں ۔ تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا ....، پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو!۔‘‘
ابن اسحق رحمہ اللہ نے ان کے نقض عہد کا ذکر کیا ہے ۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس وقت قتل کرنا چاہتے تھے جب آپ [ حسب معاہدہ] عمروبن امیہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے دو مقتولین کی دیت اداکرنے میں تعاون کے لیے ان کے پاس گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے طرف نکلنے اور ان کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کا حکم دیا۔مدینہ پر آپ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ ابن ہشام نے ایسے ہی ذکر کیا ہے ۔ اسی دوران حرمت شراب نازل ہوئی۔
ابن اسحق رحمہ اللہ لکھتے ہیں : بنی نضیر قلعہ بند ہو گئے تھے۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کھجور کے درخت کاٹنے اور انہیں آگ لگانے کا حکم دیا۔انہوں نے آواز لگائی:
’’اے محمد!آپ تو فساد پھیلانے سے منع کرتے تھے؛ اور فسادی انسان پر اس کے فساد کو عیب کوشمار کرتے تھے ؛ تو پھر آپ کو کیا ہوگیا کہ آپ کھجوریں کاٹتے اورانہیں جلاتے ہیں ؟‘‘
آپ فرماتے ہیں : بنی عوف بن خزرج میں سے ایک جماعت نے کچھ لوگ بنی نضیر کے پاس بھیجے تھے اور ان سے کہا تھا : تم ہر گزہتھیار نہ ڈالنا؛بلکہ آپ قلعہ بند اور ثابت قدم رہو۔ ہم تمہیں ہر گز مسلمانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کریں گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ اور اگر تم یہاں سے نکلے تو ہم بھی تمہارے ساتھ یہاں سے نکلیں گے۔ یہ لوگ اپنی نصرت کا انتظار کرنے لگے۔مگر بنی عوف نے کچھ بھی نہ کیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔آخر کار انہوں نے خودیہ پیش کش کی کہ انہیں قتل نہ کیا جائے ؛بلکہ اس بات پر مصالحت ہو گئی کہ ان کو جلا وطن کردیا جائے گا۔اور انہیں وہ سامان ساتھ لیکر جانے کی اجازت ہوگی جو ان کے اونٹ اٹھاسکیں ؛سوائے حلقات کے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔انہوں نے اپنا وہ تمام سامان ساتھ لے لیا جو ان کے اونٹ اٹھا سکتے تھے۔جنگی سازوسامان کے سوا اپنا تمام سامان اونٹوں پر لاد کر لے گئے ۔ یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی اپنے ہاتھ سے اپنے مکان کو گراتا اور اس کا ملبہ بھی اونٹوں پر لاد کر لے جاتا ۔یہ یہودی خیبر و شام کی طرف نکل گئے۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۴۶۰۔۴۶۱)، طبقات ابن سعد(۲؍۶۹)،مصنف عبد الرزاق (۵؍۳۶۸۔۳۶۹)، دلائل النبوۃ (۳؍ ۴۰۴۔۴۰۵)۔]
آپ فرماتے ہیں : ہم سے عبد اللہ بن ابی بکر نے حدیث بیان کی ؛ ان سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ : انہوں نے اپنے بچے عورتیں اور اموال اپنے ساتھ لے لیے۔ ان کے ساتھ دف اور باجے بھی تھے اور کچھ چھوکریاں بھی تھیں جو ان کے پیچھے پیچھے فخرو نازکیساتھ گاتی جاتی تھیں ۔لوگوں میں کوئی قبیلہ ان جیسا نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنے باقی اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑ دیے تھے۔ یہ اموال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھے؛ آپ جیسے چاہتے ان میں تصرف کرتے۔ آپ نے یہ اموال انصارکو چھوڑ کر مہاجرین اولین میں تقسیم کیے ۔ انصاری میں سے حضرت سہل بن حنیف اور ابو دجانہ [سماک بن خرشہ] رضی اللہ عنہما کو ان کی غربت اور فاقہ کی وجہ سے کچھ حصہ دے دیا۔
فرمایا: ’’ پوری سورت حشر بنی نضیر کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ اس میں وہ عذاب اور سزا ذکر کی گئی ہے جو بنی نضیر کو دی گئی؛ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان لوگوں پر مسلط کیا۔
صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ بنی نضیر اور بنی قریظہ نے جنگ کی، تو بنی نضیر کو جلا وطن کردیا گیا اور بنی قریظہ پر احسان کرکے ان کو رہنے دیا گیا لیکن انہوں نے دوبارہ آپ سے لڑائی کی تو مسلمانوں نے ان کے مردوں کو قتل کردیا اور عورتوں اور بچوں اور مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا مگر جو لوگ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل گئے یعنی مسلمان ہو گئے وہ باقی رہ گئے باقی مدینہ کے تمام یہودیوں کو جو بنی قینقاع یعنی عبداللہ بن سلام کی قوم والے تھے اور بنی حارثہ کے یہودیوں کو جو بھی یہودی مدینہ میں تھے سب کو نکال دیا۔‘‘