فصل:....[غزوہ سلسلہ ]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[غزوہ سلسلہ ]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ غزوۂ سلسلہ میں ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ کفار مدینہ میں آپ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: کون شخص جو میرا جھنڈا لیکر چلے گا؟‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں ۔‘‘ چنانچہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سات سو صحابہ کی معیت میں جھنڈا دے کر روانہ کیا۔ جب آپ دشمنوں کی طرف پہنچے تو انھوں نے کہا : اپنے ساتھی کے پاس لوٹ جائیے، ہماری تعداد بہت ہے۔ آپ واپس چلے گئے ۔ دوسرے روز آپ نے فرمایا: کون شخص جو میرا جھنڈا لے کر چلے گا؟‘‘چنانچہ آپ نے جھنڈاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تھما دیا ‘ ان کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا۔
تیسرے روز آپ نے فرمایا :علی کہاں ہیں ؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں یہ موجود ہوں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دے کر رخصت کیا۔آپ ان لوگوں کی طرف روانہ ہوئے؛ صبح کی نماز کے بعد آپ وہاں پر پہنچے۔ آپ نے دشمن کے چھ سات آدمی ہلاک کر دیے۔ اور باقی بھاگ گئے اللہتعالیٰ نے امیر المؤمنین کے فعل کی قسم اٹھاتے ہوئے یہ آیت کریمہ نازل کی:
﴿وَالْعَادِیَاتِ ضَبْحًا﴾(العادیات:۱)’’اور قسم ہے سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کی !۔
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:جاہل ترین انسان بھی آپ سے پوچھ سکتا ہے کہ اس واقعہ کی سند بیان کیجیے تاکہ اس واقعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوجائے۔ جب کہ اہل علم آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں : [ایسا کوئی غزوہ سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا]۔ یہ غزوہ -اورجوکچھ تم نے اس کی حکایات بیان کی ہیں - اسی قسم کا جھوٹ ہے جو طرقیہ بیان کرتے ہیں ۔جو کہ کثرت کے ساتھ افسانہ گوئی میں جھوٹ بولتے ہیں جیسے عنترہ اور بطال کے لا یعنی افسانے لوگوں میں مشہور ہیں ۔اگرچہ عنترہ کے کچھ مختصر واقعات ہیں بھی۔اور ایسے ہی بطّال کی کچھ سوانح حیات موجود ہے ۔
یہ وہ واقعات ہیں جو بنو امیہ کی حکومت میں اہل روم کے ساتھ غزوات میں پیش آئے۔ لیکن ان کے ساتھ جھوٹوں نے اتنے واقعات ملالیے کہ ان کی کئی مجلد تیار کرلیں ۔اور ایسے ہی شطاّر کی حکایات ‘ احمد دنف ‘زیبق مصری جوکہ ایسی حکایات بیان کرتے ہیں جنہیں وہ اپنی طرف گھڑ کر ہارون اور جعفر کی طرف مسنوب کرتے ہیں ۔ پس ان غزوات کی کہانیاں بھی اسی جنس کی کہانیوں سے ہیں ۔ مندرجہ ذیل علماء نے سیر و مغازی کے فن میں بڑی مہارت حاصل کی تھی، مگر ان میں سے کسی نے بھی یہ واقعہ بیان نہیں کیا:
مغازی کے مشہور علماء کے اسماء یہ ہیں : عروہ، زہری، ابن اسحاق، موسیٰ بن عقبہ، ابو معشر سندھی، لیث بن سعد، ابو اسحاق فزاری، ولید بن مسلم، واقدی، یونس بن بکیر، ابن عائذ اور ان کے نظائر وامثال وغیرہ۔نہ ہی ان کا ذکر حدیث میں ہے اور نہ ہی اس بارے میں قرآن نازل ہوا ہے۔
خلاصۂ کلام! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مغازی ؛ خصوصاً جن میں قتال کی نوبت پیش آئی ؛ بہت ہی مشہور و معروف ہیں ۔ اور اہل علم کے ہاں ان کے احوال کو تواتر کے ساتھ ضبط بھی کیا گیا ہے؛ اور تفسیر و حدیث ‘ فقہ وسیرت اور مغازی کی کتابوں میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔یہ وہ واقعات ہیں جن کو نقل کرنے کے دواعی و اسباب موجود تھے۔ یہ بات عادت و شریعت میں ممتنع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا غزوہ ہوا ہو؛ جس میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا ہو‘ مگر پھر بھی اہل علم میں سے کوئی ایک بھی اسے نقل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح ممتنع ہے جیسے کوئی دن اور رات میں پانچ نمازوں سے زیادہ کو فرض قراردیدے۔ یا سال میں ایک ماہ سے زیادہ کے روزوں کو فرض قراردے ‘ جب کہ ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے۔اور جیسا کہ یہ بات ممتنع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فارس کے ساتھ عراق میں غزوات کیے ہوں ‘یا پھر آپ یمن گئے ہوں ۔کسی ایک نے بھی یہ بات نقل نہیں کی۔اس طرح کی کئی دیگر باتیں بھی ہیں جو اگر روپذیر ہوئی ہوتیں تو انہیں نقل کرنے کے اسباب موجود تھے ۔
مذکورہ صدرسورت کریمہ ﴿اَ لْعَادِیَات﴾ کے نزول کے متعلق دو قول ہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ: یہ سورت مکہ میں اتری ہے ۔ یہ قول ابن مسعود ‘ عطاء اور عکرمہ اور دوسرے مفسرین رحمہم اللہ کا ہے۔ اس قول کی بنیاد پر شیعہ مصنف کا بیان کردہ واقعہ صاف ظاہر طور پر جھوٹا ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ: یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ یہ قول ان لوگوں کے قول کے ساتھ مناسب ہے جوکہ ﴿اَلْعَادِیَات﴾ کی تفسیر مجاہدین کے گھوڑوں سے کرتے ہیں ۔لیکن اس آیت کی تفسیر میں مشہور اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ﴿ اَلْعَادِیَات﴾ سے حاجیوں کے اونٹ مراد ہیں ، جو مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان بھاگتے ہیں ۔یہ تفسیر پہلے قول کے موافق ہے۔ اس کی روسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان خود شیعی دعوی کو جھٹلا رہا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور اکثر مفسرین اس سے مجاہدین کے گھوڑے مراد لیتے ہیں ۔
٭ اس روایت کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ کفار نے مسلمانوں کے لیے خیر خواہی سے کام لیا۔اورابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اپنے ساتھی کے پاس واپس چلے جائیے چونکہ ہم بہت بڑی تعداد میں ہیں ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بات جنگجو [یا پیش معرکہ ]کفار کی عادت کے خلاف ہے۔
٭ پھریہ کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کبھی بھی پسپا نہیں ہوئے۔ بعض دروغ گو اپنی طرف یہ بات گھڑلیتے ہیں کہ حنین کے موقعہ پر یہ حضرات فرار ہوگئے تھے ؛ حقیقت میں یہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر جھوٹا الزام ہے۔[تفسیر ابن کثیر ۸؍۴۶۸؛ تفسیر سورۃ العادیات۔یہاں پر حضرت علی اور عبداللہ بن مسعود سے اس کی تفسیر میں اونٹ مراد لیے گئے ہیں جب کہ ابن عباس اس سے مراد گھوڑے لیتے ہیں ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابن عباس کے قول کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: بدر کے دن تو ہمارے پاس گھوڑے نہیں تھے۔اس کے بعد ابن عباس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ دیکھیں : زاد المسیر لابن جوزی ۹؍۲۰۶؛ ابن جریر ۸؍۴۸۷۔]
٭ نیز یہ کہ احد اورخندق کے علاوہ کسی بھی موقع پر کسی ایک نے بھی مدینہ پر حملہ کاارادہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی ان دو غزوات کے علاوہ کبھی کفار مدینہ کے اتنے قریب پہنچے ہیں ۔ غزوہ غابہ میں بعض لوگوں نے مدینہ کی چراگاہوں پر حملہ کیا تھا۔ جوکچھ غزوہ سلسلہ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے ‘ وہ ایسا کھلاہوا جھوٹ ہے کہ جس کا ذکر جہلاء اور کذابین ہی کرسکتے ہیں ۔
٭ جب کہ ذات سلاسل ایک سریہ تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا تھا۔ اس لیے کہ یہاں پر ہدف بنو عذرہ کے لوگ تھے ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ اور بنوعذرہ کے مابین قرابت تھی۔تو آپ نے انہیں اس لیے روانہ فرمایا کہ شاید یہ لوگ اسلام لے آئیں ۔ پھر ان کے پیچھے حضرت ابو عبید ہ بن جراح کو روانہ فرمایا ۔ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر تک نہیں ۔ یہ جگہ شام کے قریب اور مدینہ سے بہت دور تھی۔
٭ اس غزوہ کی ایک یخ بستہ [ٹھنڈی]رات میں حضرت عمرو بن العاض رضی اللہ عنہ کو احتلام ہوگیا تھا ؛ آپ نے تیمم کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوصبح کی نماز پڑھا دی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپ نے پوچھا:
’’اے عمرو! تو نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی؟‘‘
میں نے غسل نہ کرنے کا سبب بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:﴿وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ﴾۔ [النساء۲۹]’’تم اپنے آپ کو قتل مت کرو اور اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے اور کچھ نہ کہا ؛[بلکہ اسے برقرار رکھا]؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا عذر واضح ہوگیا تھا۔‘‘[سنن ابوداؤد؛ کتاب الطہارۃ ؛ باب: إذا خاف الجنب البرد أیتیمم؟:ح333۔ مستدرک الحاکم ۱؍ ۱۷۷۔ قال: صحیح علی شرط الشیخین‘ و وافقہ الذہبي۔ وصححہ الألباني في أرواء الغلیل۔]
٭ علماء کرام رحمہم اللہ کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: تو نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی؟ کیا یہ سوال کے لیے ہے ؛ یعنی کیا تم نے جنابت کی حالت میں ہی نماز پڑھا دی ۔ تو جب آپ نے خبر دی کہ آپ نے تیمم کرکے نماز پڑھائی ہے ‘ جنابت کی حالت میں نہیں ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو برقرار رکھا۔ یا پھر یہ خبر دی جاری ہے کہ : کہ تم جنابت کی حالت میں تھے ‘ اور تیمم کرنے سے نماز مباح ہوجاتی ہے اس لیے کہ تیمم جنابت کو ختم کردیتا ہے ۔ یہ دوقول ہیں ۔ زیادہ ظاہر اور قوی پہلا قول ہے ۔
غزوۂ بنی مصطلق میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بنی مصطلق میں سے مالک اور اس کے بیٹے کو قتل کردیا اور بہت سے لوگوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ان جملہ قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بنت الحارث بن ابی ضرار بھی تھیں ۔جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے اختیار کرلیا ۔ آپ کا والد اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض گزار ہوا: یارسول اللہ ! میری بیٹی انتہائی شریف خاتون ہے؛ اسے قیدی نہیں بنایا جاسکتا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ اسے اختیار دیا جائے۔ اس کے والد نے کہا: آپ نے بہت اچھی او رخوبصورت بات کہی ہے۔ پھر اس نے کہا: اے میری بیٹی اپنی قوم کو رسوا نہ کرنا۔ اس پر حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں ۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:سب سے پہلے جس بھی منقول سے احتجاج کیا جائے‘ اس کی سند بیان کرنی ضروری ہوتی ہے۔ یا پھر اسے ایسی کتاب کی طرف منسوب کیا جائے جس سے حجت قائم ہوسکتی ہو۔ وگرنہ اس واقعہ کا علم کیسے ہوگا۔
پھریہ بھی کہتے ہیں : یہ واقعہ روافض کی بے اصل و بے اسنادمن گھڑت مرویات میں شامل ہے۔[ شیعہ کی بیان کردہ روایات یا تو بلا اسناد ہوتی ہیں یا ان کے راوی مجہول، کذاب اور متہم بالکذب ہوتے ہیں ]۔ یہ واقعہ کسی سیرت نویس نے نہیں لکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بنی مصطلق میں یہ کارنامہ سرانجام دیا ؛اورنہ ہی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو قیدی بنایا تھا۔ جویریہ رضی اللہ عنہا کو جب قیدی بنایا گیا تو انھوں نے بدل کتابت ادا کرکے آزاد ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رقم ادا کرکے ان کو آزاد کرالیا اور پھر ان کے ساتھ عقد نکاح باندھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتۂ مصاہرت کے احترام میں سب لوگوں نے اپنے اپنے قیدی رہا کردیے۔اور کہنے لگے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال ہیں ۔[ابی داؤد، کتاب الخراج۔ باب فی خبر بنی نضیر(ح:۳۰۰۴)، مصنف عبد الرزاق(۹۷۳۳)۔] نہ ہی ان کا والد آیا اور نہ ہی کسی چیز میں کوئی اختیار دیا۔
سنن ابو داؤد میں ہے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: جویریہ رضی اللہ عنہا بنت حارث بن المصطلق (جنگ میں پکڑنے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں) حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا انکے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں ۔ انہوں نے اپنے نفس(کو آزاد کرانے پر)بدل کتابت دینے کا معاہدہ کر لیا۔ اور وہ ایک خوبصورت ملاحت والی عورت تھیں جن پر نظریں پڑتی تو نظروں میں بھا جاتی تھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدل کتابت کے بارے میں سوال کرتی ہوئی آئیں ۔جب وہ دروازہ میں کھڑی ہو گئیں تو میں نے انہیں دیکھا اور ان کے کھڑے ہونے کو ناپسند کیا۔ اور مجھے معلوم تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ویسے ہی دیکھیں گے جیسے میں نے دیکھا ہے۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کہنے لگی: یا رسول اللہ! میں جویریہ بنت الحارث ہوں اور جو میرا پہلے حال تھا، وہ آپ پر مخفی نہیں ہے۔ اور میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں آئی ہوں ؛ اور میں نے اسے اپنے نفس (کی آزادی پر)معاہدہ کتابت کر لیا ہے ۔پس میں آپ کے پاس اپنے بدل کتابت کے بارے میں سوال کرنے آئی ہوں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے اس سے بہتر کچھ اور نہیں ہے؟ وہ کہنے لگیں کہ: وہ کیاہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ:’’ میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دوں اور تم سے نکاح کرلوں ۔‘‘ وہ کہنے لگی میں نے بیشک کر لیا (یعنی میں بخوشی راضی ہوں )۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’ جب لوگوں نے یہ سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا ہے ؛تو انہوں نے وہ تمام قیدی(بنی مصطلق کے)جو ان کے قبضہ میں تھے، انہیں چھوڑ دیا اور انہیں آزاد کر دیا۔ اور کہنے لگے کہ:’’ یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے ہیں ۔‘‘
[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ]: ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی اپنی قوم پر جویریہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ بابرکت ہو؛ ان کے سبب سے سو قیدی بنی المصطلق کے آزاد ہوگئے۔‘‘[ سنن ابوداد:ح540؛ صحیح]