Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[غیبی امور کی خبریں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[غیبی امور کی خبریں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:پانچویں دلیل:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ غیب کی اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے قبل از وقت آگاہ کردیا کرتے تھے۔جب حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما نے جب عمر ہ کرنے کی اجازت طلب کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ:’’اللہ کی قسم ! آپ کا مقصد عمر ہ کرنا نہیں ، بلکہ بیشک آپ بصرہ جانا چاہتے ہیں ۔ آپ کا ارشاد بجا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ذی قار کے مقام پر بیعت لے رہے تھے تو آپ نے فرمایا تھا: کوفہ کی طرف سے ایک ہزار آدمی آئیں گے۔نہ کم ہوں گے نہ زیادہ؛ وہ موت پر میری بیعت کریں گے۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ ان میں سے آخری شخص اُوَیس قرنی تھے۔ آپ نے پستان والے خارجی کے قتل کی خبر دی تھی۔چنانچہ ویسے ہی ہوا۔نہروان کے قصہ میں ایک شخص نے قوم کے نہر کوعبور کرجانے کی خبردی ۔تو آپ نے فرمایا: ’’ وہ ہرگز اسے عبور نہیں کرسکیں گے ۔‘‘ پھر ایک دوسرے نے آکریہی خبر دی تو آپ نے فرمایا: ’’وہ ہرگز عبور نہیں کرسکیں گے ؛ بلکہ یہی جگہ ان کے موت کاگھاٹ ثابت ہوگی ‘‘پس ویسے ہی ہوا۔‘‘ 

آپ نے قبل از وقت اپنے قتل سے آگاہ کردیا تھا۔ آپ نے ابن شہر یار ملعون کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے؛اور اسے سولی دی جائے گی ۔چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے سولی چڑھا دیا۔ آپ نے میثم کھجور فروش سے کہا تھا کہ دارِباب عمرو پر دس آدمیوں کو پھانسی دی جائیگی، ان میں دسواں شخص میثم ہو گا۔‘‘اوروہ ان کے تختہ سے چھوٹا ہوگا۔ آپ نے اسے وہ کھجور کا درخت بھی دکھایا تھا جس پر اسے پھانسی دی جانے والی تھی اور اسی طرح وقوع میں آیا۔

٭ آپ نے رُشید الہجَری کو بتایا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں گے اور اسے پھانسی دی جائے گی؛ اوراس کی زبان کاٹ دی جائے گی۔چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ آپ نے خبر دی تھی کہ حجاج کمُیل بن زیادکوقتل کرے گا؛ اور قنبر کو ذبح کرے گا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔

٭ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ:’’ میرے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا جائے گا اور تم اس کی مدد نہیں کرو گے ؛اوراسی طرح ہوا۔اورآپ نے اپنے بیٹے کی قتل گاہ کے بارے میں خبر دی تھی۔

٭ نیز آپ نے فرمایا تھا کہ:’’ بنو عباس آسانی سے اقتدار سنبھال لیں گے۔اور پھر ترک ان سے ملک چھینیں گے ۔ آپ نے فرمایا:’’بنی عباس کی شاہی آسان ہوگی؛ اس میں کوئی سختی نہیں ہوگی۔ اور اگر ترک و دَیلم اور ہندو سندھ ؛ بربر[افریقہ ] اورطیلسان[فارس] کے لوگ مل کر ان کی سلطنت چھیننا چاہیں تو اس پر قادر نہ ہوں گے؛ جب تک کہ ان کے موالی اور ارباب دولت ان سے الگ نہ ہو جائیں ۔ ترک کا ایک بادشاہ ان پر مسلط ہو گا وہ اس جگہ سے آئے گا جہاں سے ان کی سلطنت کا آغاز ہوا تھا۔ جس شہر پر سے اس کا گزر ہو گا اسے فتح کرے گا ۔ اس کے مقابلہ کے لیے جو جھنڈا بلند کیا جائے گا وہ اسے سرنگوں کردے گا، جو اس کی مخالفت کرے گا اس کے لیے ہلاکت و تباہی ہے۔ وہ برابر ان سب پر کامیابی حاصل کرتا رہے گا ۔پھر یہ کامیابی میرے اہل بیت کے ایک شخص کو سونپ دیگا۔[یعنی اس کی کامیابی کا انحصار میرے اہل بیت کے ایک شخص پر ہو گا]جو حق کی بات کہے گا اور حق پر عمل پیرا ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس طرح فرمایا تھا اسی طرح ہوا اور ہلاکو خان خراسان کے علاقہ سے نکل کر حملہ آور ہوا۔‘‘اور آپ سے ہی بنی عباس کے اقتدار کی ابتداء ہوئی۔ یہاں تک کہ ابومسلم خراسانی نے ان کی بیعت کرلی۔‘‘ ( شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا۔)

[جواب]:ہم کہتے ہیں :’’ بعض غیبی امور کی خبریں دینا توجو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کم درجہ کے صلحاء بھی اس طرح کی خبریں دیا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان تو اس سے بہت زیادہ بلند وارفع ہے۔حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے اتباع کاروں میں ایسے لوگ تھے جو اس سے بڑھ کر خبریں دیا کرتے تھے۔مگر اس کے باوجود یہ لوگ امامت و خلافت کے اہل نہ تھے۔اورنہ ہی وہ اپنے زمانہ کے باقی لوگوں سے افضل تھے۔اسی کی مثالیں ہمارے اس دور میں بھی موجود ہیں ‘اور دیگر ادوار میں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ و حذیفہ رضی اللہ عنہما و دیگر صحابہ سے اس سے کئی گنا زیادہ خبریں نقل کی گئی ہیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً ایسی روایات بیان کرتے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کبھی مرفوع کرتے اور کبھی موقوف روایت کرتے ہیں ۔ مگر اس کا حکم مسند کا ہوتاہے ۔جن باتوں کی آپ نے خبر دی ہے ‘یا دوسری اس قسم کی باتیں یا تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر بیان کی ہیں یا وہ ان کے کشف پر مبنی ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس طرح کی کئی خبریں دی ہیں ۔

کرامات اولیاء اور ایسی خبروں کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ؛ ان میں : امام احمد کی کتاب الزہد۔ ابو نُعَیم کی حِلیۃ الاولیاء ؛ ابن جوزی کی ’’صفوۃ الصفوۃ ‘‘اور ابن ابی الدنیا ،ابو بکر بن خلال اور لالکائی کی کتابوں میں کرامات الاولیاء کا بیان ہے۔ ان حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پیروکاروں کے قصے بھی ہیں جیسے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نائب تھے ؛ اور ابو مسلم خولانی؛ اور اس کے بعض اتباع کار۔اور ابی صہباء ؛ عامر بن عبد قیس ؛ اور ان دیگر لوگوں کے قصے ہیں جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہزار درجہ افضل ہیں ۔ان میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ کہہ سکیں کہ یہ انسان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہے ؛ پھر خلفاء راشدین کی تو شان ہی نرالی ہے۔

شیعہ مصنف نے غیبی خبروں سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو یہ واقعات تحریر کیے ہیں ؛ ان میں سے کسی ایک واقعہ کی بھی کوئی سند ذکر نہیں کی جس کی وجہ سے اس کی صحت کا پتہ چل سکے۔ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا صحیح ہونا معلوم ہے ؛ اور کچھ چیزوں کا جھوٹ ہونا صاف ظاہر اورواضح ہے۔اور کچھ باتوں کے سچ یا جھوٹ ہونے کا کوئی پتہ نہیں چل رہا ۔

ترک بادشاہ کے بارے میں جو خبر ذکر کی ہے ‘وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹا الزام ہے۔ اس لیے کہ آپ نے اپنی کامیابی اہل بیت کے کسی شخص کو نہیں سونپی تھی؛ یہ جھوٹ بعد میں آنے والے شیعہ نے گھڑ لیا ہے ۔ [ ہلاکو نے کسی علوی کو ضرر نہیں پہنچایا تھا ]

غیب کی خبروں پر مشتمل کتب جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا اہل بیت کی طرف منسوب ہیں ‘ یہ تمام جھوٹ ہیں ؛ جیسے کتاب ’’الجفر ؛ کتاب البطاقہ وغیرہ دیگر کتابیں ۔ اور ایسے ہی جو علوم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں کہ یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ کرام کو چھوڑ کر بطور خاص آپ کو بتایا تھا؛ [یہ بھی جھوٹی باتیں ہیں ]۔

ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ جس کسی دوسرے صحابی کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ کرام کو چھوڑ کر انہیں کوئی خاص علم سیکھایا تھا: تو یہ سب باتیں جھوٹ ہیں ۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:’’ کیا آپ کے پاس کوئی چیز ہے جو قرآن میں نہیں ۔ اور بعض دفعہ اس طرح کہا گیا کہ جو لوگوں کے پاس نہیں ؟

تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو اگایا اور جان کو پیدا کیا، کہ ہمارے پاس وہی چیز ہے جو قرآن میں ہے سوائے اس فہم کتاب کے جو کسی شخص کو دیا جاتا ہے اور اس کے جو صحیفہ میں ہے۔ میں نے پوچھا صحیفہ میں کیا ہے؟، انہوں نے کہا کہ: دیت اور قیدی کو آزاد کرنے کے متعلق احکام ہیں اور یہ کہ مسلم کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے گا۔‘‘[صحیح بخاری:ج3 :ح 1811]

ایسے ہی وہ تمام روایات جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ کے بارے میں روایت کی جاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی خاص علم باطن سکھایا تھا؛ یہ تمام باتیں باطل ہیں ۔

یہ اس روایت کے منافی نہیں ہے جسے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں :

((حفظت من رسول اللہ رضی اللہ عنہم وعائین فأما أحدہما فبثثتہ وأما الآخر فلو بثثتہ قطع ہذا البلعوم )) [البخاری کتاب العِلمِ، باب حِفظِ العِلم]

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو ظرف(علم کے)یاد کرلیے ہیں ، ان میں سے ایک کو تو میں نے ظاہر کردیا، اور دوسرے کو اگر ظاہر کروں تو کھانے کی رگ کاٹ لی جائے ۔‘‘

بلاریب یہ حدیث صحیح ہے۔ اور اس میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کوئی خاص علم سکھایا ۔بلکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دوسرے صحابہ سے زیادہ یاد رکھنے والے تھے۔ اس لیے آپ نے وہ چیزیں یاد رکھیں جو دوسرے صحابہ یاد نہ رکھ سکے۔

ایسے ہی صحیحین میں ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ اللہ کی قسم !میں لوگوں میں سب سے زیادہ ان فتنوں کو جانتا ہوں جو میرے اور قیامت کے درمیان پیش آنے والے ہیں ۔ اور مجھے ان فتنوں کے بتانے سے صرف یہی بات مانع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض راز کی باتیں مجھے بتائی ہیں جنہیں میرے علاوہ کسی سے بھی ذکر نہیں کیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے بارے میں فرمایا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تھے جس میں میں بھی موجود تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کو شمار کرتے ہوئے ....حذیفہ نے کہا:’’ میرے علاوہ باقی سب قوم مجلس اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔‘‘[صحیح مسلم:حدیث نمبر 2763۔ ]

صحیحین میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ؛ اوراس کھڑے ہونے کے وقت سے لے کر قیام قیامت تک کے تمام حالات کو بیان کردیا پس جس نے انہیں یاد رکھا اس نے انہیں یاد رکھا؛ اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘[صحیح مسلم: حدیث نمبر 2764۔]

حضرت ابوزید عمرو بن اخطب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی اور منبر پر چڑھے توہمیں خطبہ دیا یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا ؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا؛ یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا ۔پھر اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا ۔یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کی خبر دی جو پہلے ہو چکی ہیں اور جو آئندہ پیش آنے والی تھیں پس ہم میں سے سب بڑا عالم وہی ہے جس نے ہم میں سے ان باتوں کو زیادہ یاد رکھا۔‘‘[صحیح مسلم:ح 2768۔ ]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فتح خیبر والے سال اسلام قبول کیا۔آپ کو چار سال سے بھی کم عرصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر آئی ۔ان کی اس تھیلی میں علم دین ‘ ایمان ؛ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سے کوئی بھی چیز نہیں تھی۔ اس میں مستقبل کے امور کی خبریں تھیں ۔مثال کے طورپر وہ فتنے جو مسلمانوں کے مابین پیش آئے؛ جیسے جنگ جمل اور صفین کا فتنہ؛ ابن زبیر کا فتنہ ؛ مقتل حسین رضی اللہ عنہ اور اس طرح کی دیگر خبریں تھیں ۔ اسی لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کے ساتھ فتنوں میں شریک نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اگر ابو ہریرہ تم سے یہ حدیث بیان کرتے کہ تم اپنے خلیفہ کو قتل کرو گے ‘اور تم ایسے ایسے کام کروگے تو تم لوگ کہتے ابو ہریرہ جھوٹ بول رہا ہے ۔‘‘

وہ حدیث جسے رازدان نبوت حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے ‘جسے ان کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا؛ صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے : حضرت علقمہ رحمہ اللہ شام گئے ؛جب آپ وہاں پہنچے تو ایک مسجد میں آئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کی کہ یا اللہ ہمیں کوئی اچھاہم نشین عطا کر۔ پھر حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھ گئے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ: کوفہ کا رہنے والا ہوں ۔ علقمہ رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم میں وہ شخص نہیں ہے جو اس راز کا جاننے والا ہے کہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا؟ یعنی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔کیا تم میں وہ شخص نہیں ہے، یا یہ کہا کہ کیا تم میں وہ شخص نہیں تھا، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر شیطان سے پناہ دیدی ہے یعنی عمار رضی اللہ عنہ ؟میں نے کہا: کیوں نہیں ! ضرور ہیں ....[یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔][صحیح بخاری:حدیث نمبر 1215۔]

یہ راز بعض ان منافقین کی شخصیات کا تعین تھا جو غزوہ تبوک میں شریک تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی رسی کھول کرآپ کو گرادیں ۔مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبردار کردیا۔ اس وقت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ قریب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان لوگوں کے نام بتادیے ۔ پس جب کوئی مجہول الحال انسان مرجاتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک اس کا جنازہ نہ پڑھتے جب تک حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اس جنازہ میں شریک نہ ہوں ۔ اس لیے کہ آپ کو اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں منافقین کا جنازہ نہ پڑھا دیں ۔

پس بعض صحابہ اور صالحین کا مستقبل کے بعض امور کو جان لینا اس بات کو واجب نہیں کرتا کہ وہ ان تمام امور کا عالم ہے۔وہ غالی شیعہ جو مطلق طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عالم الغیب ہونے کا دعوی کرتے ہیں ؛یہ دعوی صاف جھوٹ ہے ۔ جب کہ بعض باتوں کا علم ہونے میں آپ کی کو ئی خصوصیت نہیں ۔تمام چیزوں کا علم پوری طرح نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تھا او رنہ ہی کسی دوسرے کو ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امور مستقبل کے کلی عالم نہ ہونے کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ آپ کی خلافت کے زمانہ میں کئی جنگیں پیش آئیں ۔ آپ کے ذہن میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی تھیں کہ حقائق ان کے خلاف ظاہر ہوتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بعض اوقات اپنی لڑائیوں اور دیگر معاملات کے بارے میں ایک رائے قائم کرتے اور وہ غلط ثابت ہوا کرتی تھی۔ اگر آپ کو یہ علم ہوتا کہ لڑائیوں میں لا تعداد جانیں ضائع ہونگی اور مقصد بھی حاصل نہ ہو گا تو آپ لڑائی میں حصہ نہ لیتے۔ جنگ آزمائی سے کنارہ کش ہونے کی صورت میں آپ زیادہ کامیاب و کامران ثابت ہوتے۔اس لیے کہ اکثر لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے اور اکثرشہر بھی آپ کے ماتحت تھے۔ جب آپ نے جنگ کی تو کمزور ہوگئے۔ یہاں تک کہ بہت سارے وہ شہر جو آپ کی خلافت میں شامل تھے ؛ جیسے مصر ؛ یمن اور حجاز ؛ وہ آہستہ آہستہ خودمختاری کے خواب دیکھنے لگے۔ اگر آپ جانتے ہوتے کہ میرے مقرر کردہ حَکم یہ فیصلہ صادر کریں گے تو آپ تحکیم پر راضی نہ ہوتے۔ اور اگر آپ کو علم ہوتا کہ ان میں سے ایک دوسرے کیساتھ وہی سلوک کرے گا جو کہ بعد میں دیکھا گیا؛ یہاں تک انہیں معزول کردیا گیا؛ تو آپ اپنی معزولی پر موافقت نہ کرتے ۔شروع میں آپ کے خیر خواہوں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی امارت پر باقی رہنے دیا ؛ یہاں تک کہ معاملات صحیح ڈگر پر آجاتے۔آپ کے محبین او رخیر خواہان کے ہاں یہ رائے زیادہ درست تھی۔

یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابو سفیان کو نجران کاوالی بنایا تھا۔ وہ وہاں کے والی ہی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کی نسبت زیادہ اچھے مسلمان تھے۔صحابہ اور تابعین میں سے کسی ایک نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ پر منافق ہونے کی تہمت نہیں لگائی ؛ جب کہ ان کے والد کے بارے میں اختلاف ہے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان کو شام کی فتح کے لیے حضرت خالد بن ولید اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ امیر لشکر مقرر کیا تھا۔ آپ اپنی امارت پر باقی رہے یہاں تک کہ شام میں ہی آپ کا انتقال ہوگیا۔ آپ کا شمار فاضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں ہوتا تھا۔ آپ بہت نیک انسان تھے؛ اپنے بھائی اور والد سے زیادہ اچھے تھے ۔یہ وہ یزید نہیں ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جانشین [وخلیفہ ]ہوئے تھے۔اس ثانی الذکر یزید کی پیدائش ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی تھی۔ اس کانام اپنے چچا کے نام پر رکھا گیاتھا۔ جہلاء کا ایک گروہ اس یزید کو صحابی سمجھتا ہے؛ اوربعض غالی لوگ اسے نبی تک کا درجہ دیتے ہیں ۔ اور ان کے برعکس ایک دوسرا گروہ اسے کافر و مرتد قرار دیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں باطل ہیں ۔ اس کا صرف اتنا ہی مقام ہے کہ وہ بنی امیہ کا ایک خلیفہ ہے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ - ان کے قاتلوں پر اللہ کی لعنت ہو- اس کی خلافت کے دور میں بعض اختلافات کی بناپر مظلوم شہید ہوئے۔لیکن یزید نے انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔اور نہ ہی اس پر رضامندی کا اظہار کیا؛ اور نہ ہی ان لوگوں کی مددکی جنہوں نے آپ کو قتل کیا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر جب عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا تو اس نے آپ کے دانتوں پر لاٹھی سے مارا تھا؛ یہ بات صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے[یہ اثر حضرت انس بن مالک سے مروی ہے۔ البخاری۵؍۲۶ کتاب فضائل اصحاب النبي رضی اللہ عنہم ‘باب مناقب الحسن و الحسین؛ وسنن الترمذي۵؍۳۲۵ ‘کتاب المناقب ‘ باب مناقب الحسن و الحسین۔ البدایۃ والنہایۃ ۸ ؍۱۹۰۔علامہ ابن (]۔ جب کہ سر کو یزید کے سامنے لے جاکر پیش کرنے کا واقعہ باطل ہے ‘ اور اس کی سند منقطع ہے۔

اس کے چچا یزید رضی اللہ عنہ کا شمار نیکوکار صحابہ کرام میں سے تھا۔ اس کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا۔ اس کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی جگہ دوسرے بھائی معاویہ کو تعینات کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لوگوں سے زیادہ اہل لوگوں کے احوال جانتے تھے۔ اور سیاست میں بڑے ماہر تھے۔خواہشات نفس سے بڑے دور تھے۔آپ نے اپنی خلافت میں کسی ایک بھی قریبی رشتہ دار کو کوئی منصب تفویض نہیں کیا۔ آپ ولایت و امارت کے لیے صرف اسی انسان کا انتخاب فرمایا کرتے تھے جسے اس کا ہل سمجھتے تھے۔ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھی اسی لیے امیر بنایاتھا کہ ان کے نزدیک آپ اس منصب کے اہل تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی ولایت میں وسعت دیدی۔ یہاں تک کہ سارا شام آپ کے زیر نگین ہوگیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شام کے چار حصے تھے : فلسطین ‘ دمشق ‘ حمص اور اردن ۔ پھر اس کے بعد قنسرین اور دوسرے دار الحکومت کو ربع حمص سے علیحدہ کردیا گیا۔پھر اس کے بعد حلب آباد ہوگیا او رقِنسرین ویران ہوگیا۔ اوریہ دار الحکومت مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین حکومتیں بن گئے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عمراورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی طرف سے بیس سال تک اس علاقہ میں نائب رہے۔ پھر بیس سال تک امام و خلیفہ رہے۔آپ کی رعیت آپ کے احسانات اورحسن سلوک کی شکر گزاراورآپ پر راضی رہی تھی۔یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ جیسے معاملہ میں انہوں نے آپ کی اطاعت کی۔

یہ بھی معلوم شدہ بات ہے کہ آپ اپنے والد سے بہتر تھے ‘اور والد سے بڑھ کر ولایت کے جواز کے حق دار تھے۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ : آپ کو والی بنایا جاناحلال نہیں تھا۔ اگر یہ بات بھی مان لی جائے کہ کوئی دوسرا آپ سے زیادہ ولایت کا حق دار تھا؛ یا آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کی وجہ سے ظلم کے کاموں پر تعاون ہوا تھا ؛ تو پھر بھی آپ کی ولایت سے جس شر کا خاتمہ ہوا وہ آپ کے عہد میں حاصل ہونے والے شر سے بہت زیادہ ہے ۔

مال لینااور بعض لوگوں کو مناصب تفویض کرنا کہاں ہے؟ اورپھر صفین میں قتل ہونے والوں کو کس نے قتل کیا ؟ اس میں نہ ہی کسی کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی غلبہ ملا ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دینے والے لوگ بڑے پکے لوگ تھے ‘اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور مجتہد تھے ‘ آپ وہی کرتے تھے جس میں مصلحت سمجھتے تھے۔

یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر آپ مستقبل کی خبریں جانتے ہوتے تو آپ کو علم ہوتا کہ جنگ صفین کی نسبت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس امارت پر باقی رکھنا ہی زیادہ مصلحت پر مبنی تھا۔ کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے شر اور برائی کے زیادہ ہونے کے علاوہ توکچھ بھی نہیں ملا؛ اور نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی۔جب کہ آپ کی ولایت میں خیر کی کثرت تھی

[کثیر رحمہ اللہ البدایہ والنہایہ ۸؍۱۹۲ پر لکھتے ہیں : اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کے بارے میں علماء کرام رحمہم اللہ کے دوقول ہیں ۔کیا ابن زیاد نے یہ سر یزیدکے پاس بھیج دیا تھا یا نہیں ؟ زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ اس نے آپ کا سر یزید کے پاس بھیج دیا تھا۔اس بارے میں بہت سارے آثار وارد ہوئے ہیں ۔حقیقت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔]

او ر آپ سے جنگ کی نسبت شر بہت کم تھا۔جو انسان بھی یہ گمان کرتا ہے کہ آپ کی ولایت میں شر تھا ؛ اسے جاننا چاہیے کہ آپ کے ساتھ جنگ کرنے میں شر اس سے زیادہ اور بڑا تھا۔

یہ مثال اور اس جیسی دیگر مثالوں سے ان لوگوں کی جہالت واضح ہوجاتی ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غیبی امور جانتے تھے۔ بلکہ رافضی کا دعوی ہے متناقض ہے ۔ان منفی امور کے باوجود آپ کے بارے میں علم الغیب کا دعوی کرتے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ہی آپ کے لیے انتہائی شجاعت کے دعویدار ہیں ؛ اور ان کا خیال ہے کہ آپ نے ہی غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی۔اورشروع اسلام میں کمزوری کے ایام میں آپ کی تلوار کی وجہ سے اسلام کے قواعد پختہ ہوئے۔اورپھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں عاجزی و درماندگی اور کمزوری بیان کرتے ہیں ۔یہ متناقض بیانات ہیں ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال نہیں تھا کہ لوگوں کودیکر ان کے دل موہ لیتے؛ نہ ہی آپ کا قبیلہ بہت بڑا تھا اورنہ ہی آپ کے موالین تھے جو آپ کی مدد کرتے۔ اورنہ ہی آپ نے لوگوں کو اپنی بیعت کرنے کو کہا ؛ نہ ہی کسی کو ڈرایا دھمکایا اورنہ ہی کوئی لالچ دی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے دفاع پر ان کفار پرقادر ہونے کی نسبت زیادہ قادر تھے جنہوں نے مختلف مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگیں لڑیں اور آپ کواذیتیں پہنچائی تھیں ۔اگر آپ ہی کفار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے ؛ اور آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی دفاع کرنا چاہتے تھے تو آپ اس بات پر زیادہ قادر تھے۔ لیکن شیعہ جمع بین نقیضین ہی کرتے ہیں ۔

یہی حال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے آپ کی جنگ کا ہے ۔ اس وقت آپ غالب بھی تھے آپ کے پاس بہت بڑا لشکر بھی تھا اور آپ کے لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے جو ان لوگوں سے بدرجہا افضل تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے لشکرکو مغلوب کرنا چاہتے تھے۔ پس اگر آپ ہی نے مسلمانوں کی کمزوری اور قتل کے وقت کفار کی کثرت کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت کی تھی تو پھر آپ کے لشکر کی کثرت اورلشکرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی قلت کے ساتھ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو مغلوب کرنے پر ان کفار کو مغلوب کرنے کی نسبت زیادہ قادر تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگیں کیں ۔[اہل عقل کے لیے غور کی بات یہ ہے کہ ] اس بہادری و شجاعت اورقوت اور اس عاجزی و کمزوری کے مابین کسی جاہل کے علاوہ کوئی دوسرا بھی جمع کرسکتا ہے؟ بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام نصرت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھی؛ او راللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اور اہل ایمان سے آپ کی تائید ونصرت فرمائی تھی۔ معلوم ہوا کہ اللہتعالیٰ نے سب مومنین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید فرمائی تھی اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل ایمان سب شامل ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس شعر سے ان کے علم غیب کی نفی ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں :

لَقَدْ عَجَزْتُ عَجْزَۃً لَّا اَعْتَذِر سَوْفَ اَکِیْسَ بَعْدَہَا وَ اَسْتَمِرّ

وَ اَجْمَعُ الرَّأْیَ الشَّتِیْتَ المُنْتَثَرْ

’’میں معذرت نہیں کر رہا، بلکہ یہ سچ ہے کہ میں عاجز آگیا ہوں ۔ اس کے بعد میں غوروفکر سے کام لوں گے اور (سیدھی راہ پر) چلتارہوں گا۔ نیز بکھری ہوئی پراگندہ رائے یک جا کروں گا۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین کی راتوں میں فرمایا کرتے تھے:’’ اے حسن ! اے حسن! تیرے باپ کا یہ خیال نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا۔ اللہ کے لیے ہی سعد بن مالک اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت ہے ‘ انہوں نے فتنہ سے الگ رہ کر کتنا اچھا موقف اختیار کیا تھا۔ اگر وہ نیک تھے تو انھیں بڑا اجر ملے گا اور اگرگناہ گار تھے تو اس میں چنداں خطرہ نہیں ہے۔‘‘مصنفین نے آپ سے یہ کلام ایسے ہی نقل کیا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر منقول ہے کہ آپ اپنے اصحاب و احباب کے اختلاف سے بڑے بے چین رہا کرتے تھے۔ اور آپ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ معاملہ جہاں تک پہنچ گیا تھا وہاں تک پہنچے گا۔احادیث مبارکہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رائے کی تصویب آئی ہے ۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:

’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[صحیح بخاری، حوالہ سابق(ح:۳۶۲۹)۔ ]

یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے مابین صلح کرنے پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہیں ۔

تمام صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں کہ جنگ سے دور رہنا ‘اور فتنہ سے اپنے آپ کو بچانا اللہ اور اس کے رسول کے ہاں زیادہ پسندیدہ تھا۔ اکثر ائمہ اہل سنت والجماعت اورائمہ اسلام کا یہی قول ہے۔ اور اعتبار کے لحاظ سے بھی یہ قول ظاہر ہے۔ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کسی کام کے ثمرات کے لحاظ سے ہوتی ہے ۔ پس جو چیز مسلمانوں کے لیے ان کے دین و دنیا کے اعتبار سے بہتر ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہوتی ہے۔ واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رائے مسلمانوں کے دین اور دنیا کے اعتبار سے ان کے لیے نفع بخش تھی ؛ اس لیے کہ اس کے نتائج دونوں گروہوں کے حق میں بہتر ثابت ہوئے۔

صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :

’’ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی ان دونوں سے محبت کر۔ او ران لوگوں سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کریں ۔‘‘[صحیح البخاري؛ وکذا في المسند ۵؍۲۰۵۔]

یہ دونوں حضرات جنگ کے خلاف تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما دونوں نے طلب کیا تھا؛ مگر آپ نے جنگ میں ان میں سے کسی ایک کا ساتھ بھی نہیں دیا۔[واقعات نے ثابت کردیا تھا کہ جنگ آزمائی سے باز رہ کر حضرت حسن نے امت پر عظیم احسان کیا تھا]۔جیسا کہ دوسرے کئی اکابرصحابہ جیسے : حضرت سعد بن ابی وقاص ؛ ابن عمر و محمد بن مسلمہ و زید بن ثابت وابوہریرہ و عمر ان بن حصین اور ابوبکرہ اور دیگرصحابہ رضی اللہ عنہم نے ترک قتال کا موقف اختیار کیا تھا۔ [یہ اکابر اپنے موقف کے اثبات میں نصوص کتاب و سنت سے استناد کرتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔]

ایک فتنہ بپا ہو گا جو شخص اس میں بیٹھ رہے گا وہ کھڑا ہونے والے سے افضل ہو گا۔[صحیح بخاری، کتاب الفتن۔ باب تکون فتنۃ القاعد فیھا خیر من القائم (حدیث: ۷۰۸۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر (حدیث: ۲۸۸۶)۔ ]

جوکچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا وہ عنداللہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فعل سے زیادہ افضل تھا۔ مگر یہ دونوں بھائی جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ حق یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کومظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔

آپ کے قتل ہونے کے بعد لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے :

پہلاگروہ : ان کا خیال ہے کہ آپ کو حق پر قتل کیا گیا ہے۔ ان کی دلیل یہ صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((من جائکم وأمرکم علی رجلٍ واحِدٍ یرِید أن یفرِق بین جماعتِکم فاضرِبوا عنقہ بِالسیفِ کائِنا من کان)) [صحیح مسلم ؛ کتاب الإمارۃ۔ باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع؛ ح :3531۔]

’’ جو کوئی تمہارے پاس آئے اور تمہارے معاملات کی زمام کار ایک آدمی کے ہاتھ میں ہو؛ وہ تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالنا چاہتا ہو تو تلوار ماردو ؛ بھلے وہ کوئی بھی ہو۔‘‘

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ : حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ظہور اس وقت ہوا جب لوگ ایک حاکم پر متحد ہوچکے تھے ‘اور آپ لوگوں کی جماعت میں تفریق ڈالنا چاہتے تھے۔

دوسرا گروہ:....ان کاخیال ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو قتل کیا وہ کافر تھے ؛ بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی آپ کے امام برحق ہونے کا عقیدہ نہ رکھے وہ بھی کافر ہے۔

تیسرا گروہ: ....یہ اہل سنت والجماعت ہیں - انکاایمان ہے کہ آپ کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔اور مذکورہ بالا حدیث کسی طرح بھی آپ پر صادق نہیں آتی۔کیونکہ آپ نے پہلے اپنے چچازاد حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا تھا ۔ اور انہیں ایک گروہ کے بیعت کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔ آپ نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں واپس اپنے ملک جانے دیا جائے۔ لیکن آپ کی راہ میں وہ لوگ آڑے آئے جنہوں نے حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔آپ نے ان سے بھی یہی مطالبہ کیا کہ یا توخود انہیں یزید کے پاس جانے دیا جائے ؛یا پھر انہیں واپس مدینہ جانے دیا جائے؛یا پھر انہیں کسی محاذ جہاد پر جانے دیا جائے ۔ مگر ان ظالموں نے آپ کا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہ کیا۔بلکہ آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ گرفتاری پیش کریں تاکہ آپ قیدی کی صورت میں یزید کے پاس پیش کیا جائے۔

یہ بات باتفاق مسلمین معلوم ہے کہ آپ پر ایسا کرنا واجب نہ تھا؛ بلکہ ان لوگوں پر واجب تھا کہ حضرت کے مطالبات تسلیم کریں ۔ مگر انہوں نے آپ پر ظلم کرتے ہوئے آپ سے جنگ کی۔ آپ اس وقت لوگوں کی جماعت میں تفریق نہیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔اور نہ ہی خلافت کے طلبگار تھے۔ اور نہ ہی آپ نے خلافت طلب کرنے کے لیے جنگ کی تھی۔ بلکہ آپ نے اپنے نفس کے دفاع میں ان لوگوں سے جہاد کیا جو آپ پر اور آپ کے خاندان پر ظلم کرنا چاہتے تھے۔اس سے پہلے گروہ کے عقیدہ کا باطل ہونا ثابت ہوگیا۔

جب کہ دوسرے گروہ کے قول کا باطل ہونا کئی وجوہات کی بناپر معروف ہے: ان میں سب سے ظاہربات یہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوئے تھے آپ نے کسی کی تکفیر نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ وہ خوارج کو بھی کافر قرار نہیں دیتے تھے۔ آپ نے ان کی اولاد کو لونڈی غلام نہیں بنایا تھااورنہ ہی ان میں سے کسی کے مال کو مال غنیمت بنایا تھا۔اورنہ ہی اپنے خلاف کسی جنگ کرنے والے پر آپ نے مرتد ہونے کاحکم لگایا۔جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور باقی تمام صحابہ نے بنو حنیفہ اور ان کے امثال مرتدین پر حکم لگایاتھا۔ بلکہ آپ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور اپنے خلاف دوسرے جنگ کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے طالب تھے۔اور اپنے خلاف نبرد آزما لوگوں اور اصحاب معاویہ کے متعلق عام مسلمانوں کی طرح حکم لگایا کرتے تھے۔یہ بات آپ سے ثابت ہے کہ : یوم جمل کے موقعہ پر آپ کی طرف سے منادی کرنے والا آواز لگارہا تھا :

’’ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے؛ زخمی کو گرفتار نہ کیا جائے؛ اور مال کو مالِ غنیمت نہ بنایا جائے۔‘‘

آپ کی یہی بات خوارج کو ناگوار گزری تھی؛ یہاں تک کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اس مسئلہ میں مناظرہ کیا ؛ یہ بات دیگر مواقع پر تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے۔

حضرت عل سے یہ اخبار مشہور ہیں کہ آپ حضرت معاویہ کے لشکر کے مقتولین کے متعلق فرمایا کرتے تھے:

بلاشبہ یہ تمام مسلمان ہیں ۔کفار یا منافقین نہیں ہیں ۔یہ بات ہم پہلے کئی مواقع پر بیان کرچکے ہیں ۔یہی حال حضرت عمار اور دوسرے صحابہ کرام کا بھی تھا۔

یہ تینوں گروہ عراق میں تھے۔ ان کے علاوہ ایک میں ایک اورگروہ شیعان عثمان نواصب کا تھا جو کہ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتے تھے۔اور ایک گروہ شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے بھی ایسا تھاجو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اقارب سے بغض و نفرت رکھتا تھا۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی روایت سے موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ عنقریب بنوثقیف میں ایک خونخوار اور ایک جھوٹا ظاہر ہوگا۔‘‘

یہ جھوٹا مختار بن عبید ثقفی تھا جب کہ خونخوار حجاج بن یوسف۔حجاج شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت سے بغض رکھتا تھا۔ جب کہ جھوٹا شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے تھا حتی کہ اس نے عبیداللہ بن زیاد سے جنگ کرکے اسے قتل کردیااور بعد میں دعوی کرنے لگا کہ اس کے پاس جبریل امین علیہ السلام آتا ہے۔ چنانچہ اس کا جھوٹ ظاہر ہوگیا۔ 

یوم عاشورایعنی مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے دن کی وجہ سے بھی لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ شیعہ اس دن ماتم اوردیگر ایسی برائیاں کرتے ہیں جن کا ارتکاب صرف کوئی جاہل اور گمراہ ترین انسان ہی کرسکتا ہے۔اورایک گروہ نے اس دن کو عید کے دن کی طرح بنالیا ہے۔ اس دن وہ کھانے پینے اور لباس میں کھلا خرچ کرتے ہیں ۔ اور اس بارے میں ایک من گھڑت حدیث روایت کرتے ہیں کہ:آپ نے فرمایا:’’ جس نے اس دن اپنے اہل خانہ پر کھلا خرچ کیا اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر کھلا خرچ کرتا ہے۔‘‘ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑ لیا گیا ہے۔

امام حرب رحمہ اللہ کرمانی فرماتے ہیں : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

محدثین کے ہاں مشہور یہ ہے کہ اسے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے ابراہیم بن محمد بن منتشر سے انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔آپ فرماتے ہیں : ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ: جس نے اس دن اپنے اہل خانہ پر کھلا خرچ کیا اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر کھلا خرچ کرتا ہے۔ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہم نے ساٹھ سال سے اس کا تجربہ کیا ہے اور اسے صحیح پایاہے۔

میں کہتا ہوں : محمد بن منتشر رحمہ اللہ فضلا ء اہل کوفہ میں سے تھا۔یہ ہر سنی اور پہنچی ہوئی بات نقل کرنے والوں میں سے ہر گزنہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات حضرت حسین پر تعصب رکھنے والے بعض لوگوں نے گھڑلی ہے تاکہ آپ کی شہادت کے دن کو عید بنایا جائے۔ پس یہ بات اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب جہلا میں مشہور ہوگئی۔یہاں کہ احادیث گھڑلی گئیں کہ دس محرم کو یہ یہ واقعات پیش آئے ہیں ۔یہاں تک انبیا کرام کے اکثر واقعات کو بھی اسی دن کے ساتھ جوڑ دیاگیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس حضرت یوسف کی قمیص کا پہنچنا اور آپ کی بینائی بحال ہونا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو عافیت ملنا ذبیحہ کی قربانی پیش کرنا اور اس طرح کے دیگر واقعات۔ یہ تمام احادیث جھوٹ اور من گھڑت ہیں ۔ ان جوزی نے انہیں الموضوعات [۲؍۱۹۹]میں ذکر کیا ہے۔ اگرچہ آپ اسے اپنی کتاب ’’النور فی فضائل أیام و شہور‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔اورانہوں نے اپنے شیخ ابن ناصر سے اس کا ذکر بھی کیاہے کہ آپ نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح ہے۔ اوراس کی سند صحیح کی شرائط کے مطابق ہے ۔لیکن درست بات وہی ہے جو ابن جوزی نے الموضوعات میں لکھی ہے۔یہی آخری قول ہے۔

ابن ناصر پراس کے راویوں کی حقیقت آشکار نہیں ہوسکی۔ وگرنہ یہ حدیث عقل اور شرع کے منافی ہے۔اسے مشہور اہل علم محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی معتمد کتاب میں اس کا ذکر نہیں کیا ۔ بلکہ یہ بعض متاخر مشائخ کی تدلیس ہے۔

جیسا کہ بعض دوسر احادیث ے بارے میں بھی پیش آیاہے۔یہاں تک کہ وہ احادیث جو کہ مسند احمد بن حنبل کی طرف منسوب کی گئی ہیں حالانکہ وہ احادیث مسند احمد میں موجود نہیں ہیں ۔مثال کے طورپر وہ حدیث جسے عبدالقادر بن یوسف نے ابن المذہب سے اور اس نے قطیعی سے اس نے عبداللہ سے اس نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے وہ عبداللہ بن المثنی سے وہ عبداللہ بن دینار سے وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتا ہے آپ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا:

’’ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں اسی کی طرف سے شروع ہوا اور اسی کی طرف لوٹ کر جائے گا۔‘‘

یہ قول سلف صالحین سے صحیح اورمتواتر سند کے ساتھ منقول ہے مگر ان الفاظ کارسول اللہ سے روایت کرنا جھوٹ ہے۔ اور پھر اسے مسند احمد بن حنبل کی طرف منسوب کرنا ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔[بعینہ ان الفاظ میں یہ روایت تو نہیں مل سکی؛ لیکن اس کے قریب قریب الفاظ ومعانی میں کچھ دوسری روایات کئی صحابہ کرام سے مذکورموجود ہیں ۔ ان میں سے بعض کو امام سیوطی نے ’’اللآلي المصنوعۃ ۱؍۴‘‘ پر ذکر کیاہے۔ان میں سے ایک روایت یہ ہے : حضرت ابوزبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے یہ کہا کہ قرآن مخلوق ہے‘ اس نے کفر کیا ۔‘‘ اور ایسے ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ’’ زمین اور آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز مخلوق ہے سوائے اللہ تعالیٰ اور قرآن کے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے ‘ اسی کی طرف سے شروع ہوا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جائے گا۔‘‘ دیکھو:تنزیہ الشریعۃ ۱؍۱۳۴۔ الأسرار المرفوعۃ لملاعلی القاري ص ۵۷۔] بلا ریب امام احمد کی مسند میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ 

امام حمد بن حنبل رحمہ اللہ آزمائش کے دور میں اہل سنت و الجماعت کے امام تھے۔ آپ کے ساتھ آفاق میں مشہور مسئلہ خلق قرآن کے بارے میں بہت آزمائشیں پیش آئیں ۔اور آپ دلائل پیش کیا کرتے تھے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔ آپ کے یہ دلائل بہت زیادہ اور مشہور و معروف ہیں ۔ مگر آپ نے کسی ایک موقع پر بھی اس روایت سے استدلال نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کوئی ذکر تک کیا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس یہ حدیث موجود ہو مگر آپ اس سے استدلال نہ کرتے ہوں ۔ یہ حدیث اسی شیخ کے ہاں پہچانی گئی ہے اورپھر بعد میں جن لوگوں نے آپ کی شاگردی اختیار کی تھی آپ کی کتاب میں کچھ ملاوٹ کردی۔تو دوسرے لوگوں ان دونوں چیزوں کے ملا کر پڑھنے لگ گئے۔ اس طرح جو لوگ علم سے نا آشنا تھے ان میں یہ روایت رواج پکڑ گئی۔

یہی حال حدیث عاشورا کا بھی ہے۔عاشورا کی صحیح اور ثابت شدہ فضیلت اس دن کا روزہ رکھنا ہے۔ یہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوغرق ہونے سے بچایا تھا۔ اس مسئلہ پر اپنی جگہ پر ہم نے تفصیل کے ساتھ کلام کردیا ہے۔اور ہم نے یہ بیان کردیا کہ اس دن میں روزہ رکھنے کی علاوہ جتنے بھی اعمال کیے جاتے ہیں جیسے سرمہ لگاناخضاب لگانا دانے پکانا اور قربانی کا گوشت کھانا نفقہ میں وسعت دینا اور اس طرح کے دیگر امور سب مکروہ بدعت ہیں ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کا نہیں کہا۔اس بدعت کی ابتدا قاتلان حسین کی طرف سے ہوئی ہے۔

ان سے بھی زیادہ قبیح رافضیوں کے کرتوت ہیں ۔جو کچھ وہ ماتم کرتے ہیں اور مرثیے پڑھتے ہیں ۔اور اس میں گریہ وزاری کے قصیدوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس دن اپنے آپ کو پیاسا رکھتے ہیں اور اپنوں چہروں پر تھپڑ مارتے اورگال پیٹتے اور گریبان پھاڑتے ہیں اور جاہلیت کا رونا روتے ہیں ۔جب کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

((لیس مِنا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بِدعوی الجاہِلِیۃِ۔))

’’ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو اپنا گال پیٹے گریباں پھاڑے اور جاہلیت کا رونا روئے۔‘‘

یہ تو اس وقت کے بارے میں ہے جب مصیبت ابھی تازہ دم واقع ہوئی ہو۔ پھراگر چھ سو ستر(اورہمارے اس عہد میں تیرہ سو ستر) سال بعد ماتم کیا جارہا ہو تو اس کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں ۔وہ لوگ بھی تو قتل ہوئے ہیں جو حضرت حسین سے افضل تھے۔ لیکن مسلمانوں نے اس دن کو یوم ماتم تو نہیں بنایا۔ مسندأ حمد میں فاطمہ بنت حسین سے روایت ہے- یہ اپنے باپ کے قتل کے وقت وہاں پر موجود تھیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب بھی کسی انسان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اوراگروہ مصیبت پہلے گزر چکی ہے اوروہ اس مصیبت کو یاد کرتا ہے اور اس پر ’’إنا للہ و إنا إلیہ راجعون‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا اجر عطا فرماتے ہیں جتنا مصیبت پہنچنے کے دن صبر کرنے پر اسے اجر ملا تھا۔‘‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ گزری ہوئی مصیبت یاد آنے پر سنت طریقہ یہ ہے کہ انسان انا للہ و نا لیہ راجعون پڑھے۔ جیسا کہ کتاب وسنت میں اس کی تعلیمات آئی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ oاُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنوبشِرِ الصابِرِینَo﴾

’’ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔‘‘ [البقرۃ۱۵۵۔۱۵۷]

اس سے بھی زیادہ بری حرکت دنبی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تشبیہ دیکر اس کے بال نوچنا ہے۔اور پھر گھی بھری مشک کو حضرت عمر سے تشبیہ دیکر درمیان سے تیز دھار چیز سے پھاڑناہے۔ اورپھر ان کے یہ نعرے ہائے ابو لؤلؤ کا انتقام۔ اور اس کے علاوہ دیگر منکرات اور برائیاں جو کہ رافضیوں میں پائی جاتی ہیں جن کو طوالت کے خوف سے یہاں درج نہیں کیا جارہا ۔ یہاں پر صرف یہ بیان کرنا مقصود ہیکہ جوکچھ ان لوگوں نے برائیاں اور بدعات ایجاد کرلی ہیں اورپھر بدعت کے مقابلہ میں جو بدعات پیدا کرلی گئی ہیں اور انہیں سنت کی جانب منسوب کیا جانے لگا ہیوہ بھی یقیناً انتہائی بری بدعات ہیں ۔سنت تو صرف وہ چیز ہے جسے رسول اللہ نے سنت قراردیا ہوسنت ہر قسم کی بدعت سے بری ہے۔پس جو کچھ عاشورا کے دن کیا جاتا ہے اس کوعید بنانے کی اصل نواصب کی بدعت ہیاور اس دن ماتم و نوحہ کرنا جو کہ انتہائی بری بدعت ہے یہ رافضیوں کی مشہور ترین بدعات میں سے ایک ہے۔ ہم اس موضوع پر اپنی جگہ پر تفصیلی کلام کر چکے ہیں ۔واللّٰہ المستعان ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:چھٹی دلیل:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے۔ آپ نے بسر بن ارطاۃ کے حق میں بد دعا کی کہ اللہ اسے پاگل کردے۔‘‘ چنانچہ اسی طرح ہوااسکا دماغ خراب ہوگیا۔عیزار کے حق میں اندھا ہونے کی بددعا کی تو وہ اندھا ہوگیا۔ اور انس نے جب شہادت چھپائی تو اس کے حق میں برص کا عارضہ لاحق ہونے کی دعا کی؛ اوراسے برص کامرض لاحق ہوگیا۔اور ایسے ہی آپ نے زید بن ارقم کے حق میں اندھا ہونے کی بد دعاکی جو مقبول ہوئی اوروہ اندھا ہو گیا ۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ :یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ، بلکہ صحابہ و ان دیگر صلحاء میں یہ وصف زیادہ کثرت کے ساتھ موجود تھا۔اورجب تک اہل ایمان موجود رہیں گے یہ وصف بھی باقی رہے گا۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی دعاء کبھی خالی نہیں جاتی تھی۔صحیحین میں ہے کہ ان کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ:’’اے اللہ! ان کا ہر تیر نشانہ پر پڑے ‘اور ان کی ہر دعا مقبول ہو۔‘‘[الترمذی، کتاب المناقب ، باب مناقب ابی اسحاق سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۵۱)۔] چنانچہ آپ کی کوئی دعا مسترد نہیں کی جاتی تھی۔

٭ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوفہ میں لوگوں کو بھیجا کرتے ؛جو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کرتے۔ لوگ ان کے بارے میں خیر کی بات کے علاوہ کچھ بھی نہ کہتے۔ یہاں تک کہ جب بنی عبس کے ایک آدمی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا: ’’ جب آپ ہمیں سعد کے بارے میں حلفیہ پوچھنا ہی چاہتے ہیں تو پھر سنیں : وہ نہ ہی جہاد کے لیے نکلتے ہیں ‘اورنہ ہی اپنی رعیت میں عدل کرتے ہیں اور نہ ہی برابری کیاتھ تقسیم کرتے ہیں ۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی :

’’اے اللہ ! اگریہ جھوٹا ہے تو ریاکاری اور شہرت کے لیے کھڑا ہوا ہے ‘ تو اس کی عمر کو لمبا کر؛ اور اس کی تنگدستی کو زیادہ کر اوراسے کسی فتنہ میں مبتلا کردے ۔‘‘

تو اس آدمی کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ اس کی عمر بہت بڑی ہوگئی تھی؛ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی پلکیں لٹک گئی تھیں ؛لیکن وہ گلیوں میں چھوکریوں کو چھیڑتا اوران سے آنکھیں لڑایا کرتا تھا۔ اوراپنے بارے میں کہا کرتا تھا:

’’ بڑی عمر کا بڈھا ہوں جوفتنہ میں مبتلاہوگیا ہوں ‘اورمجھے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی ہے ۔‘‘

٭ یہی حال حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا تھا۔آپ مستجاب دعوات تھے۔حماد بن زید سے روایت کیا گیا ہے وہ ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ: اروی بنت اوس نے مروان کے پاس حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے خلاف دعوی کیا کہ : ’’انہوں نے میری زمین کا ٹکڑا ناجائز قبضہ کرکے اپنی زمین کے ساتھ ملالیا ہے ۔‘‘

توحضرت سعید رضی اللہ عنہ نے اس پر ان الفاظ میں بددعا کی :’’ اے اللہ ! اگریہ عورت جھوٹی ہے ‘تو اسے اندھا کر دے ‘اوراسے اس کی زمین میں قتل کردے ۔‘‘

چنانچہ ایسا ہی ہوا؛ وہ اندھی بھی ہوگئی ؛ اور اپنی ہی زمین میں مردار مر گئی ۔‘‘

٭ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب کسی بات پراللہ کانام لیکر حلف اٹھا لیتے تو اللہتعالیٰ ان کی قسم کو پورا کر دیتے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر حلف اٹھالیں تو اللہتعالیٰ ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں ۔‘‘

حضرت برا بن مالک رضی اللہ عنہ کا شمار بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے ہوتا تھا۔[سنن ترمذی، کتاب المناقب۔ باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ، (حدیث:۳۸۵۴) ] [انھوں نے یکے بعد دیگرے ایک سو آدمیوں سے مبارزت طلبی کی تھی]۔ [مستدرک حاکم(۳؍۲۹۱)، مصنف عبد الرزاق(۹۴۹۶) طبقات ابن سعد(۷؍۱۰)]

٭ حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ جو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد ازاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بحرین کے عامل تھے۔ قبولیت دعا میں مشہور تھے۔[البدایۃ والنہایۃ(۶؍۳۲۸)، طبقات ابن سعد(۴؍۷۸)۔]

ابن ابی دنیا رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیاہے کہ سہم بن منجاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا۔اس وقت آپ نے تین دعائیں فرمائیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ تینوں دعائیں قبول فرمائیں ۔آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم آپ کے ساتھ سفر میں تھے ؛ اور ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ ڈالا۔ہم نے وضوء کے لیے پانی تلاش کیا ؛ بسیار تلاش کے باوجود نہ پاسکے۔ تو آپ کھڑے ہوگئے اور دو رکعت نماز پڑھی ؛ پھر آپ نے دعا کی :

(( اللّٰہ! یا علیم یا حکیم یا علي العظیم ! إناعبیدک‘وفي سبیلک نقاتل عدوک ؛ فاسقنا غیثاً نشرب منہ ونتوضأ من الإحداث۔ وإذا ترکناہ فلاتجعل فیہ نصیباً لأحد غیرنا۔))

’’ اے اللہ ! اے علیم و حکیم ! اے عالیشان اورعظمت والے رب! ہم تیرے بندے ہیں ؛ اور تیری راہ میں تیرے دشمنوں سے جہاد کرتے ہیں ‘ ہم پر بارش برسادے جس سے ہم پئیں بھی اور ناپاکی سے طہارت بھی حاصل کریں ۔ اور جب ہم اس پانی کو چھوڑ دیں تو اسے کسی بھی دوسرے کے لیے حصہ نہ بنانا۔‘‘

آپ فرماتے ہیں : ابھی ہم تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ ہم نے بارش کے پانی سے بھرا ہوا ایک تالاب دیکھا جس سے پانی اچھل کر بہہ رہا تھا۔ہم نے وہاں پر پڑاؤ ڈالا؛ خوب سیر ہوکر پیا اورمیں نے اپنے برتن بھی بھر لیے۔اور پھر انہیں تالاب پر ہی چھوڑ دیا۔میں نے کہا: میں ضرور دیکھوں گا کہ کیا آپ کی دعاء قبول ہوئی ہے ؟جب ہم وہاں سے چل ایک میل یا اس کے قریب فاصلے تک پہنچ گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’ میں اپنے برتن بھول گیا ہوں ۔‘‘جب میں واپس وہاں پر پہنچا تو وہ جگہ ایسے تھی جیسے یہاں پر کبھی بھی پانی نہیں تھا۔میں نے اپنے برتن اٹھالیے ۔جب میں دارین پہنچا تو ہمارے اور ان کے درمیان سمندر حائل تھا۔ تو آپ نے دعا کی :

(( اللہ ! یا علیم یا حکیم یا علي العظیم ! إناعبیدک‘وفي سبیلک نقاتل عدوک ؛ فاجعل لنا سبیلاً إلی عدوک۔))

’’ اے اللہ ! اے علیم و حکیم ! اے عالیشان اورعظمت والے رب! ہم تیرے بندے ہیں ؛اور تیری راہ میں تیرے دشمنوں سے جہاد کرتے ہیں ‘ ہمارے لیے اپنے دشمن تک پہنچنے کے راستے بنادے۔‘‘

آپ فرماتے ہیں : پھر حضرت علاء رضی اللہ عنہ ہمیں لیکر سمندر میں داخل ہوگئے ۔اللہ کی قسم ! ہماری سواریوں کی کاٹھیاں تک گیلی نہیں ہوئیں ۔پھر ہم دشمن کی طرف جانکلے۔ پھر جب ہم واپس ہوئے تو آپ کو پیٹ میں تکلیف ہوئی ؛ اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔آپ کوغسل دینے کے لیے ہمیں پانی نہیں ملا۔ ہم نے آپ کو آپ کے کپڑوں میں لپیٹ کر دفن کردیا۔جب ہم تھوڑی دور چلے تو ہمیں بہت زیادہ پانی ملا۔ہمارے بعض ساتھی آپس میں کہنے لگے : چلو واپس چلتے ہیں اور آپ کونکال کر غسل دیتے اور پھر دفن کرتے ہیں ۔ چنانچہ ہم واپس پلٹے تو ہمیں تلاش بسیار کے باوجود آپ کی قبر نہیں ملی ۔ پھر ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ میں نے آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے :

((اللہ ! یا علیم یا حکیم یا علي العظیم ! اخف حُفرتي و لا تطلع علی عورتي أحداً۔))

’’یااللہ ! اے علیم و حکیم ! اے عالیشان اورعظمت والے رب! میری قبر کوخفیہ رکھنا ؛ اور کسی کو میرے ستر پر مطلع نہ کرنا ۔‘‘ توپھر ہم آپ کوایسے ہی چھوڑ کر واپس آگئے ۔ ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بہت ساری دعائیں کیں جو کہ قبول ہوئیں ۔آپ بلال اوراس کے گروہ سے زمین کی تقسیم کے بارے میں تنازعہ ہوگیاتو آپ نے دعا کی: ’’ اے اللہ بلال اور اس کے گروہ کے لیے کافی ہوجاء ۔‘‘

ابھی ایک سال کا عرصہ بھی اس دعا کو نہیں گزرا تھا کہ اس گروہ میں سے ایک آنکھ بھی کھلی نہیں رہی۔اور آپ نے یہ دعا بھی کی تھی: ’’ اے اللہ ! میری عمر بڑی ہوگئی ہے ؛ اور میری رعایا پھیل چکی ہے۔ مجھے حقوق کے ضائع ہونے اور فتنہ میں مبتلا ہونے سے پہلے اپنی طرف بلالے۔‘‘ توپھر اسی سال آپ کو شہید کردیا گیا۔

اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ابن ابی دنیا نے مستجاب الدعوات لوگوں کے بارے میں ایک مکمل کتاب لکھی ہے ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو قصے مذکور ہیں ؛ ان کی کوئی ایسی سند نہیں ذکر کی گئی جس کی وجہ سے ان کا صحیح ہونا معلو ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بعض باتیں جھوٹی بھی ہیں جیسے حضرت انس کے لیے برص کی اور حضرت زید بن ارقم کے لیے اندھا ہونے کی بد دعا۔