فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ اورجنات سے جنگ]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ اورجنات سے جنگ]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:آٹھویں دلیل: ’’ جمہور سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بنی المصطلق کی طرف روانہ ہوئے تو ایک دشوار گزار وادی میں سے گزرے۔وادی وعر کے قریب انہیں رات ہوگئی۔ جبریل نے آکر اطلاع دی کہ اس وادی میں جنات کا ایک ٹولہ پوشیدہ ہے اور وہ آپ پر حملہ کرنااور آپ کے اصحاب میں شر پھیلانا چاہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کران پر تعوذ پڑھی؛ اس وادی میں اترنے کا حکم دیا اورآپ نے ان کو تہہ تیغ کردیا۔‘‘
[جواب]ہم کہتے ہیں : پہلی بات تو یہ ہے کہ : جنوں کو ہلاک کرنا اتنا بڑا کارنامہ نہیں ، ہماراایمان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام اس سے کہیں بلند تھا؛ اس قسم کے کام وہ لوگ بھی کرلیتے ہیں جو بہت ادنی درجہ کے ہوتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے جسے تمام اہل علم ومحدثین جانتے ہیں کہ یہ واقعہ خودساختہ اور جھوٹا ہے جوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ بولا گیا ہے۔غزوہ بنی مصطلق میں اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
٭ شیعہ مصنف کا یہ دعوی کہ: ’’ اسے جمہور نے روایت کیا ہے ۔‘‘اگر اس سے مرادیہ ہے کہ ثابت شدہ اسناد کے ساتھ مروی ہے ‘ یا پھر کسی ایسی کتاب میں ہے جس میں نقل شدہ روایات پر اعتماد کیا جاتا ہے؛ یا پھر کسی ایسے عالم نے اسے صحیح کہا ہو جس کی تصحیح قبول کی جاتی ہو‘ تو پھر ایسا ہرگزنہیں ہے۔ اور اگر اس سے مراد یہ ہو کہ جمہور علماء نے اسے روایت کیا ہے تو پھر ایسا کہنا کورا جھوٹ ہے۔اور اگر مرادیہ ہے کہ ایسے لوگوں نے روایت کیا ہے جن کی روایت سے حجت قائم نہیں ہو سکتی؛ تو پھر اس روایت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
٭ یہ اسی قسم کا من گھڑت واقعہ ہے جیسے شیعہ کا ساختہ پرداختہ یہ قصہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چاہ ذات العلم میں جنوں سے لڑائی کی تھی۔‘‘اہل علم کے ہاں یہ قصہ من گھڑت ہے ۔[ اس قسم کے خود ساختہ واقعات ہمارے نزدیک قبول نہیں ہو سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ شیعہ انھیں تسلیم کر لیں ]
ہماری نگاہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا منصب و مقام اس سے کہیں بلند تر تھا کہ جنات آپ کے مقابلہ میں ٹھہر سکتے۔کسی انسان نے کبھی جنوں سے مقابلہ نہیں کیا۔ بلکہ اہل ایمان جنات کفار جنات سے قتال کیا کرتے تھے۔
کسی شیعہ نے مشہور محدث ابو البقاء خالد بن یوسف نابلسی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنوں سے لڑائی کے بارے میں دریافت کیا؛ توانھوں نے کہا گروہ شیعہ عقل و خرد سے کس قدر بے گانہ ہے۔ تمھیں اتنی بھی عقل نہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ، عمر رضی اللہ عنہ افضل تھے یا علی رضی اللہ عنہ ؟ شیعہ نے جواباً کہا’’علی‘‘ وہ کہنے لگے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ ایک راہ پر چلتے ہیں تو شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرتا ہے۔‘‘ جب شیطان عمر رضی اللہ عنہ سے دم دبا کر بھاگتا تھا تو اس کی اولاد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیوں کر لڑ سکے گی؟
نیز یہ کہ شیاطن اور جنات کے ساتھ مقابلہ کے واقعات حضرات ابوبکر و عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم میں بھی بہت کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں ؛ جن کا یہاں پرذکر کرنا کتاب کی طوالت کا باعث بنے گا۔
محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ الموضوعات‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنوں سے نبرد آزمائی کے بارے میں ایک طویل روایت بیان کی ہے۔صلح حدیبیہ کے سال حج کے موقع پریہ واقعہ پیش آیا ۔ اور چاہ ذات العلم پر یہ لڑائی ہوئی۔ انہوں نے ابو بکر محمد بن جعفربن محمد سامری کی سند سے روایت کیا ہے ‘ وہ عبداللہ بن احمد سکونی سے ‘ وہ عمارہ بن یزیدسے ؛ وہ ابراہیم بن سعد سے ؛ وہ محمد بن اسحق سے؛ ان سے یحییٰ بن عبیداللہ بن الحارث نے اپنے باپ سے حدیث بیان کی ‘ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے سال حج کے موقع پرجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عازم مکہ ہوئے تو لوگوں کو سخت گرمی اور پیاس لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورباقی لوگ اسی سخت پیاس کے عالم میں جحفہ کے مقام پر اترے اور فرمایا :
’’جو شخص چند آدمیوں کی معیت میں اپنی مشکیں لے جا کر چاہ ذات العلم سے پانی سے بھر لائے ؛ اللہ کا رسول اس کے لیے جنت کا ضامن ہوگا۔‘‘
پھر طویل حدیث بیان کی اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ میں سے ایک دوسرے صاحب بھی بھیجے؛مگر وہ جنوں سے ڈر کر واپس آگئے،پھر ایک اور صاحب بھیجے؛ اورانہیں کچھ شعر بھی پڑھ کر سنائے‘ مگروہ بھی جنات سے خوف کھاکر واپس آگئے۔ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ انتہائی خطرہ کے باوجود پانی کی مشکیں بھر لائے۔ آپ نے فرمایا:’’ جس جن نے آپ کو آواز دی تھی وہ سماعہ بن غراب تھا جس نے دشمن اللہ اصنام قریش کے شیطان مسعر نامی کو واصل جہنم کیا تھا۔‘‘
وہ بتوں کے اندر سے قریش سے باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ میری آواز سے ڈر گیاتھا۔
ابن الجوزی کہتے ہیں ، یہ روایت موضوع اورمحال ہے، اس روایت میں الفنید و محمد بن جعفر و سکونی تینوں مجروح راوی ہیں ۔ ابو الفتح اودی کہتے ہیں ، اس حدیث کی سند میں عمارہ بھی ہے جو حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔
میں کہتا ہوں : ابن اسحق جو کہ اسے لوگوں سے روایت کرتا ہے ‘ خود اس کی کتابوں میں اس قسم کی کوئی حدیث نہیں ہے۔