Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے رجوع آفتاب اور اس پر ردّ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے رجوع آفتاب اور اس پر ردّ] 

[اشکال]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:نوویں دلیل:’’ دو مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کو لوٹایا گیا تھا۔ ایک مرتبہ رجوع آفتاب کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا۔ اور دوسری بار اس کے بعد ۔ 

٭ پہلی بار :....حضرت جابرو ابو سعید رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل نازل ہو کراللہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے۔جب وحی نے آپ کو ڈھانک لیاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ران پر سر رکھے لیٹے رہے، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ سے عصر کی نماز ادا کی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دعا کیجیے کہ اللہتعالیٰ سورج کو لوٹا دے تاکہ آپ کھڑے ہو کر عصر کی نماز پڑھ سکیں ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے آفتاب واپس آگیا اور آپ نے عصر کی نماز پڑھی۔

٭ دوسری مرتبہ:....رجوع آفتاب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ بابل کے مقام پر دریائے فرات کو عبور کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے رفقا اپنے مویشیوں کے ساتھ مصروف ہو گئے۔ اسی دوران آپ نے چند ساتھیوں کے ساتھ نماز عصر ادا کر لی، جو ساتھی نماز ادا نہ کر سکے تھے جب انھوں نے شکوہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رجوع آفتاب کے لیے دعا کی۔ چنانچہ سورج لوٹ آیا۔ سعید حمیری نے یہ واقعہ نظم میں بیان کیا ہے:

رُدَّتْ عَلَیْہِ الشمس لَمَّا فَاتَہٗ وَقْتُ الصَّلٰوۃِ وَ قَدْ دَنَتْ لِلْمَغْرِبِ

حَتّٰی تَبَلَّجَ نُوْرُہَا فِیْ وَقْتِہَا لِلْعَصْرِ ثُمَّ ہَوَتْ ہُوَیَّ الْکَوْکَبِ

وَ عَلَیْہِ قَدْ رُدَّتْ بِبَابِلَ مَرَّۃً اُخْرٰی وَ مَا رُدَّتْ لِخَلْقٍ مَغْرَبٖ

’’جب آپ کی نماز عصر کا وقت فوت ہوگیا اور مغرب کا وقت قریب آگیا۔ یہاں تک کہ سورج کا نور اپنے وقت عصر کے مطابق چمک گیا۔پھر ستاروں کی طرح اتر گیا۔ اور آپ کے لیے ہی شہر بابل میں ایک بار پھر سورج کو لوٹایا گیا تھا؛ حالانکہ غروب ہونے کے بعد کسی پر سورج کو لوٹایا نہیں جاتا۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضل و کمال پر جو یقین ہمیں حاصل ہے،وللہ الحمد ۔اور یہ فضل و منزلت ایسی اسناد کے ساتھ ثابت ہے جو علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں ۔ان اسناد کی موجودگی میں کوئی اس دروغ گوئی کا محتاج نہیں ۔ عہد رسالت میں رجوع آفتاب کا واقعہ طحاوی رحمہ اللہ اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے بالفاظ دیگر نقل کیا ہے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ شمار کیا ہے۔ مگرمحققین اہل علم اور ماہرین فن جانتے ہیں کہ یہ واقعہ صحیح نہیں ۔یہ روایت ابن الجوزی رحمہ اللہ نے موضوعات نقل کی ہے‘اس نے ابو جعفر العقیلی کی کتاب الضعفاء سے عبیداللہ بن موسیٰ کی سند روایت کی ہے۔ اس نے فضیل بن مزروق سے اور اس نے ابراہیم بن الحسن بن حسن سے اس نے فاطمہ بنت حسین سے اس نے اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا سے نقل کیاہے کہ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی جا رہی تھی اور آپ کا سرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غروب آفتاب تک عصر کی نماز ادا نہ کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’اے علی ! کیا نماز پڑھ لی ہے ؟‘‘

تو انہوں نے عرض کی : نہیں ۔اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اے اللہ! بیشک علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مشغول تھا تو اس کے لیے سورج کو لوٹا دے۔‘‘ حضرت اسماء کا بیان ہے کہ:میں نے دیکھا کہ آفتاب غروب ہو چکا تھا، پھر میں نے دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہو گیا۔‘‘

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:’’ یہ روایت بلاشبہ موضوع ہے۔ اس کی سند کے راویوں میں اضطراب ہے۔ سعید بن مسعود نے عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت کیا ہے وہ فضیل بن مرزوق سے اوروہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینا ر سے وہ علی بن الحسین رحمہ اللہ سے وہ فاطمہ بنت علی اوروہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔

فضیل بن مرزوق کو یحییٰ رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

ابو حاتم بن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: فضیل موضوعات روایت کرتا اور ثقات سے غلط بیانی کا ارتکاب کرتا ہے۔

ابو الفرج رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس روایت کا انحصار عبید اللہ بن موسیٰ پر ہے۔

میں کہتا ہوں :مشہور یہ ہے کہ سعید بن مسعود نے عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت کیا ہے وہ فضیل بن مرزوق سے اوروہ ابراہیم بن الحسن سے وہ فاطمہ بنت علی اوروہ اسماء بنت عمیس سے روایت کرتی ہیں ۔

دوسری سند سے محمد بن مرزوق نے حسین الاشقرسے روایت کیا ہے وہ علی بن عاصم سے وہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار سے وہ علی ابن حسین وہ فاطمہ بنت علی سے اوروہ اسماء بنت عمیس سے روایت کرتی ہیں ۔ جیساکہ اس کا ذکر آئے گا۔

ابو الفرج رحمہ اللہ نے کہاہے کہ :یہ حدیث ابن شاہین نے روایت کی ہے۔ [اس کی سند یہ ہے ]:

((حدثنا محمد بن سعید الہمداني حدثنا احمد بن یحي الصوفي‘ حدثنا عبد الرحمن بن شریک حدثني أبي؛ عن عروۃ بن عبد اللّٰہ بن قشیر۔))

عروہ بن عبد اللہ بن قُشَیر کہتے ہیں میں فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کے پاس گیا، تو انھوں نے مجھے رجوع آفتاب کا واقعہ سنایا

ابو الفرج رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ روایت باطل ہے۔

ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس کی اسناد میں عبدالرحمن ابن شریک انتہائی ضعیف راوی ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :میرے نزدیک اس کی اسناد میں ابن عقدہ متہم بالکذب ہے، وہ رافضی تھا اور صحابہ کے معائب بیان کیا کرتا تھا۔

ابو احمد ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے ابوبکر بن ابی طالب کو یہ کہتے سنا کہ:’’ ابن عقدہ حدیث نبوی پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔‘‘یہ شیوخ[ابن عقدہ کا نام احمد بن محمد سعید کوفی (۲۴۹۔۳۳۳) ہے اس کا ترجمہ میزان الاعتدال (۱؍۶۴) نیز تذکرۃ الحفاظ(۳؍۵۵) پر مذکور ہے شیعہ کی تصانیف میں بھی اس کا ترجمہ مندرج ہے۔( دیکھیں :تنقیح المقال۱؍۸۵) شیعہ اس کے امامیہ ہونے کی نفی کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ زیدی جارودی تھا۔ تاہم وہ اسے صرف اس لیے الفت و مودّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اس کا سینہ عداوت صحابہ سے معمور تھا۔ وہ مناقب صحابہ سے اعراض کرکے جھوٹے نقائص و معائب بیان کیا کرتا تھا۔ شیعہ کی مشہور کتاب الحادی میں لکھا ہے کہ وہ فاسد المذہب ہونے کے باوجود ثقہ ہے۔] کوفہ کو جھوٹی روایات بیان کرنے پر آمادہ کیا کرتا تھا۔ان کے لیے جھوٹ گھڑتا اور پھر انہیں روایت کرنے کا حکم دیتاتھا۔ہم نے کئی مشائخ سے اس کی تصدیق کرکے اس پر یقین کیا ہے۔ جب امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ابن عقدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’وہ برا آدمی ہے۔‘‘

اس کی اسناد میں داؤد بن فراہیج ہے جس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ امام شعبہ نے اس داؤد کو ضعیف قرار دیا ہے۔[المنتقی میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں :میں کہتا ہوں :’’ یہ صحیح نہیں کہ داؤد نے یہ روایت بیان کی ہے۔یزید نوفلی نے یہ روایت داؤد سے نقل کی ہے اور یزید ضعیف راوی ہے۔ یزید سے اس کا بیٹا یحییٰ روایت کرتا ہے وہ بھی ضعیف ہے۔سیدناعلی کے لیے رجوع آفتاب کے بارے میں دیکھیے مختصر تحفہ اثنا عشریہ، ص: ۱۸۵۔ ۱۸۷، حوالہ مذکور میں محدث ابن حزم کا کلام قابل ملاحظہ ہے۔ ]

میں کہتا ہوں :’’اس کی سند میں کوئی بھی راوی ایسا نہیں جس سے کسی ادنی مسئلہ میں بھی احتجاج کیا جاسکتا ہو۔

دوسری بار: بابل میں [سورج کی واپسی] ۔ اس روایت کے جھوٹ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ حمیری کے شعر کہنے میں کوئی دلیل نہیں ۔اس لیے کہ اس نے خود اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔جھوٹ بہت پرانا ہے۔ اس نے بھی کسی سے یہ [جھوٹ] سن لیا ہوگا اور پر شعر کہہ دیے ہوں گے۔غالی لوگ مدح و ذم میں ایسی چیزوں کو شعری شکل میں پرو دیتے ہیں کہ ان کی صحت تحقیق کے ساتھ ثابت نہیں ہوتی۔ خصوصاً جب کہ حمیری[٭....حمیری : اسماعیل بن محمدبن یزید بن ربیعہ حمیری رافضی شاعر تھا ‘ ۱۰۵ ہجری میں پیدا ہوا اور۱۷۹ ہجری میں وفات پائی ۔ ابن حجر کہتے ہیں : انتہائی خبیث رافضی تھا۔دارقطنی کہتے ہیں : اپنے شعروں میں صحابہ کرام پر طعن کرتا اور حضرت علی کی مدح کیا کرتا تھا۔ شہرستانی نے اسے مختاریہ کیسانیہ میں سے شمار کیا ہے۔ یہ مختار بن ابو عبید ثقفی کے وہ ساتھی ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد محمد بن حنفیہ کی امامت کے قائل ہیں ۔اس کے حالات زندگی جاننے کے لیے دیکھیں : لسان المیزان ۱؍۴۳۶۔ البدایۃوالنہایۃ ۱۰؍۱۷۳۔ الملل والنحل ۱؍۱۳۳۔] غلو کرنے میں معروف ہے۔ 

بعض انبیاء علیہم السلام کے لیے رجوع آفتاب:

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ انبیاء علیہ السلام میں سے ایک نبی نے جہاد کیا؛ اور اپنی قوم سے انہوں نے فرمایا:’’ جس آدمی نے ابھی شادی کی ہو اور اس نے ابھی تک شب زفاف نہ گزاری ہو اور وہ یہ چاہتا ہو کہ اپنی بیوی کے ساتھ رات گزارے تو وہ آدمی میرے ساتھ نہ چلے۔ اور نہ ہی وہ آدمی میرے ساتھ چلے کہ جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی تک اس کی چھت نہ ڈالی ہو۔ اور میرے ساتھ وہ بھی نہ جائے جس نے بکریاں اور گابھن اونٹیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچہ جننے کا انتظار میں ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ:’’ اس نبی علیہ السلام نے جہاد کیا ‘اورایک گاؤں کے قریب آئے ؛ وہاں عصر کی نمازپڑھی۔تو انہوں نے سورج سے کہا تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں ۔ یا اللہ! اس سورج کو کچھ دیر مجھ پر روک دے پھر سورج کو ان پر روک دیا گیا؛ یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح عطا فرمائی۔‘‘[مسند احمد(۲؍۳۱۸،۳۲۵)، صحیح بخاری ، کتاب فرض الخمس باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ احلت لکم الغنائم‘‘ (حدیث :۳۱۲۴) ، صحیح مسلم، کتاب الجہاد ، باب تحلیل الغنائم لہذہ الامۃ خاصۃ،(حدیث:۱۷۴۷)۔]

اگر سوال کیا جائے کہ یہ امت تو بنی اسرائیل سے افضل ہے۔اگر سورج کویوشع علیہ السلام کے لیے واپس کردیا گیا تھا تو پھر اس امت کے فضلاء کے لیے واپس کیے جانے میں کونسا حرج ہے؟

تو ہم جواباً کہیں گے کہ: آفتاب لوٹایا نہیں گیا تھا، بلکہ دن کو لمبا کردیا گیا تھا؛ اور اس طرح آفتاب دیر سے غروب ہوا۔ بعض دفعہ لوگوں کے لیے یہ چیز ظاہر نہیں ہوتی۔اس لیے کہ دن کی چھوٹائی، بڑائی کا احساس نہیں ہوتا۔ یوشع علیہ السلام کے لیے دن ٹھہر جانے کا علم ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص کے ذریعہ حاصل ہواہے۔[ اگر نص سے آفتاب کا لوٹ آنا ثابت ہوجائے تو ہمیں اس کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ]۔

مزید برآں کہ دن کے لمبا کیے جانے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے۔اگر اللہ تعالیٰ ایسا کرنا چاہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ حضرت یوشع علیہ السلام کو رجوع آفتاب کی ضرورت تھی، اس لیے کہ غروب آفتاب کے بعد ہفتہ کا آغاز ہو رہا تھا، جس میں لڑائی حرام تھی۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر ہفتہ کی رات او رہفتہ کا دن کام کرنا حرام کردیا تھا۔[اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ سورج لوٹ آئے تو حضرت یوشع اپنے مشن کی تکمیل کر سکیں ]۔ بخلاف ازیں امت محمدیہ میں اس چیزکی کوئی ضرورت نہیں تھی،اور نہ ہی ایسا کرنے میں کوئی فائدہ ہے۔ اس لیے کہ سہل انگاری کی بنا پر جس کی نماز عصر فوت ہو جائے تو اس کا یہ گناہ توبہ سے معاف ہو جائے گا۔اور توبہ کے لیے سورج کے واپس کیے جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ اور اگر اس میں وہ بے قصور ہے مثلاً سویا رہا یا بھول گیا تو وہ بڑی آسانی سے بعد از غروب فوت شدہ عصر ادا کر سکتا ہے۔

پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ غروب آفتاب کے ساتھ عصر کا وقت جاتا رہتا ہے بالفرض اگر سورج لوٹ آئے اور کوئی شخص رجوع آفتاب کے بعد نماز عصر ادا کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اس نے عصر کی نماز اصلی وقت پر ادا کی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشمس وَ قَبْلَ غُرُوْبِہَا﴾

’’اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ ۔‘‘[طہ ۱۳۰]۔

اس میں مغرب کا مشہور وقت مراد ہے۔انسان پر لازم ہے کہ اس غروب آفتاب سے پہلے مغرب کی نماز پڑھ لے ۔ جب سورج طلوع ہو او رپھر غروب ہو۔ اسی طرح غروب آفتاب کے ساتھ روزہ کا افطار کرنا اور نماز مغرب ادا کرنا درست ہوتا ہے۔ اب بار ثانی آفتاب کے طلوع پذیر ہونے سے افطار کرنے والے کا روزہ فاسد نہیں ہوگا [ اور اس کی نماز باطل نہیں ہو جائے گی] یہ ایک فرضی بات ہے جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔پھر اس کو مقدر ماننا ایسی چیز کو مقدر ماننا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فروعات میں کلام کرنے والے علماء کے ہاں اس جیسی مثالوں کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا۔

نیز غزوۂ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر فوت ہو گئی تھی۔ آپ نے کثیر صحابہ کی معیت میں بصورت قضاء ادا کی تھی۔ اور رجوع آفتاب کی دعا نہ فرمائی،[ حالانکہ آپ کو اس سے بڑا دکھ ہوا، اور آپ نے اس سے روکنے والے کفار کے حق میں بد دعا بھی فرمائی تھی۔ [صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق(حدیث:۴۱۱۱،۴۱۱۲)، صحیح مسلم ، کتاب المساجد، باب الدلیل لمن قال الصلاۃ الوسطی ....‘‘ (حدیث: ۶۲۷۔۶۳۱)۔]اس بات کا احتمال ہے کہ آفتاب بادل کے نیچے چھپا ہوا ہو اور پھر نمودار ہو گیا ہو تو انھوں نے سمجھا کہ دوبارہ طلوع ہوا ہے]۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوہ خندق کے بعد صحابہ کرام کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو فرمایا:

’’ تم میں ہر کوئی نماز عصر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے؛ مگر نماز کا وقت راستہ ہی میں آ گیا۔ کچھ لوگوں نے کہا:’’ ہم تو وہیں پہنچ کر نماز پڑھیں گے۔‘‘ بعض نے کہا کہ :’’ہم تو پڑھ لیتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کردی جائے۔‘‘ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بتایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کچھ نہیں فرمایا۔‘‘[سبق تخریجہ]

پس یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جنہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تو نہیں ہیں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے غروب آفتاب کے بعد نماز عصر پڑھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ایسا کرنے کے زیادہ مستحق تھے ۔

اگر غروب آفتاب کے نماز جائز نہیں تھی یا ناقص تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے زیادہ حق دار تھے کہ آپ کے لیے سورج کو واپس لایا جاتا۔اور اگرنماز کامل اور جائز تھی تو پھر سورج کی واپسی کی ضرورت نہیں تھی۔

مزیدبرآں اس جیسے خارج از عادات قضایا اور امور عظیمہ ‘ جن کو نقل کرنے کے اسباب اور ہمتیں موجود ہوں ‘ اگر پیش آئے ہوتے تو لوگ ضرور اسے نقل کرتے ۔ جب ایک دو افراد کے علاوہ کسی نے بھی اس کو نقل نہیں کیا تو اس سے اس روایت کا جھوٹ ہونا معلوم ہوگیا۔

انشقاق قمر کا واقعہ رات کو لوگوں کے سونے کے وقت میں پیش آیا ‘ مگر اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے کئی طرح سے نقل کیا ہے۔ اوراس واقعہ کوصحاح ‘ سنن ‘ اور مسانید کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی کئی اسناد کے ساتھ روایت کیاگیا ہے۔اور اس کے بارے میں قرآن بھی نازل ہوا۔توپھر سورج کی واپسی ‘جو کہ دن کے وقت میں پیش آنے والا واقعہ ہے ؛ اسے اتنی شہرت نہ ملے اورنہ ہی اہل علم لوگ اسے روایت کریں ؟[عجیب بات ہے ] [مشرکین کے معجزہ طلب کرنے پر چاند دوٹکڑے ہونے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جسے بڑی تعداد میں صحابہ نے روایت کیا ہے۔ البخاری ‘ کتاب المناقب ‘باب سؤال المشرکین أن یریہم النبی صلي اللّٰه عليه وسلم آیۃ۔وفی ہذا الباب عبداللّٰہ بن مسعود ‘ وانس بن مالک وابن عباس وغیرہم ۔ بخاری کتاب مناقب الانصار ‘ باب انشقاق القمر۔ کتاب التفسیر‘ سورۃ اقترب الساعۃ۔ مسلم کتاب صفات المنافقین و أحکا مہم؛ باب انشقاق القمر۔سنن الترمذی کتاب التفسیر ‘ باب سورۃ القمر۔]

یہ بات کبھی بھی معلوم نہیں ہوسکی کہ سورج غروب ہونے کے بعد واپس پلٹا ہو۔اگرچہ بہت سارے فلاسفہ ‘ نیچری اور اہل کلام انشقاق قمر کا اوراس جیسے دیگر معجزات کا بھی انکار کرتے ہیں مگر اس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔ یہاں پر بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ یہ واقعہ افلاک میں سب سے بڑی نشانی اورخارق عادت ہوتا؛ اوربہت سارے لوگ اس کے امکان کا انکار کرتے ؛ اوراگر ایسا پیش آیا ہوتا تو اس کو نقل کرنے والے اس تعداد سے زیادہ ہوتے جو تعدا د اس سے کم درجہ کے واقعات کونقل کرتی ہے۔اور پھر اس واقعہ کو قبول بھی کیسے کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کی کوئی مشہور سند ہی نہیں ۔اس سے یہ علم یقینی طور پر حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ سارا من گھڑت واقعہ ہے جو کہ پیش نہیں آیا۔

ہاں اگر ایسا ہوا تھا کہ سورج بادلوں میں چھپ گیا تھا‘ اور پھر بادل چھٹ جانے کے بعد نظر آنے لگا تو یہ عام سی بات ہے ؛ شاید لوگوں نے اسے غروب آفتاب گمان کرلیا ہو‘اور پھربادل چھٹ گئے ہوں ۔اور اگر ایسا واقعہ بھی پیش آیا تو تھا تو اس میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عیاں کردیا کہ ابھی وقت باقی ہے اور نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ ایسے واقعات تو بہت سارے لوگوں کے لیے پیش آتے ہیں ۔

رجوع آفتاب کی حدیث کی سند پر بحث:

اس حدیث کے بارے میں مصنفین نے کتابیں لکھی ہیں جن میں اس کی اسناد کو جمع کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک تصنیف ابو القاسم عبداللہ بن عبداللہ ابن احمد الحکانی کی ہے۔ اس کا نام ہے ’’ مسألۃ تصحیح رد الشمس و ترغیب النواصب الشمس۔‘‘انہوں نے کہا ہے: یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باسناد اسماء بنت عمیس الخعثمیہ ‘حضرت علی بن ابی طالب ‘ اورحضرت ابوہریرہ اورحضرت ابوسعید رضی اللہ عنہم روایت کی گئی ہے۔ 

اسماء کی روایت محمد بن ابی فدیک نے نقل کی ہے۔اس نے کہاہے:

((أخبرني محمد بن موسیٰ -ھو القطري عن عون بن محمد عن أمہ -أم جعفر - عن جدتہا أسماء بنت عمیس أن النبي رضی اللّٰہ عنہم صلی الظہر ثم أرسل علیاًّ في حاجۃ ۔رجع وقد صلی النبي رضی اللّٰہ عنہم یعنی العصر۔فوضع رأسہ في حِجر علي ولم یحرکہ حتّی غابت الشمس....))

اسماء بنت عُمَیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:

’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھیجا۔جب آپ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھ لی تھی۔سو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر رکھا[اور سوگئے؛اور ] کوئی حرکت نہیں کی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ! تیرا بندہ علی تیرے نبی کی وجہ سے رکا رہا اور نماز ادا نہ کر سکا، براہِ کرم آفتاب کو لوٹا دے، تاکہ وہ نماز ادا کر سکے۔ اسماء کا بیان ہے کہ آفتاب دوبارہ نمودار ہو گیا، یہاں تک کہ وہ زمین اور پہاڑوں پر نظر آنے لگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وضوء کرکے عصر کی نمازپڑھی۔‘‘

اس کتاب کے مصنف ابو القاسم نے کہا ہے کہ:

اس کی اسناد میں ام جعفر[ عون کی ماں ] محمد بن جعفر بن ابی طالب کی بیٹی ہیں ۔ اس سے روایت کرنے والا اس کا بیٹا عون بن محمد بن علی ہے؛ جس کا باپ تاریخ میں محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہے ۔

اس سے روایت کرنے والا محمد بن موسیٰ المدینی ہے جوکہ القطری کے نام سے معروف ہے۔یہ اپنی روایات میں ثقہ اور مامون ہے۔اس سے روایت کرنے والامحمد بن اسماعیل بن ابی فدیک مدنی ہے۔ یہ بھی ثقہ ہے ۔اس سے محدثین کی ایک جماعت نے روایت نقل کی ہے جن میں سے ایک اس روایت کا راوی احمد بن ولید الانطاکی بھی ہے ۔ اس سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں احمد بن عمیر بن حوصاء بھی ہے۔اس نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ: ’’مقام صہباء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھیجا۔جب آپ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھ لی تھی۔سو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر رکھا[اور سوگئے؛اور ] کوئی حرکت نہیں کی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ! تیرا بندہ علی تیرے نبی کی وجہ سے رکا رہا اور نماز ادا نہ کر سکا، براہِ کرم آفتاب کو لوٹا دے، تاکہ وہ نماز ادا کر سکے۔ اسماء کا بیان ہے کہ آفتاب دوبارہ نمودار ہو گیا، یہاں تک کہ وہ زمین اور پہاڑوں پر نظر آنے لگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وضوء کرکے عصر کی نمازپڑھی۔‘‘ یہ واقعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر مقام صہباء میں پیش آیا۔

ان میں سے ایک راوی احمد بن صالح مصری بھی ہے جو کہ ابو فدیک سے روایت کرتا ہے۔ اس کی سند سے ابو جعفر الطحاوی نے اپنی کتاب ’’تفسیر متشابہ الاخبار ‘‘ میں روایات نقل کی ہیں ۔

ان میں ایک راوی حسن بن داؤدہے جوکہ ابن ابی فدیک سے روایت کرتاہے ؛ جس نے اپنی سند سے یہ واقعہ روایت کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ: ’’خیبر کے علاقہ مقام صہباء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے بھیجا۔جب آپ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھ لی تھی۔سو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر رکھا[اور سوگئے؛اور ] کوئی حرکت نہیں کی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے توپوچھا:اے علی ! کیا تم نے نمازپڑھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ....‘‘اور کہا ہے : یہ روایت اسماء سے حضرت فاطمہ بنت حسین الشہید نے نقل کی ہے۔

اس نے ابو جعفر الحضرمی کی سند سے روایت کیا ہے ‘ وہ کہتا ہے:

(( حدثنا محمد بن مرزوق حدثنا حسین الأشقر حدثنا فضیل بن مرزوق عن إبراہیم ابن الحسن عن فاطمۃ عن أسماء بنت عمیس قالت: نزل جبریل علی النبی رضی اللّٰہ عنہم بعد ما صلی العصر؛ فوضع رأسہ أو خدہ لا أدری أیہما قال؛ فی حجر علی ولم یصل العصر حتی غابت الشمس....))

’’....اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جبریل امین عصر کی نماز پڑھنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے؛ تو آپ نے آپ سر مبارک؛یا کہا کہ اپنا گال - ان دونوں میں سے پتہ نہیں کون سے الفاظ فرمائے - حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں رکھ دیا۔اور آپ نے نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غائب ہوگیا....‘‘

پھر یہ حدیث ذکر کی۔

شیعہ مصنف کہتا ہے: ’’ اور فضیل بن مرزوق نے ایک جماعت سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ ان میں عبیداللہ بن موسیٰ عبسی بھی ہیں اور امام طحاوی نے اپنی سندسے بھی اسے روایت کیا ہے ؛ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :

(( أن رسول اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہم یوحی إلیہ ورأسہ فی حجر علیٍّ فلم یصل العصر حت غابت الشمس۔))

’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی ہورہی تھی اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا‘اور آپ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا ۔

نیز یہ حدیث عمار بن مطر نے فضیل بن مرزوق سیا بی جعفر العقیلی صاحب کتاب ’’الضعفاء‘‘ کے سے بھی روایت کی ہے۔

میں کہتا ہوں : یہ الفاظ پہلی روایت سے متناقض ہیں ۔اس لیے کہ پہلی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر میں رکھ کر عصر سے غروب آفتاب تک سوئے رہے۔اور یہ واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر صہباء نامی مقام پر پیش آیا۔ جب کہ دوسری روایت میں ہے آپ جاگ رہے تھے اور جبریل امین آپ پر وحی نازل کررہے تھے۔اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ یہ تناقض دلالت کرتا ہے کہ اس روایت کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ ُاس روایت میں صراحت ہے کہ اس وقت آپ سوئے ہوئے تھے۔ جب کہ اِس روایت میں ہے کہ آپ جاگ رہے تھے اور وحی نازل ہورہی تھی۔یہ دونوں ہی باتیں باطل ہیں ۔اس لیے کہ عصر کے بعد سونا مکروہ و ممنوع ہے۔جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی ہیں آپ کا دل نہیں سوتا۔ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز کیسے فوت ہوسکتی ہے؟

پھر اگر یہ اس جیسے موقعہ پر نماز کا فوت کرنا یا تو جائز تھایا جائز نہیں تھا۔ اگر نماز کو[اپنے وقت سے] چھوڑ دینا اگر جائز تھا توپھر اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مغرب کے بعد عصر پڑہنے پر کوئی ملامت نہیں ۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہیں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر خندق کے موقعہ پر رہ گئی تھی؛ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ اس کے بعد آپ نے نماز پڑھی مگر آپ کے لیے سورج واپس نہیں لوٹایا گیا۔ اورایسے ہی جب سلیمان علیہ السلام کے لیے سورج کو چھپ جانے کے بعد دوبارہ نہیں لوٹایا گیا۔ اور ایسے ہی ایک غزوہ کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے صحابہ نماز فجر کے وقت سو گئے؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔لیکن ان کے لیے سورج کو دوبارہ مشرق کی طرف نہیں لوٹایا گیا۔

اگر نماز کواس کے وقت سے تاخیر کے ساتھ پڑھنا حرام تھا ؛ سو نماز عصر کا وقت فوت کردینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من فاتتہ صلاۃ العصر فکأنما وتر أہلہ ومالہ۔‘‘ [سبق تخریجہ] 

’’ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا کہ اس کے اہل و مال تباہ ہوگئے ۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ کواس کا علم تھا کہ نماز وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ آپ نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے ؛ صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( شغلونا عن الصلاۃ الوسطی صلا ۃالعصر حتی غربت الشمس ملأ اللہأجوافہم وبیوتہم ناراً۔))[رواہ البخاری کتاب الجہاد والسیر۔ومسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ۔ ]

’’ انہوں نے ہمیں درمیانی نماز یعنی نماز عصر سے مشغول کردیا ؛ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور گھروں کو آگ سے بھر دے ۔‘‘

یہ خندق کا واقعہ ہے۔ اور خیبر خندق کے بعد پیش آیا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ اس قسم کے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کریں ۔اور جبریل امین اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اس فعل پر برقرار رکھیں ۔اور جو کوئی ایسا کرے تو یہ اس کا عیب ہے منقبت نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوایسے عیوب سے منزہ و پاک رکھا ہے۔اور پھر اگرنماز فوت ہوگئی تو سورج کے واپس ہونے سے گناہ ساقط نہیں ہوگا۔

نیز یہ کہ اگریہ قصہ خیبر کی سر زمین پرلشکر کے سامنے پیش آیا ہے؛ اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد چودہ سو سے زیادہ تھی اور یہ لشکر جرار اس منظر کودیکھ رہاتھا؛ ایسے واقعات کونقل کرنے کی وجوہات اور اسباب و دواعی بھی موجود تھے؛ تو پھر یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ اسے ایک دو افراد تو نقل کریں مگر اہل علم اتنے اہم واقعہ کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔اور پھر اس کے روایت ونقل کرنے والے بھی ایسے مجہول لوگ ہیں جن کی عدالت اورضبط واتقان کا کسی کو کوئی علم نہیں ۔

نیز اس واقعہ کی تمام اسناد میں سے ایک سند بھی ایسی نہیں ہے جس سے اس کے ناقلین کا عدل و ضبط اورسند کا اتصال ثابت ہوسکتا ہو۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر فرمایا تھا:

(( لأعطین الرایۃ غداً رجلا یحب اللّٰہ و رسولہ و یحبہ اللّٰہ و رسولہ)) [ رواہ البخاری۵؍۸۱؛ کتاب المغازي؛ غزوۃ الخیبر۔]

’’کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ' اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘

جب کہ سابق الذکر حدیث نہ ہی حدیث کی کسی مستند کتاب میں ہے اور نہ ہی اسے اہل صحاح و سنن اور مسانید نے روایت کیا ہے۔ بلکہ اس کے ترک کرنے اور اس سے اعراض کرنے پر سب کا اتفاق ہے۔ اور اتنا عظیم واقعہ ہوبھی کیسے سکتا ہے؟ اگر یہ واقعہ واقعی حق ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور و کھلے ہوئے معجزات میں سے ہوتا۔ جب کہ اصحاب صحاح ومسانید میں سے کسی ایک نے بھی اسے نقل تک نہیں کیا۔اور نہ ہی علما اسلام اور حفاظ حدیث میں سے کسی ایک نے اسے روایت کیا ہے اورنہ ہی معتمد کتب احادیث میں اس کا کوئی اتا پتہ ملتا ہے۔

پہلی سند سے قطری نے عون سے اور اس نے اپنی والدہ سے روایت کیا ہے وہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔عون اور اس کی ماں کی عدالت اور حفظ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اورنہ ہی یہ لوگ علم نقل کرنے میں معروف ہیں ۔اورنہ ہی کسی معمولی سی چیز میں ان کی روایات سے استدلال کیا جاسکتا ہے تو پھر اتنے بڑے مسئلہ میں ان سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے؟اورنہ ہی اس عورت نے خود حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے سنا ہے۔ شاید کہ اس نے کسی ایسے سے سن لیا ہو جو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے اس کوبیان کرتا ہو۔

اس مصنف نے ابن ابی فدیک کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اسے ثقہ کہا ہے اور قطری کے بارے میں بھی کہا ہے کہ وہ ثقہ ہے ۔لیکن اس کے بعد والے کوثقہ کہنا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔بلکہ صرف ان کا نسب بیان کرنے پر گزارہ کرلیا۔ کسی انسان کا صرف نسب معلوم ہونے سے یہ ضروری نہیں ہوجاتا کہ وہ آدمی حافظ اور ثقہ بھی ہو۔

جب کہ اس کی دوسری سند کا مدار فضیل بن مرزوق پر ہے۔اگرچہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تو پھر بھی یہ ثقہ راویوں کی طرف غلط روایات کا انتساب کرنے میں معروف ہے۔علامہ ابن حبان رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں : ثقہ لوگوں پر غلط روایات منسوب کرتا ہے۔ اور عطیہ سے موضوع روایات نقل کرتا ہے۔

ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ناقابل استدلال ہے۔ یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف ہے۔

یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول سے متناقض نہیں ہے جس میں آپ فرماتے ہیں : میں اس کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ اور امام سفیان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔ اور یحیی رحمہ اللہ نے بھی ایک بار اسے ثقہ کہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن غلطی کا ارتکاب کرجاتا ہے۔ جب امام مسلم اس کی متابعات روایت کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی منفردات بھی روایت کی جائیں ۔ نیز یہ کہ ابراہیم سے اس کا سماع ثابت نہیں ۔اور نہ ہی ابراہیم کاسماع فاطمہ سے ثابت ہے اور نہ ہی فاطمہ کا سماع اسما سے ثابت ہے۔

حدیث کے ثابت ہونے کے لیے لازم ہے کہ ان تمام راویوں کا عدل و ضبط معلوم ہو اور یہ کہ راویوں کا آپس میں ایک دوسرے سے سماع ثابت ہو۔ جب کہ ان چیزوں کا علم ہمیں نہیں ہوسکا۔ ابراہیم نامی اس راوی سے صحاح و سنن جیسی معتمد کتابوں میں کوئی روایت منقول نہیں اور نہ ہی ان کتابوں میں اس کا کوئی تذکرہ ملتا ہے بخلاف فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا کے۔ ان کی روایات احادیث معروف ہیں ۔ تو پھر ایسی روایت سے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے جسے کسی ایک بھی معروف عالم نے اپنی کسی معتمد کتاب میں روایت نہ کیا ہو ۔

کسی انسان کے والد کے بڑے عظیم القدر ہونے سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ روایت کرنے میں مامون عالم ہو۔ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ اور ان میں سے ہر ایک کی ان سے اولاد بھی ہے۔یہ سبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے۔ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ روایت نقل نہیں کی۔اسما ء رضی اللہ عنہا کے بیٹے محمد جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوتیلے بیٹے یعنی لے پالک تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کی محبت بہت مشہور ہے مگر اس کے باوجود آپ نے تو حضرت اسما رضی اللہ عنہا سے یہ روایت نقل نہیں کی۔ مزید برآں کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ پہلے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔اور ان کے ساتھ حبشہ میں مقیم تھیں ۔ آپ فتح خیبر کے بعد حبشہ سے مدینہ وارد ہوئیں ۔ اس قصہ میں بیان کیا جارہا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر ارض خیبر میں پیش آیا۔اگراس کو صحیح مان لیا جائے تو خیبر کے بعد کا واقعہ ہوسکتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر کے موقع پر اہل حدیبیہ موجود تھے ان کی تعداد چودہ سوتھی۔لشکر کی یہ تعداد اس وقت بڑھ گئی جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگ حبشہ سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کشتی میں تشریف لے آئے۔نیز اہل خیبر میں سے جو لوگ مسلمان تھے اور آپ کے ساتھ مل گئے تھے ان کی وجہ سے بھی لشکر کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ روایت نقل نہیں کی۔ اس سے قطعی طورپر یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ قصہ محض من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔

یہاں پر اس قصہ کے راوی فضیل اور اس کے بعدکے راویوں پر اس صورت میں تنقید وارد ہوتی ہے جب یہ یقین ہو جائے کہ انہوں نے یہ واقعہ روایت کیا ہے۔ وگرنہ ان تک اس قصہ کی سند کے موصول ہونے میں نظر ہے۔[فضیل بن مرزوق الاغر الرقاشی الکوفی ؛اسے سفیان بن عیینہ اور یحییٰ بن معین نے ثقہ کہا ہے۔ابن عدی کہتے ہیں : لا بأس۔ جب کہ امام نسائی اور عثمان بن سعید نے ضعیف کہا ہے ‘۔ یہ شیعہ ضرور تھا مگر صحابہ کرام کو گالیاں نہیں دیا کرتا تھا۔تہذیب التہذیب ۷؍۲۹۸۔]

اس لیے کہ پہلا راوی جوکہ فضیل سے روایت کرتا ہے وہ حسین بن حسن الاشقر کوفی ہے۔[اس کا پورا نام حسین بن حسن الاشقر الفرازی الکوفی ہے۔ علامہ بن حجر کہتے ہیں : امام بخاری نے فرمایا ہے: یہ محل نظر ہے ۔ اور ایک بار فرمایا : ’’اس کے پاس منکر روایات ہیں ۔‘‘ تہذیب التہذیب ۲؍۳۳۵۔ میزان الاعتدال ۱؍۵۳۱۔]

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس کے پاس منکر روایات ہیں ۔

امام نسائی اور دار قطنی رحمہما اللہ فرماتے ہیں : قوی راوی نہیں ہے ۔

امام ازدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف ہے۔

علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حسین الاشقر غالی شیعہ اور صحابہ کرام کو گالیاں دینے والوں میں سے ہے۔

ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : منکر احادیث روایت کرتا ہے۔جوکہ میرے نزدیک بہت بڑی آزمائش ہیں ۔کوفہ کے ضعیف راویوں کی ایک جماعت اپنی ضعیف روایات کو اسی کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔

تیسری سند: اس کی تیسری سند میں عمار بن مطر ہے جو کہ فضیل بن مرزوق سے روایت کرتا ہے۔ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقات کے نام پر منکر روایات بیان کرتا ہے۔

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : باطل احادیث بناکر جھوٹ بولا کرتا تھا۔

ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : متروک الحدیث ہے۔[عمار بن مطر کی کنیت ابو عثمان الرھاوی تھی۔ میزان الاعتدال ۳؍۱۶۹پر اور لسان المیزان ۴؍۲۷۵ پر اس کے حالات زندگی تحریر ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند سے رجوع آفتاب کی حدیث نقل کی ہے۔پھر اس کے بعد فرمایا ہے : ’’ عمار بن مطر ہلاک ہونے والا انسان تھا ۔ بعض لوگوں نے اسے ثقہ بھی کہہ دیا ہے۔اور بعض نے اس کے حفظ کا کہا ہے۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں :ابن حبان نے کہا ہے: یہ احادیث چرایا کرتا تھا۔عقیلی فرماتے ہیں :ثقات کا نام لیکرمنکر روایات نقل کیا کرتا تھا۔ ابو حاتم الرازی نے ’’الجرح والتعدیل م۳ ص ۳۹۴ پر اس کا ذکر کیا ہے ۔علامہ ذہبی اورابن حجر اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’جھوٹ بولا کرتا تھا۔‘‘]

اس کی پہلی سند میں عبیداللہ بن موسیٰ العبسی ہے۔[عبیداللہ بن موسیٰ متروک راویوں میں سے ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس سے روایت کرنا ترک کردیا تھا۔ ابن قانع فرماتے ہیں : کوفی ہے‘ اچھا انسان تھا ؛ مگر شیعہ تھا۔ علامہ ساجی فرماتے ہیں : ’’ غالی شیعہ تھا۔‘‘ علامہ ذہبی میزان الاعتدال ۳؍۱۶ پر فرماتے ہیں : ’’ انتہائی بگڑا ہوا شیعہ تھا۔‘‘] بعض اسناد میں لفظ عن سے فضیل سے روایت کرتا ہے اور بعض روایات میں حدثنا کہتا ہے۔اگراس کاحدثنا کہنا ثابت نہ ہو تو پھر اس بات کا امکان رہتا ہے کہ اس نے فضیل سے سنا ہی نہ ہو۔اس لیے کہ یہ شیعہ دعاۃ میں سے تھا اور شیعیت کی احادیث جمع کرنے کا بڑا حریص تھا۔ اس لیے وہ اپنی غرض کی تکمیل کے لیے کذابین سے بھی روایات نقل کرلیا کرتا تھااور اپنے اس گورکھ دھندے میں بڑا ہی مشہور تھا اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ۔اگرچہ بعض لوگوں نے اس کو ثقہ بھی کہہ دیاہے؛اورکہا ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے یا نہیں ؛ لیکن مشہور جھوٹوں سے روایات ضرور نقل کرتاہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ اس کی وہی روایات نقل کرتے ہیں جن کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ وہ کسی دوسری صحیح سند سے ثابت ہے۔جب کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس سے ایک روایت بھی نقل نہیں کی۔ مصنف نے کہاہے:ہماری پیش کردہ روایات کے علاوہ بھی فاطمہ سے اس کی دیگر روایات منقول ہیں ۔

پھر یہ روایت بھی ایسی اندھیرسند کیساتھ مروی ہے کہ اس کا جھوٹ ہونا ہر انسان پر ظاہر ہوجاتا ہے جسے معرفت حدیث سے ادنی سی بھی دلچسپی ہو۔ اس نے ابو حفص کتانی کی حدیث روایت کی ہے اور کہاہے:

(( حدثنا محمد بن عمر القاضِی ہو الجعانِی حدثنا محمد بن ِإبراہِیم بنِ جعفر العسکرِی مِن أصلِ کِتابِہِ، حدثنا حمد بن محمدِ بنِ یزِید بنِ سلیم، حدثنا خلف بن سالِم، حدثنا عبد الرزاقِ، حدثنا سفیان الثورِی، عن أشعث بنِ أبِی الشعثائِ، عن أمِہِ، عن فاطِمۃ، عن أسماء أن النبِی رضی اللّٰہ عنہم دعا لِعلِی حتّی ردت علیہِ الشمس....))

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی یہاں تک کہ سورج واپس لوٹایا گیا ۔‘‘

یہ روایت صرف اس انسان سے قبول جاسکتی ہے جس کی عدالت و ضبط کا علم ہو۔ مجہول الحال سے حدیث قبول نہیں کی جا سکتی۔توپھر کیسے یہ ممکن ہوسکتا ہے جب کہ محدثین جانتے ہیں کہ امام سفیان ثوری اور عبدالرزاق صنعانی جیسے محدثین نے اس سے یہ روایت نقل نہیں کی۔ثوری اور صنعانی کی روایات محدثین کے ہاں معروف ہیں اور ان کے اصحاب ومشائخ بھی محدثین کے ہاں معروف ہیں اوراسے خلف بن سالم نے بھی روایت کیا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان لوگوں نے اس روایت نقل کیا ہے تو پھر بھی اس کی سند میں ام اشعث مجہول راویہ ہیں ان کی روایت سے حجت قائم نہیں ہوتی۔

اس کی دوسری سند محمد بن مرزوق کی سند سے ہے۔وہ کہتاہے:

((حدثنا حسین الأشقر، عن علِیِ بنِ ہاشِم، عن عبدِ الرحمنِ بنِ عبدِ اللّٰہِ بنِ دِینار، عن علِیِ بنِ الحسینِ، عن فاطِمۃ بِنتِ علِی، عن أسماء بِنتِ عمیس ....‘‘ الحدیث۔))

میں کہتا ہوں : حسین اشقر کے بارے میں علما کرام کا کلام پہلے گزرچکاہے۔ اگراس روایت کے تمام راوی ثقہ ہوتے اور سند بھی متصل ثابت ہوتی توپھر بھی اس روایت سے کوئی مسئلہ ثابت نہ ہوسکتا۔ تو پھر اس وقت کیاکہا جاسکتا ہے جب یہ ثابت ہی نہ ہو۔

علی بن ہاشم بن البرید کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :علی اور اس کا باپ دونوں غالی شیعہ تھے ۔ ابن حبان فرماتے ہیں : غالی شیعہ تھا اور مشاہیر کا نام لیکر منکر روایات نقل کیا کرتا تھا۔ محدثین کا اس سے وہ روایات نقل کرنا جو کسی دوسری سند سے بھی ثابت ہوں اس سے اس کی انفرادی روایات کا ثابت ہونا واجب نہیں ہوتا۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس رافضی مصنف اور اس کے بعد کے لوگوں نے اسے فاطمہ بنت حسین کی سند سے قرار دیا ہے۔ جب کہ یہ فاطمہ بنت علی ہے فاطمہ بنت حسین نہیں ۔

ایسے ہی فاطمہ سے اس کی تیسری سند میں عبدالرحمن بن شریک ہے‘ وہ کہتاہے:

(( حدثنا أبِی، عن عروۃ بنِ عبدِ اللّٰہِ، عن فاطِمۃ بِنتِ علِی، عن أسماء، عن علِیِ بنِ أبِی طالِب، رُفِع إِلی النبِی رضی اللّٰہ عنہم وقد أوحِی إِلیہِ فجللہ بِثوبِہِ، فلم یزل کذلِک حتّی أدبرتِ الشمس، یقول: غابت أو کادت تغِیب، وأن نبِی اللّٰہِ رضی اللّٰہ عنہم سرِی عنہ، فقال: أصلیت یا علِی؟ قال: لا۔ قال: اللہم رد علی علِی الشمس، فرجعتِ الشمس حتی بلغت نِصف المسجِدِ۔))

حضرت علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مرفوعاً بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی ہورہی تھی؛ تو آپ نے اپنے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرلیا۔ آپ اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ سورج واپس پلٹ گیا؛ فرمایا کہ : سورج ڈوب گیا یا قریب تھا کہ ڈوب جائے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی ختم ہوئی تو آپ نے پوچھا : اے علی ! کیاتم نے نماز پڑھی ہے؟ تو عرض کیا : نہیں ۔

تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی:’’ اے اللہ! علی کے لیے سورج کوواپس لوٹا دے ۔‘‘ تو سورج واپس پلٹ آیا یہاں تک کہ آدھی مسجدتک پہنچ گیا۔‘‘

اس روایت کا تقاضا ہے کہ سورج عصر کے قریب کے وقت پر پلٹ گیا ہو۔اور یہ قصہ مدینہ کا ہے۔جب کہ پہلی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ خیبر کے راستہ میں پیش آیا۔اور سورج پہاڑ کی چوٹیوں پر ظاہر ہوا تھا۔ عبدالرحمن بن شریک کے بارے میں ابو حاتم رازی فرماتے ہیں : انتہائی بودی روایات نقل کرتا ہے۔نیز ان کے علاوہ بھی دیگر کئی محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔

اس کی چوتھی روایت یوں ہے:

((محمدِ بنِ عمر القاضِی-وہو الجعانِی- عنِ العباسِ بنِ الولِیدِ، عن عباد وہو الرواجِنِی ، حدثنا علِی بن ہاشِم، عن صباحِ بنِ عبدِ اللّٰہِ بنِ الحسینِ أبِی جعفر، عن حسین المقتولِ، عن فاطِمۃ، عن أسماء بِنتِ عمیس، قالت: کان یوم خیبر شغل علِیاًّ ما کان مِن قسمِ المغانِمِ، حتی غابتِ الشمس أو کادت۔ فقال رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم: أما صلیت؟ قال: لا۔ فدعا اللّٰہ فارتفعت حتی توسطتِ السماء، فصلی علِی فلما غابتِ الشمس سمِعت لہا صرِیرا کصرِیرِ المِنشارِ فِی الحدید۔))

حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں : خیبر کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ مال غنیمت کی تقسیم کی وجہ سے مشغول ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا یا غروب ہونے کے قریب ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے نماز نہیں پڑھی ؟ تو عرض کیا: نہیں ۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ؛پس سورج پھر بلند ہوگیا ‘یہاں تک کہ وسط آسمان تک آگیا؛ پس حضرت علی نے نماز پڑھی۔ جب سورج غروب ہوا تو اس کی آواز ایسے سنائی دی جیسے آری سے کاٹنے کی آوازہوتی ہے۔

چوتھی روایت کے یہ الفاظ پہلی تینوں روایات کے الفاظ کے متناقض ہیں ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس حدیث کو روایت کرنے والا کوئی صادق و عادل و ضابط نہیں ۔ بلکہ یہ حقیقت میں کسی انسان نے اپنی طرف روایت گھڑ لی اور پھر اس میں دوسرے ہاتھ بھی اپنا کام دیکھا گئے۔اورایک دوسرا قصہ اس کے مشابہ اوربھی گھڑلیا۔ وہ قصہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غنیمت کی تقسیم میں مشغول ہوگئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہیں ۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کا مال غنیمت تقسیم ہی نہیں کیا ۔ اور نہ ہی نماز چھوڑ کر مال غنیمت کی تقسیم میں مشغول ہونا جائز ہے۔

خیبر کا واقعہ خندق کے بعد سن سات ہجری میں پیش آیا۔اس سے پہلے سن چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آچکا تھا۔یہ بات اہل علم کے ہاں تواتر کے ساتھ مشہور ہے۔ خندق کا واقعہ اس سے پہلے کا ہے جو کہ سن چار یا پانچ ہجری میں پیش آیا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾ [البقرۃ: 238]

’’ نمازوں کی حفاظت کرو ‘ اوردرمیان والی نماز کی ۔‘‘

خندق میں تاخیرکا حکم منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ اکثر اہل علم کے نزدیک یہ حکم قتال کے لیے خاص تھا۔اور اگرچہ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ قتال کے ساتھ خاص ہے جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ توپھر بھی علما کرام رحمہم اللہ میں سے کسی ایک نے بھی مال غنیمت کی تقسیم کی غرض سے نماز فوت کردینے کو جائز نہیں کہا۔ اس لیے کہ تقسیم غنیمت تو فوت نہیں ہوسکتی نماز فوت ہوجاتی ہے۔

اس روایت میں ہے کہ سورج مسجد کے درمیان میں تک واپس آگیا ۔یہ ایک کھلا ہواجھوٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے عجوبوں میں سے ایک ہے ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہوتا تولوگوں کا جم غفیر اسے نقل بھی کرتا۔اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ جب سورج غروب ہوا تو اس کی آواز ایسے سنائی دی جیسے آری سے کاٹنے کی آوازہوتی ہے۔ یہ بھی ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ کیونکہ اس چیز کا کوئی موجب ہی نہیں ۔نیز سورج کے غروب کے وقت اس کا دوسرے اجسام سے ٹکرا ؤبھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اتنی بڑی آواز پیدا ہو جو چوتھے فلک سے زمین تک پہنچ جائے۔پھر اگر یہ بات حق ہوتی تو یہ کائنات کی سب سے بڑی عجیب بات ہوتی جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نقل کرتے جنہوں نے خیبر میں اور دوسرے مواقع کی چھوٹی چھوٹی خبریں بھی روایت کی ہیں ۔ اور یہ اسناد بھی ایسی ہیں جن سے اگر کوئی ایسی چیز بھی روایت کی جاتی جس کا ہونا ممکن ہوتا تب بھی کوئی چیز اس سند سے ثابت نہ ہوتی۔اس لیے کہ علی بن ہاشم بن البرید انتہائی غالی شیعہ تھا۔وہ ہرایک سے ایسی روایات نقل کیا کرتا تھا جو اس کی خواہشات کے موافق ہوں اوران کومزید تقویت دیں ۔اوروہ صباح سے روایت کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کون تھا۔ جب کہ اس طبقہ میں صباح بن سہیل کوفی بھی پایا جاتاہے جو کہ حصین بن عبدالرحمن سے روایت کرتا ہے۔ امام بخاری اور ابو زرعہ اور ابوحاتم رحمہم اللہ نے اسے منکر الحدیث قراردیا ہے۔دار قطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مشاہیر کے نام پر منکر روایات نقل کرتا ہے لہٰذا اس کی روایت سے استدلال کرنا جائز نہیں ۔

ایک اور آدمی بھی ہے جسے صباح بن محمد بن ابی حازم البجلی الاحمسی کوفی کہا جاتا ہے جو کہ مرہ الہمدانی سے روایت کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں : ثقات کے نام پر موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔

ایک چوتھا آدمی صباح العبدی ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں :مجہول انسان ہے۔ ایک صباح بن مجالد ہے جو کہ بقیہ سے روایت کرتا ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : غیر معروف انسان ہے۔ اس کا شمار بقیہ کے مجہول مشائخ میں سے ہوتا ہے۔

حسین مقتول: اگر اس سے مراد حسین بن علی ہیں ۔تو آپ کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ کسی ایک سے روایت کریں جوکہ اسماء بنت عمیس سے روایت کررہا ہو۔خواہ فاطمہ اس کی بہن ہو یا بیٹی۔اور اگریہ قصہ سچا ہوتا تو انہیں دوسروں سے زیادہ اس کے بارے میں علم ہوتا۔ اس نے اپنے والد اور دوسرے لوگوں سے سنا ہوتا۔یا پھر اسما سے سنا ہوتا۔ مگر آپ نے نہ ہی ان کی بیٹی سے نہ ہی بہن سے اور نہ ہی اسما سے یہ روایت نقل کی ہے۔مگر یہ راوی حسین بن علی نہیں ہے بلکہ کوئی دوسرا ہے۔یا پھر عبداللہ بن الحسن ابو جعفر ہے۔ وہ بھی اپنے پہلے دو ساتھیوں کی طرح ہے۔

حدیث صرف اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اہل علم کے ہاں اس کی روایت ایسے عادل و ضابط اور ثقہ راویوں سے ہو جن کو محدثین جانتے ہوں ۔ صرف اس کی نسبت کا علم ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ بھلے اس کی نسبت کسی کی طرف ہو۔ صحابہ اور تابعین کے بیٹوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی احادیث سے استدلال نہیں کیا جاتا اگرچہ اس کا والد بہترین مسلمانوں میں سے تھا۔

اگرچہ اس نے یہ روایت علی بن ہاشم سے نقل کی ہے۔مگر اس سے نقل کرنے والا عباد بن یعقوب رواجنی ہے۔ ابن حبان اس کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ یہ رافضی داعی تھا۔ مشاہیر کا نام لیکر منکر روایات نقل کیا کرتا تھا۔ اس لیے ترک کیے جانے کا مستحق ہے۔ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فضائل اہل بیت اوردیگر مثالب میں ایسی روایت نقل کی ہیں جن کا انکار کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے اس سے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں جن کی صحت معروف ہے۔وگرنہ اس سے قاسم المطراز کی حکایت جس میں اس نے کہا ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک سمندر کھودا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس میں پانی جاری کیا۔یہ ایسی روایت ہے جو کہ کھلم کھلا تنقید اورقدح ہے۔

شیعہ مصنف نے کہا ہے:اس روایت کو اسماء سے ان لوگوں کے علاوہ دوسروں نے بھی روایت کیا ہے۔ اور ابو العباس بن عقدہ کی سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔ یہ اپنے حفظ کے باوجود شیعہ کے جھوٹ جمع کیا کرتا تھا۔ ابو احمد بن عدی نے کہا ہے: میں نے بغداد کے مشائخ کو دیکھا ہے وہ اسے برے الفاظ میں یاد کیا کرتے تھے۔اور وہ کہتے تھے: حدیث کو دین نہیں سمجھتااور کوفہ کے مشائخ پر جھوٹ بولتا ہے۔ اور ان کے نام پر نسخے تیار کرکے انہیں روایت کرنے کو کہتا تھا۔

جب امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ابن عقدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’وہ بہت برا آدمی ہے۔‘‘

یہ ابن عقدہ کہتا ہے:

(( حدثنا یحی بن زکرِیا، أخبرنا یعقوب بن معبد، حدثنا عمرو بن ثابِت، قال: سألت عبد اللّٰہِ بن حسنِ بنِ حسنِ بنِ علِی عن حدیثِ ردِ الشمس علی علِی: ہل ثبت عِندکم؟ فقال لِی: ما أنزل اللّٰہ فِی علِی فِی ِکتابِہِ أعظم مِن ردِ الشمسِ۔ قلت: صدقت جعلنِی اللّٰہ فداک، ولِکنِی أحِب أن أسمعہ مِنک۔ قال:حدثنِی عبد اللّٰہِ، حدثنِی أبِی الحسن، عن أسماء بِنتِ عمیس أنہا قالت: أقبل علِيٌّ ذات یوم وہو یرِید أن یصلِی العصر مع رسولِ اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہم ؛ فوافق رسول اللہِ رضی اللّٰہ عنہم قدِ انصرف ونزل علیہِ الوحی، فأسندہ إِلی صدرِہِ، فلم یزل مسنِدہ إِلی صدرِہِ حتی أفاق رسول اللّٰہِ رضی اللّٰہ عنہم فقال: صلیت العصر یا علِی؟ قال: جِئت والوحی ینزِل علیک، فلم أزل مسنِدک إِلی صدرِی حتی الساعۃ۔ فاستقبل رسول اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہم القِبلۃ وقد غربتِ الشمس، فقال: اللہم ِإن علِیا کان فِی طاعتکِ فارددہا علیہِ۔ قالت أسماء: فأقبلتِ الشمس ولہا صرِیر کصرِیرِ الرحي حتي رکدت فِی موضِعِہا وقت العصرِ، فقام علِی متمکِنا فصلی العصر، فلما فرغ رجعتِ الشمس ولہا صرِیر کصرِیرِ الرحی، فلما غابتِ الشمس اختلط الظلام، وبدأتِ النجوم ))

میں کہتا ہوں : اس پانچویں روایت کے الفاظ پہلی متناقض روایات کے الفاظ سے ٹکراؤ رکھتے ہیں ۔اور دیکھنے والے پر یہ مزید عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ من گھڑت اور جھوٹ واقعہ ہے۔اس لیے کہ اس روایت میں ہے : سورج واپس عصرکے وقت میں اپنی جگہ پر آگیا۔ اس سے پہلی روایت میں ہے: سورج نصف النہار میں واپس آگیا تھا۔دوسری روایت میں ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظر آنے لگا۔اس روایت میں ہے کہ آپ ان کے سینے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے جب کہ دوسری روایت میں ہے : آپ نے اپنا سر ان کی گود میں رکھاہوا تھا۔

عبداللہ بن حسن نے یہ روایت ہر گزبیان نہیں کی۔ آپ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس قسم کے جھوٹ روایت کریں ۔اور نہ ہی آپ کے والد حسن نے اسے حضرت اسماء سے روایت کیا ہے۔ اس روایت میں ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے ‘وہ سورج کی واپسی سے بھی زیادہ اور بڑا ہے۔ اور یہ بات سبھی کومعلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت علی کی شان میں اور نہ ہی کسی دوسرے کی شان میں سورج کی واپسی سے متعلق کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔

یہ روایت اگرچہ عمرو بن ثابت سے ثابت ہے۔ یہی وہ انسان ہے جو عبداللہ سے یہ روایت نقل کرتا ہے جس نے اپنی طرف سے یہ حدیث گھڑ لی ہے۔یہ انسان جھوٹ گھڑنے میں بڑا مشہور تھا۔ ابو حاتم ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقہ راویوں کا نام لیکر موضوع روایات نقل کرتا ہے۔

یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اسکی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔اور دوسری جگہ یہ بھی فرمایا ہے : نہ ہی ثقہ ہے نہ مامون ۔‘‘

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ متروک الحدیث ہے ۔‘‘

شیعہ مصنف نے کہا ہے: اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس طرح ہے:

((أنبأنا عقِیل بن الحسنِ العسکرِی، حدثنا أبو محمد صالِح بن أبِی الفتحِ الشناسِی، حدثنا أحمد بن عمرِو بنِ حوصاء، حدثنا إِبراہِیم بن سعِید الجوہرِی، حدثنا یحی بن یزِید بنِ عبدِ الملِکِ النوفلِی، عن أبِیہِ، قال: حدثنا داود بن فراہِیج، عن عِمارۃ بنِ فرو، عن أبِی ہریرۃ رضِی اللہ عنہ....وذکرہ۔۔ قال المصنِف: اختصرتہ مِن حدیث طوِیل))

میں کہتا ہوں : یہ انتہائی اندھیری سند ہے۔ اس سند سے اہل علم کے ہاں کوئی بھی چیز ثابت نہیں ہوتی۔بلکہ اس کا جھوٹ ہونا کئی وجوہات کی بنا پر معروف ہے۔ اس کی سند میں داؤد بن فراہیج ضعیف ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ اسے ضعیف کہا کرتے تھے ۔ اور امام نسائی نے فرمایا ہے: ’’ ضعیف الحدیث ہے۔ اس کی سند ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس میں یزید بن عبدالملک النوفلی ہے۔ جو کہ اسے عمار سے روایت کررہا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی احادیث مشتبہ ہوتی ہیں ‘ ان میں اصل میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔یہ انتہائی ضعیف راوی ہے۔

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف اور متروک الحدیث ہے۔

امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ....بہت بڑا منکر حدیث ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کے پاس منکر روایات ہیں ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف بھی کہا ہے ۔

اگریہ روایت اس نے ابراہیم بن سعید الجوہری سے نقل کی ہے تو پھر آفت کا اصل سبب یہی ہے۔اور اگریہ کہا جائے کہ اس کی سند نہ ہی ابراہیم بن سعید تک ثابت ہوتی ہے اورنہ ہی ابن حوصاء تک ؛ اس لیے کہ اصل میں یہی دونوں [اس روایت کے] معروف راوی ہیں ۔اور ان کی روایات بھی بڑی مشہور و معروف ہیں ‘ ان کے بعد لوگوں کی ایک جماعت نہیں انہیں روایت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب پہلی سند سے ابن حوصاء روایت کرتا ہے تواس کے راوی معروف ہیں ۔لیکن آفت تو اس کے بعد کے لوگوں میں ہے۔جب کہ یہ دوسری روایت ابن حوصاء سے پہلے معروف ہی نہیں ۔ اگر اس کو بالفرض ثابت بھی مان لیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ آفت اس کے بعدواقع ہوئی ہے۔

ابو الفرج ابن جوزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ : ابن مردویہ نے اسے داؤد بن فراہیج کی سند سے روایت کیا ہے۔ اور اس نے ابن فراہیج کا ضعف کا بھی ذکر کیا ہے۔

شیعہ مصنِف نے کہا ہے:اس حدیث کی روایت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ ہے:

((فأخبرنا محمد بن ِإسماعِیل الجرجانِی کِتابۃ، أن أبا طاہِر محمد بن علِی الواعِظ أخبرہم، أنبأنا محمد بن أحمد بنِ منعِم، أنبأنا القاسِم بن جعفرِ بنِ محمدِ بنِ عبدِ اللّٰہِ بنِ محمدِ بنِ عمر، حدثنِی أبِی، عن أبِیہِ محمد، عن أبِیہِ عبدِ اللّٰہِ، عن أبِیہِ محمد، عن أبِیہِ عمر قال: قال الحسین بن علِی: سمِعت أبا سعِید الخدرِی یقول: دخلت علی رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِإذا رأسہ فِی حِجرِ علِی، وقد غابتِ الشمس، فانتبہ النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال: یا علِی صلیت العصر؟ قال: لا یا رسول اللّٰہِ ما صلیت؛ کرِہت أن أضع رأسک مِن حِجرِی وأنت وجِع۔ فقال رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ادع یا علِی أن ترد علیک الشمس۔‘‘فقال علِی: یا رسول اللّٰہِ! ادع أنت أؤمِّنُ۔‘‘ ۔ قال: یا ربِ! إِن علِیا فِی طاعتک وطاعۃِ رسولِک؛ فاردد علیہِ الشمس ۔ قال أبو سعِید: فواللّٰہِ لقد سمِعت لِلشمسِ صرِیرا کصرِیرِ البکرۃ، حتی رجعت بیضاء نقِی۔))

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔میں نے دیکھا کہ آپ کا سر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں ہے اور سورج غائب ہوچکا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ نے پوچھا: اے علی ! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھی ہے ؟انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا ۔ اور مجھے یہ بات ہر گزگوارہ نہ ہوئی کہ میں آپ کا سر مبارک اپنی گود سے ہٹاؤں اور آپ کوتکلیف ہورہی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! دعاء کرو کہ سورج واپس کردیا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بلکہ اللہ کے رسول آپ دعا کریں میں آمین کہوں گا۔ تو رسول اللہ نے دعافرمائی: اے اللہ! علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا ۔ پس سورج کو واپس لوٹا دے۔ حضرت ابو سعیدفرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! ہم نے سورج کی ایسے آوازسنی جیسے آری کی آواز ہوتی ہے ۔اور سورج بالکل سفید اور صاف ہوگیا۔‘‘

میں کہتا ہوں : اس طرح کی اسناد سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس کے بہت سارے راوی ایسے ہیں جن کے عدل و ضبط کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکتا۔اورنہ ہی وہ ناقلین علم میں سے ہیں ۔اورنہ ہی اہل علم کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر ہے۔ یہ تو اس روایت کے بہت سارے راویوں کا حال ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا؛ اورصرف ایک راوی میں بھی یہ صفات پائی جاتیں تو اس سند سے حدیث ثابت نہ ہوسکتی۔ تو پھر جب بہت سارے یا اکثر راوی ہی اس بیماری کا شکار ہیں ‘تو پھر اس کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے ؛ خصوصاً جب کہ اس سند میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جھوٹ بولنے میں بڑے معروف ومشہور ہیں ۔ مثال کے طور پر عون بن ثابت ۔

نیزاس روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو [سردرد کی] تکلیف ہورہی تھی۔اوریہ کہ سورج کے طلوع کے وقت آپ نے ایسی آواز سنی جیسے آرے سے کاٹنے کی آواز ہوتی ہے۔ یہ بات بھی عقلاً باطل ہے۔جب کہ باقی راویوں نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کیا کرتے اورآپ کے فضائل بیان کیا کرتے تھے ؛ اگر آپ کے پاس یہ حدیث بھی ہوتی ؛ تو آپ کے مشہور و معروف ساتھی و اصحاب بھی اسے روایت کرتے۔جس طرح انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کی دیگر احادیث روایت کی ہیں ۔مثال کے طورپر حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ خوارج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :آپ نے فرمایا: ’’ انہیں دو گروہوں میں سے جو حق کے قریب ہوگا وہ قتل کرے گا۔‘‘

مثلاً حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والی حدیث؛کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی تھی: ’’تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ جیسے صحابی سے ثابت شدہ اس صحیح حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی نسبت حق کے زیادہ قریب تھے۔تو پھر اگر یہ مذکورہ بالا واقعہ بھی صحیح ہوتا تو اسے روایت کیوں نہ کیا جاتا؟ اس قسم کی روایت نہ تو حسین نے بیان کی؛ اور نہ ہی ان کے بھائی عمر نے اور نہ ہی علی نے۔اگر ایسا واقعہ حقیقت میں پیش آیا ہوتا سے پھر اسے آپ سے دیگر روایات نقل کرنے والے معروف شاگرد اسے بھی روایت کرتے۔ اس لیے کہ یہ تو بہت بڑا معاملہ تھا۔

شیعہ مصنف نے کہا ہے:جب کہ اس کی امیر المومنین سے روایت اس طرح ہے :ہمیں ابو العباس الفرغانی نے خبر دی انہیں ابو الفضل شیبانی نے خبر دی ان سے رجا ء بن یحی سامانی نے حدیث بیان کی۔ ان سے ہارون بن مسلم بن سعید نے سامرا کے مقام پر دوسو چالیس ہجری میں حدیث بیان کی ان سے عبداللہ بن عمرو بن اشعث نے وہ داؤد بن الکمیت سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے چچا مستہل بن زید سے وہ ابو زید بن سہلب سے وہ جویریہ بنت مسہر سے وہ کہتی ہے: ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے جویریہ!بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوا کرتی تھی اور ان کا سرمیری گود میں ہوا کرتا تھا۔ پھر پوری روایت بیان کی۔

میں کہتا ہوں : اس کی سند پہلی سند سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ اس میں ایسے مجہول راوی ہیں جن کی عدالت و ضبط کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ پھر یہ راوی اس کو روایت کرنے میں بھی منفرد ہیں ۔اگر حضرت علی نے ایسا کچھ فرمایا ہوتا تو آپ کے معروف ساتھیوں میں سے بھی کوئی ایک اس کو نقل کرتا۔ ایسی اسناد اور پھر ایسی عورت سے نقل کرنا جس کے حال کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی اس سے نقل کرنے والے راویوں کے حالات کوئی جانتا ہے۔ان کی صفات و کردار تو دور کی بات ہے ان کی شخصیات کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح کے راویوں کی نقل سے حدیث کی صحت ثابت نہیں ہوتی۔نیز اس روایت میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو اس سے زیادہ بہتر سند کے ساتھ ثابت روایت سے متناقض ہیں ۔ حالانکہ دونوں ہی باتیں جھوٹ ہیں ۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں وہ احادیث بھی روایت کی ہیں جواس سے کم درجہ کی ہیں ۔لیکن اہل علم اور محدثین میں سے کسی نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ۔

محدثین کی ایک جماعت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں تصنیفات لکھی ہیں ۔جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی آپ کے فضائل میں کتاب لکھی ہے۔ اورامام ابو نعیم نے بھی آپ کے فضائل مرتب کیے ہیں ۔ اور اس میں بہت ساری ضعیف روایات بھی ذکر کی ہیں ۔ لیکن یہ روایت انہوں نے ذکر نہیں کی۔ اس لیے کہ دوسری رویات کے برعکس اس میں جھوٹ ہونے کی نشانیاں صاف واضح ہیں ۔ ایسے ہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا حالانکہ آپ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں احادیث جمع کی ہیں ۔جن میں بہت ساری روایات ضعیف ہیں ۔ ایسے ہی امام نسائی اور ابوعمر بن عبد البر رحمہما اللہ کا حال ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے آپ کے فضائل میں خصائص علی کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

شیعہ مصنف نے کہا ہے: ابو جعفر الطحاوی نے علی بن عبدالرحمن سے حکایت کیا ہے وہ احمدبن صالح المصری سے روایت کرتا ہے وہ کہا کرتا تھا: جو انسان علم کی راہوں پر چلنے والا ہو اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ رد شمس کی حدیث کے اسماء حفظ کرنا بھول جائے اس لیے کہ یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔

میں کہتا ہوں : احمد بن صالح نے اسے پہلی سند سے نقل کیا ہے۔لیکن اس کی اسناد اور الفاظ جمع نہیں کیے۔ اور بھی کئی چیزیں ایسی ہیں جن سے اس روایت کا جھوٹ۔ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔اس سند کے راوی احمد بن صالح کے ہاں مجہول ہیں ۔ اس کے لیے ان کا جھوٹاہونا ظاہر نہیں ہوا۔ اور نہ ہی اسے روایت کے جھوٹ ہونے کا پتہ چل سکا۔ اور امام طحاوی کی عادت نہیں ہے کہ وہ حدیث پر محدثین کے ضوابط کے مطابق تنقید کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے شرح معانی الاثار میں مختلف احادیث جمع کی ہیں ۔ آپ غالب طور پر اسی روایت کو ترجیح دیتے ہیں جو قیاس کی جہت سے ترجیح پاتی ہو۔اس لیے کہ قیاس ان کے ہاں حجت ہے۔ جبکہ اسنادی اعتبار سے ان کے ہاں اکثر روایات مجروح ہوتی ہیں ان میں سے کسی کی صحیح سند ثابت نہین ہوتی۔ اورنہ ہی آپ اس چیز سے کوئی تعرض کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اسناد کے علوم کی اتنی معرفت نہیں تھی جتنی معرفت دوسرے اہل علم کو ہوتی ہے۔ اگرچہ آپ نے بہت زیادہ احادیث بھی روایت کی ہیں اور ایک فقیہ عالم بھی تھے۔

شیعہ مصنف کہتا ہے: ابوعبداللہ بصری نے کہا ہے: اس نقل کے تقاضا کے مطابق سورج کے غروب ہونے کے بعد اس کا لوٹ کر آنا متأکد ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اگرچہ امیر المؤمنین کی فضیلت ہے لیکن درحقیقت یہ نبوت کے معجزات میں سے ہے۔معجزات نبوت میں سے آپ کی فضائل میں یہ واقعہ کئی وجوہات کی بنا پر دوسرے معجزات سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔

میں کہتا ہوں : یہ اس کے جھوٹ ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم محدثین نے فضائل علی میں وہ روایات بھی نقل کی ہیں جو معجزات نبوت میں سے نہیں ہیں ۔اور انہیں صحاح و سنن اور مسانید میں جگہ دی ہے۔انہیں معروف اور ثقہ اعلام راویوں سے نقل کیا گیاہے۔اگریہ روایت بھی ثقات کی روایات میں سے ہوتی تو وہ محدثین اس کو بھر پور رغبت کے ساتھ روایت کرتے۔ اس لیے کہ وہ لوگ حدیث کی صحت بیان کرنے کے بڑے حریص تھے۔ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت کو کسی ایسی سند سے نقل نہیں کیا جس کے راوی مشہور اور ثقہ اہل علم ہوں ۔ اور نہ ہی ان راویوں کی عدالت اورثقاہت کے بارے میں کچھ علم ہوسکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خود اس روایت میں بہت ساری ایسی دلیلیں موجود ہیں جو اس روایت کے جھوٹ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔

نیز کہتا ہے: ابو العباس بن عقدہ نے کہا ہے ہم سے جعفر بن محمدبن عمرو نے حدیث بیان کی اس سے سلیمان بن عباد نے اس بشار بن دراع سے سنا اس نے کہا ہے: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ محمد بن نعمان سے ملے اور اس سے پوچھا: آپ نے حدیث رد شمس کس سے روایت کی ہے؟ اس نے کہا:اس سے روایت نہیں کی جس نے حدیث یا ساریہ الجبل روایت کی ہے۔ یہ تمام باتیں اس روایت کے صحیح ہونے کا ثبوت ہیں ۔

میں کہتا ہوں : یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ائمہ اہل اس روایت کو سچ نہیں مانتے تھے۔ اورنہ ہی ائمہ مسلمین میں سے کسی ایک امام نے اسے روایت کیا ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں جو ائمہ میں سے ایک مشہور امام ہیں ۔ آپ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کسی طرح کی کوئی تہمت نہیں لگانا چاہتے۔اس لیے کہ آپ کا تعلق کوفہ سے ہے جو کہ شیعہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔آپ کئی شیعہ سے ملے بھی اور جتنا اللہ کو منظور تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اتنے فضائل بھی سنے۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اورموالات بھی رکھتے تھے۔ مگر اس کے باوجود آپ نے محمد بن نعمان کی اس روایت کا انکار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ امام طحاوی رحمہما اللہ اور ان کے امثال سے بڑے عالم اور بڑے فقیہ تھے۔جب کہ ان نعمان نے آپ کے سوال کا صحیح جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ کہہ دیا کہ: اس سے روایت نہیں کی جس نے حدیث یا ساریہ الجبل روایت کی ہے۔

اس سے کہا جائے گا کہ: تصور کرو کہ یہ روایت جھوٹی ہے۔تواس روایت کے جھوٹ ہونے میں کون سی ایسی چیز ہے جو اس دوسری روایت کے سچ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اگر مسئلہ ایسے بھی ہو تو پھر بھی ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو حضرت عمر حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر حضرات کی کرامات کا انکار کریں ۔بلکہ آپ نے صرف اس روایت کا انکار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس روایت کے جھوٹ ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔ نیز یہ روایت عقل اورشرع کے خلاف ہے۔ اور یہ کہ اس روایت کو معروف اہل علم محدثین اور تابعین وتبع تابعین میں سے کسی ایک نے بھی روایت نہیں کیا۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرنے والے یہی لوگ ہیں ۔ بلکہ اس کو نقل کرنے والے صرف کذاب اور جھوٹے لوگ ہیں ۔یا پھر ایسے مجہول ہیں (جن کے سچا یا جھوٹا ہونے کے بارے میں اور) عدالت وضبط کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔تو پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جیسے ائمہ اعلام رحمہم اللہ اس قسم کی روایت کو کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟

سارے علماء اسلام چاہتے ہیں کہ ایسی روایات صحیح ہوں اس لیے کہ اس میں نبوت کے معجزات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ہیں جو کہ محبین و موالین علی کے لیے بڑی دلیل ہی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ جھوٹ کی تصدیق کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی دینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس روایت کا انکار کردیا ہے۔