Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[کوفہ کا سیلاب اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[کوفہ کا سیلاب اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ]

[اشکال]:دسویں دلیل:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ کوفہ میں ایک دفعہ اتنا سیلاب آیا کہ ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہوئے، لوگ بھی آپ کے ہم راہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ساحل فرات پر اترے، نماز پڑھی اوردعا کی۔ پھر ایک ٹہنی لے کر پانی کی سطح پر دے ماری۔ چنانچہ پانی خشک ہو گیا۔بہت ساری مچھلیاں آپ کو سلام کرنے لگیں ، مگر دو خاص قسم کی مچھلیاں [جرّی اور مرماہی] خاموش رہیں ، جب آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا جو مچھلیاں پاک تھیں ، ان میں اللہتعالیٰ نے قوت گویائی پیدا کردی اور جو نجس تھیں انہیں گونگا اور خاموش کردیا۔‘‘

[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے ہے : 

پہلی بات:....ہم شیعہ سے اس کی صحیح اسناد اور ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔بلااسناد تو ایسی کہانیاں ہر شخص بیان کر سکتا ہے،مگر ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

دوسری بات:....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس نہ تھی۔

تیسری بات:....[ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ جھوٹا ہے ؛کیونکہ ]اسے کسی بھی قابل اعتماد اہل علم نے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا، ایسا قصہ اگر صحیح ہو تا تو لوگ کثرت سے اسے بیان کرتے؛ کیونکہ اسے نقل کرنے کے دواعی اوراسباب موجود تھے۔اس کے نقل کرنے والے نے واقعہ کی کوئی سند بیان ہی نہیں کی تو پھر محض کہانی کیسے قبول کی جاسکتی ہے۔

چوتھی بات:....مزید برآں سب قسم کی مچھلیاں اجماعاً حلال ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے آپ نے سمند کے بارے میں فرمایا:’’ سمندر کاپانی پاک ہے اور اس کا مردار بھی حلال ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ﴾ [المائدۃ۹۶]

’’تمھارے لیے سمندر کا شکار حلال کر دیا گیا اور اس کا کھانا تمھارے لیے سامان زندگی ہے اور قافلے کے لیے۔‘‘

ائمہ امت اور سلف کا اجماع ہے کہ تمام اقسام کی مچھلیاں حلال ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جب اسے حلال سمجھتے ہیں تو پھر نجس کیسے قراردے سکتے ہیں ۔ مگر رافضی جہالت کی یہ انتہاء ہے کہ ایسی بے بنیاد روایتوں سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قراردیتے ہیں ۔

پانچویں بات:....مچھلیوں میں قوت گویائی کا پیدا ہونا عادت کے مطابق ان کے بس میں نہیں ہے ‘ مگر یہ ایک خارق عادت چیز ہے، جس چیز میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت پیدا کردی وہ ناطق ہو گئی اور جس میں یہ قوت پیدا نہ کی ؛اسے خاموش رکھناچاہا تووہ حسب معمول خاموش رہی۔ یہ بھی اس صورت میں کہہ سکتے ہیں جب یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ اس میں مچھلی کا کیا گناہ ہے ؟کہ ہم اسے نجس قراردیں ۔[ ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت ان موضوعات سے بے نیاز ہے ] ۔جو کوئی بے زبان جانوروں کو اس وجہ سے گنہگار قراردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوت گویائی نہیں بخشی تو حقیقت میں وہ ان جانوروں پر ظلم کررہا ہے۔

اگر کوئی کہنے والا یہ بات کہے کہ: اللہ تعالیٰ نے اسے قوت گویائی عطا کی تھی مگر وہ خاموش رہی؛ تواس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : اگر یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا ہے تویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کرامت اور آپ کی تعظیم و قدر کی ہے ۔ کرامت توآپ کو سلام کرنے سے ظاہر ہوگئی تھی؛ قدرت حاصل ہونے کے باوجود کلام نہ کرنے میں کوئی کرامت نہیں ہے۔ جب مچھلی نے آپ کو قدرت ہونے کے باوجود سلام نہیں کیا تو اس میں پھر کیاکرامت ہوئی۔بلکہ اس میں تو پاکیزہ چیزوں کو حرام کرنے والی بات ہے ۔ کیونکہ مچھلی پاکیزہ اور حلال چیز ہے ‘مگر اس قصہ کی روسے اسے حرام قراردیاگیا ہے ؛ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے عقوبت ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿فَبِطُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلُّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا﴾ [النساء۱۶۰]

’’تو جو لوگ یہودی بن گئے، ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں ، جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے۔‘‘

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مچھلی کو حرام سمجھنا یہودیوں کے اخلاقیات میں سے ہے ۔ اور رافضی چونکہ ان کے بھائی ہیں ‘ اس لیے ان سے اس قسم کی باتیں بعید نہیں ہیں۔

چھٹی بات : ان سے کہا جائے گا کہ: ’’ یہاں پر مقصود تو پانی کے خشک ہونے سے حاصل ہوگیا تھا۔ تو پھر مچھلی کے آپ کوسلام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور نہ ہی کوئی ایسا سبب موجود تھا جس کا تقاضا ہو کہ ایمان کی مضبوطی کے لیے کوئی خارق عادت واقعہ [یا کرامت ]ظاہرہوجائے ۔اس لیے کہ پہلی بات سے حجت قائم ہوگئی اور ضرورت پوری ہوگئی ؛ جب کہ دوسری بات میں نہ ہی حجت تھی اور نہ ہی ضرورت۔

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام کے لیے سمند ر کے پھٹ جانے میں پانی کے خشک ہوجانے سے بڑا معجزہ تھا۔ لیکن پھر بھی مچھلیوں نے آپ پر سلام نہیں کیا۔ اور جب آپ خضر علیہ السلام کے پاس گئے تو آپ کے پاس توشہ دان میں نمک لگی ہوئی مچھلی تھی؛اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کیا ‘اوروہ ڈبے سے نکل کر پانی میں چلی گئی ‘اور اس کے جاتے ہوئے یوں لگتا تھا جیساکہ سمندر میں سرنگ بن گئی ہو۔مگر اسے نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو سلام کیا اور نہ ہی یوشع علیہ السلام ۔سمندر میں ہمیشہ مدو جزر رہتا ہے مگر اس کے بارے میں کہیں بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ کبھی کسی مچھلی نے صحابہ یاتابعین میں سے کسی ایک کو سلام کیا ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس جیسی حکایات سے ان کے فضائل و مناقب ثابت کیے جائیں ؛ جن کے جھوٹ ہونے کے بارے میں سبھی اہل علم و عقل جانتے ہیں ۔