Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ جامع فضائل ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ جامع فضائل ]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:بارھویں دلیل:’’ فضائل کا اثبات ہے۔فضائل کی تین قسمیں ہیں :

۱۔ نفسانی ۲۔ بدنی ۳۔ اور خارجی

پہلی دو اقسام کو اگر تسلیم کیا جائے تویہ یا خود اس انسان کی ذات کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں یا پھر کسی دوسرے کے ساتھ ۔ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ان فضائل سہ گانہ کے جامع تھے۔چنانچہ آپ کے وہ نفسانی فضائل جو آپ کی ذات سے متعلق تھے؛ جیسے: آپ کا زہد اور علم؛ کرم اور حلم اعداد وشمار سے زیادہ اور مشہورہیں ۔ اوروہ نفسانی فضائل جو دوسروں سے متعلق ہیں ان کا بھی یہی عالم ہے؛ مثلاً آپ سے علم کا ظاہر ہونا؛اوردوسرے لوگوں کا آپ سے فتوی پوچھنا‘وغیرہ۔ اور ایسے ہی آپ کے بدنی فضائل ہیں ؛ جیسا کہ عبادت و شجاعت اور صدقہ[وخیرات] کے اوصاف پائے جاتے تھے۔ خارجی اوصاف یعنی حسب و نسب میں آپ عدیم المثال تھے ۔ سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی دخترنیک اختر جوسب جہانوں کی خواتین کی سردار ہیں آپ کے نکاح میں تھیں ۔ خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب’’السنۃ‘‘ میں اپنی سند سے حضرت جابر سے روایت کیا ہے ؛آپ فرماتے ہیں : ’’جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کا نکاح ساتوں آسمانوں کے اوپر پڑھا دیا تھا۔ خطبہ جبریل نے پڑھا۔ میکائیل و اسرافیل دونوں دیگر ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ گواہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے درخت طُوبیٰ کو حکم دیا کہ اس پر جتنے جواہرات اور موتی ہیں وہ سب نچھاور کردے۔ چنانچہ طوبی نے حکم کی تعمیل کی۔پھر اللہ تعالیٰ حور العین کی طرف وحی کی کہ انہیں اٹھالیں ‘پس انہوں نے وہ جواہرات قیامت تک کے لیے اٹھا لیے۔‘‘[اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ذکر کی ہیں ]۔

آپ کی اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(( رأیت النبِی صلی اللّٰہ علیہِ وسلم أخذ بِیدِ الحسینِ بنِ علِی، فقال: أیہا الناس ہذا الحسین ، ألا فاعرِفوہ وفضِّلوہ، فواللّٰہِ لجدہ أکرم علی اللّٰہِ مِن جدِ یوسف بنِ یعقوب ، ہذا الحسین جدہ فِی الجنۃِ، وجدتہ فِی الجنۃ، وأمہ فِی الجنۃِ، وأبوہ فِی الجنۃِ، وخالہ فِی الجنۃِ وخالتہ فِی الجنۃِ، وعمہ فِی الجنۃِ، وعمتہ فِی الجنۃِ، و أخوہ فِی الجنۃِ ، وہو فِی الجنۃِ، ومحِبوہ فِی الجنۃِ، ومحِبُّو محِبِیہِم فِی الجنۃ)) ۔

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اورفرمایا:اے لوگو ! یہ حسین ہے۔ آگاہ ہوجاؤ؛ اسے پہچانواور اس کی فضیلت کو سمجھو۔اللہ کی قسم!اس کا نانا اللہ کے ہاں یوسف بن یعقوب علیہماالسلام کے دادا سے زیادہ عزت والا ہے۔ یہ حسین ہے؛اس کا دادا جنت میں اس کی دادی جنت میں اس کی ماں جنت میں اور اس کا باپ جنت میں اس کے ماموں جنت میں اس کی خالائیں جنت میں ۔اس کے چچا اورپھوپھیاں جنت میں ۔اس کا بھائی جنت میں اوروہ خود اور اس سے محبت کرنے والے اور ان کے محبین سے محبت کرنے والے سبھی جنت میں ہوں گے۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(( بِت عِند النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم ذات لیلۃ، فرأیت عِندہ شخصاً، فقال لِی: ہل رأیت ؟ قلت: نعم۔ قال: ہذا ملک لم ینزِل إِلی منذ بعِثت، أتانِی مِن اللّٰہِ، فبشرنِی أن الحسن والحسین سیِدا شبابِ أہلِ الجنۃِ ))۔

’’میں نے ایک رات رسول اللہ کے پاس گزاری۔ میں نے آپ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا : کیا تم نے اس شخص کو دیکھا؟ میں نے عرض کیا :ہاں ۔ آپ نے فرمایا:یہ فرشتہ تھا۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے یہ فرشتہ نازل نہیں ہوا آج یہ اللہ کی طرف سے میرے پاس آیا ہے اور مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ:

حسن اورحسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔اس مسئلہ میں روایات بہت زیادہ ہیں ۔ محمد بن حنفیہ بڑے عالم و فاضل تھے۔یہاں تک کہ ایک گروہ نے تو آپ کے امام ہونے کا دعوی بھی کیا تھا۔‘‘ 

[جواب]:ہم کہتے ہیں : ’’جو امور ایمان و تقویٰ سے خارج ہوں صرف ان کی وجہ سے کسی کی عظمت و فضیلت عند اللہ ثابت نہیں ہوتی۔ان سے فضیلت عند اللہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب یہ امور نیکی او رتقوی کے امور پر معاون اور مدد گار ہوں ۔اس لیے کہ یہ چیزیں وسائل کی حیثیت رکھتی ہیں مقاصد کی نہیں ۔جیسا کہ مال اور مقام و مرتبہ؛ قوت اور صحت اور اس طرح کے دیگر امور۔اس لیے کہ ان امور سے انسان کواللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت تک کوئی فضیلت و کرامت حاصل نہیں ہوتی جب تک یہ امورحسب ضرورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر معاون ومددگار نہ ہوں ۔فرمان ِ الٰہی ہے: 

﴿ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُم﴾ [الحجرات۱۳]

’’اے لوگو! بیشک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘

صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دریافت کیا گیا کہ سب لوگوں سے زیادہ باعزت کون ہے ؟

توآپ نے فرمایا:’’جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو۔‘‘

عرض کیاگیا:ہم اس بارے میں سوال نہیں کررہے ۔

فرمایا: ’’ پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ یعقوب بن نبی اللہ اسحق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہم السلام ۔‘‘

عرض کیا : ہم آپ سے اس کے بارے میں بھی سوال نہیں کررہے

تو فرمایا: کیا تم عرب قبائل کے بارے میں مجھ سے سوال کرتے ہو ؟ ان میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھا وہ اسلام میں بھی بہتر ہے اگروہ دین اسلام کی سمجھ حاصل کرلے۔‘‘[البخاری ۔ کتاب أحادیث الانبیاء۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ﴿ لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ....﴾ (ح:۳۳۸۳)، صحیح مسلم، کتاب الفضائل۔ باب من فضائل یوسف رضی اللّٰہ عنہم (ح:۲۳۷۸)۔] [اس کی تخریج گزرچکی ہے] ۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے واضح کیا کہ : اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو۔ اگرچہ وہ کسی نبی کا بیٹا نہ بھی نہ ہی کسی نبی کا باپ ہو۔ اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام یوسف علیہ السلام کی نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ مقام و مرتبہ والے ہیں ‘ اگرچہ ان کا والد آزر ہے ؛ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والدمحترم اللہ کے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں ۔ایسے ہی حضرت نوح علیہ السلام اللہ کے ہاں بنی اسرائیل سے بڑھ کرباعزت تھے۔ او راگرچہ یہ انبیاء کرام آپ کی ہی اولاد ہیں ؛ اور دوسرے لوگ بھی آپ کی اولاد ہیں جو کہ انبیاء نہیں ہیں ۔

لیکن جب لوگوں نے آپ کو یاد دلایا کہ ان مقصودصرف نسب ہے توآپ نے انہیں بتایا کہ : ’’ سب سے زیادہ باعزت نسب والے وہ لوگ ہیں جو کسی انبیاء کے نسب سے تعلق رکھتے ہوں ۔تاہم نسب کے اعتبار سے حضرت یوسف علیہ السلام بنی آدم میں عدیم النظیر تھے۔اس لیے کہ آپ خود اللہ کے نبی ‘ اللہ کے نبی بیٹے اورنبی کے پوتے ہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب پھر اشارہ کیا کہ ان کا مقصود ان کی اپنی ذات سے متعلق ہے تو آپ نے فرمایا: کیا تم مجھ سے عرب قبائل کے بارے میں سوال کرتے ہو؟بیشک لوگ بھی ایسے کانیں ہیں جیسے سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔اور جو ان میں سے جاہلیت میں بہتر ہو وہ اسلام میں بھی بہتر ہوتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ دین اسلام کی سمجھ حاصل کرے۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس زمین سے سونا نکلتا ہے وہ اس زمین سے افضل ہوتی ہے جس سے چاندی نکلتا ہے۔ پس ایسے ہی حال ان لوگوں کا حال ہے جن کے ہاں فضلاء جنم لیتے ہوں ۔ پس اس کی اولاد ان لوگوں سے افضل ہوگی جو کہ صرف ادنی [مفضول]قسم کے لوگوں کو جنم دیتے ہیں ۔لیکن یہ ایک سبب اور خیال و تصور ہے؛ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔ ایس بھی ہو سکتا ہے کہ زمین سونا اگلنا کم کردے ‘یا بند کردے۔تو اس صورت میں وہ زمین جو چاندی دیتی ہے وہ انسان کے نزدیک اس زمین سے افضل و محبوب ہوگی جو بنجر و ویران ہوگئی ہو۔پس بہت زیادہ چاندی جو تھوڑے سے سونا کی قیمت سے زیادہ ہو وہ انسان کو زیادہ محبوب ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ اچھے نسب والوں سے خیر کی امید کی جاتی رہی ہے۔ اور اس بنا پر ان کی عزت و توقیر کی جاتی ہے۔ اوراگر کسی سے اس کے خلاف ثابت ہوجائے تو اس صورت میں حقیقت کو خیال پر مقدم رکھاجائے گا۔اور جوکچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ خالی وہم وگمان سے یا محض دلائل کی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتا؛اس کی ثبوت ان اعمال صالحہ کی بنیاد پر ہوتا ہے جن کا اسے علم ہے۔ اس کے لیے نہ ہی کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی جگہوں پر گمان کفایت کرسکتا ہے۔

پس اس وجہ سے[اللہ کے ہاں ] سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے بڑا متقی ہو۔اگر دو شخص تقوی میں برابر ہوں تو انہیں درجہ میں برابرکیا جائے گا۔اور اگر ان میں سے ایک کا والد یا بیٹا دوسرے کے والد یا بیٹے سے افضل ہو[تواس لحاظ سے اسے بھی مقام حاصل ہوگا]۔لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کو کسی سبب کی بنا پر تقوی میں زیادہ نسبت حاصل ہوتووہ اپنے اس تقوی کی وجہ سے افضل ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کیا ‘اور نیک اعمال کیے تو [انہیں یہ بلند مقام نصیب ہوا؛ جو کہ محض ]سسرالی رشتہ کی وجہ سے نہیں ملا‘ بلکہ کمال اطاعت کی وجہ سے ملا تھا۔ جیسا کہ ان میں سے کوئی ایک اگر برائی کا کام کرتی تو انہیں دوہرا عذاب معصیت کی قباحت کی وجہ سے ہوتا۔

پس صاحب شرف انسان جو اپنے آپ پر تقوی کو لازم کرلیتا ہے تو اس کا تقوی دوسروں سے زیادہ کامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ جب بادشاہ عدل قائم کرتا ہے تو اس کا عدل و انصاف کرنے انسان کے اپنے گھر میں عدل انصاف سے بہت زیادہ بڑا اور کامل ہوتا ہے۔اور ایسے ہی جب کوئی انسان کسی خیر کے کام کا پکا ارادہ کرلیتا ہے ‘ تو وہ اس میں سے جس قدر کام کرپاتا ہے اس کے لیے کامل اجر ہوتاہے۔ جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایاہے:

’’ بیشک مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم کوئی بھی منزل طے نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی وادی پار کرتے ہو ‘مگر وہ اجر وثواب میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! مدینہ میں رہ کر بھی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں مدینہ میں رہ کر بھی ‘ اس لیے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔‘‘[یہ حدیث حضرت انس بن مالک سے مروی ہے۔ البخاری کتاب الجہاد ‘باب من حبسہ العذر عن الغزو ۴؍۲۶۔ سنن أبي داؤد ۳؍۱۷؛ کتاب الجہاد ‘ باب في الرخصۃ في القعود من العذر۔ سنن ابن ماجۃ کتاب الجہاد ‘ باب من حبسہ العذر عن الجہاد ۲؍۹۲۳۔]

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( من دعا إِلی ہدًی کان لہ مِن الأجرِ مِثل أجورِ منِ اتبعہ، مِن غیرِ أن ینقص مِن أجورِہِم شیئا، ومن دعا إِلی ضلالۃ کان علیہِ مِن الوِزرِ مِثل أوزارِ منِ اتبعہ، مِن غیرِ أن ینقص مِن أوزارِہِم شیئا۔))[مسلم ۴؍۲۰۶۰؛ کتاب العلم ‘ باب من سنَّ سنۃ حسنۃ أو سئیۃ۔ وسنن أبي داؤد۴؍۲۸۱؛ کتاب السنۃ ‘ باب لزوم السنۃ۔]

’’جو کوئی انسان ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو اس کے لیے اس کے تمام ماننے والوں کے اجر کے برابر اجر ہوتا ہے اور ان میں سے کسی کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جاتی۔ او رجو کوئی گمراہی کی طرف بلاتا ہے ‘ اس اتنا ہی بوجھ ہوتا جتنا اس کے تمام ماننے والوں کا بوجھ ہوتا ہے ۔ ان کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔‘‘

یہ بات کئی دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصلاً کسی ایک انسان کی بھی ثناء اس کے نسب کی بنیاد پر نہیں کی۔ نہ ہی نبی کی اولاد ہونے کی بنیاد پر اور نہ ہی نبی کا باپ ہونے کی بنیاد پر۔بلکہ لوگوں کی تعریف ا ن کے اعمال اور ایمان کی بنیاد پر کی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی صنف کا ذکر کرکے ان کی تعریف کرتے ہیں تو یہ ان کے ایمان اور عمل کی وجہ سے ہوتا ہے محض نسب کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اٹھارہ انبیاء کرام کاذکر کیاتو فرمایا:

﴿وَ مِنْ اٰبَآئِہِمْ وَ ذُرِّیّٰتِہِمْ وَ اِخْوَانِہِمْ وَ اجْتَبَبْنٰہُمْ وَ ہَدَیْنٰہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ

’’اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد وں اور ان کے بھائیوں میں سے بعض اوروں کو بھی ہم نے انھیں چنا اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔‘‘[الانعام۸۷]

یہ فضیلت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے چن لینے اور اختیار کرلینے کی وجہ سے؛ اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے کی وجہ سے حاصل ہوئی؛ محض قرابت اور نسب کی وجہ حاصل نہیں ہوئی۔

اتنی بات ضرور ہے کہ قرابت کی وجہ سے بعض حقوق واجب ہوجاتے ہیں ؛ اور نسب بھی حقوق کو واجب کرتا ہے اور ان کے ساتھ واجب اور حرام اوراباحت کے احکام بھی معلق ہوتے ہیں ۔ لیکن ثواب اورعقاب اور وعد و وعید اعمال کی بنیاد پر ہوتے ہیں نسب کی بنیاد پر نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرَاہِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ﴾ (آل عمران:۳۳)

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و نوح اور آل ابراہیم و آل عمر ان کو سب جہانوں سے چن لیا۔‘‘

نیز ارشاد فرمایا:

﴿ اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰہُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا﴾ (النساء ۵۴)

’’یا وہ لوگوں سے اس پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔‘‘

یہاں پر اس پاکیزہ اور نیک نسل کی تعریف و مدح سرائی ان کے نیک اعمال اور اایمان کی بنا پر کی جارہی ہے ۔جوکوئی ان صفات سے متصف نہ ہو وہ اس مدح وتوصیف میں شامل نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوحًا وَّاِِبْرٰہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ فَمِنْہُمْ مُہْتَدٍ وَّکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُوْنََ﴾ (الحدید: ۲۶)

’’ہم نے نوح و ابراہیم کو مبعوث کیا اور ان کی اولاد کو نبوت اور کتاب عطا کی ؛ پس ان میں سے ہدایت یافتہ بھی ہیں اور ان میں سے بہت سارے لوگ فاسق بھی ہیں۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ مُبِیْنٌ

’’اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی اور ان دونوں کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے ۔‘‘(الصافات ۱۱۳)

قرآن کریم کی کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرا م کے ایمان اوران کے اعمال صالحہ کی وجہ سے ان کی تعریف کی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ﴾ ( التوبۃ ۱۰۰)

’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی ﴾ [الحدید۱۰]

’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد صدقہ دیا اور جہاد کیا ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘

نیز فرمان الٰہی ہے:

﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاo﴾ (الفتح:۱۸)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوگیا، ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، جو کچھ ان کے دلوں میں تھا اس نے معلوم کر لیا، ان پر اطمینان و سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح سے نوازا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ﴾ [الفتح۴]

’’وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں ۔‘‘

اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ٭وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ....﴾ [الحشر۸۔۹]

’’ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔اور (ان کے لیے)جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ)اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ﴾ (الفتح: ۲۹)

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ۔‘‘

قرآن مجید میں امت کے اگلے اورپچھلے اہل ایمان؛ اہل تقوی اورمحسنین پر؛مقسطین اورصالحین اور ان جیسے دوسرے لوگوں پر ایسے ثناء بیان کی گئی ہے۔ رہا گیا نسب کا مسئلہ ؛ جو کچھ یہ لوگ قرآن کی طرف ذوی القربی کے حقوق منسوب کرتے ہیں جیسا کہ آیت خمس اور فئے میں ہے ؛ اور قرآن میں جو اہل بیت سے ناپاکی کو دور کرنے اور انہیں ہر طرح سے پاک کرنے کا بیان ہے ؛اور قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کا بیان ہے ۔اس کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ آپ پر اور آپ کی آل پر درود پڑھا جائے۔اورقرآن میں اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کابیان ہے۔ آپ کے اہل خانہ سے محبت آپ کی محبت کا اتمام وکمال ہے۔ قرآن میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین ہیں ۔

قرآن مجید میں محض قرابت یا اہل بیت ہونے کی وجہ سے کسی کی مدح نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی کی ثنائے خیر اس بنا پر کی گئی ہے۔اور نہ ہی عند اللہ کسی کی فضیلت کا استحقاق اس بنیاد پر ذکر کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی کسی کی ایسے پر کوئی فضیلت بیان کی گئی ہے جو تقوی میں برابر کا ہم پلہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن میں آل ابراہیم اور آل اسرائیل کو چن لیے جانے کا بیان ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے عبرت بنادیے جانے کے بارے میں بھی خبر دی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جزاء اور مدح اعمال کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے چنیدہ لوگوں کا ذکر کیا ‘ اور پھر ان میں سے جو لوگ کافر ہوگئے ان کے کفر اور گناہوں اورسزا کا ذکر کیا تو اس میں دو چیزیں بیان کیں : ثواب اورعقاب ۔

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ عالی نسب کے ساتھ کبھی مدح بھی مل جاتی ہے ؛ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب صاحب مدح اہل تقوی او راہل ایمان میں سے ہو۔ وگرنہ صرف نسب والوں کی مذمت کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔جیسا کہ ان لوگوں کی مذمت کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل اور اولاد ابراہیم اور ان کے سسرالیوں میں سے مذموم ٹھہرے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِمْرَاَۃَ نُوحٍ وَّاِمْرَاَۃَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ o وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِمْرَاَۃَ فِرْعَوْنَ اِِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظٰلِمِیْنَ o﴾ [التحریم ۱۰۔۱۱]

’’اللہ نے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی، وہ ہمارے بندوں میں سے دونیک بندوں کے نکاح میں تھیں ، پھر انھوں نے ان دونوں کی خیانت کی تو وہ اللہ سے (بچانے میں ) ان کے کچھ کام نہ آئے اور کہہ دیا گیا کہ داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں آگ میں داخل ہو جاؤ ۔اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔‘‘

جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب کہا جاسکتا ہے کہ : جب کوئی ایک انسان عجمی ہو اور دوسرا عربی ہے۔

ہم مجمل طور پر بالجملہ کہتے ہیں کہ:’’ عرب عجمیوں کی نسبت افضل ہیں ۔‘‘[ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں میں جو خیر و تقویٰ اور فضائل و محاسن پائے جاتے ہیں وہ عجمیوں میں موجود نہیں ]۔ ابوداؤد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ عجمی کو عربی پر؛نہ ہی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کالے کو گورے پر ۔مگر فضیلت صرف تقوی سے حاصل ہوتی ہے۔[مسند احمد(۵؍۴۱۱)۔]سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے ہوئے تھے۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب الادب۔ باب فی التفاخر بالاحساب(حدیث:۵۱۱۶)، سنن ترمذی کتاب المناقب۔ باب (۷۴)، فی فضل الشام والیمن (حدیث: ۳۹۵۵۔ ۳۹۵۶)۔]

سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے کبر و غرور اور آباء و اجداد پر فخر کرنے کو تم سے دور کردیا ہے۔ انسان دو ہی قسم کے ہوتے ہیں (۱) مومن متقی(۲) فاسق و فاجر۔[دیکھیں سابقہ تخریج]

اسی لیے جب کوئی انسان اگر عرب و عجم میں سے کہیں سے بھی ہو؛ اور دوسرا قریش میں سے ہو۔ تو ان دونوں کا مقام اللہ کے ہاں تقوی کے اعتبار سے ہوگا۔اگر وہ طاعت و تقویٰ میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تو جنت میں دونوں کا درجہ مساوی ہو گا۔ اوراگر تقوی ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہوں گے تودرجات میں بھی ایک دوسرے پر فضیلت ہوگی ۔ایسے ہی اگر ایک انسان بنی ہاشم سے تعلق رکھتا ہو‘اور کوئی دوسرا انسان عام عرب یا عجم میں سے ہو‘ تو ان دونوں میں سے اللہ کے ہاں افضل وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا متقی ہو۔اگریہ دونوں تقوی میں برابر ہوں گے تو ان کا مقام ومرتبہ بھی برابر کاہوگا۔ان دونوں میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے باپ ‘ یا بیٹے یا بیوی ‘یا بھائی ‘یا چچا کی وجہ سے فضیلت نہیں پائے گا۔

جیسا کہ دو آدمی اگر طب اور حساب کے عالم ہو یا پھر فقہ اور نحو کے ‘ یا کسی دیگر علم و فن کے۔تو ان دونوں میں سے علم میں زیادہ کامل وہ ہوگا جس کے پاس علم زیادہ ہوگا۔اور اگر اس برابر ہونگے تو علم بھی برابر ہوں گے۔ان میں سے کوئی ایک اپنے باپ یا بیٹے کی وجہ سے دوسرے سے بڑا عالم نہیں بن جائے گا۔یہی حال سخاوت؛ بہادری؛ زہد اور دینداری کا بھی ہے۔

جب یہ بات واضح ہوگئی توپتہ چلا کہ خارجی فضائل کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے؛ ہاں مگر اس وقت جب یہ داخلی فضائل میں بھی اضافے کا سبب بن جائیں ۔تو اس وقت فضیلت داخلی فضائل کی وجہ سے ہوگا۔

رہ گیا بدنی فضائل کا مسئلہ تو ان کا کوئی اعتبار اس وقت تک نہیں جب تک ان کا نفسانی فضائل نہ ہوں ۔ وگرنہ جو کوئی روزہ رکھے؛ نماز پڑھے‘جہادکرے‘صدقہ و خیرات کرے ‘مگر اس کی نیت خالص نہ ہو تو اسے کوئی فضیلت حاصل نہ ہوگی۔ یہاں پر معتبر دل [میں نیت ]ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( ألا إِن فِی الجسدِ مضغۃ ِإذا صلحت صلح لہا سائِر الجسدِ، وإذا فسدت فسد لہا سائِر الجسدِ، ألا وہِی القلب۔))[البخاری کتاب الإیمان ‘ باب فضل من استبرأ لدینہ ۱؍۱۶۔مسلم کتاب المساقاۃ ‘ باب أخذ الحلال و ترک الشبہات ۳؍۱۲۱۹’ ابن ماجۃ کتاب الفتن ‘باب الوقوف عند الشبہات ۲؍۱۳۱۸۔]

’’ آگاہ ہوجاؤ ! جسم میں گوشت کاایک لوتھڑا ہے۔اگروہ درست ہوجائے تو ساراجسم درست ہوجائے گا ؛ اوراگر وہ بگڑ جائے تو ساراجسم بگڑجائے گا۔آگاہ ہوجاؤ وہ دل ہے ۔‘‘

پس درایں طور جوانسان نفسانی فضائل میں کامل ہوگا وہ مطلق طور پر افضل ہوگا۔اہل سنت و الجماعت کے ہاں کمال حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔بلا شک وشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کمال کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔

بلکہ نزاع و جدال صرف اس بات پر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہ سے افضل و اکمل اور امامت و خلافت کے زیادہ حق دار تھے۔ شیعہ مصنف نے جو دلائل ذکر کیے ہیں ان سے اس کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔

افضلیت شیخین کے اثبات کے دو طریقے:

فضیلت کے اثبات کے لیے علماء کے ہاں دو طریقے رائج ہیں ۔

۱۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ بعض اشخاص کی فضیلت دوسرے بعض پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اورصرف نص کے ذریعہ معلوم کی جا سکتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قلبی حقائق و مراتب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوتا؛ یہ علم اس نے اپنے لیے خاص کر رکھا ہے،[ لہٰذا وہی جانتا ہے کہ دونوں میں سے افضل کون ہے]۔یا پھر اس کی طرف سے خبر آنے پر معلوم ہوسکتا ہے۔

۲۔ فضیلت معلوم کرنے کا دوسرا طریقہ بعض علماء کے نزدیک نظر و استدلال ہے۔ اہل سنت کے نزدیک مندرجہ بالا دونوں طریقوں سے اگر صحیح حق کے مطابق تحقیق کی جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلفاء ثلاثہ کی افضلیت ثابت ہوتی ہے۔ ہم تو اس طریقہ کار کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی درست مانتے ہیں ۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہے تو حضرت ابوبکر و عم رضی اللہ عنہما کی فضیلت بدرجہ اولیٰ ثابت ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے بارے میں کسی کو کوئی اختلاف ہی نہیں ۔بلکہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما پر صحابہ و تابعین اور ائمہ اہل سنت والجماعت میں سے امت کے کسی بھی شخص نے اختلاف نہیں کیا۔ بلکہ صدیوں سے اس پر اجماع چلا آرہا ہے ۔اور یہ اجماع اہل کبائر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت؛ گنہگاروں کے جہنم سے خروج؛ حوض و میزان کے اثبات ‘خوارج اور مانعین زکواۃ سے قتال ؛ کرایہ داری کے جواز ‘ اور خالہ پر بھانجی کے نکاح کی حرمت پر اجماع سے بڑھ کر اور واضح ہے۔بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ایمان پر خوارج اپنی سرکشی اور تکبر کے باوجود متفق ہیں ‘ حالانکہ یہ لوگ حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کے ایمان کو صحیح نہیں مانتے۔

خوارج کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر پر اجماع ہے۔ اور ان کی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قدح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح سے بڑھ کر ہے۔ جب کہ زیدیہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔جب کہ قدیم معتزلہ کامیلان خوارج کی طرف تھا۔ اور متأخرین کا میلان زیدیہ کی طرف ہے۔جیسا کہ قدیم رافضہ صراحت کے ساتھ تجسیم کا عقیدہ رکھتے تھے؛ جب کہ ان کے متأخرین معتزلہ اور جہمیہ کے قول پر چلتے ہیں ۔ ایسے ہی عصر اول کے شیعہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت اورتقدیم میں شک تک نہیں کرتے تھے ۔ جب کہ بہت سارے لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتے تھے۔ یہ اہل کوفہ اور بعض بہت سارے دوسرے لوگوں کا عقیدہ بھی ہے۔ امام ثوری بھی پہلے یہی عقیدہ رکھتے تھے پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا۔ جب کہ ایک گروہ ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے پر فضیلت نہیں دیتا۔ یہ قول ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے ‘ انہوں نے جن اہل مدینہ کو پایا وہ یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ : میں نے کسی ایک ایسے کو نہیں پایا جس کی بات مانے جانے کے قابل ہو اور وہ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت دیتا ہو۔ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ لوگ اس مسئلہ میں گفتگو کرنے پر سکوت کوترجیح دیتے تھے۔ تو اس صورت میں یہ کوئی قول نہیں ہوگا۔ اور یہی بات زیادہ ظاہر لگتی ہے۔ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ ان دونوں حضرات کومساوی سمجھتے ہوں ۔ابن القاسم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ : میں نے کسی بھی ایسے انسان کو نہیں دیکھا جس کی اقتداء کی جاتی ہواوروہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما پرفضیلت میں شک کرتا ہو۔

جمہور الناس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتے ہیں ۔اور اہل سنت کے ہاں اسی قول کو استقرار حاصل ہے۔یہی محدثین اور اہل زہد و تصوف اور ائمہ فقہاء جیسے امام شافعی؛اور ان کے اصحاب ‘امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ امام مالک سے بھی ایک روایت یہی ہے اور ان کے اصحاب کا یہی عقیدہ ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں خون میں داخل ہونے لوگوں کو ان کے برابر نہیں کرتا جو اس میں داخل نہیں ہوئے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے علما کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے:’’ مدینہ کے ہاشمی والی نے اسی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ کو مارا اور ظاہری طور پر مکرہ کی طلاق کو سبب بنایا ۔ نیز یہ جمہور اہل کلام کرامیہ کلابیہ اشعریہ اور معتزلہ کا مذہب ہے۔

امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ترجیح نہ دی اس نے مہاجرین و انصار صحابہ سے بیوفائی کی۔ امام احمد بن حنبل امام دار قطنی اور دوسرے علما کرام رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ اور ان کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقدیم پر اتفاق ہے۔ اسی وجہ سے ان کے مابین نزاع اس انسان کے بارے میں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ترجیح و افضلیت نہ دے۔ کیا ایسے انسان کو بدعتی شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی دو روایتیں ہیں ۔ اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقدیم پر ایسے دلیل مل جائے جیسے ان کے علاوہ دوسری خلفا ء کی دلیل ہے تو اس سے مسئلہ زیادہ متأکد ہوجاتا ہے۔ جب کہ توقیفی طریقہ نص اور اجماع کا ہے۔

٭ ....نص: رہا نص کا مسئلہ؛ تو صحیحین میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

(( کنا نقول ورسول اللّٰہِ صلی اللہ علیہِ وسلم حيٌّ: أفضل أمۃِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم بعدہ أبو بکر، ثم عمر، ثم عثمان )) [فتح الباری (۴؍۷۴۹)، بحوالہ طبرانی و اسماعیلی۔]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہم کہا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین انسان ابوبکر ہیں ان کے بعد عمر او ران کے بعد عثمان ۔‘‘

٭....اجماع: اجماع کے بارے میں صحیح روایات میں ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ افراد کی شوری بنائی تھی۔ ان میں سے تین افراد نے تین کے حق میں تنازل کرلیا تھا۔ اور اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ اب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان دو میں سے کسی ایک کو خلیفہ چنیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تین دن اورتین رات تک مسلمانوں سے اس مسئلہ مشورہ کرتے رہے اور جاگتے رہے آپ قسم اٹھاکر کہتے تھے کہ وہ تین دن سے نہیں سوئے۔ سو اہل مدینہ کے اہل حل و عقد حتی کہ امراء انصار جمع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد بغیر کسی خوف اور بغیر کسی لالچ کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ان تمام کا اتفاق ہوگیا۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہی زیادہ حق دار تھے۔ اورجو زیادہ حقدارہو وہی افضل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تمام خلق سے افضل ہی اس بات کا حق دار ہوسکتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی جگہ پر کھڑا ہو۔ 

جب ہم کہتے ہیں کہ :اس سے لازم آتا ہے کہ آپ ہی سب سے زیادہ حق دار تھے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے لازم آتا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تو جاہل تھے یا پھر ظالم تھے۔ اس لیے کہ جب آپ اس مقام کے حق دار نہیں تھے کوئی دوسرا حق دار تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کو اس کا پتہ نہیں چلا تو وہ جاہل شمار ہوئے اور اگر پتہ چلا ہے اور انہوں نے حق دار آدمی کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کیا ہے تووہ ظالم ٹھہرے۔ تو اس سے واضح ہوگیا کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حق دار نہ تھے ( اور پھر بھی آپ کو خلیفہ چنا گیا)؛تو صحابہ کرام کی جہالت یا ظلم لازم آتا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں متنفی ہیں ۔ اس لیے کہ وہ لوگ ہم سے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احوال سے واقف تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ان دونوں حضرات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے اس کے بارے میں بھی ہم سے بڑھ کرعلم رکھتے تھے اور ہم سے بڑھ کر قرآن کے مدلولات کے عالم تھے۔ کیونکہ یہ حضرات خیر القرون کے لوگ تھے۔ یہ بات ممتنع ہے کہ ایسے مسائل میں ہم ان لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہوں ۔ اس لیے کہ ہم لوگوں سے بڑھ کر انہیں ان باتوں کے علم کی ضرورت تھی۔ اس لیے کہ اگروہ لوگ اپنے دین کے اصولی مسائل سے جاہل ہوں اور ہم جانتے ہوں تو ہم ان سے افضل ٹھہریں گے۔ اور یہ بات(عقلاً و شرعاً)ممتنع ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حق کا عالم اور عادل نہ ہونا بہت بڑی نازیبا بات ہے؛اس سے ان کی عدالت پر قدح وارد ہوتی ہے۔ اور اس سے یہ بات ضرورت کے تحت ممتنع ہوتی ہے کہ وہ لوگ خیر القرون سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اس لیے کہ قرآن نے ان لوگوں کی ایسے الفاظ میں توصیف و ثنا بیان کی ہے جو مدح و تعریف کی انتہا ہے۔ تو پھر اس صورت میں یہ بات محال ہے کہ ان لوگوں کا کسی ایسے ظلم پر اجماع اور اصرار ہو جس کا ضرر پوری امت کو پہنچے۔ اس لیے کہ یہ ظلم صرف ولایت سے روکنے کی حد تک ہی نہیں رہتا بلکہ یہ ہر اس انسان پر ظلم ہوگا جس ولایت کے حقدار کو ولایت تفویض کرنے سے فائدہ پہنچتا۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ دو چرواہے ہوں ان میں سے ایک نگہبانی اور گلہ بانی کے لیے زیادہ مناسب ہواور وہ اس کا حق دار بھی ہو تو اس کو گلہ بانی سے روکنے کا ریوڑ کے حق منفعت میں کمی کرنا ہے۔

اس لیے بھی کہ قرآن و سنت کے دلائل سے ثابت ہے کہ امت تمام امتوں سے بہتر ہے۔اگر یہ لوگ اپنے اسی عقیدہ پر مصر رہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ امت ساری امتوں سے بری ہو۔ اور امت کے پہلے لوگوں میں بھی کوئی خیر نہ پائی جاتی ہو۔ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ متأخرین صحابہ کرام جیسے نہیں ہوسکتے۔ اگروہ لوگ ظالم اور ظلم پر اصرار کرنے والے تھے تو پھر ساری امت ظالم ٹھہری اور یہ امت خیر الامم بھی نہیں ہوسکتی۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کوفہ تشریف لے گئے تو ان سے پوچھاگیا:آپ نے کس کو والی بنایا؟ توآپ نے فرمایا: ’’ہم نے اپنے میں سے سب سے اعلی مرتبہ انسان کو ولایت تفویض کی ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں کی۔‘‘ یہاں پر اعلی مرتبہ سے مراد اسلام اوردین میں اعلی مرتبہ ہے۔

اگر یہ بات کہی جائے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ امامت کا حق دار کوئی دوسرا ہو مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے افضل ہوں ۔

تو اس کا جواب یہ ہے: پھلی بات: یہ سوال کسی امامیہ کی طرف سے وارد کیا جانا ممکن نہیں ۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک جو سب سے افضل ہوگا وہی امامت کا حق دار بھی ہوگا۔اور یہی قول جمہور اہل سنت والجماعت کا بھی ہے۔

یہاں پر دو اہم نکات ہیں : یا تو یہ بات کہی جائے کہ افضل امامت کا زیادہ حق دار ہوتا ہے مگر مفضول کو مطلق طور پر یا کسی ضرورت کے تحت یہ منصب تفویض کرناجائز ہے۔ یا پھر یہ بات کہی جائے کہ جوکوئی بھی اللہ کے ہاں افضل ہو وہ امامت کا بھی زیادہ حق دار ہوگا۔

یہاں پر دونوں باتیں منتفی ہیں ۔ اس لیے کہ مفضول فی الاستحقاق کو ولایت تفویض کرنے کی حاجت منتفی تھی۔ اس لیے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت تفویض کرنے پر قادر تھے۔ اوروہاں کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو اس مسئلہ میں تنازع کرتا۔نہ ہی ان لوگوں کو لالچ دینے یا ڈرانے دھمکانے کی ضرورت تھی۔ اورنہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس اتنی قوت و شوکت تھی جس کا خوف ہوتا۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی ایسے ہی آسانی سے خلیفہ بنایا جاسکتا تھا جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا۔ تو یہ بات ممتنع ثابت ہوگئی کہ یہ کہاجائے کہ مفضول کے علاوہ کسی کو خلیفہ بنائے جانے کا امکان ہی نہیں تھا۔جب وہ لوگ ایسا کرنے پر قادر تھے اوروہ کوئی بھی کام کرتے تو امت کی بہتری کے لیے کرتے تھے اپنے نفس کے لیے نہیں ۔ تو پھر اس صورت میں یہ جائز نہیں رہتا کہ وہ امت کے مصلحت یعنی افضل کو ولایت کی تفویض کو جان بوجھ کر چھوڑ دیں ۔ اس لیے کہ وکیل اور ولی اورغیر کے لیے تصرف کرنے والے کے لیے جائز نہیں جس نے اسے اپنے کام پر امین بنایا ہے اس کی مصلحت کو ترک کردے۔ اس کے باوجود کہ وہ مصلحت کے حاصل کرنے پر قادر بھی ہو۔ تو پھر اس صورت میں کیا کہا جاسکتا ہے جب وہ دونوں باتوں پر برابر کی قدرت رکھتا ہو۔

دوسری بات:اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق میں سب سے افضل تھے۔ جو انسان بھی آپ سے جتنا مشابہ ہو وہ اس دوسرے سے اتنا ہی افضل ہوگا جو ایسا نہ ہو۔ یہ خلافت خلافتِ نبوت تھی۔ آپ کوئی بادشاہ نہیں تھے۔ پس جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا اور آپ کا قائم مقام ہوا ‘وہ آپ سے زیادہ مشابہت رکھتا تھا۔ اورجو آپ سے مشابہت زیادہ رکھتا ہو وہی افضل بھی ہو گا۔ پس جس کا جانشین دوسروں کی نسبت اس کے زیادہ مشابہ ہوتو مشابہت رکھنے والا افضل ہوگا۔ پس یہ خلیفہ یا جانشین افضل ٹھہرا۔جب کہ اس میں نظری طریقہ یہ ہے کہ :علما کرام نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن کے بڑے عالم تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سنت کے بڑے عالم تھے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے بہت بڑا جہاد کیا جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی ذات کیساتھ بہت بڑا جہاد کیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حکومت سے بے نیاز اور زاہد تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مال و دولت سے بے نیاز اور زاہد تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون خرابے سے بہت بچا کرتے تھے جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مال سے بچا کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جہاد بالنفس میں بھی حصہ لیا او ر اس میں صابر و ثابت رہے۔لیکن آپ نے اس وقت تک قتال نہیں کیا جب تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا ہی مقام نہیں مل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

((المجاہِد من جاہد نفسہ فِی ذاتِ اللّٰہ)) [الحدیث- مع اختِلاف فِی اللفاظِ-عن فضالۃ بنِ عبید رضی اللّٰہ عنہ ؛ فِی: سننِ التِرمِذِیِ؛ کتاب فضائِلِ الجِہادِ، باب ما جاء فِی فضلِ من مات مرابِطاً۔وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عن عقبۃ بنِ عامِر وجابِر۔ حدیث فضالۃ بنِ عبید حدیث حسن صحِیح ۔والحدیث أیضا فِی: المسندِ۶؍۲۰۔ ]

’’مجاہد وہ ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان کیساتھ جہاد کرے۔‘‘

حکومت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و کردار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ اکمل تھا۔تواس سے ثابت ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں اس لیے کہ قرآن کا علم سنت کے علم سے زیادہ معظم اور اہم ہے۔ صحیح مسلم میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((یؤم القوم أقرأہم لِکِتابِ اللّٰہِ، فِإن کانوا فِی القِرأۃِ سواء فأعلمہم بِالسنۃ)) [سبق ہذا الحدیث فِیما مضی 4؍280۔]

’’لوگوں کی امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا سب سے زیادہ پڑھنے والا(ماہر)ہو۔ اور اگر کتاب اللہ میں سبھی برابر ہوں تو جو کوئی سنت کا بڑا عالم ہو۔ ‘‘

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام قرآن جمع اور حفظ کیا۔اور کبھی کبھار ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپ کو پورا قرآن یاد تھا یا نہیں تھا؟ اور جہاد بالمال جہاد بالنفس پر مقدم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:

﴿ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ﴾ [التوبۃ41 ]

’’اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ﴾ [التوبۃ20 ]

’’جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں ، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ﴾ [الأنفال:72 ]

’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیااور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی ؛یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘

اس لیے کہ لوگ تو اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑتے ہیں ۔ اور جہاد بالمال کرنے والا حقیقت میں اپنا مال اللہ کی راہ خرچ کرتا ہے جب کہ جہاد بالنفس کرنے والے کو اپنی ذات کی نجات کی امید ہوتی ہے۔ کبھی اسے میدان جہاد میں شہادت نصیب ہوتی ہے (اور کبھی وہ غازی بن جاتا ہے)۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے قتال پر قدرت رکھنے والے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے بذات خود لڑنا تو بڑا آسان ہوتا ہے مگروہ مال اتنی ہی آسانی سے نہیں نکال سکتے۔ حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہوتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے بعض کا جہاد بالمال سے بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور بعض کا جہاد بالنفس سے بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔

مزید برآں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فتوحات اسلامیہ میں بذات خود ایسی تدابیر کرتے رہے جن کا موقع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نصیب میں نہیں آیا۔ایسے ہی آپ نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت کی جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شرف نہ مل سکا ۔آپ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کی وجہ سے بیعت رضوان کی ؛یہ اس وقت ہوا جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ مشرکین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے۔ اورآپ نے اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیکر ان کی طرف سے بیعت کی ۔یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کی طرف سے بیعت کی۔

جب کہ منصب و مال میں آپ کے زہد و ورع میں کوئی شک نہیں ۔ آپ نے بارہ سال تک حکومت کی۔ پھر خوارج کا ظہور ہوا جوکہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے آپ کا محاصرہ کرلیا حالانکہ آپ اس وقت رئے زمین پر خلیفہ تھے اور تمام مسلمان آپ کی رعیت تھے۔ مگر اس کے باوجود آپ نے کسی ایک مسلمان کو بھی قتل نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نفس کے دفاع میں جنگ کی۔ بلکہ آپ صابر و ثابت رہے یہاں تک کہ آپ کو قتل کردیا گیا۔

مگر مال کے بارے یہ ضرور ہے کہ آپ اپنے اقارب کو دوسروں سے زیادہ دیا کرتے تھے۔ اور آپ کے پاس مال کی فراوانی تھی۔ آپ نے جو کچھ کیا وہ تأویل کی بنا پر اپنے اجتہاد سے کیا ۔ اس اجتہاد پر فقہاء کی ایک جماعت آپ کے موافق ہے۔ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے مال خمس اور فئے کا حصہ رکھا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی جگہ بننے والے خلیفہ کا حق ہے۔یہ ابی ثور اور دوسرے فقہا کا قول ہے۔ اوربعض کہتے ہیں : قرآن میں قرابت داروں کا جو حق مذکور ہے اس سے مراد امام(یعنی حاکم وقت)کے قرابت دار ہیں ۔اور بعض کہتے ہیں : امام صدقات پر عامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال دار ہونے کے باوجود اس میں سے لے سکتا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے یہ دلائل اور تأویلات تھیں جو کہ آپ سے منقول بھی ہیں ۔ پس آپ نے جو کچھ کیا وہ بھی تویل کی ہی ایک قسم ہے جسے فقہا کرام کی ایک جماعت جائز قرار دیتی ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب میں سے کسی ایک کو بھی عطا کے ساتھ خاص نہیں کیا۔بلکہ آپ نے شروع ہی میں ان لوگوں سے جنگ شروع کردی جنہوں نے آپ سے جنگ شروع نہیں کی تھی۔یہاں تک ان معرکوں میں ہزاروں مسلمانوں قتل کردیے گئے۔ اگرچہ آپ بھی اپنے اس فعل میں متول تھے اور آپ کی اس تاویل پر فقہا کرام کی ایک جماعت نے موافقت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ باغی تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے باغیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:

﴿فقاتِلوا التِی تبغِی﴾ [الحجراتِ۹] ’’ جو گروہ زیادتی کرے اس سے جنگ کرو۔‘‘

لیکن اکثر علماء کرام رحمہم اللہ نے اس میں اختلاف کیا ہے ۔ جیسا کہ بہت سارے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی اختلاف رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ﴾ [حجراتِ۹]

’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کروپھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم(سب)اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ‘اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اگراہل ایمان کے دو گروہوں کے مابین جنگ واقع ہوجائے تو اللہ کا حکم یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان صلح کروا۔ اور پھر اگر ایک جماعت دوسری پر سرکشی کرے تو اس سے قتال کیا جائے۔مگر یہاں پر تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایاکرتی تھیں :

((ترک الناس العمل بِہذِہِ الآیِۃ)) [لا یوجِد ہذا الأثر مروِیاً عن مالکِ، ولکِن جاء فِی سننِ البیہقِیِ(۸؍۱۷۲) عن عائِشۃ رضی اللّٰہ عنہا ٔنہا قالت: ما رأیت مِثل ما رغِبت عنہ ہذِہِ الأمۃ مِن ہذِہِ الآیۃِ:﴿ وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ﴾۔ وذکر ہذا الأثر السیوطِی فِی الدرِ المنثور6؍91۔ وقال: أخرجہ ابن مردویہِ والبیہقِی فِی سننِہِ۔]رواہ مالِک بِِسنادِہِ المعروفِ عنہا

’’ لوگوں نے اس آیت پر عمل کرنے کو ترک کردیا۔‘‘

اکثر علما کرام رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ باغی جب تک امام سے جنگ نہ شروع کریں تو اس وقت تک ان سے قتال کرنا جائز نہیں ۔جیسا کہ خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کیساتھ کیا تھا۔ اس لیے کہ خوارج سے آپ کے قتال پر تمام علماء کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے۔ جس کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔بخلاف معرکہ صفین کے۔اس لیے کہ ان لوگوں نے تو حضرت سے جنگ شروع نہیں کی تھی بلکہ آپ کی بیعت سے انکار کردیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہل سنت و الجماعت جیسا کہ امام مالک امام احمد رحمہما اللہ اور دیگر ائمہ کہتے ہیں :

’’خوارج کے ساتھ آپ کی جنگ و قتال ماموربہ تھا جب کہ جنگ جمل اور جنگ صفین فتنہ کی جنگیں تھیں ۔‘‘

اگر کچھ لوگ کہیں : ہم نماز پڑھتے ہیں اور زکواۃ ادا کرتے ہیں ؛ مگر اپنا مال زکوا ۃحاکم وقت کو نہیں دیتے؛اوردیگر واجبات اسلام بھی ادا کرتے ہیں ۔ تو اس صورت میں اکثر علماء کرام کے نزدیک ان لوگوں سے قتال کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کا مذہب ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکواۃ سے جنگ کی تھی اس لیے کہ انہوں نے زکواۃ ادا کرنے سے مطلق طور پر انکار کردیا تھا۔ ورنہ اگروہ لوگ یہ کہتے کہ: ہم اپنے ہاتھوں سے زکواۃ ادا کرتے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیتے تو اس صورت میں اکثر علماء کرام کے نزدیک قتال جائز نہیں تھا۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل اور دوسرے علما کرام رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف شہروں کے علماء ان (جمل و صفین کی)جنگوں کو فتنہ کی لڑائیاں قرار دیتے تھے۔ لہٰذا جو انسان ان جنگوں میں شریک نہیں ہوا وہ ان لوگوں سے افضل تھا جو ان میں شریک ہوئے۔ یہ امام مالک احمد ابو حنیفہ اوزاعی ثوری رحمہم اللہ اور دیگر اتنے ائمہ و علماء کا مذہب ہے جن کی تعداد کا شمار کرنا ممکن نہیں ۔حالانکہ امام ابو حنیفہ اور دیگر کوفی فقہاء کے نزدیک امام قدوری ک رحمہ اللہ اوردیگر علماء کی نقل کے مطابق باغیوں سے جنگ کرنا جائز نہیں ۔ہاں اگر وہ خود امام کے خلاف برسر پیکار جنگ ہوجائیں تو پھر ان سے جنگ و قتال کرنا جائز ہے۔اور اگر وہ واجب زکواۃ ادا کررہے ہوں ۔ مگر اسے حاکم وقت کے ہاتھوں میں دینے سے انکار کردیں تو پھر ان سے جنگ جائز نہیں ۔

ایسے ہی امام احمد اور دیگر ائمہ اور جمہور ائمہ وفقہا کا مذہب یہ ہے کہ قرآن میں مذکور ذوی القربی سے مراد رسول اللہ کے قریبی رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور امام کو وہ مقام یا رخصت حاصل نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی۔یہاں پرمقصود یہ ہے کہ یہ دونوں خلفاء اگرچہ اپنے افعال میں متأول اورمجتہد تھے اور ان علماء کرام کی ایک جماعت نے ان کی موافقت بھی کی ہے جو صرف علم اوردلیل کی روشنی میں بات کرتے ہیں ؛ اور ان دونوں کا کوئی کام ایسا بھی نہیں جس کی وجہ سے ان پر کوئی تہمت آتی ہو۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اجتہاد مصلحت کے زیادہ قریب اور فساد سے بہت دور تھا۔ اس لیے کہ خون کا خطرہ اور فتنہ مال کے خطرہ اور فتنہ سے بہت بڑھ کر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت بڑی پرامن اور پرسکون تھی۔ تمام امت اس وقت آپس میں متفق ومتحد تھی۔چھ سال تک لوگوں کو آپ کا کوئی برا نہیں لگا اور نہ ہی کسی چیزپر انکار کیا گیا۔ پھر باقی کے چھ سالوں میں کچھ ایسی چیزیں دیکھنے میں آئیں جن پر انکار کیا گیا۔ یہ ان چیزوں سے بہت کم تھی جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے وقت موجود تھیں ۔جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا وہ اوباش اور بے راہ رو نوجوانوں کا ایک گروہ تھا۔جب کہ بہت سارے سابقین اولین نے نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی اور نہ ہی آپ کی بیعت کی۔ بلکہ بہت سارے صحابہ او رتابعین نے آپ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شہروں کے شہر فتح ہوئے کفار کو قتل کیا گیا۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ ہی کوئی نیا شہر فتح ہوا اور نہ ہی کسی کافر کو قتل کیا گیا۔

یہ جوکچھ بھی ہوا اگریہ سارا رائے کا نتیجہ ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے زیادہ کامل و اکمل ہے۔ اور اگر یہ قصد و ارادہ کی وجہ سے ہے تو آپ کا قصدو ارادہ زیادہ مکمل و اتم تھا۔

نیز یہ بھی کہتے ہیں اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی کی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا:

(( لو کان عِندنا ثالِث لزوجناہا عثمان)) [سبق تخریجہ]

’’ اگر ہمارے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو ہم اس کی شادی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہی کردیتے ۔‘‘

اسی وجہ سے آپ کا نام ذوالنورین رکھا گیا۔ اس لیے کہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نبی کی دو بیٹیوں سے شادی کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بنی امیہ میں سے ایسے انسان کو بھی اپنا داماد بنایا جس کا مقام و مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بہت کم تھا۔ آپ نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کو اپنی بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا شادی کرکے دیدی تھی۔اور اس کے ساتھ سسرالی رشتہ کی شکر گزاری کے الفاظ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بطور حجت کے ارشاد فرمائے جب آپ ابو جہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا:

(( إِن بنِی المغِیرۃ استأذنونِی فِی أن ینکِحوا فتاتہم علِی بن بِی طالِب، وِإنِی لا آذن، ثم لا آذن، ثم لا آذن، إِلا أن یرِید ابن بِی طالِب أن یطلِق ابنتِی ویتزوج ابنتہم۔ واللّٰہِ لا تجتمِع بِنت رسولِ اللّٰہِ وبِنت عدوِ اللّٰہِ عِند رجل بدا، ِإنما فاطِمۃ بضعۃ مِنِی، یرِیبنِی ما رابہا ، ویؤذِینِی ما آذاہا،ثم ذکر صِہرا لہ مِن بنِی عبدِ شمس فأثنی علیہِ وقال:حدثنِی فصدقنِی، ووعدنِی فوفیٰ لِی )) [سبق تخریجہ]

’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کی اجازت طلب کی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا، [آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے]۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ اگر میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو ان کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔ فاطمہ! میرا جگر پارہ ہے جو اس کو شک میں ڈالتا ہے، وہ مجھے شک میں مبتلا کرتا ہے اور جو چیز اس کو ایذا دیتی ہے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا جو بنی عبد شمس کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے فرمایا: اس (آپ کے داماد ابوالعاص) نے جب بات کی تو سچ بولا اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ سسرالی و دامادی کے تعلق کا بھی یہی حال تھا۔ آپ ہمیشہ قابل تعریف ہی رہے۔ آپ سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہوئی جوکہ قابل سرزنش ہو۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اگر ہمارے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو ہم اس کی شادی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہی کردیتے ۔‘‘

یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دامادی تعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس تعلق سے زیادہ کامل تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آ پ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔ اور آپ کے بعد بھی کچھ عرصہ حیات رہیں آپ کی جدائی کا صدمہ اٹھایا۔تو آپ کو وہ فضائل حاصل ہوئے جو دوسری بیٹیوں کو حاصل نہ ہوسکے۔ اور یہ بات عام عادت کے مطابق معلوم ہے کہ چھوٹی سے پہلے بڑی بیٹی کی شادی کی جاتی ہے۔ تو ابو العاص نے پہلے زینب سے مکہ میں شادی کی۔ پھر اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما سے یکے بعد دیگر شادی کی۔

کہتے ہیں : شیعان عثمان رضی اللہ عنہ جو کہ آپ کے ساتھ خاص ہیں ۔ وہ خواص شیعان علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل اور زیادہ بہتر ہیں ۔ ان کا شر بہت کم ہے۔ اس لیے کہ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ پر جو سب سے بڑی تہمت ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انحراف اور برسر منبر آپ پر سب و شتم کرناہے۔اس کی وجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے مابین پیش آنے والے قتال اورجنگ وجدل کے واقعات ہیں ۔ مگر اس کے باوجود وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یا آپ کے محبین میں سے کسی ایک کو کافر نہیں کہتے تھے۔ جب کہ شیعان علی میں ایسے لوگ تھے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورامت کو کافر کہتے اکابر صحابہ پر لعنت کرتے تھے۔یہ جرم شیعان عثمان رضی اللہ عنہ کے جرم سے ہزار گنا بڑھ کر ہے۔

شیعان عثمان رضی اللہ عنہ کافروں سے جنگیں لڑا کرتے تھے۔ جب کہ رافضی کفار سے جنگ نہیں لڑتے۔شیعان عثمان میں کوئی ایک بھی زندیق اور مرتد نہیں تھا۔مگر شیعان علی رضی اللہ عنہ میں اتنے زیادہ زندیق اور مرتد داخل ہوگئے کہ ان کی صحیح تعداد کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ نے کبھی کفار سے موالات نہیں کی۔جب کہ رافضی یہود و نصاری اور مشرکین سے دوستی کرکے مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں ۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں ۔

شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک نے بھی نبوت یا الوہیت کا دعوی نہیں کیا۔ جب کہ شیعان علی رضی اللہ عنہ میں داخل ہونے والے بہت سارے لوگوں نے آپ کے معبود برحق اور نبی ہونے کا دعوی کیا ہے۔

شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے آپ کے امام معصوم یا منصوص ہونے کا دعوی کیا ہو۔ جب کہ رافضہ کا یہ ایمان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام منصوص اورمعصوم ہیں ۔شیعان عثمان رضی اللہ عنہ کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تقدیم پر اتفاق ہے۔ جب کہ متأخرین شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے اکثر ان حضرات کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔دوسری طرف روافض کا ان دونوں حضرات سے بغض رکھنے اور مذمت کرنے پر اتفاق ہے۔ جب کہ ان میں سے بہت سارے انہیں کافر بھی کہتے ہیں ۔

جب کہ زیدیہ میں سے بہت سارے لوگ ان دونوں حضرات کی مذمت کرتے ہیں اوران پر سب و شتم اور لعن وطعن کرتے ہیں ۔ جبکہ زیدیہ میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ آپ کو حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر فضیلت و ترجیح دیتے ہیں ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت اور آپ پر دشنام طرازی کرتے ہیں ۔

ایسے ہی شیعان عثمان میں ایسے لوگ بھی تھے جو نماز کو دیر سے پڑھتے؛ ظہر اور عصر میں تأخیر کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنو عباس کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ بنو امیہ کی نسبت نماز کے وقت کا بہت اچھا خیال کرنے لگے۔ مگر خواص شیعان علی رضی اللہ عنہ ائمہ ثلاثہ یا دیگر میں سے کسی ایک کی بھی امامت کا اقرار نہیں کرتے۔اسی لیے وہ نماز ترک کرنے کے معاملہ میں سب فرقوں سے آگے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ باقی شرائع کو بھی ترک کرتے ہیں ۔ اور یہ کہ یہ لوگ نہ ہی جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی باجماعت نماز۔ ان کی مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں ۔ یہ لوگ عصر اور عشاء کی نماز میں اتنی تقدیم اور مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر کرتے ہیں کہ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ لوگ دین سے بہت زیادہ منحرف ہیں ۔ اس پر مصیبت یہ ہے کہ ان کی مساجد تو ویران ہیں مگر درگاہیں آباد ہیں ۔ مشرکین اور اہل کتاب کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ان میں اگر کوئی نیک انسان مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے۔ پس یہ سبھی ایک ہی کچھ ہیں ۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعان میں جو شر و فساد پایاجاتا ہے وہ اس شر و فساد سے کئی گنا بڑھ کر ہے جو شیعان عثمان میں پایا جاتا ہے۔ اور جو خیر و صلاح شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی ہے وہ شیعان علی میں پائی جانے والی خیر و صلاح سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ بنو امیہ سبھی شیعان عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔بعد والوں کی نسبت ان کے زمانے میں شرائع اسلام غالب اور ظاہر تھیں ۔ صحیحین میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لا یزال ہذا الأمر عزِیزاً ِإلی اثنی عشر خلِیفۃ کلہم مِن قریش )) [سبق تخریجہ]

’’لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفا ان کے حاکم رہیں گے۔‘‘

یعنی دین اس وقت تک غالب رہیگا جب تک ان میں بارہ امام ہو گزریں ۔

بخاری کے الفاظ ہیں : اثنی عشر أمِیراً۔‘‘’’بارہ امیر۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :’’ لا یزال أمر الناسِ ماضِیا ولہم اثنا عشر رجلا ۔‘‘’’لوگ اس وقت تک خوشحال رہیں گے جب تک ان میں بارہ افراد ہوگزریں ۔‘‘

ایک روایت میں ہے: ’’لا یزال الِإسلام عزِیزا ِإلی اثنی عشر خلِیفۃ کلہم مِن قریش۔‘‘

’’اسلام کا معاملہ اس وقت تک غالب و سر بلند رہے گا جب تک بارہ خلیفہ ہوگزریں یہ سب قریش میں سے ہوں گے ۔‘‘ [سبق تخریجہ]

حقیقت میں ایسے ہی ہوا۔ حضرات خلفاء: ابوبکر و عمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم ۔ اور پھر ولایت اسے ملی جس پر لوگوں کا اتفاق ہوگا اور دین اسلام کو غلبہ اور حفاظت نصیب ہوئی۔یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پھر ان کا بیٹا یزید پھر عبدالملک بن مروان پھر اس کے چاروں بیٹے پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ۔ پھر اس کے بعد دولت اسلامیہ میں نقص آنا شروع ہوا جو کہ آج تک باقی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ تمام ارض اسلام کے والی تھے۔ اور ان کے زمانے میں ملک کو استحکام حاصل تھا۔ اورخلیفہ کو اس کے نام سے پکارا جاتا تھا جیسے عبد الملک اور سلیمان۔ لوگ اس وقت میں عضد الدولہ اور عزالدین اور بہاء الدین اور فلان الدین کے القاب کو نہیں پہچانتے تھے۔خلیفہ لوگوں کو پانچ وقت کی نمازپڑھاتا تھا۔مسجد میں بیٹھ کر اسلامی لشکر تیار ہوتا اور امراء مقرر کیے جاتے۔ اورخلیفہ اپنے گھر میں رہتا تھا قلعوں میں نہیں ؛اور نہ ہی لوگوں کو ان تک رسائی سے روکا جاتا تھا۔

اس کا سبب یہ تھا کہ وہ لوگ اسلام کے شروع میں قرون مفضلہ کے لوگ تھے جو کہ صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کا دور تھا۔ بنو امیہ پر لوگوں کے جو دو سب سے بڑے الزامات تھے وہ یہی تھے :ایک حضرت علی پر سب وشتم ۔ اور دوسرا نماز میں وقت سے تاخیر۔ حضرت عمر بن مرہ جملی رحمہ اللہ کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا۔ آپ سے پوچھا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ توآپ نے فرمایا: نماز کے وقت کی حفاظت اورحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت کردی۔ یہ اس انسان کا حال ہے جس نے اختلاف کے ظہور کے وقت ان دو سنتوں کی حفاظت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی۔ اور یہی حال ان تمام لوگوں کا ہوگا جو بدعت کے ظہور و انتشار کے وقت سنت کو اپنے گلے سے لگائیں گے۔ مثلا جوانسان خلفا ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی محبت کو اس وقت گلے سے لگالے جس وقت اس کے خلاف ہورہا ہو۔ یا اس طرح کی دیگر کوئی بات ہورہی ہو۔

پھریہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اوردین اسلام پر اس کی رحمت ہے کہ جب حکومت بنی ہاشم سے منتقل ہوئی تو بنو عباس میں چلی گئی ۔ اس لیے کہ سب سے پہلے جب بنو ہاشم[بنی عباس] کی حکومت بنی تو ان کا نعرہ تھا: رضائے آل محمد ۔ اس حکومت کے شیعہ بنو ہاشم سے محبت کرنے والے تھے۔ اور بنی ہاشم میں سے جو خلیفہ بنا وہ خلفا راشدین اور سابقین اولین مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کی قدر جانتا تھا۔ اس لیے ان کے دور حکومت میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی تعظیم وتکریم ہی ہوتی رہی۔ اورمنابر پر ان کا ذکر خیر اور ثنائے جمیل ہوتی رہی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم کے ترانے بجنے لگے۔ وگرنہ اگر کوئی رافضی منصب ولایت پر پہنچ جاتا تو-العیاذ باللہ -تووہ خلفا راشدین اور سابقین اولین رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتا اور سارے اسلام کو الٹ کر رکھ دیتا۔

لیکن اس حکومت میں وہ خود غرض بھی کسی طرح داخل ہوگئے جن کا باطن اچھا نہیں ۔اور انہیں ہٹانا بھی ممکن نہیں تھا جیسا کہ حضرت علی کے لیے اپنے لشکر کے بڑے بڑے امرا کو معزول کرنا ممکن نہ رہا تھا۔جیسا کہ اشعث بن قیس اشتر نخعی اورہاشم مرقال اور ان کے امثال و ہمنوا۔

ایسے ہی وہ مجوسی اہل بدعت اور زندیق بھی ان کی صفوں میں داخل ہوگئے جن کے دل میں اسلام کے خلاف بغض و حسد تھا۔ مہدی نے ان کو تلاش کرکے او رچن چن کر قتل کیا۔یہاں تک کہ بہت بڑے شرسے حفاظت اور دفاع ممکن ہوگیا۔ یہ مہدی بنو عباس کے بہترین خلفا میں سے ایک تھا۔ایسے ہی رشید کا معاملہ بھی تھا۔ اس میں علم و جہاد اور دین کی وتعظیم کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا یہی وجہ ہے کہ اس کے دور حکومت کو بنو عباس کا سنہری دور کہا جاسکتاہے۔ بالفاظ دیگر بنو عباس کی سعادت کا سورج اس وقت اپنی اوج تمام پر تھا۔ اس کے بعد بنو عباس کی شیرازہ بندی اس طرح سے ممکن نہیں رہی۔حالانکہ بنی عباس میں سے ایک بھی اندلس پر حکمران نہیں بنا۔نہ ہی مغرب کے اکثر علاقے ان کے زیر نگیں آئے۔ان میں سے بعض امرا کچھ عرصہ کے لیے افریقہ کے بعض علاقوں پر قابض ہوئے تھے پھر ان سے یہ علاقے چھین لیے گئے۔بخلاف بنو امیہ کے ۔ وہ تمام اسلامی مملکت کے حکمران تھے۔ اور انہوں نے دشمنان دین کو مغلوب کر رکھا تھا۔ ان کے کئی لشکر تھے۔ ایک لشکر اگر اندلس فتح کررہا تھا تو دوسرا لشکر بلاد ترک میں القان سے برسر پیکار تھا۔ تیسرالشکر بلاد عبید پر حملہ آور تھا تو چوتھا لشکر ارض روم میں جہاد کررہا تھا۔ اسلام کو روزر بروز قوت مل رہی تھی اسلام زمین میں پھیل رہا تھا۔ اور تمام روئے ارض پر غالب و سر بلند تھا۔ یہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فرمان کی تصدیق تھی جس میں آپ نے فرمایا تھا:

’’لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفاء ان کے حاکم رہیں گے۔‘‘

یہی وہ بارہ خلیفہ ہیں جن کا تذکرہ تورات میں کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بشارت میں ہے: اور یہ بارہ عظیم انسانوں کو جنم دے گا۔

جس کا یہ گمان ہو کہ ان بارہ سے مراد وہ بارہ امام ہیں جن کی امامت کا اعتقاد رافضی رکھتے ہیں تو وہ انتہائی جہالت کا شکار ہے۔اس لیے کہ ان بارہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں گزرا جسے قوت و شوکت حاصل ہو سوائے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے۔(یعنی صرف آپ ہی حکمران بنے اور آپ کے ہاں لشکرو سطوت اور بیعت حاصل تھی ) ۔ مگر اس کے باوجود آپ اپنے عہد خلافت میں کفار کے ساتھ کوئی جنگ نہ لڑ سکے۔ نہ ہی کوئی شہر فتح کیانہ ہی کسی کافر کو قتل کیا۔بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے میں مشغول ہوگئے۔یہاں تک کہ مشرق میں کفار اور بلاد شام میں مشرکین اور اہل کتاب ان کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بعض اسلامی شہروں پر بھی قبضہ کرلیا۔ اوربعض کفارکو خیر سگالی کے پیغام بھیجے جانے لگے تاکہ وہ مسلمانوں پر حملہ نہ کریں ۔ اس میں اسلام کی کونسی عزت ہے؟کہ ان کا دشمن انہیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ اوربعض علاقے بھی اس نے قبضہ کرلیے۔

جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی تمام ائمہ میں سے کسی ایک کو بھی قوت و سطوت حاصل نہ تھی خصوصا امام منتظر کو۔بلکہ جو لوگ اس کی امامت کا اعتقاد رکھتے ہیں ان کے نزدیک یہ انتہائی خوفزدہ اور عاجز امام ہیاور ساڑھے چارس وسال سے بھاگ کر کہیں چھپ گیا ہے۔یہ امام نہ ہی کسی کو کوئی ہدایت کی بات بتا سکا۔ اور نہ ہی امر بالمعروف کرسکا اور نہ ہی نہی عن المنکر۔ نہ ہی کسی مظلوم کی مدد کی اور نہ ہی کسی ایک مسئلہ میں کوئی فتوی دیا۔ نہ ہی کسی جھگڑے میں کوئی فیصلہ کیا۔ نہ ہی اس کے وجود کا کوئی اتہ پتہ ہے۔ اگر اس امام کو موجود ما ن بھی لیا جائے تو اس سے کونسا فائدہ حاصل ہوا؟ چہ جائے کہ اس کی وجہ سے اسلام کوغلبہ نصیب ہو۔

نبی کریم بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ:اسلام غالب رہے گا۔اوریہ امت صراط مستقیم پر رہے گی یہاں تک کہ بارہ خلفا جانشین ہوجائیں ۔اگر ان سے وہ بارہ مراد ہیں جن کا آخری امام منتظر ہے اور ان کے نزدیک وہ ابھی تک موجود ہے۔یہاں تک کہ اس کا ظہور ہوگا۔اسلام بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں غالب اور عزیز تھا۔اور مشرق و مغرب سے کفار کا خروج ہوا اور انہوں نے جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کیا اس کی تفصیل کے بیان کا یہ موقع نہیں اور اسلام آج تک غالب اور عزیز ہے۔ یہ تو اس حدیث کی دلالت کے خلاف ہے۔

مزید برآں امامیہ کے ہاں اسلام وہی ہے جس پر وہ لوگ قائم ہیں ۔ جب کہ یہ فرقہ پوری امت اسلامیہ کے تمام فرقوں سے زیادہ ذلیل اور راندہ درگاہ رہا ہے۔اہل اھوا میں سے کوئی بھی فرقہ روافض سے بڑھ کر ذلیل نہیں ہے ۔ اور نہ ہی کوئی ان سے زیادہ اپنی بات کو چھپانے والا اور بات بات میں تقیہ کرکے دھوکہ دینے والا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق-حدیث میں واردبارہ امام-شیعہ کے بارہ امام ہیں ۔جب کہ یہ لوگ انتہائی درجہ کی ذلالت ورسوائی کا شکار ہیں ۔ تو پھر ان کے اس گمان کے مطابق اسلام کو ان بارہ ائمہ کی وجہ سے کونسی عزت اور غلبہ نصیب ہوا۔ بہت سارے یہودی جب اسلام کا اظہار کرتے ہیں تووہ شیعہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ تورات میں بارہ ائمہ کا ذکر ہے۔ تو یہ نئے اسلام کا اظہار کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ یہی شیعہ کے بارہ امام وہ ائمہ ہیں جن کی بشارت تورات میں دی گئی ہے۔ جب کہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد قریش کے وہ بارہ امام ہیں جنہیں امت کی عام ولایت نصیب ہوئی۔اوران کے زمانے میں اسلام غالب اور مستحکم تھا۔یہ بات بہت مشہور و معروف ہے۔

ابن ہبیرہ نے اس حدیث میں تاویل کی ہے کہ اس سے مراد بارہ ارکان مملکت ہیں مثلا وزیرقاضی اور اس طرح کے دوسرے لوگ۔ حالانکہ اس کی کوئی اہمیت یا ضرورت نہیں ۔ حدیث اپنے ظاہر پر ہے۔اس میں تکلف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔بعض دوسرے لوگوں جیسے ابو الفرج ابن جوزی وغیرہ نے بھی اس کی بہت ضعیف تاویل کی ہے۔ اوربعض نے کہہ دیا ہے کہ ہم اس کا معنی سمجھنے سے قاصر ہیں جیسا کہ قاضی ابوبکر ابن العربی۔جب کہ مروان اور ابن زبیر میں سے کسی ایک کو بھی ولایت عامہ حاصل نہ تھی۔بلکہ ان کا زمانہ فتنہ کا زمانہ تھا۔اس دور میں نہ ہی اسلام کو کوئی غلبہ حاصل ہوا اور نہ ہی دشمنان سے جہاد کیا گیا جس کو حدیث شامل ہو۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی اسی باب سے قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ :آپ کی خلافت نص اور اجماع سے ثابت نہیں ہوتی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور بعض دوسرے ائمہ کرام نے ان لوگوں پر رد کیا ہے۔ان ائمہ کا کہنا ہے : جو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھا خلیفہ شمار نہ کرے وہ گھر کے گدھے سے بھی بدتر ہے۔انہوں نے خلافت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات پرحضرت سفینہ رضی اللہ عنہ والی روایت سے استدلال کیا ہے جس میں ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ تکون خِلافۃ النبوۃِ ثلاثِین سنۃ ثم تکون ملکاً۔‘‘[سبق تخریجہ]

’’خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی۔ پھر اس کے بعدبادشاہی ہوگی۔‘‘

فرمایا: کسی نے راوی سے کہا:بنو امیہ کہتے ہیں :حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے۔ تو آپ نے فرمایا: بنوزرقاء (نیلی آنکھوں والے کی اولاد)نے جھوٹ بولا۔ اس موضوع پرتفصیلی کلام دوسرے مقامات پر گزر چکاہے۔یہاں پر مقصود یہ ہے کہ جس حدیث میں بارہ خلفاء کا ذکر ہے خواہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان میں داخل مانا جائے یا نہ مانا جائے اس سے مراد قریش کے وہ خلفاء ہیں جو کہ گزر چکے ہیں ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ میں دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر خلافت کے حق دار تھے۔ اس میں کسی ایک عالم کو بھی کوئی ادنی شک بھی نہیں ہے۔

[ سیرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پلڑا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے مقابلۃ بھاری ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عمرمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیس سال زیادہ بڑے تھے۔ اس بات پر صحابہ کا اجماع قائم ہو چکا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ ان دلائل سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت واضح ہو تی ہے]۔

جب یہ بات واضح ہوگئی تو رافضی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو ایسے فضائل ذکر کیے ہیں ‘ جو عنداللہ فضائل ہیں تو وہ حق ہیں ۔مگر پہلے تین خلفاء ان فضائل میں آپ سے زیادہ کامل و اکمل تھے۔