Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل چہارم : ائمہ اثنا عشرہ کی امامت کا اثبات

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل چہارم :
ائمہ اثنا عشرہ کی امامت کا اثبات

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ہم کئی طریقوں سے بارہ اماموں کی امامت ثابت کرتے ہیں ۔ اس کا پہلا طریق نص ہے۔چنانچہ شیعہ تمام بلاد و امصار میں خلفاًعن سلفٍ نقل کرتے چلے آئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہا:’’ یہ خود امام ، امام کا بھائی اور امام کا بیٹا ہے اس کی نسل سے نو امام ہوں گے، امام قائم کا نام میرا نام اور کنیت بھی میرے جیسی ہوگی۔ وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح وہ جورو استبداد سے بھر چکی ہوگی۔‘‘

[جواب]:اس کاجواب کئی طرح سے ہے:

پہلا جواب یہ ہے کہ: یہ شیعہ پر بہتان ہے۔ تمام شیعہ نے یہ بات نہیں کہی، بلکہ یہ مختلف شیعہ گروہوں میں سے بعض شیعہ کا قول ہے۔اکثر شیعہ خصوصاً تمام زیدیہ اس کو اسی طرح جھوٹا سمجھتے ہیں جیسے اہل سنت۔ زیدیہ کا فرقہ تمام شیعہ فرقوں میں زیادہ دانش مند صاحب علم اور مقابلۃً بہتر ہے۔تمام اسماعیلیہ کے نزدیک بھی یہ جھوٹ ہے ۔ شیعہ کے تقریباًستر فرقے ہیں جو سب اس روایت کوجھٹلاتے ہیں ۔یہ روایت اور مذکورہ بالا نظریہ متاخرین شیعہ اثنی عشریہ کی اختراع ہے۔جملہ طور پر شیعہ کے متعدد فرقے ہیں ؛ ان میں سے ان کی بڑی اقسام بیس ہیں ؛ ایک فرقہ کے علاوہ باقی تمام لوگ اس کاانکار کرتے ہیں ؛ توپھر شیعہ کے تواتر کا دعوی کرنا کیا معانی رکھتا ہے۔

دوسرا جواب:....یہ روایت شیعہ اثنا عشریہ کے علاوہ باقی شیعہ فرقوں کی نقل کردہ روایت کے معارض ومناقض ہے۔مثلاً جو لوگ بارہ ائمہ نہیں مانتے ؛ اورراوندیہ کی نقول بھی اسی طرح کی ہیں ۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک کا دعوی اثناعشری شیعہ کے دعوی کے برعکس ہے۔

تیسرا جواب:....متقدمین شیعہ علماء کرام نے اس نص کو اس طرح نہیں سمجھا‘ اور نہ ہی انہوں نے اپنی کتابوں میں کوئی ایسا ذکر کیا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے۔جب کہ ان کے واقعات متواتر اور مشہور ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ متأخرین شیعہ کی اختراع ہے۔یہ روایت اس وقت گھڑلی گئی جب حسن بن علی عسکری نے ( بلا وارث) کا انتقال ہوگیا۔ اور پھر یہ دعوی کیا جانے لگا کہ : امام عسکری کا بیٹا محمد روپوش ہوگیا ہے۔اس وقت یہ نص بھی ظہور میں آئی۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً دوسو پچاس سال کے بعد کا واقعہ ہے۔

چوتھا جواب:....دوسری جانب اہل سنت اور علماء اہل سنت اور ناقلین آثار جو شیعہ سے [ہر لحاظ سے]کئی گنا زیادہ ہیں ؛وہ سبھی بغیر کسی شک و شبہ اور تردد کے علم یقینی کے طور پر جانتے ہیں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عظیم بہتان ہے۔ بلکہ اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔اگر شیعہ علماء یہ دعوی کریں کہ وہ اس کے متواتر ہونے کا علم رکھتے ہیں ۔ یہ بھی بالکل ایسے ہی ہے جیسے علماء اہل سنت اس روایت کے جھوٹ ہونے کادعوی کرتے ہیں ۔

پانچواں جواب:....تواتر کی شرط یہ ہے کہ کسی روایت کے ناقلین کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ طرفین اور وسط کے لوگوں کو یقینی علم حاصل ہو جائے۔ حسن عسکری کی موت سے پہلے کوئی بھی شخص امام منتظر کا قائل نہ تھا۔اور نہ ہی حضرت علی اوربنو امیہ کے دور میں کسی ایسے انسان کے بارے میں علم ہوسکاہے جس نے بارہ ائمہ اور امام غائب کے عقیدہ کا اعلان یا دعوی کیا ہو۔ اس وقت تو دعوی کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منصوص ہونے کا دعوی کرتے تھے ۔ [البتہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعد میں آنے والے ائمہ کی امامت کے دعوے دار تھے]۔ بارہ اماموں کی امامت کا دعویٰ جن کا آخری امام ہنوز معدوم ہے؛ متقدمین میں سے کسی نے نہیں کہا تھا اور نہ کسی ناقل نے اسے نقل کیا۔[ پھر تواتر کا دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟ ]۔

چھٹا جواب:....اصل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایک بھی رافضی نہیں تھا۔اگرچہ بعض دعوی کرنے والوں نے چند ایک صحابہ کے بارے میں ایسا دعوی کیا بھی ہے ‘لیکن یہ صحابہ کرام پر محض جھوٹ ہے ۔ اس صورت حال میں تو کوئی تواتر ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اگر ایک تھوڑی سی تعداد ایک مذہب پر متفق ہو بھی جائے تو ان کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن ہوتا ہے ‘ [اس لیے تواتر ثابت نہیں ہوسکتا]۔ رافضہ جب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں تو پھر اس روایت کے ناقلین پر قلت تعداد کے باوجود جھوٹ کو کیسے جائز نہیں سمجھ سکتے ؟ اگران میں سے کسی ایک نقل بھی کیاہو تو ۔پھر اگر صحابہ کرام کے دور میں اتنی تعداد نہیں پائی جاتی جس سے تواتر ثابت ہوسکے تو پھر یہ دعوی شروع سے ہی اپنی جڑوں سے ہی کٹ گیا۔

ساتواں جواب:....روافض کا دعوی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں چند ایک کے علاوہ جن کی تعداد دس تک بڑی مشکل سے پہنچتی ہے یا اس سے بھی کم رہتی ہے؛ باقی سارے لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ یہ ثابت علی الاسلام رہنے والے صحابہ : سلیمان ‘عمار؛ ابو ذراورمقداد تھے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ باقی جمہور صحابہ کرام نے تو یہ نص نقل نہیں کی ۔ شیعہ کے نزدیک ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ نص چھپالی تھی۔ تو پھر شیعہ کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس نص کی روایت کو ان صحابہ کرام کی طرف منسوب کریں ۔جب کہ دوسرے لوگوں کے بارے میں شیعہ کا خیال ہے کہ ان سب کا موالات علی پر اجماع تھا۔ پس اس صورت میں وہ چھوٹی جماعت جن کا ایک بات پر جمع ہونا ممکن ہو ‘ ان کے نقل کرنے سے تواتر حاصل نہیں ہوسکتا۔کیونکہ ان کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن اورجائز ہوتاہے۔

جب رافضی جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر-ان کی کثرت کے باوجود- جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتے ہیں ‘اور انہیں اسلام سے مرتد قراردیتے ہیں ۔اور ایسی باتیں چھپانے کا الزام لگاتے ہیں جن کاعادت کے مطابق چھپایاجانا ممکن نہیں ؛ تو پھر ایک چھوٹے سے گروہ پر جھوٹا ہونے کا الزام زیادہ آسان اوراولیٰ ہے۔

جب یہ لوگ اپنی خواہشات کے خلاف کوئی چیز نقل کرتے ہیں تو پھر کھل کر صحابہ کرام کو جھوٹے کہتے ہیں ۔توپھر ایسے مسئلہ ان کی تصدیق کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟ [جب کہ وہ صحابہ کو سچے نہیں مانتے]۔جب روایت کے نقل کرنے والے ہی اپنی خواہشات کے مطابق نقل کررہے ہوں ۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت میں اتباع ہوی سے کام لیتے ہیں ۔تو پھر آپ کے بارے میں نص نقل کرنے میں کیسے ان لوگوں کی تصدیق کی جاسکتی ہے؟جب کہ تمام اہل علم وعقل جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے فرق شیعہ سے بڑھ کرعمداً جھوٹ بولنے اور حق بات کو جھٹلانے والا کوئی دوسرا فرقہ نہیں ۔جب باقی فرقوں کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔خوارج اگرچہ دین سے نکل چکے ہیں ؛ مگروہ عمداً جھوٹ نہیں بولتے۔معتزلہ سچائی کو دین سمجھتے ہیں ۔لیکن شیعہ پر ان کے ظہور کے وقت سے ہی جھوٹ غالب ہے۔

آٹھواں جواب :....کہا گیا ہے کہ شیعہ امامیہ نے پہلی مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات میں بالنص کا دعویٰ خلافت راشدہ کے آخری دَور میں کیا۔ عبد للہ بن سباء [بارہ اماموں کی امامت کو نص کے ساتھ ثابت کرنے میں شیعہ کا دعویٰ کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں : (۱) سیدنا علی کی امامت و ولایت کی نص۔ امام ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں اس کے ابطال کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ سیدنا علی نے نص صریح کے مطابق اپنے بیٹے حسن کو امام مقرر کیا تھا ہم قبل ازیں اس کا بطلان ثابت کر چکے ہیں ۔ (۲) شیعہ کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وصی ہونا نص سے ثابت ہے، مشہور شیعہ عالم الکشی نے اعتراف کیا ہے کہ اس عقیدہ کا موجد عبد اﷲ بن سباء تھا ہم قبل ازیں یہ حوالہ نقل کرچکے ہیں ۔]اور اس کے ہم نواء کذابین کے ایک گروہ نے اس عقیدہ کا اختراع کیا تھا۔ اس بارے میں ہم حتمی طور پر جانتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے اس دعوی اوران لوگوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔تو پھر تواتر کا دعوی کہاں سے آگیا ؟ [اوراس کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے ]۔

نوواں جواب:....وہ احادیث مبارکہ جوحضرات ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں ؛ وہ عوام و خواص میں زیادہ اور اعظم تواتر کیساتھ پائی جاتی ہیں ۔اگر یہ بات جائز ہے کہ ان فضائل کے نقل کرنے کی وجہ سے جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کی جائے؛ توپھر شیعہ کے اس تواتر پر تنقید کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔اور اگر اس تواتر پر تنقید ممکن نہیں ہے تو پھر پہلے قسم کی روایات پربدرجہ اولی ممکن نہیں ۔جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ان نصوص کثیرہ متواترہ کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں ؛ تو پھر ان لوگوں کا اس نص کی مخالفت پر اجتماع و اتفاق محال ہے۔ اس لیے کہ اگر مخالفت کوسچ تسلیم کرلیا جائے تو یہ سب سے بڑا گناہ اور اللہ کی نافرمانی وسرکشی ہوگی۔

دسواں جواب:....شیعہ امامیہ میں سے کوئی ایک بھی متصل سند کیساتھ اس روایت کو ثابت نہیں کرسکتا‘ اسکے تواتر کا دعوی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔یہ الفاظ تکرار کے محتاج ہیں ۔جب ان الفاظ کے نقل کرنے والوں نے انہیں پڑھا سنا نہیں ہوگا تو وہ انہیں یاد بھی نہیں رکھ سکیں گے۔ حالانکہ اس وقت میں قوی حافظہ والے لوگ موجود تھے جنہوں نے قرآن یاد کیا؛ [احادیث حفظ کیں ] تشہد اور اذان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسل در نسل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ۔[تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشادفرمائے ہوتے جیسا کہ شیعہ کا دعوی ہے توصحابہ کرام اورتابعین انہیں ضرور نقل کرتے ؛ان کا اس روایت کو نقل نہ کرنا اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے کی ایک نشانی ہے]۔ جب ہم فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں تواتر کا دعوی کرتے ہیں توکبھی یہ دعوی تواتر معنوی کے لحاظ سے ہوتا ہے جیسے خلفاء اربعہ کی خلافت؛ جمل اور صفین کے واقعات ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنا۔ اوراس طرح کے دیگر واقعات جن کے نقل کرنے کے لیے متعین الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ واقعہ کا مشہور و معروف ہونا ضروری ہوتاہے۔جیسا کہ صحابہ کرام کی مسابقت اور ان کے اعمال کے بارے میں تواتر۔اور کبھی یہ تواتر لفظی ہوتاہے؛یعنی راویانِ حدیث ایک ہی جیسے ایسے الفاظ میں روایت نقل کریں جن سے علم ضروری حاصل ہو۔

گیارھویں وجہ:....اہل بیت [مثلاً امام جعفر صادق، ان کے والد اور ان کے دادا امام زین العابدین علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ ] سے منقول تواتر خود اس روایت کو جھٹلا رہا ہے ؛ اس لیے کہ یہ لوگ اپنی امامت کو مبنی بر نص نہیں قرار دیتے تھے ۔بلکہ ایسا دعوی کرنے والوں کو جھٹلایا کرتے تھے۔چہ جائے کہ وہ ایسی نصوص سے بارہ ائمہ کی امامت ثابت کریں ۔

بارھویں وجہ:....بارہ ائمہ کے متعلق جو صحیح حدیث وارد ہوئی ہے اسے امام بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا؛ میں نے سنا کہ آپ فرمایارہے تھے:

’’ لوگ اس وقت تک امن و چین اور عزت سے زندگی بسر کرتے رہیں گے جب تک بارہ آدمی ان کے حاکم و امام رہیں گے۔ پھر آہستہ آواز سے ایک بات کہی جو مجھ سے پوشیدہ رہی۔ جب میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ بارہ اشخاص سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔‘‘[متفق علیہ]۔ 

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’اسلام اس وقت تک غالب رہے گا؛ یہاں تک کہ بارہ خلیفہ ہو گزریں ۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ یہ دین اس وقت تک غالب رہے گا؛ یہاں تک کہ بارہ خلیفہ ہو گزریں ۔ پھرآپ نے آہستہ آواز سے ایک بات کہی جو مجھ سے پوشیدہ رہی۔ جب میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ بارہ خلفاء سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔‘‘[البخاری ۹؍۸۱؛ مسلم ۳؍۱۴۵۲۔]

تورات کی عبارات اس کی تصدیق کرتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس حدیث سے اثناء عشریہ کے بارہ امام مراد نہیں لیے جا سکتے ۔ اس لیے کہ حدیث کے واضح الفاظ ہیں کہ: ’’اسلام اس وقت تک غالب رہے گا؛یا فرمایا:’’یہ دین اس وقت تک غالب رہے گا۔‘‘ یا فرمایا کہ :’’لوگ اس وقت تک خوشحال رہیں گے۔‘‘

یہ تمام روایات دلالت کرتی ہیں کہ ان ائمہ کی ولایت کے عہد میں اسلام کو قائم اور غالب ہونا چاہیے۔ اور جب ان کی مدت ولایت ختم ہوجائے گی تو اسلام کا بھی وہ غلبہ اوراستحکام نہیں رہے گا۔

شیعہ خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک امام کے زمانہ میں بھی امت کا شیرازہ متحد نہ رہا بلکہ امت تفرق و انتشار کا شکار رہی، اور سرکش باغی ظالموں اور کافروں نے انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھا؛ منافق اور کافر ان پر غالب رہے ۔اور اہل حق ان کے عہد امارت میں یہود سے بھی زیادہ ذلیل رہے۔ مزید براں امام منتظر کی امامت شیعہ کے نزدیک تاقیام قیامت باقی رہے گی۔تو پھر اس صورت میں اثناعشریہ کے نزدیک کوئی زمانہ بھی ان کے امام سے خالی نہیں رہے گا۔اگر ایسا ہوا تو پھر زمانہ دو طرح کا نہیں رہے گا ؛ ایک وہ زمانہ جس میں دین اسلام کا معاملہ غالب و قائم ودائم ہو اوردوسرا وہ زمانہ جب اسلام کو غلبہ و استحکام نصیب نہ ہو۔ بلکہ یہ ہر زمانہ میں ایک ہی جیسا رہے گا۔یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے۔نیز یہ اسلام مہدی کے قیام کے بعدراہ راست پر قائم ہوگا۔ یہ مہدی اہل سنت و الجماعت کا مہدی ہے۔جب کہ رافضیوں کے مہدی کی مدت بہت قلیل ہے ؛ اس میں اس امت کے معاملات کی شیرازہ بندی ممکن نہیں ۔

نیز یہ کہ حدیث میں آتا ہے: ’’ یہ تمام ائمہ قریش میں سے ہوں گے ۔‘‘

اگریہ صرف اولاد علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہوتے تو پھر حدیث میں ضرور کوئی ایسا ذکر بھی ہوتا جس سے ان میں باہم تمیز ممکن ہوجاتی۔ کیا آپ غور نہیں کررہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ ائمہ اولاد اسماعیل میں سے ہوں گے۔اور نہ ہی عربوں کو خاص کیاہے۔اگرچہ یہ اولاد اسماعیل ہی میں سے ہیں ۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قبیلہ کا بیان کیا جس کی وجہ سے یہ لوگ ممتاز ہوں گے۔اگریہ لوگ ہاشمی ہونے کی وجہ سے ممتاز ہوتے یا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کی وجہ سے خاص ہوتے تو پھر اس کا ضرور ذکر بھی کیا جاتا۔ جب آپ نے اس خلافت و امامت کو مطلق طورپر قریش کے ساتھ رکھا ہے کسی ایک قبیلہ کے ساتھ خاص نہیں کیاتوپھر یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ بنو عدی؛ بنو تیم؛ بنو عبدشمس اور بنوہاشم وغیرہ تمام ہی قریش میں سے ہیں اور خلفاء راشدین کا تعلق ان ہی قبائل سے ہے ۔