Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[ خروج مہدی ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[ خروج مہدی ]

[٭ اہل سنت والجماعت اس مہدی کو منتظر نہیں کہتے۔ اس لیے کہ وہ کسی ایسے مہدی کا انتظار نہیں کر رہے جو آ کر ان کا دین مکمل کرے گا۔ بخلاشف شیعہ کے‘ جو کہ اس کا انتظار کرنے والے کے لیے بہت بڑا اجر بتاتے ہیں ؛ جو کہ شہدائے بدر و أحد کے اجر سے بڑھ کر ہے۔ دیکھیں : بحار الأنواراز مجلسی ۵۲؍۱۲۸۔ بیشک امام مہدی کے بارے میں شیعہ اثنا عشریہ کے ہاں بڑی ہی عجیب و غریب حکایات پائی جاتی ہیں ۔ جن کی چادر کو خیال کی ڈوریوں سے بنا گیا ہے۔ اور اس کے لیے مختلف واقعات و احوال گھڑ لیے ہیں ۔ جس بعد میں زمانے کی کہانیوں میں سے ایک کہانی کی شکل دے دی گئی۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے کہ عقل سلیم اور فطرت اس کا انکار کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں ‘ بلکہ اثنا عشریہ فرقہ کے علاوہ باقی شیعہ فرقے بھی اس کہانی کا انکار کرتے ہیں ۔بس ہم اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ کسی عاقل کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ : سو جاؤ ‘ ابھی بہت لمبی(]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’آخری زمانہ میں میری اولاد میں سے ایک شخص نکلے گا، جس کا نام میرا نام اور جس کی کنیت میری کنیت ہو گی، وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیگا جیسے وہ ظلم و استبداد سے بھر چکی تھی ؛یہ مہدی ہو گا۔‘‘[رات ہے ....[عاقل کے لیے اشارہ کافی ہے]۔یہاں پر ایک چھوٹا سا حوالہ دیا جارہا ہے کہ شیعہ کے نزدیک مہدی کے اس کے علاوہ دیگر کیا نام ہیں ۔ ان ناموں کی حقیقت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رافضی مہدی کون ہوگا؟ اور اس کے پس پردہ محرکات کاجائزہ ہم نے ایک دوسری کتاب ’’طلوع آفتاب مہدی‘‘ میں لیا ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے مہدی کے لیے مختلف نام بھی رکھے ہیں ۔امام غائب کے ناموں میں سے ۷۴ نمبر کا نام جیسا کہ نوری طبرسی نے شمار کیا ہے : خسرو مجوس....[ مجوسیوں کا صاحب زمان کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟] آپ کے ناموں میں سے مزید نام : ....أقیذمو....ایزد شناس....پرویز ....بندہ یزدان....خجسۃ ....فیروز....خدا شناس ....سروش أیزد ... .زند أفریس ....شماطیل....فرخندہ ....کوکما اور ان کے علاوہ دوسرے نام بھی ہیں جن کا تذکرہ نوری الطبرسی نے اپنی کتاب النجم الثاقب میں کیا ہے ۔النجم الثاقب في أحوال الحجۃ الغائب ص ۲۶۶۔ ان اسماء کے پڑھنے والے قاری صاحب کو اس بات پر تعجب ضرور ہوگا اوروہ سوال کرے گا کہ کیا مہدی عربی نہیں ہوگا ‘ اور اس کا تعلق ہاشمی نسل سے نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ نام کیسے ہیں ؟ گویا کہ اس میں باقی مذاہب و ادیان کو ملا کر ایک جسم بنادیا گیا ہے۔ اور یہ اس سوچ کے تحت کہ مذکورہ مہدی پوری انسانیت کا نجات دھندہ ہوگا۔  امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایاہے : ’’ مہدی کے بارے میں وارد احادیث جن کے بارے ہم مطلع ہوسکے ہیں ان کی تعداد پچاس احادیث ہیں ۔ ان میں صحیح بھی ہیں ‘ حسن بھی اورایسی ضعیف بھی جنہیں قبول کیا جاسکے۔ یہ احادیث بغیر شک و شبہ کے متواتر ہیں ۔ بلکہ اس سے کم پر بھی تواتر کی اصطلاح صادق آتی ہے جیسا کہ اہل علم کے ہاں اصطلاحات اوراصول کی کتابوں میں تحریر شدہ ہے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مہدی کے بارے میں وارد آثاربہت زیادہ ہیں ۔ جن کا حکم مرفوع حدیث کا ہے؛ اس لیے کہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[التوضیح فيتواتر ما جاء في المنتظر والدجال و المسیح ‘ نقلاً عن الإذاعۃ لصدیق حسن خان ص ۱۱۳۔۱۱۴۔]مسیح ومہدی کے مسئلہ پر علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ’’ التصریح فی تواتر نزول مسیحً‘‘ میں بھی عمدہ کلام کیا ہے ۔]

ابوداؤد نے یہ روایت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں ذکر کی ہے :’’ وہ سات سال تک زمین میں بادشاہی کرے گا۔‘‘[محمد باقر الصدر نے امام مہدی کی مدت قیام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے : اس کے بارے میں اخبار بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن ساری مضمون کے لحاظ سے بہت بڑی حد تک آپس میں ٹکراتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بہت سارے مؤلفین حیرانگی اور پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں ۔‘‘ [الغیبۃ للطوسي ص ۴۷۴۔ الغیبۃ للنعماني ص ۳۵۳۔ أعلام الوری للطبرسي ۲؍۲۹۱۔ الإرشاد للمفید۲؍۳۸۱۔ بحار الأنوار ۵۲؍ ۲۸۰؛ ۲۸۷؛ ۲۹۱؛ ۲۹۸؛ ۲۹۹۔ تاریخ ما بعد الظہور ص۴۳۳]۔ ]

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا:

’’بیشک میرا یہ بیٹا سردار ہے؛جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانام رکھا ہے۔عنقریب اس کی نسل سے ایک شخص پیدا ہو گا، جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نام ہو گا، وہ سیرت و کردار میں ان جیسا ہو گا۔ مگر شکل وصورت مختلف ہو گی۔ وہ زمین کو عدل سے معمور کردے گا۔‘‘[بعض روایات میں آیا ہے : ’’ ہمارے قائم کاملک انیس سال تک رہے گا۔ اورایک روایت میں ہے : سات سال تک رہے گا؛ ان سات سالوں میں سے ایک سال کے دنوں اور راتوں کو اللہ تعالیٰ اتنا لمبا کردے گا یہاں تک کہ ایک سال دس سالوں کے برابر ہوگا ۔ پھر اس لحاظ سے ان کی حکومت کی مدت تمہارے ان ستر سالوں کے برابرہوگی۔‘‘ایک اور روایت کے مطابق امام صاحب اس دنیا میں اصحاب کہف کی مدت یعنی ۳۰۹سال تک قیام کریں گے۔ایسے ہی امام صاحب کتنا عرصہ غار شریف میں روپوشگی فرمائے رہیں یہ ایک علیحدہ طویل اوراختلافات سے بھر پور داستان ہے۔ یہ اتنے تناقضات ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آتے۔جو اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ ان لوں کے پاس اس مسئلہ میں کوئی ایک مضبوط ‘ صحیح اور قابل اعتماد شرعی دلیل نہیں ۔ سب لوگوں کی گھڑی داستانیں اورقصے کہانیاں ہیں ۔ حتی خود شیعہ علماء اب اپنی ہی روایات کو جھٹلا رہے ہیں ۔ ﴿ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ (النساء۸۲) ’’اور اگر وہ اللہ کے سوا اور کہیں سے آیا ہوتا (جیسے کافر اور منافق سمجھتے تھے) تواس میں بہت سا اختلاف پاتے۔‘‘ سنن ابی داؤد، کتاب المھدی (ح:۴۲۸۳،۴۲۹۰) یہ حدیث الفاظ میں معمولی اختلاف کیساتھ شعیب بن خالد نے ابو اسحاق سے روایت کیاہے؛یہ حدیث منقطع ہے۔ ابو اسحق سبیعی کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ثابت نہیں ہے۔ ]

ان احادیث کے بارے میں کئی ایک گروہ غلط فہمی کاشکار ہوئے ہیں ۔بعض لوگوں نے تواحادیث مہدی کا بالکل ہی انکار کردیا۔اوروہ ابن ماجہ کی اس حدیث سے دلیل پیش کرتے ہیں :

’’ لَا مَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی بن مریم۔‘‘ ’’عیسی بن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں ۔‘‘[ابن ماجۃ ۲؍۱۳۴۰ ۔ کتاب الفتن ‘ باب شدۃ الزمان۔السلسلۃ الضعیفۃ برقم۷۷؛ ج۱؍ص۱۰۳۔ أبو داؤد ۴؍۱۵۳]۔]

ایک تویہ روایت ضعیف ہے۔ محمد بن ولید بغدادی اور کچھ دوسرے ایسے لوگوں نے اس روایت پر اعتماد کیا جو خود قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے یونس سے ؛ انہوں نے شافعی سے اوروہ اہل یمن کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں ۔اس آدمی کا نام محمد بن خالد جندی تھا۔اس کی روایات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔اورنہ ہی یہ روایت مسند امام شافعی میں موجود ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : امام شافعی کا جندی سے سماع ثابت نہیں ۔اور یونس کا امام شافعی سے سماع ثابت نہیں ۔

[جواب]:ہم کہتے ہیں :’’وہ احادیث جن سے خروج مہدی پر استدلال کیا جاتا ہے وہ صحیح ہیں ۔ ان کو احمد و ابوداؤد و ترمذی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے آپ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہا تو اللہتعالیٰ اس دن کو لمبا کردیں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سی- یا فرمایا: ہم میں سے- ایک شخص نکلے گا جس کا نام میرے نام پر اوراس کے والد کانام میرے والد کے نام پر ہوگا ، وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب المھدی(ح:۴۲۸۲)۔ سنن ترمذی کتاب الفتن، باب ما جاء فی المھدی (ح:۲۲۳۰)۔ ]

ترمذی و ابوداؤد نے یہ روایت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے، اس کے الفاظ ہیں : ’’ مہدی میری عترت میں سے اولاد فاطمہ رضی اللہ عنہا میں سے ہوگا۔‘‘[یہ حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔سنن ابی داؤد، کتاب المھدی؛ الباب الأول ( ح: ۴۲۸۴)، سنن ابن ماجۃ مختصراً، کتاب الفتن،باب خروج المھدی(ح:۴۰۸۶)؛ اس روایت کے الفاظ ہیں : ’’المہدي من ولد فاطمۃ۔‘‘ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا۔ صححہ الألبانی في السلسلۃ الضعیفۃ ۱؍۱۰۸۔ رضی اللّٰہ عنہم عن أبی سعید الخدري رضی اللّٰہ عنہ ؛ سنن أبی داؤد، کتاب المھدی؛ الباب الأول (ح: ۴۲۸۵)۔وحسنہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر۶؍۲۲۔]

ایک مجوسی کا لے پالک اور پروردہ تھا۔ان لوگوں نے اپنی حکومت قائم کرلی تھے ‘اوربہت سارے لوگ ان کے ماننے والے تھے۔ مختلف علماء مثلاً ابو بکر باقلانی و قاضی عبد الجبارہمدانی اور امام غزالی نے ان کے نقائص و معائب پر کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں ان کے اسراروں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔

ایسے ہی دعویداروں میں سے ایک محمد بن عبد اللہ بن تومرت بربری تھا ؛ اس نے مغرب سے خروج کیا تھا۔اس کے اصحاب کوموحدین کہا جاتا تھا۔خطبات میں اس کا نام یوں لیا جاتا تھا:

’’امام معصوم اورمہدی معلوم ۔‘‘ وہ جو زمین کو عدل وانصاف سے ایسے بھر دے گا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔‘‘

جس نے اپنے شجرہ نسب کو حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملا لیا تھا۔یہ محض رافضی نہیں تھا؛ بلکہ اسے احادیث کے بارے میں بھی کچھ علم تھا جس کی بنیاد پر اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کرحضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہونے کا دعوی کیا۔جو کہ حدیث میں واردمواصفات کے مطابق تھا۔لیکن یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے کہ یہ وہ مہدی نہیں تھا جس کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔

جیسا کہ دوسرے بہت سارے لوگوں نے ایسے دعوے کیے ہیں ۔ ان میں سے بعض قتل کردیے گئے۔اور بعض لوگوں کے چاہنے والوں نے ان کے متعلق ایسے دعوے کیے ہیں ۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں صحیح معنوں میں اللہ ہی جانتا ہے ۔اور بسا اوقات ان میں سے کسی ایک وجہ سے لوگوں کو فائدہ بھی حاصل ہوا ہوگا۔ اگرچہ کچھ دوسرے لوگوں کونقصان بھی پہنچا ہو ۔جیسا کہ مغرب میں ظہور کرنے والے مہدی کی وجہ سے ہوا۔اس سے بہت سارے لوگوں کوفائدہ حاصل ہوا۔اوربہت سارے گروہوں کونقصان پہنچا۔ اس میں کئی قابل مذمت باتوں کے باوجود کئی ایک قابل مدح و توصیف باتیں بھی تھیں ۔

بہر حال یہ اور اس جیسے دوسرے مہدی رافضیوں کے اس مہدی سے بہت بہتر تھے۔جسکی نہ ہی کوئی شخصیت اور نہ ہی نام و نشان کا کوئی پتہ ہے۔نہ ہی اس کا احساس ہے نہ ہی خبر۔نہ ہی اس سے کسی کوکوئی دنیا کا فائدہ ملانہ ہی دین کا۔ بلکہ اس کے موجود ہونے کے اعتقاد کی وجہ سے اتنا بڑاشرو فساد پیدا ہوا جس کو صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔