Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

[فصل:....امام معصوم کا وجوب]

  امام ابنِ تیمیہؒ

[فصل:....امام معصوم کا وجوب]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’دوم: ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر زمانہ میں امام معصوم کا وجود ضروری[واجب] ہے۔ ظاہر ہے کہ ان ائمہ کے بغیر اور کوئی معصوم نہیں ہو سکتا؛ اس پر اجماع ہے۔‘‘[مجلسی نے کہا ہے: ’’ بیشک عقل حکم لگاتی ہے کہ لطف کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے۔ اور امام کا وجود اللہ تعالیٰ کا لطف [مہربانی] ہے۔اور امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو؛ اور معصوم ہونا صرف اس کی طرف سے ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ اور اس بات پر اجماع ہے کہ امام (]

جواب]:اس کے جواب میں کئی نکات ہیں :

[زمان کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے عصمت ثابت نہیں ہے ۔‘‘ بحار الأنوار ۵۱؍۲۱۴۔۲۱۵۔ معصوم ہونے سے شیعہ کی مراد واضح کرتے ہوئے مجلسی کہتا ہے: ’’ جان لیجیے کہ امامیہ کا آئمہ کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے معصوم ہونے پر اتفاق ہے۔ ان سے اصل میں کوئی گناہ ہو ہی نہیں سکتا ‘ نہ ہی صغیرہ نہ ہی کبیرہ ؛ نہ ہی جان بوجھ کر اور نہ ہی بھولے سے ؛ اور نہ ہی تأویل میں غلطی سے؛ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سہو ہوجانے سے ۔‘‘ بحار الأنوار ۲۵؍۲۰۹۔ مرأۃ العقول ۴؍۳۵۲۔ مجلسی آئمہ پر ہر لحاظ اور ہر طرف سے اور ہر گناہ سے عصمت کے ثابت کرنے کا قائل ہے۔ خواہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ ‘ عمداً ہو یا سہواً ‘ حتی کہ بھول سے بھی عصمت ثابت کرتاہے۔ اور اس پر شیعہ کے اجماع کا دعوی بھی کیا ہے۔ جوکہ انبیاء و مرسلین کے لیے بھی ثابت نہیں ۔ جیساکہ قرآن کی و حدیث کی صریح نصوص اور اجماع امت اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ اسلامی اصولوں کے مطابق یہ انتہائی غریب چیز ہے۔ بلکہ آئمہ سے مطلق طور پر سہو اور نسیان کی نفی کرنا اس ذات سے تشبیہ دیناہے جسے نہ ہی کبھی نیند آتی ہے اورنہ ہی اونگھ۔ اسی لیے امام رضا- جوکہ شیعہ کے ہاں آٹھویں امام معصوم ہیں - سے کہا گیا: بیشک کوفہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بھول نہیں ہوئی۔‘‘ تو انہوں نے کہا : ان پر اللہ کی لعنت ہو وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ بیشک جس سے بھول نہیں ہوتی وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ بحار الأنوار ۲۵؍۳۵۰۔شیعہ کی بعض کتابوں میں ایسی روایات بھی آئی ہیں جو شیعہ علماء کے مقرر کردہ اصولوں پر عصمت کے منافی ہیں ۔نہج البلاغۃ میں وہ روایات موجود ہیں جو عصمت آئمہ کے ان تمام دعووں کی عمارت کو گرادیتی ہیں ۔امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ مجھ سے مصنوعی طور پر میل جول نہ رکھو۔اورنہ ہی مجھے میرے حق میں اس چیز میں بوجھ سمجھو جو حق کے ساتھ میرے متعلق کہی گئی ہے۔ اور نہ ہی میں اپنے نفس کے لیے کوئی بڑائی تلاش کرتا ہوں ۔ بیشک جس آدمی پر حق بات کہنا گراں گزرے‘ یا اس پر عدل کا پیش کیا جاناگراں ہو‘ تو اس کے لیے ان دونوں چیزوں پر عمل کرنازیادہ گراں ہوتا ہے تم مجھ سے حق بات پر؛ یا عدل کے مشورہ پر دفاع نہ کرو ۔اس لیے کہ میں اپنے نفس میں اس چیز سے بلند نہیں ہوں کہ مجھ سے کوئی خطأ نہ ہو ‘ اور نہ ہی خطأ کے ہوجانے سے خود کو مأمون سمجھتا ہوں ۔‘‘نہج البلاغۃ ۲؍۲۰۱۔ نہج البلاغہ میں ہی حضرت علی کا یہ فرمان بھی منقول ہے : ’’ لوگوں کے لیے ایک امیر کا ہونا ضروری ہے۔خواہ وہ نیکو کار ہو یا بد کردار۔ مؤمن اس کی امارت میں کام کرے گا۔ اور کافر بھی اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی مدت بھی پوری کردے گا۔ اور اسی سے اللہ تعالیٰ فئے جمع کریگا۔ اور دشمن سے قتال کیا جائے گا۔ اور اس کی وجہ سے راستے محفوظ ہوں گے۔ اور اسی امیر کے ذریعہ طاقتور سے مظلوم کو اس کا حق دلوایا جائے گا۔ نہج البلاغۃ ۱؍۹۱۔ یہاں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو امام کے معصوم ہونے کے لیے کوئی شرط نہیں لگائی۔ اور نہ ہی کوئی قریب یا دور کا ایسا اشارہ ہی کیا ہے۔-شیعہ روایات کے مطابق - ابو الحسن موسیٰ کاظم رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’اے میرے رب ! میں نے اپنی زبان سے تیری نافرمانی کی۔ اگر تو چاہے تو تجھے تیری عزت کی قسم ہے مجھے گونگا کردے۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے تیری نافرمانی کی ‘ اگر تو چاہے تو مجھے اندھا کردے۔ اور میں نے اپنے کانوں سے تیری نافرمانی کی ؛ اگر تو چاہے تو مجھے بہرا کردے۔ اور میں نے اپنے ہاتھوں سے تیری نافرمانی کی ؛ اگر تو چاہے تو مجھے ٹنڈا کردے۔ اور میں نے اپنی شرمگاہ سے تیری نافرمانی کی۔اور اگرتو چاہے تو مجھے بانجھ کردے۔اور میں نے اپنے قدموں سے تیری نافرمانی کی۔ اگر تو چاہے تو تیری عزت کی قسم ! تومجھے جذامی کردے۔ اور میں نے اپنے تمام جوارح سے تیری نافرمانی کی ؛ جن کا تونے مجھ پر انعام کیا ہے۔یہ ہر گز میری طرف سے ان انعامات کا بدلہ نہ تھا۔‘‘بحارالأنوار ۲۵؍۲۰۳؛ أصول مذہب الشیعۃ الإمامیۃ ۲؍۹۴۱؛ ۹۴۳ ؛۹۶۲ وغیرہ۔]

پہلا جواب:....ہمارے نزدیک امام معصوم کا وجود ہر زمانہ میں ضروری نہیں ۔

دوسرا جواب:....خود شیعہ کے کئی گروہ ان پر ایمان نہیں رکھتے۔[یعنی بارہ اماموں کو نہیں مانتے ]۔

تیسرا جواب:....اگر شیعہ کے دعویٰ کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہمارے زمانہ میں شیعہ جس امام معصوم کے دعویٰ دار ہیں ، وہ اپنی پیدائش کے وقت سے[آج تک] چار سو پچاس سال[آج کل ہمارے دور میں تقریباً گیارہ سو اسی سال] سے زائد عرصہ سے گم ہے، [اس کا کوئی نشان ظاہر نہیں ہے]۔ان کے نزدیک یہ امام دو سو ساٹھ ہجری میں سامراء کے غار میں گھس گیا تھا ۔اس وقت اس کی عمر پانچ سال تھی۔اور بعض کے نزدیک اس سے بھی کم عمر تھی۔مزید برآں کہ امام غائب سے کوئی ایسا اثر ظاہر نہیں ہوا جو کسی ادنی انسان سے بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ اس سے بڑھ کرکہ کسی ایک دوسرے حاکم ‘ والی یا قاضی کے آثار ظہور پذیر ہو رہے ہیں ۔چہ جائے کہ وہ امام معصوم والے کام کرے۔ بنا بریں ہم کہتے ہیں کہ ایسے امام کے وجود سے کون سا فائدہ حاصل ہوا؟ اس کا وجود اور و عدم برابر ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ معدوم ہے۔جو لوگ اس معصوم پر ایمان لائے ہیں ؛ انہیں ان کے دین یا دنیا میں کونسی مہربانی یا لطف اس امام کی وجہ سے حاصل ہوا۔[ہم شیعہ سے دریافت کرتے ہیں کہ ایسے امام سے انھیں قدیم و جدید زمانہ میں کیا مصلحت حاصل ہوئی؟]۔

٭ کیا یہ نظریہ[جہلاء] عوام الناس کے اس نظریہ سے بھی زیادہ فاسد نہیں ہے جس کے تحت و نام نہاد قطب و غوث وغیرہ فقط ناموں کی تعظیم کرتے ہیں ۔اور ان ناموں کے متعلق ایسے دعوے کرتے ہیں جو کہ نبوت کے رتبہ سے بھی اعلی تر ہوتے ہیں ۔جس میں کسی متعین شخص کو خاص نہیں کیا جاتا جس سے وہ فائدہ حاصل ہونا ممکن ہو جس کے متعلق ان ناموں کے تحت یہ لوگ دعوی کرتے ہیں ۔اور جیسا کہ بہت سارے لوگ حضرت خضر علیہ السلام کی حیات کا دعوی کرتے ہیں ‘ مگر اس دعوی کی وجہ سے انہیں دین یا دنیا میں کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ان کے دعوی کا منتہی یہ دوسرا دعوی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ پر بعض واقعات پیش آتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ان کے لیے مقدر ہوتے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود انہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہ ہی ان کی معرفت کی کوئی ضرورت ہے۔ اوراگریہ سب باتیں حق بھی ہوں تب بھی انہیں اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب کہ ان کا دعوی ہی باطل پر مبنی ہو۔

٭ ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی جنّ انسانی شکل میں آتا ہے او رکہتا ہے: میں خضر ہوں ۔ حالانکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ اور ایسے ہی بعض لوگ رجال غیب کے دیدار کا ذکر کرتے ہیں ‘ حالانکہ انہوں نے جنات کودیکھا ہوتا ہے۔

٭ جس امام کا دعوی رافضی کرتے ہیں ؛ وہ یا تو ان کے نزدیک مفقود ہے یا پھر عقلاء کے نزدیک معدوم ہے۔ دونوں صورتوں میں اس سے کسی ایک انسان کو بھی دین یا دنیا کا کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ پھر جو کوئی اپنے دین کوایسی مجہولات کیساتھ معلق کردے جن کا کوئی ثبوت ہی نہ ہو‘ تو وہ دین کے معاملہ میں بڑا ہی گمراہ ہوگا۔اس لیے کہ جس چیز کے ساتھ اس نے اپنے دین کو معلق کیا ہے اس کے درست ہونے کا کوئی علم ہی نہیں ۔اور نہ ہی اس سے کوئی منفعت حاصل ہوئی۔ تو کیا کسی بڑے جاہل کے علاوہ بھی کوئی انسان ایسے کرسکتا ہے؟

حالانکہ جو لوگ حیات خضر کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ لوگوں پر ان کی اطاعت کو واجب نہیں کرتے۔ حالانکہ خضر تو [ایک وقت میں ] زندہ اورموجود بھی تھے۔