Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت مولانا علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ کا فرمان


حضرت مولانا علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ

حضرت مولانا علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ کا فرمان

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ سپاہ صحابہ والو! کیا کرتے ہو ۔ شیعہ نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں ، آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہیں، قرآن بھی پڑھتے ہیں، ختم نبوتﷺ کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ وہ مؤمن نہیں کافر ہے؟ 

 جواب: امام اہلِ سنت، وکیل صحابہ حضرت مولانا علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کو سمجھو پھر تمہیں سپاہ صحابہؓۢ کا موقف سمجھ میں آجائے گا۔

میرے محترم دوستو!

ہر کوئی جو مؤمن کہلائے وہ مؤمن نہیں ہوتا۔ اگر قرآن سے ، اگر گواہی سے اور اگر دلائل شرعیہ سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ فلاں شخص یا جماعت کا عقیدہ ضروریاتِ دین کے انکار کا ہے، اور اسلام کے اصول کے خلاف ہے، اس کے باوجود شخص کہتا پھرتا ہے کہ جی! میں مؤمن ہوں، تو اس کو مؤمن نہیں مانا جائے گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں اس کی وضاحت بیان فرمائی ہیں ۔۔۔۔۔

ومن الناس من يقول أمنا بالله و باليوم الآخر:

کئی لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھی اور یوم آخرت پر بھی، یعنی ہم مؤمن ہیں، تو قرآن کریم نے فرمایا ۔۔۔۔ ومساهم بمؤمنین: حالانکہ مؤمن نہیں .... وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مؤمن ہیں، قرآن کہتا ہے کہ وہ مؤمن نہیں ہے۔ تو کیا ہے ؟

فرمايا ۔۔۔۔ واذا جاء وكم قالوا أمنا: جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں امنا: ہم مؤمن ہو گئے ہیں۔ حالانکہ وقد دخلوا بالكفر و هم قد خرجوا به: حالانکہ جب داخل ہوئے تھے اُس وقت بھی کافر تھے، جس وقت نکلے تب بھی کافر تھے۔

آنے سے جانے تک یہ مؤمن بنے ہی نہیں، انہوں نے جھوٹ بولا، ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔

  جو بظاہر کہتے ہیں کہ جی! ہم مانتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ نہیں مانتے یہ جھوٹے ہیں، اس وقت اس جھوٹ کا نام نفاق رکھ لیا گیا اور آج اس کا نام تقیہ رکھ لیا گیا ہے۔

انہوں نے اس وقت بظاہر کلمہ بھی پڑھ لیا تھا اور گواہی بھی دی تھی: 

اذا جاءك المنفقون قالوا نشهد انك لرسول الله: یقیناً آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ بظاہر حضوراکرم ﷺ کا ادب بھی کرتے تھے۔

و من الناس من يعجبك قوله في الحیوة الدنيا:

 الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ جب آپ سے بات کرتے ہیں تو آپ کو ان کی بات اچھی لگتی ہے 

و يشهد الله على ما في قلبه: اور دل میں جو بات ہے اس پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گواہ ہے ہمیں آپ سے بہت محبت ہے۔

بظاہر شکل وصورت بھی شریعت کے مطابق بنائے تھے 

و اذار ايتهم تعجبک اجسامهم: آپ دیکھتے ہیں تو آپ کو ان کے اجسام ظاہری بھی پسند آتے۔

بظاہر بات بھی اخلاق سے کرتے تھے وان يقولو اتسمع لقولهم: اگر وه بات کرتے ہیں تو آپ کے ہاں تو ان کی شنوائی ہوتی ہے تو یہ اخلاق سے بات کرتے ہیں۔

بظاہر نماز بھی پڑھتے ہیں واذا قاموا الى الصلوة قاموا كساليٰ: نماز پڑھتے ہیں لیکن سستی سے سستی سے سہی لیکن نماز پڑھتے تو ہیں۔

بظاہر مال و دولت بھی خرچ کرتے تھے،ولا ينفقون الا وهم كارهون: دل سے نہیں کرتے ہیں، یعنی دل کھول کر نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کیلئے ہیں، لیکن چندہ وندہ بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ بظاہر شامل رہیں۔ بظاہر مساجد میں آنا اور مساجد کی تعمیر بھی کرتے ہیں، والذين التخذوامسجداضرار او کفرا وتفريقاء الخ: صرف مساجد میں آنا ہی نہیں بلکہ وہ مسجد بنا کر آپﷺ کو دعوت بھی دیتے ہیں کہ حضرت ہماری مسجد کا افتتاح کرو۔ 

بظاہر امن امن کی باتیں بھی کرتے ہیں انما نحن مصلحون: ہم تو اصلاح پسند ہیں، ہم تو کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں چاہتے ، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، ہم تو کہتے ہیں کہ بھائی کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں ۔

یااللہ! آخر ان کی پہچان کیا ہے؟

جبکہ ان کے لئے احکام سخت ہیں کہ حضورﷺ سے فرمایا جاتا ہے۔ فان رجعك الله إلى طائفة منهم فاستاذنوك للخروج فقل لن تخرجوا معي ابدا ولن تقاتلوا معى عدوا: آپ کے ساتھ چلنا چاہیں جنگ پر تو اُن کو کہیں کہ کوئی ضرورت نہیں آپ کو، چلے جاؤ۔

حضوراکرمﷺ کے ساتھ جب جنگ پر جانے کی کوشش کر رہے تھے تو کلمہ گو ہوں گے یا کلمہ والے نہیں ہوں گے؟کلمہ گو ہوں گے۔

وہ جب چندہ لے کر آئیں گے تو ان سے کہو انفقوا طوعا اوكرها لن يتقبل منكم: تم سے نہیں لیا جائے گا۔ یہ جو چندہ دینے آتے ہیں تو کلمہ گو ہوں گے یا کلمہ والے نہیں ہوں گے کلمہ گو ہوں گے۔

وہ مسجد بنا کر آپﷺ کو افتتاح کے لئے دعوت دیتے ہیں،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں روکتا ہوں لا تقم فيه ابدا: ہرگز اس مسجد میں نہ جانا ، جانا ہی نہیں بلکہ

حضوراکرمﷺ نے وہ مسجد ضرار گرادی۔

یااللہ! دعا کروں ان کے لئے؟ فرمایا استغفر لهم أو لا تستغفر لهم أن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم: دعا کریں یا نہ کریں ، یہ اتنے گندے ہیں ... اگر آپ ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا۔

یااللہ: پڑوس کا مسئلہ بھی ہوتا ہے، ان کے رشتہ دار بھی ہیں اور کئی معاملات ہیں تو اس کی وجہ سے ان کا خیال کرنا پڑتا ہے؟ فرمایا فلا تعجبك اموالهم ولا اولادهم انمايريد الله ليعذبهم بها في الحيوة الدنيا و تزهق انفسهم وهم کفرون: ان کے مال اولاد جو ہیں وہ آپ کو پسند نہ آئے اور اس کی وجہ سے ان کی رعایت نہیں ہونی چاہیئے ۔ اور کچھ نہیں تو اب تعلقات بھی ختم۔۔۔

یااللہ مر جاتے ہیں۔جنازہ پڑھنے کی اجازت ہے فرمایا و لا تصل علی احد منهم مات ابدا: ان میں سے کسی کو موت آجائے تو اس کا نماز جنازہ بھی نہ پڑھئے ولا تقم علی قبرہ: یہ اتنے غلیظ ہیں کہ ان کے قبر پر کھڑے ہونے کی بھی اجازت نہیں، سارے کافر جہنم میں جائے گے لیکن ان کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ان المنفقين في الدرك الأسفل من النار: یہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ یہ منافقین ہیں۔ (پیغام قرآن:جلد:1:صفحہ:449)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

 کلمہ پڑھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ جل نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گستاخ کو کافر کہا ہے۔

حضوراکرمﷺ کے زمانہ میں کلمہ پڑھنے والے آدمی دوقسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں ( صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) جو اعلیٰ ترین مسلمان ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ جل نے جنت اور اپنی رضا کی بشارت اور خوشخبری سنا دی، اور دوسرے ہیں ( منافقین ) جو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے،اور کہلاتے دونوں مؤمن ہیں۔ کلمہ دونوں پڑھتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ان دونوں طبقوں کو الگ الگ کیا، پہلے حضور اکرمﷺ سے فرمایا وممن حولكم من الاعراب منٰفقون ومن أهل المدينة مردوا على النفاق، لا تعلمهم نحن نعلمهم: یہاں مدینے میں آس پاس کچھ پکے منافق ہیں،آپ انہیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔

اب آگے حضوراکرمﷺ کو بتایا گیا کہ آپ کو کچھ علامات اور نشانیاں ان کی بتلاتے ہیں وحی کے ذریعے۔ آپ ان کو باتوں میں ہی پہچان لیں گے، بات کے انداز

سے بھی آپ ان کو پہچان لیں گے۔

آگے صاف طور پر حضوراکرمﷺ کو بتلایا گیا کہ دیکھو مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو ہیں او لٸک هم الصدقون:ںیہ سارے سچے ہیں، وہ مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنہوں نے سب کچھ چھوڑا آپ کو نہ چھوڑا۔

اب جب آپ تشریف لائے مدینہ میں وممن حولكم من الاعراب منٰفقون، ومن أهل المدينة مردوا على النفاق: یہاں جوکلمہ پڑھنے والے ہوئے نٸے، ان میں کچھ منافق لوگ بھی ہیں۔

یا اللہ! یہاں مدینہ میں سچوں کی پہچان کیا ہے؟ فرمایا والذین تبوو الدار والايمان من قبلهم يحبون من هاجر الیهم: یہاں کلمہ پڑھنے والے سچوں کی نشانی یہ ہے کہ صرف کلمہ پڑھنے کی بات نہیں ، صرف آپ کی خوشامد اور چاپلوسی کی بات نہیں۔

آپ کی وجہ سے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہجرت کر کے آپ کے ساتھ آئے ہیں ان سے بھی پیار رکھتے ہوں۔ اور منافقین کی علامت یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں لیخرجن الأعزامنها الأذل: وه مهاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ذلیل اور بے عزت کہتے ہیں انٶمن كما أمن السفهاء: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بے وقوف کہتے ہیں (معاذ اللہ)

ولٸن سالتهم:اگر آپ نے پوچھ لیا کہ یہ کیا کرتے ہو تم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟ لیقولن: تو کہنے لگتے ہیں انما کنا نخوض و نلعب: جی دل میں یہ بات نہیں ہے، ہم صرف مذاق کر رہے تھے ۔ جب انہوں نے کہا کہ ہم مذاق کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قل اباالله و ايمانه ورسوله كنتم تستهز،ون: آپ یوں کہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ کیونکہ ان مہاجرین کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سچا کہا، ان کے متعلق یہ دل آزار گفتگو کرنا تو اللہ تعالیٰ سے مذاق ہوا، اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ تم مذاق کر رہے تھے ۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے سچا کہا، جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضور اکرمﷺ اتنی عزت دیتے ہیں، پیار دیتے ہیں ان کی گستاخی کر کے حضوراکرمﷺ کا مذاق اڑا رہے ہوا لا تعتذروا: بہانے مت بناو وقد كفر تم: کافر ہو تم قد كفر تم بعد ايمانكم: ابوجہل کی بات نہیں. بعدایمانکم: ایمان کے بعد ، مؤمن کہلانے کے بعد کلمہ پڑھنے کے بعد نماز پڑھنے کے بعد ، نیک اعمال کرنے کے بعد اور بظاہر اسلام کا دعوی کرنے کے بعد یہ باتیں کر کے تم اپنا کفر واضح کر رہے ہو۔

اب ایک مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہو گئے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے سچا کہا۔ دوسرے وہ انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنہوں نے مہاجرین کے ساتھ محبت کیا اور ان کے ساتھ تعاون کیا، وہ بھی سچے۔ تیسرا گروہ وہاں کلمہ پڑھتا ہے نماز پڑھتے ہیں، خیرات کرتے ہیں۔ لیکن مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آزاد گفتگو کرتے ہیں، ان کی گستاخی کرتے ہیں ان کا نام منافقین ہے۔ بد ترین کافر جو کہلاتا مؤمن ہے

۔اُس وقت اللہ تعالیٰ نے نشانیاں بتلائے حضور اکرمﷺ کھڑے ہو گئے تو آپﷺ نے فرمایا: فلاں فلاں فلاں چھتیس آدمیوں کو اٹھ جاؤ اخرجوا فانكم منافقون: نکل جاؤ تم منافق ہو، چھتیس آدمیوں کو حضور اکرمﷺ نے مسجد سے نکال دیا ۔

الغرض یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض اور دشمنی رکھنے والے حضور اکرمﷺ کے دور میں بھی مسلمان نہیں تھے، اگر چہ مسلمان کہلاتے تھے۔ اگرچہ مسجد بناتے تھے ۔ اگرچہ چندہ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن آج اگر بظاہر اسلام کا دعویٰ کریں اور اپنے آپ کو مؤمن کہیں تو کیوں مسلمان ہو گئے ؟ آج آپ کا زمانہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ سے زیادہ برکت والا تو نہیں

( پیغام قرآن: جلد:1:صفحہ:454)

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ، اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں حضور اکرمﷺ کو مانتے ہیں ، قرآن کو مانتے ہیں صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نہیں مانتے پھر آپ ان کو کافر کیوں کہتے ہو؟

جواب: پہلی بات یہ کہ سپاہ صحابہ نے کبھی بھی شیعہ پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا، بلکہ اسلام کے چودہ سو سالہ ہر دور میں اسلاف اور اکابرین نے شیعہ کے کفریہ فتویٰ دیا ہے، سپاہ صحابہ نے غیرت ایمانی سمجھ کر وہ فتاویٰ جات ... امت مسلمہ کے سامنے بیان کئے ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فریق مخالف حملہ کرتا ہے گواہ پر حقیقت میں وہ دشمن ہے

اصل فریق کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر حملہ کرنے والا اصل دشمن ہے حضور اکرمﷺ کا۔ اس لئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریمﷺ کی ہر چیز کے گواہ ہیں ۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مخالف ہوا تو پھر توحید والی آیات رہی کہاں؟ جب نعوذ باللہ قرآن کے لکھنے والے مجروح ہو گئے، غلط ہو گئے تو ختم نبوت والی آیات رہی کہاں ؟ پھر نماز رہی کہاں؟ پھر روزہ رہا کہاں؟ پھر حج رہا کہاں؟ دین کا کوئی حصہ رہا کہاں؟ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیثیت یہ ہے کہ ان کے بغیر اسلام کا کوئی عقیدہ اور کوئی حصہ ہمیں مل نہیں سکتا، کیونکہ یہ تمام چیزیں ان ہی کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔

(پیغام قرآن: جلد:3:صفحہ:299)

سوال: بعض لوگ کہتے ہے کہ ہمارے علاقہ کے شیعہ تو کوئی گستائی نہیں کرتے۔۔

جواب : شیعہ دن میں تین مرتبہ سر عام لوڈ سپیکر پر اپنے اذان میں اشهدان علي ولي اللة وخليفته بلا فصل: کہ سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کو غاصب کہتے رہتے ہیں ۔ کیا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی نہیں ہے؟

سوال: شیعہ کہتے ہیں تمہارے چھ کلمے ہیں ؟

جواب: ہم پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہیں گے لیکن بات ہے اس کلمے کی جس سے کافر کو مسلمان کیا جاتا ہے۔ اختلاف ہے اس کلمے میں جس سے کافر دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اس کلمے کی بات کریں۔ وہ کلمہ توحید شیعوں کا مسلمانوں سے جدا ہے۔

(ضرب حیدری:صفحہ:287)

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ کے جو عقائد ہم بیان کرتے ہیں ان سے وہ برات کا اظہار کرتے ہیں اگر چہ تقیہ:ںہی کہیں، لہٰذا ان کو کافر نہ کہنا چاہئے؟

جواب: محترم صاحب! آپ کسی بھی مسئلے کی حقیقت سمجھنے کیلے تھوڑا سا گہرائی

میں جانے کی زحمت کر لیا کریں۔ آپ کوئی ایک دو ایسا تقیہ باز شیعہ بھی پیش نہیں کر سکتے جو تمام اپنے عقائد و اعمال ہمہ وقت چھپا جانے کا خوگر ہو یا ہر عقیدے سے برات کا اظہار کرتے ہوں تجربہ کرنے کے لئے عبادات و معاملات پر نظر رکھیں، اگر واقعتاً اس میں آپ کو کفر کی کوئی آلائش دکھائی نہ دے تو پھر صحیح ہو گا کہ آپ اسے مسلمان سمجھیں ، اور کفار کے ماحول سے بھی اسے بچا لائیں تاکہ وہ من تشبہ بقوم فهو منهم: کی زد میں آنے سے بھی بچ جائے۔۔

سوال: اگر شیعہ کہیں کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں اور کھل کر کہیں کہ ہم قرآن کے منکر کو کافر کہتے ہیں تو پھر ؟

جواب: کوئی قادیانی کھل کر نہیں کہتا کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں لیکن ان کی کتابوں میں واضح طور پر یہ بات لکھی ہوئی ہیں، جو ان پر کفر کو ثابت کر رہی ہے۔ لہٰذا ان کے کہنے کا اعتبار نہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ہم قادیانی ہیں تو بس کافی ہے۔ اب ہم ان سے نہیں پوچھتے کہ تم ختم نبوت کے منکر ہو یا نہیں ۔ یہی مثال شیعوں کی بھی ہے۔ اگر آپ کے اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر قادیانیوں کو بھی کافر نہ کہنا چاہئے کیونکہ وہ بھی بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے ہے۔

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے:

عمل صالح جسم کی مانند اور ایمان جان کی مانند ہے، جان ہے تو جسم کام کا ہے اور جان نہیں تو جسم کام کا نہیں ہے۔اگر ایمان نہیں ہے تو اعمال بے کار ہیں، بے جان ہیں۔۔مردود ہیں۔ ارشاد ربانی ہیں ۔۔۔۔ 

والذين كفروا أعمالهم كسراب بقيعة يحسبه الظمأن ماء:

گرمی میں تپش ہو ، دھوپ ہو تو ریگستان میں دور سے ریت بالکل پانی کی طرح نظر آتا ہے۔

لیکن جب وہاں پہنچے گا تو وہاں پانی ہے ہی نہیں۔

اسی طرح جن کا ایمان ہی نہیں وہ اگرچہ عمل کرے بھی سہی تو اس کے اعمال یہاں سے نظر آتے ہیں لیکن جب وہاں پہنچے گا تو ان اعمال میں سے کوئی چیز نہیں ہوگی، کوئی کام کی نہیں ہوگی ان کے اعمال کرمادن الشتدت به الريح: کچھ بھی نہیں، اڑ گئےساارے خبطت اعما لهم: خلاصہ یہ کہ اگر ایمان ہے تو توڑا سا عمل بھی کافی ہے اگرایمان نہیں تو سارے اعمال بھی کسی کام کے نہیں ۔

ایمان کا حقیقی مفهوم:

رسول پاکﷺ جو کچھ لائے ان سب کو مان لینا یہ ایمان ہے، اور اس میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنا کفر ہے۔ ایمان کیلئے سب کو ماننا ضروری ہے اور کافر بننے کیلئے سب کا انکار ضروری نہیں مثلاً تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو ماننا اور ان کی تصدیق کرنا ضروری ہے اور ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی ایک کے انکار کے ساتھ آدمی ویسا ہی کافر بن جاتا ہے جیسا کہ حضورا کرمﷺ کی نبوت کا انکار کرے۔

ایمان اور کفر کے لوازمات:

محترم دوستو! صاف رہنے کیلئے ہر داغ سے بچنا ضروری ہے، ہر رنگ کے دھبے سے بچنا ضروری ہے لیکن داغدار بننے کیلئے ہر رنگ کا دھبہ لگنا ضروری نہیں ہے، کوئی ایک رنگ لگ گیا تو داغدار ہے۔ اسی طرح کامل بننے کیلئے مکمل ہونے کیلئے اہل ہونے کیلئے ہر مشکل اور ہر کوتاہی سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن ناقص ہونے کیلئے ایک نقص بھی کافی ہے۔ اسی طرح تندرست ہونے کیلئے ہر بیماری سے بچنا ضروری ہے لیکن بیمار ہونے کیلئے ہر بیماری کا لگنا ضروری نہیں ، کوئی ایک بیماری لگ گئی تو بیمار ہے ۔ اسی طرح پاک ہونے کیلئے ہر نجاست سے بچنا ضروری ہے اور پلید ہونے کیلئے ہر نجاست لگانا ضروری نہیں ہے کوئی ایک نجاست لگ گئی تو وہ پلید ہے۔

جب پلید اور پاک مل جائے تو غلبہ کس کا ہوتا ہے؟ اور اس کا کیا حکم ہوتا ہے ؟ اگر پورا مٹکا پانی کا ہے اس میں ایک قطرہ پیشاب کا یا خون کا یا شراب کا پڑ گیا ہے تو پورے مٹکے کا مٹکا ناپاک ہو جائے گا۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ جیسے تندرستی کیلئے ہر بیماری سے بچنا ضروری ہے۔ کمال کیلئے ہر نقص سے بچنا ضروری ہے۔ صفائی کیلئے پر داغ سے بچنا ضروری ہے۔ صحت کیلئے ہر بیماری سے بچنا ضروری ہے۔ پاکیزگی کیلئے ہر پلیدی سے بچنا ضروری ہے۔ ایسے ہی ایمان کیلئے کفر کی ہر قسم سے یعنی ضروریات دین میں سے ہر چیز کے انکار سے بچنا ضروری ہے، کسی ایک چیز کا انکار ہو گیا تو اب وہ کفر ہی ہوگا، باقی چیزوں کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔

خون لگے تو اسے پلید کہا جائے گا ، اب پیشاب پاخانہ لگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جائے گی ، اس کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ جس کو ایک بیماری لگ گئی اسے بیما رکہا جائے گا، باقی بیماریوں کے لگنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایک جگہ سے ٹوٹ گیا تو اسے ناقص کیا جائے گا سارے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر ایمانیات اور ضروریاتِ دین میں سے کوئی ایک چیز ٹوٹ گئی تو اسے بے ایمان کہا جائے گا۔

کفر کی اقسام:

کافر کی کئی قسمیں ہیں، جیسے بیماریاں کئی ہے، الگ الگ ان کے نام ہیں اور مشتر کہ اس کا نام ہے: بیماری اور نجاستوں کی کئی قسمیں ہیں مشترکہ نام ہے نجاست اور اسی طرح کفر کی بھی کئی قسمیں ہیں اور الگ الگ ان کے حکم بھی ہیں۔ لیکن اس کا مشتر کہ نام ہے کفر۔

ایک کفر کا نام ہے شرک ایک کفر کا نام ہے الحاد ایک کفر کا نام ہے نفاق ایک کفر کا نام ہے ارتداد اور ایک کفر کا نام ہے زندیق ایک کفر کا نام ہے مرتد لیکن ان کا مشر کہ نام ہے کفر۔

(پیغام قرآن:جلد:1:صفحہ:439)

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ خود کو مسلمان کہتے ہیں، اور اسلام کی نسبت پسند کرنے والوں کو اس نسبت سے خارج کرنا ایک غیر مناسب فعل ہے جبکہ اسلام ایسا دین ہے جو تنگی دائرہ کی بجائے وسعت حلقہ کا تقاضا رکھتا ہے؟

جواب: حضور اکرمﷺ کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبرؓ نے اسلام کا دعویٰ نہ رکھنے والے کافروں سے پہلے، اسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود ختم نبوت اور زکوٰة کا انکار کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا اور اپنے اس عمل سے قیامت تک کیلئے راہنمائی فرما دی کہ جو شخص دین کی بنیادی حقیقتوں میں سے کسی حقیقت کا انکار کر ے وہ دعوائے اسلام کے باوجود کافر مرتد اور واجب القتل ہے۔

چنانچہ ان کے عقیدے سے آگاہ ہوتے ہی ہمارا فرض ہے کہ بلا تاخیر اس کے کفر و ارتداد کو بے نقاب کرنے کیلئے کوشاں ہو جانا چاہیئے۔ اب جبکہ شیعوں کے عقائد منظر عام پر آچکے ہیں ان سے آگاہ ہونے والے ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کہ شیعہ کے کفر و ارتداد کے اعلان و اظہار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں تا کہ مسلمان ان کے دجل و فریب سے بچ جائیں۔

سوال: جب مؤمن بننے کیلئے سارا ماننا لازم ہے تو کافر بننے کیلئے سارے کا انکار ضروری ہونا چاہئے تھا یہ کیا ہے کہ کافر بننے کیلئے کچھ بھی انکار کرے تو کافر ہو جائے گا؟ 

جواب: ہاں ایسے ہی ہے، کیونکہ کسی چیز کو بند رکھنے کیلئے تو ہر طرف سے بند کرنا ضروری ہے اور کھولنے کیلئے کہیں سے توڑ دو، سارے اطراف کا توڑنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح اچھا بننے کیلئے ضروری ہے کہ وہ چور بھی نہ ہو وہ جھوٹا بھی نہ ہو وہ زانی بھی نہ ہو، وہ شرابی بھی نہ ہو۔ اور برا بننے کیلئے ان میں سے ایک کرلے تو برا ہے۔ اسی طرح پاک رہنے کیلئے ضروری ہے کہ پاخانہ بھی نہ لگے کپڑے کو، پیشاب بھی نہ لگے شراب بھی نہ لگے ، خون بھی نہ لگے، جتنی غلاظتیں اور پلیدیاں و نجاستیں ہیں کوئی بھی نہ لگے۔ لیکن پلید بنے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ساری غلاظتیں لیں ۔ تندرست ہونے کیلئے تمام بیماریوں سے بچنا ضروری ہے اور بیمار ہونے کیلئے تمام بیماریوں کا لگنا ضروری نہیں ہے، کوئی ایک لگے بس وہ بیمار ہے۔ نہیں ہے کہ اسے شوگر بھی ہو، کینسر بھی ہو ٹی بی بھی ہو ۔ اسی طرح مؤمن رہنے کیلئے سارا قر آن ماننا ضروری ہے، ہر آیت کے انکار سے بچنا ضروری ہے، اور کافر بنے کیلئے کسی ایک آیت کا انکار کافی ہے۔ اب میں کہتا ہوں یہ کپڑا پلید ہے اس کو پیشاب لگا ہوا ہے، اب کوئی کہے کہ جناب اس کو خون بھی نہیں لگا اس کو شراب بھی نہیں لگا، اس کو پا خانہ بھی نہیں لگا، وہ ساری پلیدیاں گنوائے کہ آپ اس کو پلید کیسے کہتے ہو؟ آپ کیا کہیں گے کہ یہ بے وقوف اور پاگل اس طرح میں کہتا ہوں یہ بیمار ہے اس کو فالج ہو گیا ہے، وہ کہے نہیں جی! اس کو شوگر نہیں ہے، اس کو ایڈز نہیں ہے، اس کو بلڈ پریشر و غیرہ نہیں ہے ، یہ ساری بیماریاں اس کو نہیں ہے۔ آپ اس کو بیمار کیسے کہتے ہیں تو آپ اس کو پاگل کہیں گے یا نہیں ؟

میرے محترم قارئین کرام!

اس لئے جب اسلاف اور اکابرین نے متفقہ طور پر فیصلہ دے کر بتا دیا کہ شیعہ توحید کے منکر ہیں، شیعہ ختم نبوت کے منکر ہیں، شیعہ قرآن کے منکر ہیں، شیعہ صحابہ کرام کے منکر ہیں، بلکہ صحابہ کرام کے سخت گستاخ بھی ہیں، تمام امت کو کافر کہنے والے بھی ہیں، اور یہ بھی بتا دیا کہ شیعہ کافر اور مرتد ہیں اب آپ یہ کیوں بتاتے ہیں کہ جی وہ نماز بھی پڑھتے ہے، روزہ بھی رکھتے ہے، حج پر بھی جاتے ہے۔ پگڑی بھی باندھتا ہے، داڑھی بھی رکھی ہے، ذکر بھی کرتے ہے ؟ جب اسلاف نے بتا دیا کہ یہ کافر اور زندیق ہیں ، اب نماز، روزہ داڑھی، پگڑی حج تلاوت اور ذکر واذکار کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے، اب ان چیزوں کو پیش کرنا تو فضول ہے۔

اور اگر آپ کے اس اصول کو تسلیم کیا جائے کہ (جب تک تمام ضروریات کا انکار نہ کرے کافر نہ کہنا چاہئے ) تو پھر میں کہنا چاہتا ہو کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اُس وقت سے لے کر آج تک کوئی کافر ایسا نہیں ہے جس کو ایمان کی ساری باتیں نا منظور ہوں اور سب باتوں کا انکاری ہو، ایسا کوئی کافر دنیا میں نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کچھ بھی نہ مانے یہ تو مانتا ہے کہ اللہ تعالی جل شانہ ہے۔ اگر یہ بھی نہ مانے تو کم از کم دنیا میں جو اسلامی سبق ہے کہ بڑوں کی عزت کرنی چاہئے، چھوٹوں پر شفقت کرنی چاہئے مظلوم کی مدد کرنی چاہئے۔ بڑوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے ، تو مانے گا، تو پھر ہر بات کا منکر تو نہ ہوا ۔ تو پھر دنیا میں کوئی بھی کافر نہیں رہ سکتا۔

لہٰذا صاف بات ہے کہ تمام قرآن کو ماننا ایمان ہے، ایک آیت کا انکار کرنا کفر ہے۔ سارے نبیوں کو ماننا ایمان ہے، کسی ایک نبی کا انکار کرنا کفر ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ کو ماننا ایمان ہے کسی ایک صحابیؓ کی تکفیر کرنا کفر ہے۔

(پیغام قرآن:جلد:3:صفحہ:208)