Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات(تحقیق)

  علماء مشائخ کمیٹی سعودی عرب

سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات(تحقیق)

مؤمنین کی ماں مقدسہ و مطہرہ رضی اللہ عنہا آخری عمر میں طویل عرصہ تک بیمار رہیں اور جب انھیں یقین ہو گیا کہ یہ مرض الموت ہے اور کوچ کا مرحلہ آنے والا ہے تو وہ نہایت عجز و انکساری سے پکار اٹھیں جبکہ وہ اپنے دل میں سوچا کرتی تھیں کہ انھیں اپنے گھر میں دفنایا جائے۔ وہ کہا کرتی تھیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک گناہ کا ارتکاب کر لیا لہٰذا تم مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے ساتھ دفنا دینا۔‘‘

[ الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۴۔ مستدرک حاکم، ج ۴، ص: ۷۔

اور انھوں نے کہا یہ روایت شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اسے روایت نہیں کیا۔

سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۹۳۔]

اس گناہ سے ان کی مراد جنگ جمل میں شرکت تھی اور اس معاملے کے لیے ان کی اپنی تاویل تھی۔ اسی لیے انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی ا للہ عنہما کو وصیت کر دی کہ ’’تم مجھے ان کے ساتھ نہ دفنانا اور مجھے بقیع کے قبرستان میں میری بہنوں کے ساتھ دفنانا۔ میں اس واقعہ سے اپنے آپ کو کبھی بری الذمہ نہیں سمجھتی۔‘‘

[صحیح بخاری: ۱۳۹۱۔

نیز انھوں نے وصیت میں یہ بھی کہا تھا میرے جنازے کے ساتھ تم آگ نہ لے جانا اور نہ میری میت پر سرخ چادر ڈالنا۔

(الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۴-۷۶۔)]

مرض الموت میں ابن عباس رضی ا للہ عنہما ان کی عیادت کے لیے گئے ۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانے کی اجازت طلب کی جبکہ وہ انتہائی لاغر [مغلوبۃ: یعنی مرض کی شدت کی وجہ سے انتہائی لاغر ہو چکی تھی اور حرکت تک نہ کر سکتی تھیں ۔

(کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی، ج ۲، ص: ۳۸۷۔
عمدۃ القاری، للعینی، ج ۱۹، ص: ۸۷۔)]

ہو چکی تھیں ۔ وہ کہنے لگیں : ’’مجھے اندیشہ ہے کہ وہ میری تعریف کریں گے۔‘‘ تو کہا گیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور مسلمانوں کی معتبر شخصیت ہیں ۔‘‘ وہ کہنے لگیں : ’’تم انھیں اجازت دے دو۔‘‘ وہ آئے تو کہنے لگے: ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’خیریت کے ساتھ ہوں اگر میں (عذاب الٰہی سے) بچ گئی۔‘‘ ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہا: ’’اگر اللہ نے چاہا تو آپ بھلائی پر ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں آپ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری سے شادی نہیں کی اور آسمان سے آپ کی براء ت نازل ہوئی۔‘‘

جب سیّدنا ابن زبیر رضی ا للہ عنہما آئے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ’’ابن عباس رضی ا للہ عنہما آئے اور میری تعریف کی اور میں چاہتی ہوں کہ میں نسیًا منسیًّا (بھولی بسری) بن جاؤں ۔‘‘

[ صحیح بخاری: ۴۷۵۳۔]

ایک روایت میں ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مرض الموت میں سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے ان کی عیادت کے لیے اجازت طلب کی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہ دی۔ وہ اصرار کرتے رہے۔ بالآخر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں اجازت دے دی۔ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں آگ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ۔ سیّدنا ابن عباس رضی ا للہ عنہما نے کہا: اے ام المومنین! بے شک اللہ عزوجل نے آپ کو آگ سے پناہ دے دی ہے۔ آپ سب سے پہلی عورت ہیں ، جن کی براء ت آسمان سے نازل ہوئی۔

[فضائل الصحابۃ لاحمد، ج ۲، ص: ۸۷۲۔]

ایک روایت میں ہے: بے شک سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: آپ اپنے دو سچے پیش رؤوں [ الفرط: جو شخص قافلے سے پہلے جا کر قافلے والوں کے آرام کے لیے سامان تیار کرتا ہے اور جگہ صاف کرتا ہے۔ یہاں ثواب اور شفاعت مراد ہے۔

(مقدمۃ فتح الباری یعنی ہدیۃ الساری، ص: ۶۶۔)]

کے پاس جا رہی ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس۔

[ اس روایت کی تخریج آگے آ رہی ہے۔]

سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب بیمار ہوئیں اور بیماری کے دوران جب بھی ان کا حال پوچھا جاتا تو وہ کہتیں : ’’الحمد للہ خیریت سے ہوں ۔‘‘

[ الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۵۔]

جو بھی آپ کی عیادت کے لیے آتا اور وہ انھیں بشارت دیتا تو وہ اس کے جواب میں کہتیں : ’’اے کاش میں ایک پتھر ہوتی اے کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی۔‘‘

[ الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۴۔]

ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مدینہ نبویہ میں سترہ رمضان المبارک کی رات ۵۷ یا ۵۸ یا ۵۹ ہجری کو فوت ہوئیں ۔ جب سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ا للہ عنہما کی خلافت ابھی جاری تھی۔

[الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ۷۸۔
الاستیعاب، ج ۴، ص: ۱۸۵۔۱۸۸۔
المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم لابن الجوزی، ج ۵، ص: ۳۰۳۔
اسد الغابۃ لابن الاثیر، ج ۷، ص: ۱۸۶۔
البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ج ۱۱، ص: ۳۴۲۔
الوافی بالوفیات للصفدی، ج ۱۶، ص: ۳۴۳۔
الاصابۃ، ج ۸، ص: ۲۳۵۔]
ان کی وفات سے تمام اہل مدینہ شدید غم میں ڈوب گئے اور عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا: ’’سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے صرف اسے ہی صدمہ پہنچا جس کی وہ ماں تھیں ۔‘‘
[الطبقات الکبری، ج ۸، ص: ۷۸۔ سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج ۲، ص: ۱۸۵۔]
جب سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے رونے کی آواز سنی تو انھوں نے اپنی خادمہ کو ادھر بھیجا کہ جا کر دیکھو ان کا کیا ہوا؟ وہ واپس گئی اور بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہیں ۔ [ قضت: کسی چیز کے کٹنے، تمام ہونے اور جدا ہونے کے معانی میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
{ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ }
یعنی اپنی مدت پوری کر لی۔ لغت میں قضی کے متعدد معانی آتے ہیں ۔
(معانی القرآن و اعرابہ للزجاج، ص ۴، ص: ۲۲۲۔
تفسیر راغب اصفہانی، ج ۱، ص: ۳۰۲۔
مشارق الانوار للقاضی عیاض، ج ۲، ص: ۱۸۹۔
لسان العرب لابن منظور، ج ۷، ص: ۲۲۳۔)]
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’اللہ اس پر رحم کرے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھیں ، سوائے اس کے باپ کے۔‘‘
[ مسند ابی داود طیالسی، ج ۳، ص ۱۸۵، حدیث: ۱۷۱۸۔
اس کے حوالے سے۔
حلیۃ الاولیاء، ج ۲، ص: ۴۴۔
بوصیری نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
(اتحاف الخیرۃ المہرۃ، ج ۷، ص: ۲۴۸۔)]
ایک روایت میں ہے: ’’اے عائشہ! اس (اللہ تعالیٰ) نے تیری مصیبت ختم کر دی ہے۔ روئے زمین پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا، سوائے تمہارے باپ کے۔‘‘ پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں ۔ ‘‘
[ السنۃ لابن ابی عاصم: ۱۲۳۴۔]
سیّدنا ابوہریرہ [ ان کا نام مشہور روایت کے مطابق عبدالرحمن بن صخر ہے ابوہریرہ کنیت ہے اور یمن کے قبیلہ بنو دوس سے ہیں ۔ جلیل القدر صحابی ہیں تمام صحابہ سے زیادہ انھیں احادیث یاد تھیں اور اسی طرح انھوں نے کثرت سے روایت کی۔ حافظ حدیث، ثقہ اور مفتی تھے۔ روزوں اور تہجد کے ساتھ مشہور تھے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بحرین کا گورنر بنایا اور کچھ عرصہ تک مدینہ کے گورنر بھی رہے۔ ۵۷ ہجری کے لگ بھگ فوت ہوئے۔
(الاستیعاب، ج ۲، ص: ۷۰۔ الاصابۃ، ج ۷، ص: ۴۲۵۔)]
رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ بقیع والے قبرستان میں پڑھائی اور انھیں بقیع میں دفن کیا گیا۔ اس وقت سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مروان بن حکم مدینہ منورہ کا گورنر تھا لیکن وہ حج پر چلا گیا اور سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنا کر گیا۔
[ المستدرک للحاکم، ج ۴، ص: ۵۔ تاریخ الاسلام للذہبی: ۴؍۱۶۴۔]
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نماز عشاء کے بعد اندھیری رات میں دفن کیا گیا۔ جنازے کے ساتھ جانے والوں کے لیے آگ جلائے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ انھوں نے کپڑے [الخرق: پھٹے پرانے کپڑے۔
(جمہرۃ اللغۃ لابن درید، ج ۱، ص: ۵۹۰۔ الصحاح للجوہری، ج ۴، ص: ۱۴۶۸۔]
تیل میں ڈبو کر آگ سے روشن کیے تاکہ قبرستان تک ان کا راستہ روشن ہو جائے۔ لوگوں کا بہت ہجوم ہو گیا وہ چارپائی [النعش: جب میت چارپائی پر ہو تو اسے النعش کہتے ہیں ۔
(الصحاح للجوہری، ج ۳، ص: ۱۰۲۲۔ لسان العرب، ج ۶، ص: ۳۵۵۔]
کے گرد جمع ہو گئے۔ اس رات سے زیادہ کسی رات میں اس قدر لوگ دکھائی نہ دئیے حتیٰ کہ باب العوالی [العوالی: مدینہ منورہ کی شرقی جانب کے سارے علاقے میں واقع بستیوں پر العوالی کا اطلاق ہوتا ہے جس کا مدینہ سے قریب ترین فاصلہ چار میل ہے اور نجد کی جانب (مدینہ سے مشرق کی جانب) بعید ترین العوالی آٹھ میل تک ہے۔
(مشارق الانوار، ج ۲، ص: ۱۰۸۔
النہایۃ فی غریب الحدیث: ۳؍۲۹۵۔
المغرب فی ترتیب المعرب للمطرزی، ص: ۳۲۷۔]
(بالائی مدینہ) کے لوگ بھی مدینہ میں پہنچ گئے۔
[ الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۶۔
تاریخ الطبری: ۱۱؍۶۰۲۔
مستدرک للحاکم، ج ۴، ص: ۵۔]
ان کی قبر میں آل صدیق سے پانچ جوان اترے۔ سیّدہ اسماء بنت ابی بکر اور سیّدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کے دونوں بیٹے عروہ اور عبداللہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر کے دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ رحمہما اللہ اور ان کے دوسرے بھائی سیّدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی ا للہ عنہما کے بیٹے عبداللہ رحمہ اللہ ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تقریباً ۶۷ سال عمر پائی۔ اللہ ان سے راضی ہو اور انھیں راضی کرے۔
[ الطبقات الکبرٰی، ج ۸، ص: ۷۔
تاریخ ابن ابی خیثمۃ، ج ۲، ص: ۵۸۔
الاستیعاب، ج ۴، ص: ۱۸۸۵۔
اسد الغابۃ، ج ۷، ص: ۱۸۶۔
المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج ۵، ص: ۲۰۳۔
تاریخ الاسلام للذہبی، ج ۴، ص: ۲۴۹۔
البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ج ۱۱، ص: ۳۴۲۔
الاصابۃ لابن حجر، ج ۸، ص: ۲۳۵۔]