غیر مسلم جج کا فسخِ نکاح کا فیصلہ معتبر نہیں
غیر مسلم جج کا فسخِ نکاح کا فیصلہ معتبر نہیں
سوال: شفیق الرحمٰن کا بشریٰ سے نکاح ہوا تو تقریبا سات آٹھ سال دونوں ساتھ رہے، دو بچے بھی ہیں، پھر شفیق الرحمٰن کا بشریٰ اور اس کے والدین سے جھگڑا ہوا، جس کی وجہ سے بشریٰ اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی اور اس نے بنگلہ دیش میں ایک کورٹ میں طلاق یعنی فسخِ نکاح کے لئے درخواست پیش کی کورٹ نے شوہر اور بیوی دونوں کی گفتگو سنی، ان دونوں کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شوہر کے انکار پر فسخِ نکاح نہیں کیا۔ اس کے بعد بشریٰ کے والدین امریکہ چلے گئے وہاں غیر مسلم جج کے سامنے کورٹ میں فسخِ نکاح کی درخواست پیش کی وہاں کورٹ نے شوہر کا بیان یا اس سے تحقیق کے بغیر فسخِ نکاح کا فیصلہ کر دیا۔ کیا وہاں کے غیر مسلم جج کے فسخِ نکاح کا فیصلہ کرنے سے فسخِ نکاح ہو جائے گا؟
جواب: غیر مسلم جج ہے فسخِ نکاح کا فیصلہ کرے وہ شرعاً معتبر نہیں ہوتا اور اس سے نکاح فسخ نہیں ہو گا۔
المحيلة الناجزہ میں ہے کہ اگر کسی جگہ فیصلہ کندگان حاکم غیر مسلم ہو تو اس کا فیصلہ بالکل غیر معتبر ہے۔ اس کے حکم سے فسخ وغیرہ ہرگز نہیں ہو سکتا لان الكافر ليس باهل للقضاء على المسلم كما هو مصرح في جميع كتب اللّٰه حتیٰ کہ اگر رودادِ مقدمہ غیر مسلم مرتب کرے اور مسلمان حاکم فیصلہ کرے یا بالعکس تب بھی فیصلہ نافذ نہ ہو گا ۔۔۔ الی قوله.... اور اگر فیصلہ کسی جماعت کے سپرد کیا جائے جیسا کہ بعض مرتبہ ججوں کی جیوری کے سپرد ہو جاتا ہے یا بینچ میں پیش ہوتا ہے یا چند اشخاص کی کمیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو اس صورت میں ان سب ارکان کا مسلمان ہونا شرط ہے، کوئی غیر مسلم جج اور مجسٹریٹ اور ممبر بھی اس کا رکن ہو تو شرعاً اس جماعت کا فیصلہ کسی طرح معتبر نہیں، ایسے فیصلہ سے تفریق وغیرہ ہرگز صحیح نہ ہو گی۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عورت کی درخواست پر غیر مسلم جج نے فسخِ نکاح کا جو فیصلہ کیا ہے وہ معتبر نہیں، اس فیصلہ سے نکاح شرعاً فسخ نہ ہو گا۔
(جامع الفتاوىٰ:جلد، 10 صحفہ، 251)