Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

صحابہ کرامؓ کے دشمنوں سے دوستی رکھنا


صحابہ کرامؓ کے دشمنوں سے دوستی رکھنا

سوال: جو شخص اللہ تعالیٰ جل شانہ کے خاص بندوں یعنی اولیاء اللہ سے (کہ مومن کامل وہی لوگ ہیں جن کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں:

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَ (سورۃ یونس: آیت62،63) عداوت و دشمنی رکھے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: جس شخص نے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دوستوں سے اس کی دوستی کی وجہ سے ذرا بھی دشمنی رکھی، وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اور رسول اللہﷺ کا دشمن ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے دوستوں کی تائید فرما کے ان لوگوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔ اور حکم فرماتا ہے کہ تم میرے دوستوں سے جو عداوت رکھتے ہو گویا مجھ سے لڑائی کرتے ہو۔ حدیث شریف میں آیا ہے، فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ حق تعالیٰ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے: من عادلي وليا فقد اٰذنته بالحرب جو آدمی میرے کسی دوست سے دشمنی رکھے تو میں اُس کو اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کی پناہ جس کا دشمن خدا ہو اس کا کون دوست، اور کہاں ٹھکانہ ملے گا۔ پس ایسا شخص مردود و شیطان ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کا دشمن ہے، اہلِ اسلام کو چاہیے کہ ایسے خدا تعالیٰ کے دشمن سے اپنے آپ کو الگ بچائے رکھیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ: (سورۃ الممتحنہ:آیت1)

ترجمہ: اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ 

اور جو ان سے دوستی رکھے گا ان کا حساب بھی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں ہوگا۔ (فتاویٰ نذیریه: جلد 1 صفحہ 48)