فصل:....[ خلفاء ثلاثہ پر کم علمی کا بہتان]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[ خلفاء ثلاثہ پر کم علمی کا بہتان]
[اشکال]:رافضی کا کہنا ہے کہ : سوم : خلفاء ثلاثہ کا علم میں کم تر ہونا اور اکثر واقعات میں ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرنا ہے ۔‘‘
[جواب ]: یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو یہ بات ہر گز ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ علم حاصل کیا ہو۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے روایات اخذ کیں ؛ ان کی پیروی کی ؛ اور ان کی سیرت کی اتباع کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ استفادہ کیا ہے ؛ لیکن اس کی مقدار اس سے بہت کم ہے جو استفادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اگرچہ علم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کم تھے ؛ لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم کے محتاج نہ تھے۔ حتی کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زکواۃ وصول کرنے والے کارندوں کی شکایت بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کی؛ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ [زکواۃ] اور صدقات کے مسائل پر مشتمل ایک کتاب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘
انہوں نے سچ کہا تھا ‘ اس لیے کہ زکواۃ کے نصابوں اور مقررہ مقدار مال جو زکواۃ میں ادا کیا جائے ‘ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے۔ جس میں کسی رائے کو کوئی دخل نہیں ۔اور یہ چار مأخذ سے حاصل کیا گیا ہے ۔ ان میں سے علماء مسلمین کی نظر میں سب سے زیادہ صحیح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتاب ہے جسے انہوں نے انس بن مالک کے لیے لکھا تھا۔ اوراس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت بھی کیا ہے ۔ اور اکثر ائمہ کے ہاں اسی پر عمل ہے ۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب کا نمبر آتا ہے ۔
[تیسرا مأخذ] جو کتاب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی اس میں بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن پر علماء کرام رحمہم اللہ میں سے کسی ایک کا بھی عمل ثابت نہیں ۔ مثلاً :’’ہر پچیس میں بکری کا پانچواں حصہ واجب ہے ۔‘‘
یہ قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی متواتر دلائل کے خلاف ہے۔اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے ‘ یا تووہ منسوخ ہوگیا تھا یا پھر اس کے نقل کرنے میں غلطی ہوگئی ہے۔
چوتھا مأخذ : حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی کتاب ہے ۔جو انہوں نے اس وقت لکھی تھی جب انہیں نجران بھیجا گیا تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کتاب ان سب کے آخر میں لکھی گئی۔ تو کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ اکثر احکام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ جب کہ آپ کے دور کے قاضی بھی آپ کی طرف رجوع نہیں کیا کرتے تھے۔ بلکہ قاضی شریح ‘ عبیدہ سلیمانی رحمہما اللہ اورآپ کے عہد کے دوسرے قاضی اس علم کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے سیکھا تھا۔
قاضی شریح رحمہ اللہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا تھا۔ اورعبیدہ سلیمانی رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ سے علم حاصل کیا تھا۔ یہ حضرات اپنے عام قضایا میں آپ سے مشورہ تک بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے پاس موجود علم کی وجہ سے وہ اس چیز سے بے نیاز تھے۔ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اپنے اکثر مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میری اور عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ام الولد کو نہ بیچا جائے ؛ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ۔‘‘ اس پر عبیدہ سلیمانی رحمہ اللہ نے کہا : ’’ آپ کی رائے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور باقی جماعت کے ساتھ ہو وہ ہمارے نزدیک آپ کی انفرادی رائے سے بہتر ہے ۔‘‘
یہ تو آپ کے قاضی ہیں جو اس مسئلہ میں آپ کی رائے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ حالانکہ اکثر لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں ام الولد کی فروخت سے منع کرتے ہیں ‘ اس لیے کہ اس بارے میں کو ئی صریح نص موجود نہیں ۔ پس جب وہ اس جیسے مسئلہ میں آپ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے ؛ پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان باقی امور میں آپ کی طرف رجوع کرتے ہوں گے جن میں کافی و شافی نصوص وارد ہوئی ہوں ۔
آپ کے قاضی فیصلہ کرتے وقت بھی آپ سے مشورہ نہیں کیا کرتے تھے۔اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ یہ قضاۃ کوئی فیصلہ کرتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی تردید کردیتے ۔ کیونکہ وہ فیصلہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول کے مخالف ہوتا۔ جیسے : جب دو چچا زاد بھائی اور دو سگے بھائی؛ان میں جب ایک دوسرے کا ماں شریک بھائی ہو توانہوں نے اس کے لیے سارے مال کا فیصلہ دے دیا۔مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی تردید کی اورفرمایا:’’اسے چھٹا حصہ ملے گا‘اور باقی مال میں وہ دونوں برابر کے شریک ہوں گے۔حضرت زید وغیرہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی قول ہے۔اس وقت میں لوگ کسی ایک کے قول کے مقلد نہیں ہوا کرتے تھے۔
دادا کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جو فیصلہ ہے ‘ حضرات علماء کرام رحمہم اللہ میں سے کوئی ایک بھی اس کا قائل نہیں ہے ؛ سوائے ابن ابی لیلیٰ کے۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاقول ان کے کوفی شاگردوں نے لیا ہے۔ اسی طرح حضرت زید کا قول بھی علماء کرام کی ایک جماعت نے قبول کیا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول جمہور صحابہ کرام نے لیا ہے۔امام شافعی اور امام محمد بن نصر المروزی رحمہما اللہ نے ایک بڑی کتاب مرتب کی ہے جس میں انہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وہ اقوال جمع کیے ہیں جنہیں مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اختیار نہیں کیا ۔ اس لیے کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول اس مسئلہ میں کتاب و سنت کے زیادہ قریب تر ہوتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مرجوح اقوال کی تعداد حضرات خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کی نسبت زیادہ ہے ؛ ان کے راجح اقوال زیادہ ہیں ۔تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ حضرات اکثر مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرتے ہوں ۔