Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[اصحاب ثلاثہ کے واقعات]

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل:....[اصحاب ثلاثہ کے واقعات]

[اشکال]:رافضی مصنف نے لکھا ہے: ’’چہارم : ’’ اصحاب ثلاثہ سے صادر ہونے والے واقعات ہیں ؛ ان میں سے اکثر کی تفصیل گزرچکی ہے ۔‘‘ 

[جواب ]: ہم ان واقعات کے متعلق اجمال اور تفصیل سے جواب دے چکے ہیں ۔نیزیہ کہ حضرات خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات کی نسبت بہت آسان ہے۔ کسی بھی عادل عالم کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ اصحاب ثلاثہ پر جرح کرے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صفائی پیش کرے۔ بلکہ اگر کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صفائی پیش کرتا ہے تو خلفاء ثلاثہ بطریق اولیٰ اس کے حق دار ہیں کہ ان کی صفائی بھی پیش کی جائے۔ اور اگر وہ حضرات خلفاء ثلاثہ پر جرح کرتا ہے توحضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے نشتر سے محفوظ و مامون نہیں رہ سکتے۔ 

اگر رافضہ اپنے قول کی وضاحت کریں تواس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جرح اصحابہ ثلاثہ کی جرح سے زیادہ وارد ہوتی ہے ‘ اور اگر واضح نہ کریں تو اس کا تناقض اور فساد ثابت ہوجاتا ہے؛ حقیقت میں یہی بات تو صحیح بھی ہے۔ اور اسی طرح کی صورتحال یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی پیش آتی ہے ۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر تو عیب جوئی کرتے ہیں ‘ مگر موسیٰ او ر عیسی علیہماالسلام کے بارے میں نہیں کرتے۔ تو وہ جب بھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پراشکال پیش کرتے ہیں اس سے بڑا اشکال حضرت موسیٰ او رحضرت عیسی علیہماالسلام کی نبوت پر خود بخود وارد ہوجاتا ہے۔ یہی حال رافضی کاہے ۔ اس کا جو اشکال حضرات خلفاء ثلاثہ کی خلافت پر ہوتا ہے ؛ تو اس سے بڑا اشکال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر وارد ہوجاتا ہے اور اسی طرح جب کوئی فلسفی اہل مذہب پر اعتراض کرتا ہے تو اس پر بذات خود اشکال وارد ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح ہر اس شخص کا معاملہ ہے جو حق بات سے دور ہو۔جب وہ اس شخص پر اشکال وارد کرے جو حق سے قریب تر ہو تو خود اس پر اشکال وارد ہوجاتے ہیں ۔

اس مناظرہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اہل باطل کی طرف سے اہل حق پر جس نوعیت کااعتراض وارد کیا جائے تو جواب میں اسی نوعیت کااعتراض اہل باطل پر کردیا جائے ؛یا اس سے بھی مضبوط تراعتراض۔ کیونکہ معارضہ مفید ہوتا ہے اوراس طرح اگر ٹھیک جواب معلوم ہوجائے تو یہ جواب اس اشکال کا جواب بھی بن جائے گا جو اہل حق پر وارد کیا گیا ہے ۔ اگر وہ گروہ حیرت اور پریشانی میں پڑ جائے تو اس کی برائی کو دور کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہوجائے گا؛ اور کہا جائے گا جو اس بارے میں تمہارا جواب ہے ‘ وہی ہمارا اس بارے میں جواب ہے ۔