فصل:....[شیعہ کا یہ اعتراض: خلفائے ثلاثہ کاکفر ....]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[شیعہ کا یہ اعتراض: خلفائے ثلاثہ کاکفر ....]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:پنجم:’’اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ﴾ (بقرۃ:۲۴) ’’میرے عہد کو ظالم نہ پاسکیں گے ۔‘‘ اس آیت میں بتایا کہ امامت کا عہد ظالم تک نہیں پہنچ سکتا ؛اور ظالم کافر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا:﴿اَلْکَافِرُوْنَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ﴾ (البقرۃ:۲۵۴)’’کافر ہی ظالم ہوتے ہیں ۔‘‘ آپ کی بعثت سے پہلے بلاشبہ اصحاب ثلاثہ بتوں کی پرستش کرنے والے اورکافر تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب ]: اس کاجواب متعدد طرق سے دیا گیاہے:
پہلا جواب:....یہ ہے کہ کفر کے بعد جب کوئی شخص صحیح طور پر مشرف بہ اسلام ہو جائے تو وہ قابل مذمت نہیں ہوتا۔یہ بات نہ صرف دین اسلام بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے ادیان سے معلوم ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ [الأنفال۳۸]
’’ان سے کہہ دیجیے جنہوں نے کفر کیا ‘اگر وہ باز آجائیں توان کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔‘‘
صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسلام لانے سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے : اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ‘ اور ہجرت اپنے سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ۔ اور حج اپنے سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔‘‘
دوسرا جواب:....یہ ایک مسلمہ بات ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر مسلم پیدا ہونے والا شخص کفر کے بعد اسلام قبول کرنے والے سے افضل ہو۔[ ورنہ اس کا صحابہ سے افضل ہونا لازم آئے گا]۔ یہ بات بہت سارے دلائل کی روشنی میں ثابت ہو چکی ہے کہ : ’’ سب زمانوں سے بہتر قرن اوّل ہے۔ [جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے] حالانکہ وہ سب بعد از کفر اسلام لائے تھے۔ مگر اس کے باوجود قرن اول کے لوگ قرن ثانی کے [ مسلم پیدا ہونے والے] لوگوں سے افضل تھے۔ اسی لیے اکثر علماء کا مذہب ہے کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی پر ایمان لا چکا ہو ، اسے [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے]نبی بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ وَ قَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیٌ﴾(العنکبوت:۲۶)
’’لوط اس پر ایمان لائے اور کہا کہ : میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکُنَّ الظّٰلِمِیْنَ٭وَ لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِہِم﴾ [ابراہیم۱۳۔۱۴]
’’کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے ۔اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَ لَوْ کُنَّا کٰرِہِیْنَoقَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْہَا وَ مَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْہَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا [کُلَّ شَیْئٍ عَلْمًا ]﴾ (الأعراف:۸۸۔۸۹)
’’ان قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب!ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ شعیب علیہ السلام نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں ۔ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی؛اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں ، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو ہمارے رب کا علم ہرچیز کو محیط ہے۔‘‘
اس کی وضاحت اس طرح سے کی گئی ہے جس نے گناہ سے توبہ کرلی اور اس کی بخشش ہوگئی تو یہ گناہ اس کے بلند مرتبہ میں عیب کا باعث نہیں بنیں گے؛ خواہ وہ کتنے ہی بلند مرتبہ کوکیوں نہ پہنچ جائے۔لیکن روافض کا یہ حال ہے کہ اس مسئلہ میں کتاب اللہ ‘سنت رسول اللہ ‘ اجماع امت اور دلائل عقلیہ کی مخالفت کرتے ہیں ؛ اور پھر ایسے قول کو اپنے لیے لازم کرلیتے ہیں جس کا باطل ہونا صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزرکے ایمان کا دعوی کرنا؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین اور چچا ابو طالب کے ایمان کا دعوی کرنا’
تیسرا جواب:....جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو قریش میں سے چھوٹا بڑا کوئی بھی مومن نہ تھا،نہ ہی کوئی مرد ‘ نہ ہی کوئی عورت اور بچہ ؛ نہ ہی اصحاب ثلاثہ اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ جب بڑے مردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے تو بچے بھی تو ویسے ہی کیا کرتے تھے ‘ [یعنی ان کے بچے بھی بتوں کے پرستار ہوں گے] جن میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور دوسرے بچے بھی۔
اگر کہا جائے کہ بچے کا کفر ضرر رساں نہیں ہے، تو ہم کہیں گے کہ بچے کا ایمان بھی مردبالغ کے ایمان جیسا نہیں ہے۔اگر اصحاب ثلاثہ کے لیے ایمان اور کفر کا حکم بلوغت میں ثابت ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ایمان اورکفر کا حکم بھی بلوغت سے پہلے کا ثابت ہے۔ اور بچہ جب کافر ماں باپ کے ہاں پیدا ہو تو اس پر دنیا میں کفر کا حکم ہی لگتا ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اگر وہ بلوغت سے پہلے اسلام قبول کرلے توکیا اس کے لیے اسلام کا حکم ثابت ہوجائے گا ؟ اس بارے میں علماء کرام رحمہم اللہ کے دو اقوال ہیں ۔البتہ اگر بالغ انسان اسلام قبول کرلے تو امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیگا۔
پس اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے اسلام پر تو تمام مسلمانوں کااتفاق ہے کہ یہ اسلام انہیں کفر سے نکالنے والا تھا ؛ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان کے بارے میں دو اقوال میں اختلاف ہے کہ کیا یہ اسلام انہیں کفر سے نکالنے والا تھا یا نہیں ؟ اس بارے میں دو قول مشہور ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ : نابالغ بچے کا اسلام قبول کرنا اسے کفر سے نہیں نکال سکتا۔
البتہ کسی بچے کا نبوت سے پہلے کسی بت کوسجدہ کرنا یانہ کرنا معلوم نہیں ۔ یہ بات تو قطعی طور پر نہیں کہہ جاسکتی کہ حضرت زبیر اورعلی رضی اللہ عنہما نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔اور اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے کبھی بتوں کو سجدہ کیا۔ بلکہ ایسی کوئی روایت اصحاب ثلاثہ میں سے کسی ایک کے متعلق بھی منقول نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی بت کو سجدہ کیا ہو۔ ہاں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ زمانہ جاہلیت میں قریش بتوں کوسجدہ کیا کرتے تھے ‘ تو ممکن ہے یہ بات بچوں میں بھی پائی جاتی ہو جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ۔
چوتھا جواب:....مذمت کے وہ القاب قرآن میں مذکور ہیں ‘جیسے کفر‘ ظلم ‘ فسق وغیرہ ؛ یہ اسی انسان پر صادق آتے ہیں ‘ جو ان پر قائم ہو‘ البتہ جو شخص کفر کے بعد اسلام قبول کرلے؛ اور ظلم کے بعد عدل و انصاف کرنا والا بن جائے ‘فسق و فجورکے بعد نیک و صالح بن جائے تو باجماع امت اسلامیہ اس پر مذمت کے اسماء صادق نہیں آئیں گے۔ [ اسلام لانے کے بعد ] ان پر مدح کے الفاظ صادق آئیں گے نہ کہ مذمت کے۔
پس اللہ تعالیٰ کافرمان : :﴿لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ﴾ (البقرۃ:۲۴)
’’میرے عہد کو ظالم نہ پاسکیں گے ۔‘‘کا مطلب یہ ہے کہ میرا عہد[ امامت کا منصب] عادل کو ملے گا ظالم کو نہیں ملے گا۔
پس یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص ظلم و تعدی کا مرتکب ہو اور پھر وہ توبہ کرلے اور عادل بن جائے تو اسے یہ عہد مل جائے گا [اوروہ امامت کا اہل ہوسکتا ہے]، جیساکہ وہ آیات مدح و ستائش کا سزا وار ہوگا۔مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ﴾ [مطففین۲۲]
’’نیک لوگ نعمتوں سے لذت اندوز ہوں گے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍ﴾ (الدخان:۵۱)
’’اللہ سے ڈرنے والے پر امن جگہ میں ہوں گے۔‘‘
پانچواں جواب:....جو شخص یہ کہے کہ: ایک شخص ایمان لانے کے بعد بھی کافر ہی رہتا ہے وہ باجماع مسلمین خود کافر ہے۔تو پھر مخلوق میں سب سے افضل ایمان رکھنے والوں کے بارے میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ کافر ہیں ۔جیسا کہ گزر چکا۔
چھٹا جواب :....یہ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا :
﴿ اِِنِّی لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ Oاِِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾
’’بیشک ہمارے پاس پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔ لیکن جو لوگ ظلم کریں پھر اس کے عوض نیکی کریں تو اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والا مہربان ہوں ۔‘‘
ساتواں جواب:....اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ﴾ [الأحزاب۷۲۔۷۳]
’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے(مگر)انسان نے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔(یہ اس لیے)کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے ۔‘‘
پس انسان کی جنس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ ظالم اور جاہل ہے ۔ اور اس میں سے توبہ کرنے والوں کا استثناء فرمادیا۔ اور کتاب اللہ کی صریح آیات بتاتی ہیں کہ تمام بنی آدم پر توبہ کرنا لازم ہے ۔ اور یہ مسئلہ مسئلہ عصمت کی مانند ہے کہ کیا انبیاء علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے اور انہیں توبہ کی ضرورت ہوتی ہے[ یا نہیں ] ؟ اس بارے میں کلام بہت طویل ہے جیسا کہ پہلے بھی گزر چکاہے۔