فصل:....[سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خانہ تلاشی کا واقعہ ]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خانہ تلاشی کا واقعہ ]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:آٹھواں سبب: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت حسرت بھرے الفاظ میں کہا تھا کہ اے کاش! میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی تلاشی نہ لیتا ۔اور اے کاش! میں ثقیفہ بنی ساعدہ میں دونوں میں سے ایک کی بیعت کر لیتا،وہ امیر ہوتا اور میں وزیر۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی و زبیر رضی اللہ عنہما کی موجودگی میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی تلاشی لی تھی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسروں کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے۔‘‘
[جواب ]:ہم شیعہ مصنف سے کہتے ہیں : قدح اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی جب تک اس کے الفاظ ایسی صحیح روایت سے ثابت نہ ہوں ‘جوکہ واضح طور پر موجب قدح ہوں ۔جب ان میں سے کوئی ایک چیز بھی منتفی ہوگی تو پھر قدح کا وارد ہونا خود بخود منتفی ہوجائے گا۔تو اس وقت کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب دونوں باتوں کا ہی کوئی بھی ثبوت ہی نہ ہو[لہٰذا پہلے وہ اس روایت کی صحت ثابت کرے]۔
٭ ہمیں قطعی طور پر معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ وزبیر کو کسی قسم کا الم و رنج نہیں پہنچایا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ تعرض نہیں کیا تھاجو آپ کی بیعت کیے بغیر فوت ہو گئے تھے۔ بفرض محال یہ کہہ سکتے ہیں کہ:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کرنے کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خانہ تلاشی لی تھی کہ اس میں بیت المال کی کوئی چیز موجود نہ ہو جس کی تقسیم کرنے کا حکم آپ کو دیا گیا تھا۔ وفات کے وقت یہ خیال آیا کہ اگر ایسا نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔رہ گیا ایذاء رسانی کا معاملہ؛تو اس پر تمام اہل دین و اہل علم کا اتفاق ہے کہ کوئی ایسا واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ جہلاء بیان کرتے ہیں کہ:’’ صحابہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر منہدم کردیا اور آپ کو اس قدر پیٹا اور پیٹ پر مارا تھا کہ آپ کا حمل ساقط ہو گیا۔‘‘اور جہاں بھر کے حمقاء[بیوقوف لوگ] اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔[ کیا کوئی سلیم العقل انسان باور کر سکتا ہے کہ امت کے چیدہ و برگزیدہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک معمولی بات کی وجہ سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کیا ؟ ]۔ یہ دعوی جھوٹ گھڑنے والے کذابین کی کارروائیوں کا شاخسانہ ہے اور اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے۔ یہ قصہ ان لوگوں میں ہی پذیرائی اور مقبولیت پاسکتا ہے جو جانوروں کی جنس سے تعلق رکھتے ہوں ۔[اللہ اس واقعہ کو گھڑنے والے پر اور اس پر جس نے رفض کا عقیدہ ایجاد کیالعنت بھیجے]۔
٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ قول کہ :’’ہائے افسوس کہ! میں ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کر لیتا،وہ امیر ہوتا اور میں وزیر۔‘‘
ہم سب سے پہلے کہتے ہیں : مصنف نے اس قول کی کوئی سند ذکر نہیں کی اور نہ ہی اس کی صحت بیان کی ہے۔ بالفرض مان لیجیے کہ اگر آپ نے یہ کہا بھی ہے تو یہ آپ کے زہد و ورع اور خوف الٰہی کی نشانی ہے۔