Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:نوواں سبب: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش اسامہ کو تیار کرنے کا حکم دیا تھا؛ اور بار بار اس لشکر کو روانہ کرنے کاحکم دیا۔ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لشکر میں اس لیے روانہ نہ کیا تاکہ آپ کے بعد کوئی اور شخص خلافت پر قابض نہ ہو جائے؛ مگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ بات قبول نہ کی۔‘‘

[جواب]:اس کے جواب میں کئی پہلو ہیں : 

پہلی بات:....ہم شیعہ مصنف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ا س کی صحت ثابت کرے،یہ روایت صاف جھوٹ ہے۔یہ واقعہ نہ ہی کسی معروف سند سے روایت کیا گیا ہے‘ اور نہ ہی علماء کرام میں سے کسی ایک نے اسے صحیح کہا ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کسی نقلی دلیل سے احتجاج اسی صورت میں درست ہوتا ہے جب اس کی صحت معلوم ہو جائے،وگرنہ جس کی مرضی جو چاہے کہتا پھرے۔

دوسری بات:....اس روایت کے جھوٹ ہونے پر تمام علماء کرام کا اجماع ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یا عثمان رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں ہر گز شامل نہ تھے، البتہ ایک قول کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ س میں موجود تھے۔ روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام صلوٰۃ مقرر کیا تھا؛وقت انتقال تک آپ ہی امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جس روز آپ کی وفات ہوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو صحابہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔[1] پھر یہ بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں شامل تھے؟

تیسری بات:....اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تو صحابہ آپ کی مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ صحابہ کرام اللہ و رسول کے سچے اطاعت کیش تھے اور وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے تھے کہ بصراحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ خلیفہ کی جگہ از خود کسی اور کو مقرر کردیں ،اور ان لوگوں کو چھوڑ دیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں ۔حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر دو تہائی مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ لڑی ؛ مگر ان میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے خلیفہ ہونے کی نص موجود ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سارے صحابہ آپ کے ساتھ مل کر جنگ کرتے۔ چوتھی بات:....پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نمازیں پڑھانے کا حکم دیا؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم نہیں دیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا مقصود ہوتا تو آپ مرض الموت میں ان کو امام صلوٰۃ مقرر فرماتے اورابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کی اجازت نہ دیتے۔اورایسے ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر امیر مقرر نہیں کیا۔

٭ بلکہ صحیحین کی روایت میں ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے مابین صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ جب نماز کا قوت ہوجائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنا کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں ۔ اور ایسے ہی اپنی بیماری کے دن میں بھی اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجاتب بھی۔ پھر ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔یہ تابع بن کر آئے۔ او رحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی امام تھے جو لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کو حکم دیتے اوروہ آپ کی اطاعت کرتے۔ سن نو ہجری کے حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پرامیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا تھا۔ باقی لوگوں پر بھی امیر آپ ہی تھے۔اور آپ ہی انہیں نمازیں بھی پڑھاتے تھے۔