ارتکاب کفر و شرک سے مسلم و مسلمہ کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے
سوال: ولید مرتکب کفر و شرک ہوگیا، اور ولید کا نکاح ہندہ سے قبل از ارتکاب کفر و شرک کے ہوا تھا، مگر اب ولید یہ چاہتا ہے کہ کفر و شرک سے تائب ہو کر تجدید ایمان کر کے ہندہ سے تجدید نکاح کرے تو کیونکر اور کس طرح کرے؟ آیا مہر سابق قائم رہا یا مہر دیگر قرار دیا جائے؟ ولید تجدید نکاح پر راضی ہے مگر ہندہ کا یہ کہنا ہے کہ اگر ارتکاب کفر و شرک سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے تو قبل از تائب ہونے کفر و شرک سے زمانہ ارتکاب کفر و شرک میں ولید سے ہندہ کی جو اولاد پیدا ہوئی؟ وہ بحالت کفر نکاح کے کیا کہلائے گی یعنی زنیم؟ اس وجہ سے ہندہ کو تجدید نکاح سے انکار ہے۔ آیا ہندہ کا انکار درست ہے یا غیر مقبول؟ ارتکاب کفر و شرک سے مسلم و مسلمہ کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا قائم رہتا ہے؟ خالد اور اس کے تابعین کہتے ہیں کہ کفر و شرک کرنے سے ہرگز نکاح نہیں ٹوٹتا اور نہ کسی طرح کا تزلزل و خلل و حرج واقع ہوتا ہے، تجدید ایمان و تجدید نکاح کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔
جواب: ارتکاب کفر و شرک سے مسلم و مسلمہ کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ ولید کو چاہیے کہ شرک و کفر سے توبہ کر کے تجدید نکاح کرے، اور اس نکاح جدید کیلئے دوسرا مہر مقرر کرنا ہوگا، اور ہندہ کا تجدید نکاح سے انکار کرنا درست و مقبول نہیں ہے، اور جو عذر وہ بیان کرتی ہے وہ عذر غلط ہے۔ اس واسطے کہ زمانہ ارتکاب شرک و کفر میں بحالت کفر نکاح ولید سے جو اولاد ہندہ کی پیدا ہوئی ہے وہ بلاشبہ ولد الزنا ہے اور ولد الزنا ہی کہلائے گی، چاہے ہندہ تجدید نکاح کرے یا نہ کرے، ایسا نہیں ہے کہ ہندہ تجدید نکاح نہ کرے تو وہ اولاد ولد الزنا نہ کہلائے گی، اور اگر تجدید نکاح کرے تو تب بھی وہ اولاد ولد الزنا ہی کہلائے گی۔ اور خالد اور اس کے تابعین کا یہ کہنا کہ شرک و کفر سے نکاح ہرگز نہیں ٹوٹتا، غلط اور باطل ہے، اور جہالت پر مبنی ہے۔
(فتاویٰ نذیریہ: جلد، 2 صفحہ، 366)