Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....[حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا]

[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:بارھواں سبب : ’’عمر نے کہا تھا کہ محمد فوت نہیں ہوئے، یہ بات ان کے قلیل العلم ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حاملہ عورت کو سنگ سار کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا، تب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اگر علی نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہو جاتا۔ان کے علاوہ دیگر کئی احکام و مسائل ہیں جن میں آپ نے غلطی کی اور کئی رنگ بدلے ۔‘‘ 

[جواب]:پہلی بات: صحیحین میں ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اُمَمِ سابقہ میں کچھ لوگ مُلہم ہوا کرتے تھے۔ میری امت میں اگر کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ارشاد نہیں فرمائی۔ اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’حالت خواب میں مجھے دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا میں نے خوب سیر ہو کر پیا یہاں تک کہ سیری کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہر ہونے لگا جو دودھ بچ گیا وہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ نے دریافت کیا: پھر آپ نے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی؟ فرمایا:’’ دودھ سے علم مراد ہے۔‘‘ [البخاری(۳۶۸۱) مسلم (۳۶۹۱)

[قبل ازیں بھی دلائل و براہین کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علمی مقام واضح کر چکے ہیں کہ] حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اَعلم الناس تھے۔ باقی رہا یہ کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ گمان کیا کہ آپ فوت نہیں ہوئے، تو یہ ایک لمحہ کے لیے تھا۔ فوری طور پر ان پر منکشف ہو گیا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں ۔ایسے واقعات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی پیش آئے تھے کہ انھوں نے ایک رائے قائم کی اور وہ غلط نکلی؛ بلکہ آپ کے بہت سارے قصے ایسے ہیں جو خلاف واقعہ نکلے؛ اور آپ کا انتقال اسی حال میں ہوگیا۔ اس سے ان کی امامت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔مثال کے طور پر مفوضہ کے مہر کے مسئلہ میں آپ کا فتوی کہ اگر مفوضہ مر جائے اوراس کا مہر مقرر نہ ہوا ہو۔ اور اس طرح کے دیگر مسائل جو کہ اہل علم کے ہاں معروف ہیں ۔

جب کہ حامل کا مسئلہ بہت آسان ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھا کہ وہ عورت حاملہ ہے۔اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی غلطی نہیں ،ہوسکتا ہے کہ جب آپ نے رجم کرنے کا حکم دیاہو تو آپ کو اس کے حامل ہونے کا علم نہ ہو؛ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے آگاہ کردیا ہو۔ توآپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو میں اس کو رجم کردیتا اوراس کا جنین بھی قتل ہوجاتا ۔ اس چیز کا آپ کو خوف محسوس ہوا۔

اگر یہ بات مان لی جائے کہ آپ حامل کو رجم کرنا جائز سمجھتے تھے؛ تو یہ ایسا حکم ہے جو مخفی بھی رہ سکتا ۔شریعت میں تو زانیہ کے قتل کرنے کا حکم ہے۔ حمل تو اس عورت کے تابع ہے۔جیسا کہ اگر کفار کا محاصرہ کرلیا جائے [تو پھر اس میں بچے بھی قتل ہو جاتے ہیں ] جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کرکے ان پر منجنیق سے پتھر برسائے تھے۔ جس میں عورتیں اور بچے بھی قتل ہوئے۔

صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’ اگر کافروں کی بستی پر شبخون مارا جائے ‘ اوران کی عورتیں اور بچے قتل ہوجائیں تو ؟ آپ نے فرمایا: ’’ وہ انہی میں سے ہیں ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ خواتین اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔

یہ بات علماء کرام کی ایک جماعت پر مشتبہ ہوگئی ؛ اس لیے انہوں نے شبخون مارنے سے منع کردیا ؛ اس خوف سے کہ کہیں عورتیں اور بچے قتل نہ ہوجائیں ۔

ایسے ہی یہ بات بعض ان لوگوں پر بھی مشتبہ رہتی ہے جو اسے جائز سمجھتے ہیں ۔مثلاً وہ کہتے ہیں : رجم ایسی حد ہے جسے فوراً نافذ کرنا چاہیے ؛ اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ۔ لیکن سنت نے ان دونوں چیزوں میں تفریق کی ہے ؛ جس میں تاخیر ممکن ہے جیسے حد ؛ اور جسے فوری طور پر کر گزرنا چاہیے جیسے محاصرہ اور شبخون وغیرہ ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو عام لوگوں کی طرف بھی رجوع کرلیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مہر کے مسئلہ میں جب ایک عورت نے کہا: کیا ہم آپ کی بات سنیں یا اللہ تعالیٰ کی بات سنیں ؟آپ نے فرمایا نہیں : اللہ تعالیٰ کی بات سنو ؛ تو اس عورت نے کہا: پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰلہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا ﴾ [النساء۲۰]

’’ اور ان میں کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو ۔‘‘

تو آپ نے فرمایا: ’’ مرد سے خطأ ہوگئی اور عورت حق کو پہنچ گئی ۔‘‘

ایسے ہی آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے؛ حالانکہ آپ خود ان سب سے بڑے عالم تھے۔ سو جب کو ئی بڑا اور علم والا انسان اگر اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کی طرف کسی چیز میں رجوع کرے تو اس سے اس کی شان میں اور بڑا عالم ہونے میں قدح واقع نہیں ہوتی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے تین مسائل سیکھے تھے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہدہد نے بلقیس کی خبر دی تھی۔

صحابہ میں کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارے معاملات میں مشورہ دیا کرتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ میں سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوعکیا کرتے تھے۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید و موافقت میں نازل ہوئیں ؛ جیسے پردہ ‘ بدر کے قیدیوں کا مسئلہ ؛ اور مقام ابراہیم کو مصلی بنانے کا ارادہ ؛ او رعسی ربہ إن طلقکن اور اس طرح کے دیگر مسائل میں موافقت ۔

یہ مقام و شرف نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا اور نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ۔

سنن ترمذی میں روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر میں تم لوگوں میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر مبعوث ہوتا ۔‘‘

نیز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے۔‘‘[سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب (۱۷؍۵۲)،(ح:۳۶۸۶)۔ ]

[شہادت پانے کے بعد جب عمر رضی اللہ عنہ کو چار پائی پر رکھا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی تعریف فرمائی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اے کاش! آخری وقت میں مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اعمال کیساتھ بارگاہ ربانی میں پیش کیا جائے۔‘‘] [بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۶۸۵) ،صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۹)۔]

شیعہ کے نزدیک نماز تراویح بدعت ہے:

[اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:تیرھواں سبب: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی بدعت جاری کی۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، لوگو! رمضان کی راتوں میں نفل نماز باجماعت بدعت ہے۔ چاشت کی نماز بھی بدعت ہے۔سنت میں سے بہت تھوڑی سی چیز بہت بڑی بدعت سے بہت بہتر ہے۔آگاہ ہوجاؤ! ہر بدعت گمراہی ہے اورہر گمراہی کا راستہ جہنم کو جاتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ رمضان میں رات کو نکلے تو مساجد میں چراغ جلتے دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نفلی نماز کے لیے جمع ہوئے ہیں ، فرمایا :یہ ہے تو بدعت مگر بہت اچھی بدعت ہے۔آپ نے اس کے بدعت ہونے کا اعتراف کیا ۔‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں : تمام گمراہ اور بدعتی فرقوں میں شیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب بیانی اور افتراء پردازی کرتے ہوئے نہیں جھجکتے اورانتہائی جرأت کے ساتھ شرم و حیاء کے جذبات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔اور ایسی ایسی باتیں گھڑ لاتے ہیں جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادنہیں فرمائیں ۔ اور انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ۔اگر چہ ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ان روایات کے جھوٹ ہونے کا علم ہوتاہے۔ اورجس کو اتنا بھی علم نہ ہو ‘ وہ انتہائی پرلے درجہ کا جاہل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا گیاہے : 

((إن کنت لا تدری فتلک مصیبۃ و إن کنت تدری فالمصیبۃ أعظم۔))

’’اگر آپ نہیں جانتے تو یہ بھی ایک مصیبت ہے۔ اور اگر جانتے ہیں تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے ۔‘‘

اس اعتراض کا جواب کئی زاویوں سے دیا جاسکتا ہے:

پہلا جواب: ....ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اس کی سند کہاں ہے ؟ اور مسلمانوں کی کتابوں میں سے کس کتاب میں اس کو روایت کیاگیا ہے؟ اور اہل علم میں سے کس نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے؟

دوسرا جواب :....تمام اہل علم محدثین کا اتفاق ہے ‘ اوروہ علم ضروری کے طور پر جانتے ہیں کہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر من گھڑت جھوٹ ہے۔ جس انسان کو حدیث کا ادنیٰ سا بھی علم ہو وہ اس حدیث کے جھوٹ ہونے کو جانتا ہے۔ مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی ایک کتاب میں بھی اس روایت کو نقل نہیں کیا ۔ نہ ہی صحاح میں ؛ نہ ہی سنن میں ؛ نہ ہی مسانید اور معجمات میں اور نہ ہی اجزاء میں ۔اور نہ ہی اس کی کوئی سند معروف ہے۔نہ ہی ضعیف سند نہ ہی صحیح۔ بلکہ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔

تیسرا جواب:....احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عہد رسالت میں لوگ رمضان کی راتوں میں نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے ۔ [معرفۃ السنن والآثار للبیہقی (۲؍۳۰۳،ح:۱۳۶۳)۔] احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے دو یا تین راتوں میں لوگوں کو باجماعت تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: 

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کی)ایک رات آدھے حصہ میں نکلے۔ آپ نے مسجد میں نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کو لوگوں نے اس کا ایک دوسرے پر چرچا کیا۔ دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔ اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر صبح ہوئی تو اس کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا۔ تیسری رات میں اس سے زیادہ آدمی جمع ہوئے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ نے نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں لوگوں کا اس میں سمانا دشوار ہو گیا لیکن آپ صبح کی نماز کے لیے نکلے جب صبح کی نماز ادا کی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:’’امابعد! مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہو جائے، اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آجا ؤ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حالت یہی رہی۔‘‘[البخاری، کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان(ح:۲۰۱۲)، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان (ح:۷۶۱)۔]

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

’’ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان بھر روزے رکھے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک بھی تراویح میں کھڑے نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ رمضان کی سات راتیں باقی رہ گئیں ۔ ساتوں شب کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا حتی کہ رات کا تہائی گزر گیا۔ اس کے بعد چھٹی رات قیام نہ فرمایا۔ پھر اسکے بعد پانچویں شب آدھی رات تک قیام کیا ۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ! اگر آپ ہمارے ساتھ نفل پڑھیں (تو کیا خوب ہو)۔

آپ نے فرمایا: ’’ جس نے فارغ ہونے تک امام کیساتھ قیام کیا تو اس کا یہ قیام رات بھر کے قیام کے برابر (موجب اجر و ثواب) ہے۔ پھر اسکے بعد چوتھی قیام نہ فرمایا پھر اسکے بعد والی یعنی شب کو آپ نے ازواج اور گھر والوں کو جمع فرمایا اور لوگ بھی جمع ہو گئے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یہاں تک کہ ہمیں فلاح فوت ہو جانے کا اندیشہ ہونے لگا۔ عرض کیا فلاح کیا چیز ہے ؟ فرمایا:’’ سحری کا کھانا۔ فرماتے ہیں پھر آپ نے باقی مہینہ ایک رات بھی قیام نہ فرمایا۔‘‘ [سنن أبی داؤد ۲؍۶۸۔ کتاب تفریع أبواب شہر رمضان‘ باب في قیام في شہر رمضان۔ سنن الترمذي ۲؍۱۵۰؛ کتاب الصوم ‘ باب: ماجاء في قیام شہر رمضان۔ وقال الترمذي : حسن صحیح ۔ سنن النسائی ۳؍۲۰۲؛ کتاب قیام اللیل‘ باب : قیام شہر رمضان۔[سنن ابن ماجہ: ح1327]

اسے امام احمد ‘ ترمذی ‘ نسائی اور ابوداؤد نے بھی نقل کیاہے۔

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں قیام کی ترغیب دیا کرتے تھے سوائے اس کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تاکیدی حکم فرماتے ہوں ۔ اور فرماتے کہ جو آدمی رمضان میں ایمان اور ثواب سمجھ کر قیام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم اسی طرح باقی رہا ۔پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں اسی طرح یہ حکم باقی رہا۔‘‘[صحیح مسلم: ح1774؛ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا؛ باب: الترغیب في قیام رمضان ھو التراویح]۔البخاری کتاب التراویح‘ باب: فضل من قام رمضان ۳؍۴۴۔]

امام بخاری نے عبد الرحمن بن عبد القاری سے روایت کیا ہے کہ میں رمضان کی ایک رات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد گیا۔ تو دیکھا لوگ ادھر ادھر منتشر تھے۔ کچھ لوگ انفرادی طور پر نماز میں مشغول تھے۔ چند آدمی نماز باجماعت ادا کر رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ میں ایک قاری کو مقرر کردوں ، جس کی اقتداء میں سب لوگ مل کر نماز ادا کیا کریں تو یہ بہتر ہوگا۔ چنانچہ آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات نکلا تو لوگ قاری کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’یہ بڑی اچھی بدعت ہے، جس نماز سے تم سو رہتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جو تم ادا کرتے ہو، آپ کا مطلب یہ تھا کہ رات کے آخری حصہ میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ [صحیح بخاری ، حوالہ سابق(حدیث:۲۰۱۰)۔ ]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتماعی قیام رمضان کو بدعت قرار دیا؛اس لیے کہ یہ اجتماع اس سے پہلے اس طرح سے نہیں ہواکرتا تھا۔کیونکہ جو کام شروع میں کیا جائے لغت کے اعتبار سے اسے بدعت کہتے ہیں ۔ یہ شرعی بدعت نہیں ہے ۔ اس لیے کہ شرعی بدعت جو کہ گمراہی ہے ؛ وہ بدعت ہے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔جیسا کہ کسی ایسی چیز کو مستحب قراردیا جائے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہ کرتے ہوں ۔اورایسی چیز کو واجب کہناجو اللہ تعالیٰ نے واجب نہ کی ہو۔ اور ایسی چیز کو حرام قراردیناجسے اللہ تعالیٰ نے حرام نہ ٹھہرایا ہو ۔اس لیے کہ ان افعال کے بجالانے کے لیے خلاف شریعت اعتقادکا ہونا لازمی ہے۔ ورنہ اگر کوئی انسان کوئی حرام کام کررہا ہو اور اس کے حرام ہونے کا اعتقاد بھی رکھتا ہو تو اس کے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جاسکتا۔

چوتھا جواب:....اگر قیام رمضان باجماعت کوئی مذموم اورقبیح فعل ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ جب امیر المؤمنین بن گئے تھے ؛ اور کوفہ آپ کا دار الخلافہ تھا تو کم از کم آپ کوفہ میں اسے بند کردیتے۔جب کوفہ میں بھی یہ فعل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی طرح ہی جاری رہاتویہ اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔بلکہ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:’’اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کوایسے منور کرے جیسے آپ نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا۔‘‘[اسد الغابۃ(۴؍۱۸۳)۔ ]

ابو عبد الرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلا کر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس رکعات پڑھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انھیں و تر پڑھایا کرتے تھے۔[سنن کبریٰ بیہقی(۲؍۴۹۶)، وسندہ ضعیف۔ اس کی سند میں حماد بن شعیب راوی ضعیف و منکر الحدیث ہے۔ دیکھئے: لسان المیزان (۲؍۳۴۸)۔ ]

عرفجہ ثقفی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قیام رمضان کا حکم دیا کرتے تھے، ایک امام آدمیوں کے لیے مقرر کرتے اور ایک عورتوں کے لیے، میں عورتوں کا امام ہوا کرتا تھا۔[سنن کبری بیہقی (۲؍۴۹۴)، مصنف عبد الرزاق (۵۱۲۵)۔]امام بیہقی نے یہ دونوں روایتیں سنن میں نقل کی ہیں ۔

قیام رمضان کے متعلق علماء کرام میں اختلاف ہے؛ کیا یہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے؟ یہ اس کا گھر میں پڑھنا افضل ہے؟ اس میں دو قول مشہور ہیں ۔امام شافعی اورامام احمد رحمہما اللہ سے بھی یہی دو قول منقول ہیں ۔ایک گروہ مسجد میں باجماعت تراویح پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ان میں امام لیث رحمہ اللہ بھی ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ اور فقہاء کا ایک گروہ گھر میں یہ نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک ہے:

’’ فرائض کے علاوہ مردکی افضل ترین نمازوہ ہے جوگھر پر ادا کی جائے۔ ‘‘[البخاری کتاب الأذان ‘ باب صلاۃ اللیل۔ صحیح مسلم: کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا؛ باب: استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ و جوازہا في المسجد۔]

امام احمداور دیگر علماء کرام رحمہم اللہ کی دلیل حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جس نے فارغ ہونے تک امام کیساتھ قیام کیا تو اس کا یہ قیام رات بھر کے قیام کے برابر [موجب اجر و ثواب] ہے۔‘‘

پہلی حدیث:....’’ فرائض کے علاوہ مردکی افضل ترین نمازوہ ہے جوگھر پر ادا کی جائے ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک اس نماز کے لیے جماعت مشروع نہ ہو‘ مگر جب جماعت مشروع ہوجائے جیسے : نماز کسوف‘وغیرہ۔ توپھر اس نماز کا مسجد میں ادا کرنا افضل ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔

نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس خوف کے تحت جمع نہ کیا تھا کہ کہیں یہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض نہ ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب اس قسم کا کوئی احتمال باقی نہ رہا ۔ تو اب یہ بھی ایسے ہی ہے جیسے قرآن کا جمع کرنا وغیرہ [اس طرح کے دیگر امور] ۔

جب اس نماز میں جماعت اصل میں مشروعیت کا ثبوت رکھتی ہے تو پھر اسے باجماعت ادا کرنا ہی افضل ہے۔

رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ:’’جو لوگ اس نماز سے سو جاتے ہیں وہ افضل ہیں ‘‘ اس سے مراد آخری رات ہے۔ کیونکہ لوگ پہلے وقت میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ یہ کلام بالکل درست اور صحیح ہے۔اس لیے کہ اس نماز کے لیے رات کا آخری حصہ افضل ہے جیسے عشاء کی نماز کے لیے پہلا وقت افضل ہے۔ اور مفضول وقت کے ساتھ کبھی کوئی ایسا عمل خاص ہو سکتا ہے جس کا دوسرے وقت کی نسبت اسی وقت میں کرنا افضل ہو۔ جیسا کہ عرفات اورمزدلفہ میں دو دو نمازیں جمع کرکے پڑھنا ہی افضل ہے؛ کیونکہ اس کے سبب نے ایسا کرنا واجب کردیاہے۔ اگرچہ اصل یہ تھا کہ ظہر کو اس کے پہلے وقت میں ادا کرنا ہی افضل ہے لیکن گرمیوں کی شدت کی صورت میں اسے ٹھنڈا کرکے پڑھنا افضل ہے۔

جب کہ جمعہ کے دن زوال کے بعد نماز جمعہ پڑھ لینا افضل ہے۔ جمعہ کے دن ٹھنڈی ہونے تک کا انتظار کرنا افضل نہیں ۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں لوگوں پر مشقت ہے۔ عشاء کی نماز میں ایک تہائی رات تک تأخیر کرنا افضل ہے۔ ہاں اگر لوگ جمع ہوجائیں اور ان پر انتظار کرنا شاق گزررہا ہو تو پھر اس سے پہلے وقت میں ادا کرلینا افضل ہے۔ ایسے ہی اگر رمضان کے نصف کے بعد لوگوں کے اجتماع کا مسئلہ بھی ہے۔

سنن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’دو آدمیوں کا مل کر نماز ادا کرنا اکیلے ادا کرنے کی نسبت زیادہ پاکیزہ ہے ۔‘‘ اور تین آدمیوں کا ملکر نماز پڑھنا اس سے زیادہ بہتر ہے۔ اور جتنا ہی یہ تعدادزیادہ ہوگی اللہ کے ہاں اتنی زیادہ محبوب ہے ۔‘‘[سنن أبي داؤد ‘کتاب الصلاۃ ‘ باب فضل صلاۃ الجماعۃ ۱؍۱۵۱۔ وسنن النسائي کتاب الإمامۃ باب: الجماعۃ إذا کانوا اثنین ۲؍۱۰۴۔ وصححہ الألبانی في صحیح الجامع الصغیر۲؍۲۵۴۔]

یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جب صبح کی نماز پڑھاتے تو اسے خوب روشنی تک جاری رکھتے ؛ تاکہ لوگوں کی زیادہ تعداد جمع ہوجائے ؛ اگرچہ افضل اندھیرے میں ہی نماز پڑھا لینا تھا۔ یہ بات نص اور اجماع سے ثابت ہے کہ کبھی مفضول وقت کسی ایسے فعل کے ساتھ خاص ہوتا جس کا کرنا اسی وقت میں افضل ہوتا ہے۔

جب کہ نماز چاشت کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں ۔بلکہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ:آپ فرماتے ہیں :

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں ہر ماہ تین دن کے روزے رکھا کروں ‘ اور چاشت کی دو رکعت نماز پڑھا کروں ‘ اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کروں ۔‘‘[البخاری ‘ کتاب الصوم ‘ باب صیام أیام البیض۲؍۵۷۔ ومسلم ‘ کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا‘ باب استحباب صلاۃ الضحی ؛ ۱؍۴۹۹۔ سنن أبي داؤد ۲؍۸۹۔ کتاب الوتر ‘ باب في الوتر قبل النوم۔]

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسی روایت حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ نیزحضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ہر صبح تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر صدقہ ہوتا ہے۔ ہر تسبیح کہنا صدقہ ہے؛اللہ کی حمد بیان کرنا صدقہ ہے؛ لا إلہ إلا اللّٰہ کہنا صدقہ ہے؛اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے؛ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے؛ برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔اور ان تمام کی جگہ چاشت کی دو رکعت نماز کفایت کرجاتی ہیں ۔‘‘[مسلم ‘ کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا‘ باب استحباب صلاۃ الضحی ؛ ۱؍۴۹۹۔ سنن أبي داؤد ۲؍۴۸۹۔ کتاب التطوع ‘ باب في إماطۃ الأذي عن الطریق ۔ بروایۃ أبي ذر رضی اللّٰہ عنہ۔]