Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مشرک باپ کی ولایت مسلمان بیٹی پر باقی نہیں رہتی، اور مسلمان عورت کا نکاح مشرک مرد سے حرام ہے


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک میواتی نے جو کہ نام کا مسلمان ہے اور سسیتلاد بھوانی اور لعل داس وغیرہ معبودانِ ہنود کو پوجتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے، اپنی لڑکی نابالغہ کا نکاح جس کی عمر چھ برس ہوگی، ایک میواتی شخص سے کہ وہ بھی نام کا مسلمان ہے اور سستیلاد بھوانی اور لعل داس وغیرہ معبودانِ ہنود کو پوجتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے، سے کر دیا تھا۔ جب وہ لڑکی بالغہ ہوئی اس نے کفر و شرک سے توبہ کی اور نماز روزہ کرنے لگی، پھر اس کے بھائی نے کسی مسلمان مؤحد سے اس کا نکاح کر دیا۔ اب یہ نکاح ثانی اس لڑکی کا شرعاً جائز ہوا یا نہیں؟

جواب: صورت مرقومہ میں معلوم ہوا کہ نکاح ثانی صحیح اور جائزہ ہوا، اور پہلا نکاح نا جائز و حرام ہوا تھا۔ اس واسطے کہ پہلا نکاح ایسے شخص سے ہوا تھا جو صریح مشرک تھا، یہ سبب پوجنے سستیلاد بھوانی و لعل داس وغیره معبودانِ ہنود کے، اور مسلمان عورت کا نکاح مشرک مرد سے نا جائز و حرام ہے، قال اللہ تعالیٰ: وَلَا تُنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ حَتّٰى يُؤۡمِنُوۡا:(سورۃ البقرہ: آیت، 221)

اور اس پر اجماع امتِ محمدیہﷺ ہے۔ اور دوسرے نکاح کا صحیح جائز ہونا ظاہر ہے، کیونکہ یہ نکاح مسلمان مؤحد سے ہوا ہے۔

رہی یہ بات کہ باپ کی موجودگی میں بھائی کو ولایت نکاح کی نہیں ہوئی کیونکہ باپ ولی اقرب ہے اور بھائی ولی ابعد سو یہ اس صورت میں ہے کہ باپ کا ولی ہونا باقی رہے، اور اگر کسی وجہ سے باپ کی ولایت جاتی رہے تو بھائی ہی ولی اقرب ہو جاتا ہے۔ اور صورت مسئولہ میں باپ کے صریح مشرک ہونے کی وجہ سے باپ کی ولایت جاتی رہی، لہٰذا بھائی ہی ولی اقرب ہے۔

(فتاویٰ نذیریہ: جلد، 2 صفحہ، 367)