Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل ششم: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے دلائل

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل ششم:
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے دلائل

[اعتراض]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’چھٹی فصل: ابوبکر کی امامت کے دلائل فسخ ہونے کے بارے میں : ’’انہوں [اہل سنت] نے[خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر] کئی طرح سے استدلال کیا ہے۔سب سے پہلی دلیل اجماع ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ: ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع منعقد ہوا تھا؛ اس لیے کہ بنو ہاشم کی ایک جماعت ان کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔ اکابرصحابہ میں سے حضرت سلمان، ابو ذر، مقداد ، عمار، حذیفہ، سعد بن عبادہ، زید بن ارقم، اُسامہ، اور خالد بن سعید العاص رضی اللہ عنہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہیں مانتے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا والد بھی آپ کی خلافت کا منکر تھا۔ اس نے پوچھا: لوگوں نے کس کو خلیفہ منتخب کیا؟ لوگوں نے کہا:’’تیرے بیٹے کو۔‘‘ اس نے پوچھا:’’ان دونوں کمزوروں کو کیا ہوا؟ ‘‘ یہ حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ تھا۔لوگوں نے بتایا کہ: وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہو گئے تھے؛ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو عمر میں بڑا سمجھ کر لوگوں نے امام بنا لیا۔تو اس نے کہا: ’’میں عمر میں اس سے بھی بڑا ہوں ۔ بنو حنیفہ کا قبیلہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا منکر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کو زکوٰاۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ یہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو مرتد قرار دے کر ان کو قتل کیا اور قیدی بنایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کی اور اپنی خلافت کے زمانہ میں ان لونڈی غلاموں کو آزاد کردیا تھا۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]

[جواب]:ہم کہتے ہیں : الحمد للہ ؛کہ اس ذات نے ان مرتدین کے بھائیوں کی حقیقت کوبھی آشکار کردیا۔اب عوام وخواص میں یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ یہ لوگ ان ہی مرتدین کے سچے بھائی ہیں ۔اوران کی زبان سے ہی ان کے اسرار چاک کرکے انہیں رسواکیا۔بیشک اللہ تعالیٰ ان خائنوں کے چھپے رازوں سے آگاہ ہے؛ اور اللہ اور اس کے رسول ؛ اور اللہ کے نیک بندوں ؛اہل اللہ ؛ متقین سے ان کی عداوت کووہ آشکار کرتا رہتا ہے۔[فرمان الٰہی ہے]:

﴿ وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتنتہ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ﴾ [المائدۃ۴۱]

’’ جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں ۔‘‘

ہم کہتے ہیں : سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جب ایسی بات سنے گاتو وہ کہے گا: اس کلام کا کہنے والا یا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال سے جاہل مطلق ہے یا پھر لوگوں میں سب سے زیادہ بہتان طرازی کا مرتکب ہے ۔

٭ میرا خیال ہے کہ : یہ مصنف اور اس کے امثال دیگر روافض جاہل اور اندھے ہیں ، جواپنے اسلاف کی کتابوں سے بغیر کی تحقیق و اعتبار کے کلام نقل کردیتے ہیں ۔ان کی اسلامی تاریخ پر کوئی نظر نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی اس موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں کے متعلق انہیں صحیح معنوں میں کوئی آگاہی ہوتی ہے۔ پس یہ مصنف اوراس کے امثال جاہل کے جاہل ہی ہیں ۔نہ ہی انہیں معقول کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی منقول کا۔

٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ روافض کے شیوخ بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے اکثر لوگ خواہش پرست اور جاہل ہوتے ہیں ۔ پس ان کی خواہشات کے مطابق جو کوئی بھی بات کہے وہ اسے مان لیتے ہیں اور اس کی تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں ۔[ خواہ کہنے والا دجال ہی کیوں نہ ہو]۔اس کے سچ اور جھوٹ ہونے کی تحقیق نہیں کرتے۔ بخلاف ازیں جو ان کے افکار و معتقدات کے خلاف کوئی بات کہے وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی حق گو کیوں نہ ہو،مگر انہیں سچ اور جھوٹ کی تحقیق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔[ایسے لوگ کیوں کر فلاح پائیں گے اور جو اس مرض کا شکار ہو اس کی عافیت کی کیا امید کی جا سکتی ہے ؟ ] ۔ شیعہ اس آیت کے مصداق ہیں :

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَائَ ہٗ﴾ (العنکبوت:۶۸)

’’اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہے جو اللہپر جھوٹ باندھے یا جب اسکے پاس حق آئے تو اس کی تکذیب کرے۔‘‘

اہل علم و دین [اہل سنت ]بحمد اللہ اس آیت کے مصداق ہیں :

﴿وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (الزمر:۳۳)

’’جو شخص حق کو لایا اور اس کی تصدیق کی وہی لوگ حقیقی متقی ہیں ۔‘‘

مصنف کی سب سے بڑی جہالت اور گمراہی یہ ہے کہ وہ کفر پر بنی حنیفہ اتفاق کو اجماع قرار دے رہا ہے۔ اور کہتا ہے : بنو حنیفہ کو قتل کرنے اور قیدی بنانے اورمرتد قرارد دینے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے اور زکوٰاۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔اس سے پہلے بھی مصنف کا اس قسم کا کلام گزر چکا ہے۔

ہرخاص و عام صاحب علم اس بات سے آگاہ ہے کہ بنو حنیفہ کافر تھے اوریمامہ سے نبوت کا دعوی کرنے والے مسیلمہ کذاب کی پیروی کرتے تھے۔اس مسیلمہ کذاب نے اپنے ایک خط میں دعوی کیاتھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت میں برابر کا شریک ہے۔

اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے آخری ایام میں نبوت کادعوی کیا تھا۔پس یہ مسیلمہ ‘ اور یمن کے شہر صنعاء میں اسود عنسی؛ جس کا اصل نام عبہلہ تھا؛ اور خلق کثیر نے اسود عنسی کی اتباع کرلی تھی؛ یہ لوگ قتل کیے گئے۔ اسود عنسی کو اللہ تعالیٰ نے حضرت فیروز دیلمی کے ہاتھ پر قتل کیا۔اور اس کے اعوان و انصار بھی قتل ہوئے۔اس کے قتل کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایان میں پیش آیا۔ اس قتل کی رات ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل ہونے کی خبر دیدی تھی اور فرمایا تھا:

’’ اسے نیک گھروالوں میں سے ایک نیک انسان نے قتل کیا ہے ۔‘‘[اس کا ذکر ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الاستعیاب ‘‘میں کیا ہے؛ علی ہامش الاصابۃ۳؍۲۰۲ ۔ابن عمر سے روایت ہے:جس رات اسود عنسی قتل ہوا ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آسمانوں سے خبر پہنچ گئی۔آپ ہمیں بشارت سنانے کے لیے باہرنکلے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’آج رات اسود قتل ہوگیا اور اسے ایک مبارک گھرانے کے مبارک انسان نے قتل کیا ہے ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسول اللہ! اسے کس نے قتل کیا ؟آپ نے فرمایا: فیروز الدیلمی نے ۔‘‘]

٭ اسود عنسی نے علیحدہ سے نبی ہونے کا دعوی کیا تھا؛ اس نے صرف شراکت داری پر اکتفاء نہیں کیا تھا۔اور یمن پر غلبہ پاکر وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال کونکال دیا تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قتل کیا ‘اور مسلمانوں کوکئی معرکوں کے بعد اس پر فتح عطا فرمائی ۔ یہ واقعات اہل علم کے ہاں مشہور و معروف ہیں ۔

جب کہ مسیلمہ کذاب نے نبوت میں شراکت کادعوی کیا تھا۔اوریہ انسان حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ایام تک زندہ رہا۔ صحیح بخاری میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں سو رہا تھا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو مجھے فکر ہوئی اور خواب میں وحی آئی کہ آپ ان کو پھونک دیجئے، میں نے ان کو پھونک دیا تو وہ اڑگئے میں نے اس کی تعبیر ان دو کذابوں سے لی جو میرے بعد ظاہر ہوں گے پس ان میں سے ایک صنعاء [کا اسود عنسی] اور دوسرا یمامہ کا [رہنے والا مسیلمہ کذاب ]تھا۔‘‘ [ بخاری:ح841]

مسیلمہ کے واقعات ؛ اس کا نبوت کا دعوی کرنا‘بنی حنیفہ کا اس کا اتباع کرنا اتنی مشہور خبریں ہیں جو صرف ایسے انسان سے مخفی رہ سکتی ہیں جو علم و معرفت سے انتہائی دور اوربیگانہ ہو۔

مسیلمہ کذاب کی خبریں مسلمان تومسلمان یہود ونصاری تک جانتے ہیں ۔اوراس نے اپنا جوقرآن پیش کیا تھا اس کی کئی سورتیں آج تک لوگوں کویاد ہیں ۔مثال کے طور پر وہ کہتا ہے:

۱....(( یَا ضِفْدَعُ بِنْتُ ضِفْدَ عَیْنِ نَقِیٌّ کَمْ تَنَقِّیْنَ ، لَا الْمَائَ تُکَدِّرِیْنَ وَ لَا الشَّارِبَ تَمْنَعِیْنَ، رَاسُکِ فِی الْمَائِ وَ ذَنْبُکِ فِی الطِّیْنِ۔))

’’اے مینڈکی دو مینڈکوں کی بیٹی ! تم چلاؤ کتنا چلاؤ گی۔نہ ہی تم پانی کوگدلا کرتی ہو اور نہ ہی پینے والے کو روکتی ہو تمہارا سر پانی میں ہے اور دم مٹی میں ہے ۔‘‘

اس کی جھوٹی وحی میں سے یہ بھی تھا:

۲....(( اَلْفِیْلُ مَا الْفِیْلُ وَ مَا اَدْرَاکَ مَا الْفِیْلُ، لَہٗ زَلُوْمٌ طَوِیْلٌ ، اِنَّ ذَالِکَ مِنْ خَلْقِ رَبِّنَا لقلیل۔))

’’ ہاتھی ؛ ہاتھی کیا ہے اور تمہیں کیا پتہ ہاتھی کیا ہے ‘اس کی ایک لمبی سونڈ ہے ۔بیشک یہ ہمارے رب کی تخلیق میں بہت کم ہے۔‘‘

۳....(( إنا أعطیناک الجماہر فصل لربک و ہاجر و لا تطع کل ساحر وکافر۔))

’’بیشک ہم نے آپ کوجماہر عطا کیے ہیں ۔ آپ اپنے رب کی نمازپڑھو اورہجرت کرو؛ کسی بھی جادو گر اورکافر کی بات مت مانو۔‘‘

۴....((والطاحنات طحناً فالعاجنات عجناً فالخابزات خبزاً إھالۃ و سمناً إن الأرض بیننا و بین قریش نصفین ؛ ولکن قریشاً قوم لا یعدلون۔))

’’ اور قسم ہے چکی پیسنے والیوں کی جب وہ چکی پیسیں ؛ اور آٹا گوندھنے والیوں کی جب وہ آٹا گوندھیں ۔او رروٹیاں پکانے والوں کی جب وہ روٹیاں پکائیں ؛ اورپراس پر گھی اور سالن ڈالیں ۔بیشک زمین ہمارے اور قریش کے مابین آدھی آدھی ہے ؛ مگر قریش کے لوگ انصاف نہیں کرتے۔‘‘

مسیلمہ نے جو قرآن مرتب کیا تھا، وہ حد درجہ مضحکہ انگیز اور اس کی حماقت وسفاہت کا آئینہ دار تھا۔جب مسیلمہ کے قتل کے بعد بنو حنیفہ کا وفد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا توآپ نے ان سے مسیلمہ کا کچھ کلام سنانے کو کہا۔جس پر انہوں نے یہ کلام سنایا توآپ نے فرمایا:

’’تمہارے لیے ہلاکت ہو ! مسیلمہ تمہاری عقلوں کو کہاں لیے جا رہا ہے، یہ کلام اللہ کا نازل کردہ نہیں ۔‘‘

اس مسیلمہ کذاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی زندگی میں یہ خط بھی لکھا تھا:

’’ مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف ؛ اما بعد !

’’ بیشک میں اس امر [نبوت و رسالت ] میں آپ کا شریک ہوچکا ہوں ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیتے ہوئے یہ خط تحریر فرمایا :

’’ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کی جانب ۔‘‘

جب مسیلمہ کذاب کا نمائندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: کیا تم بھی یہ گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ۔

تو آپ نے فرمایا: اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تمہاری گردن مار دیتا۔‘‘

پھر ان دوسفیروں میں سے ایک کوفہ میں ملا ‘ جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی بنیاد پر قتل کروادیا۔[اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں : سیرت نبوی از ابن کثیر۴؍۹۷۔ سیرت ابن ہشام ۴؍۲۴۷۔ إمتاع الأسماع ۵۰۸۔ زاد المعاد ۳؍۶۱۰۔]

مسیلمہ کذاب اس سے پہلے بنو حنیفہ کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام کا اظہار کر چکا تھا۔ پھر جب واپس اپنے علاقہ میں چلا گیا تو اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگا: ’’مجھے محمد نے اپنے ساتھ نبوت میں شریک کرلیا ہے ۔‘‘ اور اس پر دو آدمی گواہ بھی پیش کیے ۔ ان میں سے ایک رحال بن عنفوۃ تھا۔اس نے اس بات کی گواہی دی۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں سے جن میں ایک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرا یہی رحال بن عنفوۃ تھا ؛ فرمایا تھا: ’’ تم میں سے ایک آدمی داڑھیں جہنم میں فلاں اور فلاں سے بڑی ہیں ۔‘‘[علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سیرت نبویہ ۴؍۹۷ پر لکھا ہے: ’’ امام سہیلی اور دوسرے سیرت نگاروں نے ذکر کیا ہے کہ : اس رحال بنوعنفوہ کا اصل نام نہار تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا ‘اور کچھ قرآن بھی سیکھا؛ اور ایک مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر گزر ہوا تو یہ تین افراد بیٹھے ہوئے تھے: فرات بن حیان ‘ ابوہریرہ اور رحال بن عنفوہ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے ایک آدمی داڑھیں جہنم میں فلاں اور فلاں سے بڑی ہیں ۔‘‘ پس یہ دونوں مخلص صحابی ڈرنے لگ گئے ۔ یہاں تک کہ رحال بھی مسیلمہ کذاب کے ساتھ مرتد ہوگیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹی گواہی دی کہ آپ نے مسیلمہ کو اپنے ساتھ نبوت میں شریک کرلیا ہے۔اور جو کچھ قرآن اسے یاد تھا اسے لوگوں میں سنا کر مسیلمہ کی طرف منسوب کرنے لگا۔اس طرح بنی حنیفہ میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہوا۔ جنگ یمامہ کے موقع پر زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا ۔]

ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں شہادت نصیب ہوگئی۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی طرح لرزاں و ترساں رہے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا تو اس رحال نے اس کے نبی ہونے کی گواہی دی اوراس کی اتباع اختیار کرلی۔اب اس میں کوئی شک باقی نہ رہا ہے فرمان نبوت سے مراد یہی رحال بن عنفوہ تھا۔

مسیلمہ کا مؤذن جب اذان دیتا توکہتا :

’’ أشہد أن محمدًا و مسیلمہ رسولا اللّٰہ۔‘‘

’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اور مسیلمہ دونوں اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘

بنو حنیفہ کا ارتداد اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ :

امت کے اولین و آخرین کے نزدیک بنو حنیفہ کا قتل اور ان کا قیدی بنانا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا عظیم کارنامہ ہے۔اس لیے کہ لوگوں میں سب سے بڑے مرتد بنی حنیفہ تھے۔ آپ نے عدم ادائیگی زکوٰۃ کی بنا پر ان کو قتل نہیں کیا تھا، بلکہ اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ مسیلمہ کذاب پر ایمان لائے تھے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کی ماں بنو حنیفہ ہی میں سے آپ کی باندی تھی۔اس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جوکہ مرتد خواتین کوقیدی بنانے کو جائز کہتے ہیں ؛ جب کہ مرتدین اہل حرب میں سے ہوں ۔اگریہ لوگ مسلمان اور معصوم الدم تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے کیسے یہ جائز ہوگیا کہ ان کی عورتوں کو قیدی بھی بنائیں اور پھر ان سے ہم بستری بھی کریں ۔

جن قبائل کے خلاف حضرت صدیق عدم ادائیگی زکوٰۃ کی بنا پر نبرد آزما ہوئے تھے وہ بنو حنیفہ کے علاوہ دیگر قبائل تھے۔ انھوں نے بالکل ترک زکوٰۃ کو مباح قرار دیا تھا؛ اور کلیۃً زکواۃ کی ادائیگی کاانکار کردیا تھا؛ اس لیے ان کے خلاف اس بات پر جنگ آزمائی کی نوبت آئی۔جنگ کی وجہ یہ نہیں تھی کہ زکواۃ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچائی جائے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اتباع کارجیسے حضرت امام ابوحنیفہ و احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ کا خیال ہے  کہ جب کوئی قوم یہ کہے کہ ہم زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہیں ، مگر ہم فلاں امام کو نہیں دیں گے، تو ان کے خلاف صف آرائی جائز نہیں ۔اور یہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جنگ کرنے کی وجہ زکواۃ کی ادائیگی کا بالکل انکار تھا۔یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوزکواۃ ادا نہیں کررہے۔

بلکہ اگریہ شیعہ مصنف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرنے والوں کو یہود ومجوس اور نصاری کے برابر کرتا؛ تو یہ بھی ایسا ہی ہوتا جیسے وہ بنو حنیفہ کو شمار کررہا ہے۔بلکہ بنو حنیفہ بعض وجوہات کی بنا پر یہود و نصاری اور مجوس سے بڑے کافر تھے۔اس لیے کہ وہ پیدائشی کافر ہیں اور یہ مرتدکافر تھے۔پیدائشی کافر کو جزیہ پر برقرار رکھا جاسکتا ہے؛جب کہ انہیں جزیہ پر برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔اور ان لوگوں کے پاس کتاب یا شبہ کتاب موجود ہے ‘ اور ان کے پاس کوئی کتاب نہیں ۔یہ لوگ ایک جھوٹے مفتری کے پیروکار تھے؛ لیکن ان کا مؤذن یہ نداء لگایا کرتا تھا:

’’ أشہد أن محمدًا و مسیلمہ رسولا اللّٰہ۔‘‘

’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اور مسیلمہ دونوں اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘

اس طرح یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسیلمہ کذاب کو برابر کردیتے تھے۔

مسیلمہ کذاب کا معاملہ تمام ان کتابوں میں مشہور و معروف ہے جن میں ایسے واقعات ذکر کیے جاتے ہیں ؛ مثلاً کتب تفسیر؛ حدیث؛ مغازی؛ فتوح؛ فقہ اور اصول اور علم کلام وغیرہ۔حتی کہ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ اس قدر مشہور ہے کہ پردہ نشینان حرم بھی اس سے آگاہ ہیں ۔[ پھر شیعہ مصنف کی اس واقعہ سے بے خبری بڑی حیرت کی موجب ہے]۔تاریخی واقعات جمع کرنے والوں نے اس مسئلہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں :سیف بن عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب الرِدّۃ اور الواقدی کی کتاب الردۃ؛ اوردوسرے مصنفین کی کتابیں جن سے سب لوگ واقف ہیں ،جن میں اہل ارتداد کے ساتھ جنگوں اور ان واقعات کا ذکر ہے۔ ایسے واقعات مغازی رسول اور فتوح شا م جیسی کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔[ مگر شیعہ ان کتب سے بھی نابلد ہے، ورنہ بنو حنیفہ کے ارتداد سے جاہل نہ رہتا]۔

ان میں سے بعض واقعات ایسے ہیں جو کہ خواص و عوام کے ہاں تواتر کے ساتھ مشہور ہیں ؛ اور بعض واقعات ثقہ راویوں نے نقل کیے ہیں ۔ او ربعض ایسی مراسیل اور منقطع اخبار ہیں جن کے سچ یا جھوٹ ہونے کا احتمال ہے؛ اوربعض روایات کے متعلق صاف واضح طورپر معلوم ہے کہ یہ جھوٹے اور من گھڑت واقعات ہیں ۔

لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مسیلمہ کذاب سے قتال اور جنگیں ایسے مشہور ہیں جیسے ہرقل ‘ قیصر اور کسری اور دیگر ان اقوام کے ساتھ جنگوں کے واقعات مشہور ہیں جن سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عمر فاروق یاحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم نے جنگیں کیں ۔ اورجیسے ان مشرکین و یہود لوگوں کے کفر کا تواتر کیساتھ مشہور ہے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں لڑیں مثلاً : عتبہ؛ ابی بن خلف ؛ حیی بن اخطب وغیرہ ۔اور جیسے عبداللہ بن ابی ابن سلول اور دیگر کے نفاق کا تواتر کے ساتھ مشہورہے۔ 

بلکہ مسیلمہ کے ارتدار اور حضرت صدیق اکبر کے اس کے ساتھ قتال کا تواتر لوگوں میں جمل اورصفین ؛ اور طلحہ و زبیر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال ؛اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہ جانے کے تواتر سے بڑھ کر مشہور ہے۔

صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسیلمہ کذاب نے آ کر عرض کیا کہ:’’ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے خلافت عطا کر دیں تو میں ان کا تابع ہو جاتا ہوں اور وہ اپنی قوم کے بہت لوگوں کو اپنے ساتھ لایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی کا ٹکڑا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کذاب کے پاس معہ اصحاب جا کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا :

’’اگر تو مجھ سے بقدر اس لکڑی کے ٹکڑے کے طلب کرے تو میں تجھ کو نہ دوں گا اور خدا تعالیٰ کا جو حکم تیرے بارے میں ہو چکا ہے تو اس سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اور اگر تو کچھ روز زندہ رہا تو خدا تجھ کو ہلاک کر دے اور یقیناً میں تجھ کو وہی شخص سمجھتا ہوں جس کی نسبت میں نے خواب میں دیکھا ہے۔اور یہ ثابت رضی اللہ عنہ ہے جو تمہیں میری طرف سے جواب دے گا۔‘‘

پھر آپ وہاں سے پلٹ گئے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :’’ اور یقیناً میں تجھ کو وہی شخص سمجھتا ہوں جس کی نسبت میں نے خواب میں دیکھا ہے‘‘کے بارے میں پوچھا؛تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ:

’’ میں سو رہا تھا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو مجھے فکر ہوئی اور خواب میں وحی آئی کہ آپ ان کو پھونک دیجئے، میں نے ان کو پھونک دیا تو وہ اڑگئے میں نے اس کی تعبیر ان دو کذابوں سے لی جو میرے بعد ظاہر ہوں گے پس ان میں سے ایک عنسی اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ کذاب تھا۔‘‘[صحیح بخاری:ح 841]

[حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور اہل ارتداد کا قتل]:

[اشکال]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ عمر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ آزما ہونے پر اعتراض کیا تھا۔‘‘

[جواب]: یہ بہت بڑا جھوٹ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ پرصریح بہتان ہے۔بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا [مرتدین ] مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ پر اتفاق تھا۔لیکن ایک دوسرا گروہ تھا جواسلام کا اقرار کرتے تھے ؛ مگر زکواۃ ادا کرنے کا انکار کرتے تھے ‘ ان کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلاشبہ توقف کیا تھا۔اس لیے کہ شروع میں آپ کے دل میں شبہ تھا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تبادلہ افکار کرنے پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے قتال کے واجب ہونے کوواضح کیا؛ تو بعد آپ نے اپنے زاویۂ نگاہ سے رجوع کر لیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفق ہو گئے تھے۔یہ قصہ بڑا مشہور ہے۔

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت آپ فرماتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا:

((کیف تقاتل الناس وقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :’’ أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لا إلہ إلا اللہ؛ فإذا قالوا عصموا منی دمائہم و أموالہم إلا بحقہا وحسابہم علی اللّٰہ۔)) قال أبوبکر رضی اللہ عنہ : ألم یقل بحقہا؟ فإن الزکواۃمن حقہا۔ واللّٰہ لو منعونی عناقا کانوا یؤدونہا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقاتلتہم علی منعہا ))۔ قال عمر رضی اللّٰہ عنہ فواللہ ما ہو إلا أن رأیت اللّٰہ قد شرح اللّٰہ صدر أبی بکر رضی اللّٰہ عنہ : فعرفت أنہ الحق))[متفق علیہ]

’’ آپ ان لوگوں سے کس طرح جنگ کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں حکم دیا گیا ہوں کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لاإ ِلہ إِلا اللہ کہیں ؛ جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں تو مجھ سے اپنا جان ومال بچالیں گے مگر اس کے حق کے عوض اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’’ مگر اس کلمہ کے حق کے ساتھ ۔‘‘بیشک زکواۃ بھی اس کلمہ کا حق ہے۔و اللہ اگر انہوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتے تھے تو اس کے نہ دینے پر میں ان سے جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اللہ کی قسم ! اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے استدلال کیا جو آپ تک پہنچی تھی یا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ واضح کردیا ’’کلمہ طیبہ کا حق‘‘ زکواۃکو بھی شامل ہے ‘کیونکہ یہ مالی حق ہے ۔‘‘

صحیحین میں حضرت ابن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((أ مِرت أن أقاتِل الناس حتی یقولوا: ألا ِإلہ ِإلا اللّٰہ وأنِی رسول اللّٰہِ، ویقِیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکاۃ، فإِذا فعلوا ذلکِ عصموا مِنِی دِمائہم وأموالہم ِإلا بِحقِہا ))

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں یہاں تک کہ وہ کہہ دیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ‘اور بیشک میں اللہ کا رسول ہوں ۔اور نمازقائم کریں اور زکواۃ ادا کریں ۔جب وہ ایسا کریں تومجھ سے اپنے خون اور اموال محفوظ کرلیں گے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ۔‘‘ [متفق علیہ]۔

یہ دوسرا لفظ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی فقہ پر دلالت کرتا ہے۔جوکہ مانعین زکواۃ سے قتل کے بارے میں صریح اور قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ َو احْصُرُوْہُمْ وَ اقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾ [التوبۃ۵]

’’تم قتل کرو ان مشرکوں کو جہاں بھی انہیں پا انہیں پکڑو، ان کا گھیرا کرو، اور ان (کی خبر لینے)کے لیے بیٹھ جا ہر گھات میں ، پھر بھی اگر یہ لوگ توبہ کرلیں اور(اسلام لاکر)نماز قائم کریں ، اور زکو ادا کریں ، تو تم خالی کردو ان کاراستہ۔‘‘

یہاں راستہ خالی کرنے کو ایمان ؛ قیام نماز اور ادائیگی زکواۃ کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے۔

ان لوگوں کے بارے میں کئی واقعات مشہور ہیں ۔ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے زکواۃ وصول کر لی تھی؛ مگر جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے لوگوں کووصول کردہ زکواۃ واپس کردی۔اور بعض لوگ حالات کے منتظر تھے۔پھر ان میں سے جن لوگوں کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تو پھرسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے عاملین زکواۃ ویسے ہی زکواۃوصول اور خرچ کرنے لگ گئے جیسے آپ کے عہد میں کیا کرتے تھے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عاملین زکواۃ کے نام ایک خط لکھا تھا؛ جس میں انہوں نے لکھا تھا:

’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

زکواۃ وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کیا ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے ۔‘‘

یہ خط او راس جیسی دوسری دستاویز سے تمام علماء اسلام مسائل اخذ کرتے ہیں ۔آپ نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہیں لیا ۔ اور نہ ہی اپنے کسی قریبی کو کوئی عہدہ تفویض کیا؛ اورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی کوئی بات کی؛ بخلاف حضرت عثمان وعلی رضی اللہ عنہما ؛ ان دونوں حضرات نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بڑے بڑے منصب تفویض کیے تھے۔

اگر یہ جائز ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر اعتراض کیا جائے کہ انہوں نے مال لینے کے لیے ان سے قتال کیا تھا تو پھر کسی بھی دوسرے پر اس کی بہ نسبت بہت آسانی سے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں ۔اور اگر حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کا دفاع واجب ہے تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا دفاع اس سے بھی بڑا واجب ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس لیے جنگ و قتال کیا کہ لوگ آپ کی اطاعت کریں ‘ اور آپ ان کے جانوں اور اموال کے بارے میں فیصلے کرسکیں ۔پھر اس قتال کو کیسے دین پر قتال کہا جاسکتا ہے ؟ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو ان لوگوں سے جنگیں لڑی تھیں جو اسلام چھوڑ کر مرتد ہوچکے تھے ؛ اور اللہ تعالیٰ کا ایک فریضہ ترک کررہے تھے ۔ آپ کی جنگ کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے لگ جائیں ۔ تو پھر کیا یہ دین پر قتال نہیں ہوسکتا؟

شیعہ مصنف نے جن اکابر صحابہ کا نام لیکر بتایا ہے کہ انھوں نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شرکت نہیں کی تھی؛ یہ ان لوگوں پر بہتان ہے؛ ان لوگوں کا بیعت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما میں شرکت کرنا اظہر من الشمس ہے، البتہ سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔اس پر تمام سیرت نگاروں ؛ مؤرخین ؛ محدثین اوردیگراہل علم کے سلف و خلف کا اتفاق ہے۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ لشکر کے ساتھ اس وقت روانہ ہوئے تھے جب آپ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔ اسی لیے آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یاخلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔

باقی جن لوگوں کا ذکر رافضی مصنف نے کیا ہے ؛ انہوں نے بیعت کرلی تھی سوائے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کے ۔آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب تھے۔ جب آپ نے وفات پائی تو خالد رضی اللہ عنہ نے کہا :’’میں اور کسی کا نائب نہیں بننا چاہتا۔‘‘یہ کہہ کر آپ نے ولایت چھوڑ دی ؛ ورنہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اقرار کرتے تھے۔ یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے سوا سب صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔

جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر بنو ہاشم کا تعلق ہے، ان میں سے کوئی بھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کیے بغیر فوت نہیں ہوا تھا۔ البتہ ایک قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ بعد آپ کی بیعت کی تھی۔جبکہ دوسرے قول کے مطابق انھوں نے آپ کے انتخاب کے دوسرے دن بخوشی بغیر کسی سختی کے آپ کی بیعت کر لی تھی۔

پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے سوا سب صحابہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شرکت کی تھی۔بنو ہاشم یا کوئی دوسرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔ جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر تمام لوگوں کا اتفاق ہوگیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ خلافت فاروقی میں فوت ہوئے تھے۔اس لیے بیعت عثمانی کے دور کو نہیں پاسکے۔اس کا سبب معروف ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ ایک امیر انصار میں سے ہو‘ [ اوروہ امیر منتخب ہوجائیں ] اور ایک امیرمہاجرین میں سے ہو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا مطالبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص اور اجماع امت کی روشنی میں صحیح نہیں تھا۔

جب اجماع کے خلاف ان میں سے کسی ایک کی غلطی ثابت ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجماع حق اور درست تھا۔ اور یہ فرد واحد جس کی غلطی کتاب و سنت کی روشنی میں معلوم ہوجائے اس کی غلطی شاذ ہوتی ہے ؛ اس کا کوئی اعتبار نہیں کیاجاتا ۔ بخلاف اس شخص کے جو کتاب و سنت سے اپنی حجت کا اظہارکرے۔اس انسان کا خلاف معتبر ہوتا ہے۔ کبھی حق اسی کے پاس ہوتا جس کی طرف دوسروں کو بھی رجوع کرنا پڑتا ہے۔

جیسا کہ جیش اسامہ کی تنفیذ ؛ مانعین زکواۃ سے قتال اور اس طرح کے دیگر امور کے بارے میں حق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔یہاں تک کہ آپ کی رائے کا درست ہونا بعد میں واضح ہوگیا۔

شیعہ مصنف نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ بیان کیا ہے؛اس کے باطل اور جھوٹ ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں تھے۔ آپ ایک عمررسیدہ انسان تھے۔ آپ نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا تھا۔آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے‘ آپ کی داڑھی اور سر کے بال بالکل سفید ہوچکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر آپ اس بزرگ کو اپنی جگہ پر ہی چھوڑ دیتے تو ہم خود اس کے پاس چلے جاتے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اکرام کی وجہ سے فرمایا ۔

صحابہ کرام میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جس کی والدہ ‘ والد اور اولاد سب نے اسلام قبول کرلیا ہو۔ان سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا۔ بلکہ آپ کے نواسوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ۔آپ کے علاوہ مردوں اور عورتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی چار نسلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور پایا ہو اوروہ سب اہل ایمان بھی ہوگئے ہوں ۔محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم ؛ اور عبد اللہ بن زبیر[اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے]یہ چار نسلیں سبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ اورانہیں شرف صحابیت حاصل تھا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام خیر رضی اللہ عنہا بھی اسلام لے آئی تھیں ۔ یہ ایمان والوں کاگھرانہ تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی اور کا گھر اس گھر جیسا نہیں تھا۔

ضرب المثل ہے کہ ایمان کے لیے کچھ گھر ہوتے ہیں اور نفاق کے لیے کچھ گھر ہوتے ہیں ۔مہاجرین میں سے ابوبکر کا گھر ایمان کا گھر تھا۔اورانصار میں سے بنو نجار کا گھرانہ ایمان کا گھر تھا۔

رافضی کا یہ کہناکہ : ’’لوگوں نے ابو قحافہ سے کہا : ’’ تیرا بیٹا ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر میں سب لوگوں سے بڑا تھا۔‘‘

یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ عمرمیں سب صحابہ سے بڑے نہ تھے۔بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بہت سارے لوگ عمر میں آپ سے بھی بڑے تھے۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ عنہ ۔آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سال بڑے تھے ۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے تھے۔

ابو عمربن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وفات کے وقت تریسٹھ سال کے تھے۔ یہی عمر [بوقت وفات] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تھی۔بعض آثار میں حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو مکہ کے شہر پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ جب یہ آوازسنی تو نے لوگوں سے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔

ابوقحافہ رضی اللہ عنہ بولا:’’ بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔‘‘ ان کے بعد کون شخص خلیفہ قرار پایا۔‘‘

لوگوں نے کہا:’’ تیرا بیٹا‘‘ ابوقحافہ رضی اللہ عنہ بولا: کیا بنو عبد مناف اور بنو مغیرہ اس پر راضی ہو گئے ؟

لوگوں نے کہا:’’ہاں ‘‘ ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا، جس کو اللہ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے؛اور جس سے وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔‘‘[طبقات ابن سعد(۳؍۱۸۴)]

پس درایں صورت امتناع اجماع کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتاہے:

پہلی وجہ:....جن لوگوں کا رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے ‘ ان میں سے سوائے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو ئی بھی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔وگرنہ باتفاق اہل نقل تمام لوگوں نے بیعت کرلی تھی۔بنو ہاشم کے ایک گروہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شروع میں یہ لوگ بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے مگر چھ ماہ کے بعد ان لوگوں نے بھی بغیر کسی لالچ اور بغیر کسی خوف کے بیعت کرلی۔

٭ وہ خط جس کاذکر بعض اہل نقل کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام لکھا تھا؛ اہل علم کے ہاں وہ سراسر من گھڑت جھوٹ ہے۔بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھ کر انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی تھی۔ آپ ان کے پاس تشریف لے گئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت سے پیچھے رہنے کے متعلق اپنا مؤقف پیش کیا‘ اور پھر بیعت کرلی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اوربیعت ِابوبکر رضی اللہ عنہ :

بخاری ومسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ مدینہ میں جو مال غنیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، نیزخیبر اور فَدَک کے خُمس میں سے جو مال باقی ہے وہ آپ کی میراث کے طور پر مجھے دے دیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ یہ درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت بسر اوقات کے لیے اس میں سے کھا سکتے ہیں ، اللہ کی قسم! میں صدقہ کی تقسیم میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا، بلکہ اسے اسی حالت پر رہنے دوں گا جس پر وہ عہد رسالت میں تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس بات پر عمل کیا جاتا تھا میں اسے کسی قیمت پر ترک نہیں کروں گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ میں راہ حق سے منحرف ہو جاؤں گا۔‘‘

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس بات سے حقیقت کو پا گئیں ؛اوراس مسئلہ میں گفتگوکرناچھوڑ دی۔اور تاوفات پھر دوبارہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ میں گفتگو نہ کی، آپ کی وفات کے بعد وہ چھ ماہ بقید حیات رہیں ۔ جب فوت ہو گئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو راتوں رات دفن کردیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع نہ دی؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خودہی ان کا جنازہ پڑھایا۔

جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بقید حیات تھیں تو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا احترام کرتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد وہ بات نہ رہی۔آخر کار آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مصالحت و مبایعت کی سلسلہ جنبانی شروع کی۔ ہنوز آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ آپ تنہا میرے گھر آئیں ۔ آپ کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے ہم راہ نہ ہوں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’ آپ کا تنہا جانا مناسب نہیں ۔‘‘

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرینگے اللہ کی قسم! میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں ضرور جاؤں گا۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ! ہم آپ کی اللہداد صلاحیتوں سے آگاہ ہیں اور آپ کی امامت و خلافت پر شک نہیں کرتے۔ مگر آپ نے ہم پر زیادتی کی، ہم قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر اپنے آپ کو خلافت کا حق دار قرار دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مصروف گفتگو رہے۔ یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھے اپنے رشتہ داروں کی نسبت زیادہ پاس ہے ۔ جہاں تک ہمارے مابین مالی تنازعات کا تعلق ہے میں نے ان میں حق سے انحراف نہیں کیا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ضمن میں جو کچھ کرتے دیکھا وہی کیا۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں آج بعد دوپہر آپ کی بیعت کروں گا۔‘‘

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز پڑھ کر منبر پر کھڑے ہوئے۔ مسنون خطبہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت اور بیعت نہ کرنے کی وجہ بیان کی۔اور جو عذر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیے تھے وہ لوگوں کے سامنے پیش کیے ‘حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار کی ‘اور ان کے لیے عظمت و فضیلت کی گواہی دی۔

پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ مسنونہ کے بعد تقریر کرتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ رشک کی وجہ سے میں نے بیعت میں تاخیر نہیں کی تھی۔ نہ میں آپ کے خدادادفضائل کا منکر ہوں ۔ بات یہ تھی کہ میں اپنے کو خلافت کا اہل خیال کرتا تھا ؛جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلافت پر فائز ہو گئے تو ہم سمجھے کہ آپ نے ہمارا حق ماراہے؛ یہ بات ہمارے دلوں میں تھی ؛ اس لیے ہم آپ سے ناراض ہوگئے ۔ مسلمان یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور انھوں نے کہا:’’ آپ نے ٹھیک کیا‘‘ جب آپ نے امر بالمعروف کی طرف رجوع کرلیا تو اس بات سے مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔[صحیح بخاری ، کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر(حدیث:۴۲۴۰، ۴۲۴۱)، صحیح مسلم، کتاب الجہاد۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’ لا نورث ما ترکنا ....‘‘ (حدیث: ۱۷۵۹)۔]

ایک یا دو اشخاص کی مخالفت انعقاد خلافت کے لیے مضر نہیں :

اس میں شبہ نہیں کہ امامت کے لیے جو اجماع معتبر ہے اس میں ایک یا دو آدمیوں کایا کسی چھوٹے گروہ کا تخلف ضرر رساں نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو کسی خلیفہ کی امامت و خلافت کبھی منعقد نہ ہوتی ۔امامت ایک امر معین ہے۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتاہے کہ کوئی انسان ایسی کسی خواہش کی وجہ سے بھی پیچھے رہ سکتا ہے جس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہ ہو۔جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بیعت نہ کی تھی۔اس لیے کہ آپ کی خواہش یہ تھی کہ انصار کے امیر آپ ہوں ۔مگر ایسا نہ ہوسکا؛ تو یہ بات آپ کے دل میں رہ گئی۔پس جو انسان خواہش نفس کی وجہ سے کوئی چیز چھوڑ دے ؛ تو اس کا یہ فعل کوئی مؤثر نہیں ہوتا۔[بخلاف عام شرعی احکام پر اجماع عام کے؛ جیسے : واجب ‘ حلال و حرام اورمباح وغیرہ کے بارے میں جو اجماع منعقد ہوتا ہے، اس میں اختلاف ہے کہ آیا ایک یا دو اشخاص کی مخالفت معتبر ہے یا نہیں ؟ اس ضمن میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دو قول منقول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ایک یا دو آدمیوں کی مخالفت معتبر نہیں ہے، محمد بن جریر طبری وغیرہ کا قول بھی یہی ہے ۔ امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ احکام میں ایک یا دو شخصوں کی مخالفت معتبر ہے۔اکثر علماء اسی قول پر ہیں ۔

عام شرعی احکام اور امامت کے مابین فرق یہ ہے کہ : شرعی حکم عام ہوتا ہے جو کہ سب کو شامل ہوتا ہے۔ اور شرعی حکم میں کسی چیز کو واجب کہنے والا اسے اپنی ذات پر بھی واجب کرتا ہے او ردوسروں پر بھی۔اور کسی چیز کو حرام کہنے والا بھی اس چیز کو اپنی ذات پر بھی اور دوسرے لوگوں پر بھی حرام کرتا ہے۔اس میں تنازع کرنے والے پر کوئی تہمت نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کسی واقعہ میں فریق مقابل کے خلاف بطور حجت اگر ایک انسان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کررہا ہوتو اسے قبول کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حدیث عام ہوتی ہے ‘ جو اس روایت کرنے والے اور دوسرے تمام لوگوں کو شامل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث کی بنا پر اگر آج کسی کے حق میں فیصلہ ہورہا ہے تو کل اسی کی بنا پر اس کے خلاف بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔بخلاف اس کے کوئی اپنی ذات کے متعلق گواہی دے۔یہ گواہی قبول نہیں کی جاسکتی ۔ اس لیے کہ یہی فریق مخالف ہے۔اور فریق مخالف کی گواہی اس کے حق میں قبول نہیں ہوتی۔

پس جب کوئی ایک شخص معلوم شدہ نص کی مخالفت کرے گا تو اس کے قول کو شاذ قرار دیا جائے گا، مثلاً سعید بن مسَیّب رحمہ اللہ کا یہ قول کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی جائیں ، جب وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے تو صرف نکاح کرنے ہی سے وہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جاتی ہے۔‘‘

یہاں پر اس قول کی کوئی اہمیت نہیں ؛ اس لیے کہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد نصوص اس کے خلاف وارد ہوئی ہیں ۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ انصار میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری ایسی نصوص منقول ہیں جن کی روسے امامت قریش میں تسلیم کی گئی ہے۔اگر اس موقع پر مخالف بھی قریشی ہوتا اور فیصلہ اس کے خلاف ہوجاتاتو پھر ایک شبہ سا باقی رہتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قریش میں سے تھے ؛ اور یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ نے بخوشی و رضامندی سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔

دوسری وجہ:....جس قدر لوگوں کا اختلاف رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے ‘ اگر اس سے تین گنا زیادہ لوگوں کا اختلاف بھی اگر فرض کرلیا جائے تو بھی اس سے خلافت کے ثبوت میں قدح وارد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ خلافت کے مسئلہ میں اہل شوکت اوران جمہور کا اتفاق شرط ہے جن کی وجہ سے خلافت کا انعقاد ممکن ہوسکتا ہو[انعقاد خلافت کے لیے صرف ارباب حل و عقد اور جمہور کا اتفاق شرط ہے]؛ تاکہ امامت کے مقاصد پورے ہوسکیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جماعت

[معجم کبیر طبرانی(۱۲؍۴۴۷)، الترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ(ح:۲۱۶۶)، لیکن اس میں ’’جماعت سے وابستہ رہیے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ، وہ دوسری روایت (ح:۲۱۶۵) میں ہیں ۔امام ترمذی فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث غریب ہے۔ ابن عباس سے ہم تک یہ روایت صرف اس ایک سند سے پہنچی ہے۔ اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے (صحیح الجامع الصغیر ۶؍۳۳۶)۔ سنن نسائی میں کتاب تحریم الدم ‘ باب : قتل من فارق الجماعۃمیں ہے :’’ حضرت عرفجہ بن شریح الاشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’ میرے بعد بعض برے امور ہوں گے۔ پس جس کو دیکھو کہ وہ جماعت میں تفرقہ ڈالنا چاہتا ہے؛ یا امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تفریق پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے قتل کردو ؛ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔بیشک اللہ تعالیٰ کاہاتھ جماعت پر ہوتا ہے ؛ اور شیطان جماعت سے علیحدہ ہوکر چھلانگیں لگانے والے کے ساتھ ہوتا ہے ۔‘‘ [سنن الترمذی۳؍۳۱۵۔]]

سے وابستہ رہیے، اس لیے کہ جماعت پر اللہ کا فضل و احسان ہوتا ہے۔‘‘

نیز ایک روایت میں ہے: ’’ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے ؛اور دو سے وہ بہت دو ررہنے والا ہوتا ہے ۔‘‘[یہ ایک طویل حدیث کا مختصر حصہ ہے۔اس میں ہے :’’ لوگو!تم پر جماعت کے ساتھ چلنا واجب ہے۔بلاشبہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے بہت دور ہوتا ہے۔تم میں سے جو کوئی جنت کی خوشبو پانا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ جماعت کا ساتھ دے۔ جسے بھلائی پر خوشی ہو اور برائی نا گوار گزرے تووہ انسان مؤمن ہے۔‘‘ سنن الترمذي ؛ کتاب الفتن ؛ باب لزوم الجماعۃ؛ ۳؍۳۱۵۔ ]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’ بیشک شیطان ایسے انسانوں کے لیے بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کے لیے بھیڑیا ہوتا ہے۔ اوربھیڑیا ریوڑ سے بچھڑی ہوئی بکری کو ہی شکار بناتا ہے۔‘‘[یہ حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ المسند ۵؍۲۳۲۔]

آپ نے فرمایا:’’سواد اعظم کا دامن نہ چھوڑیے، جو جماعت سے الگ ہوا وہ الگ ہو کر جہنم میں جائے گا۔‘‘[مستدرک حاکم (۱؍۱۱۵۔۱۱۶)۔]

تیسری وجہ: ....یہ بھی کہا جائے کہ : یہ امر بھی قابل غور ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت پر امت کا جو اجماع ہوا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پر نہیں ہو سکا تھا۔ ایک تہائی بلکہ اس سے کم و بیش لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شرکت نہیں کی تھی۔بلکہ انہوں نے آپ سے جنگ کی۔[بہت سے اکابر نے علیحدگی اختیار کرلی تھی]۔ اور ایک تہائی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں ساتھ نہیں دیا۔ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ کی بیعت ہی نہیں کی۔اور جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی ؛ ان میں سے بھی بہت سارے ایسے لوگ تھے جنہوں میں جنگوں میں آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر امت کے چند افراد کی عدم شرکت سے کسی شخص کی خلافت میں قدح وارد ہوتی ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت جرح و قدح کی زیادہ مستحق ہو گی۔

اگریہ کہا جائے کہ : جمہور امت نے آپ سے جنگ نہیں کی ۔ یا یہ کہا جائے کہ : اہل شوکت اور جمہور نے آپ کی بیعت کرلی تھی ؛ تو اس صورت میں بھی یہی دلیل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

٭ اگر شیعہ کہیں کہ امامت علی رضی اللہ عنہ نص سے ثابت ہے، لہٰذا اجماع کی ضرورت نہ تھی۔‘‘ تو ہم کہیں گے کہ:’’ قبل ازیں ذکر کردہ نصوص سے صراحۃً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم بتا چکے ہیں اور آگے بھی اس کا ذکر آئے گا [کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجماعاً آپ کی بیعت کی تھی اور آپ کو خلیفۂ رسول کا لقب بخشا تھا]۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں خلیفہ نہیں تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے اجماع کی ضرورت ہی نہ تھی؛ بلکہ صحیح اور صریح نصوص کی روشنی میں آپ کی خلافت کی صحت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کے خلاف کا انتفاء ثابت ہوتا ہے۔

چوتھی وجہ:....ان سے کہا جائے گا کہ : خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں دو طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے:

 پہلا موضوع کلام یہ ہے کہ فی الواقع حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہو ئے تھے یا نہیں ؟

۲۔ دوسرا یہ کہ آپ خلافت کی صلاحیت و اہلیت سے بہر ہ ور تھے بھی یا نہیں ؟

جہاں تک امر اوّل کا تعلق ہے آپ کا خلیفہ ہونا تواتر اور لوگوں کے اتفاق سے ثابت ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس امت میں نائب رسول تھے؛ آپ خلیفہ بنے۔ آپ نے شرعی حدیں قائم کیں ۔ واجب الوصول حقوق وصول کیے ۔ کفار و مرتدین کے خلاف جنگ آزما ہوئے، عمال مقرر کیے، مال تقسیم کیا اور امیر و خلیفہ سے متعلق جملہ امور انجام دیے، بلکہ وہ اوّلیں شخص تھے جواس امت میں مرتبہ ء امامت پر فائز ہوئے۔

باقی رہا امر دوم یعنی آپ کا مستحق امامت ہونا تو اجماع کے سوا اور بھی کثیر دلائل موجود ہیں ۔ شیعہ جس طریقہ سے بھی امامت علی رضی اللہ عنہ کا اثبات کرتے ہیں ، ہم اسی طریقہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مستحق امامت ہونا ثابت کرتے ہیں ۔بلکہ یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردوسرے لوگوں سے بڑھ کر خلافت کے حق دار تھے ۔ بہر کیف اجماع کی حاجت امر اوّل میں ہے امر دو م میں نہیں ۔ تاہم امر ثانی پر بھی اجماع منعقد ہو چکا ہے۔