فصل :....[حجیت اجماع کی بحث]
امام ابنِ تیمیہؒفصل :....[حجیت اجماع کی بحث]
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اجماع کسی مسئلہ پر دلالت کرنے میں اصل شرعی کی حیثیت نہیں رکھتا ؛بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اجماع کرنے والے اس حکم پر کسی دلیل کو مستند مانیں تاکہ اس پر ان کا اجماع ہوسکے۔ وگرنہ یہ غلطی ہوگی۔اور یہ دلیل یا توعقلی ہوگی یا پھر نقلی۔ جہاں تک عقلی دلیل کا تعلق ہے کوئی عقلی دلیل امامت پر دلالت نہیں کرتی۔ باقی رہی نقلی دلیل تو اہل سنت کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی امام مقرر کیے بغیر وفات پائی تھی۔اورامامت پر کوئی نص نہیں تھی۔قرآن اس سے خالی ہے۔ بنا بریں اگر اجماع منعقد ہوا بھی ہے تو وہ غلط ہونے کی وجہ سے کسی مسئلہ پر دلالت نہیں کرتا۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں :اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی بات : شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’جماع کسی مسئلہ پر دلالت کرنے میں اصل شرعی کی حیثیت نہیں رکھتا ۔‘‘
جواب:’’ اگر اس قول سے تمہاری مراد یہ ہے کہ ارباب اجماع کے امیر کی اطاعت بذات خود واجب نہیں ہے ، بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ و رسول کا حکم معلوم ہوتا ہے تو یہ صحیح ہے۔اس سے ہمارے نظریہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا، اس لیے کہ رسول بھی بذات خود مطاع نہیں ، بلکہ آپ کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ آپ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے، کیوں کہ اسلام میں مُطاع حقیقی صرف اللہ کی ذات ہے ۔ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ﴾(الأعراف:۵۴)’’اوراللہ کے لیے ہی ہے پیدا کرنا اور حکم چلانا ۔‘‘
نیز فرمایا:﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ﴾ (الانعام:۵۷)
’’ بیشک حکم صرف اللہ کے لیے ہے ۔‘‘
اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی حکم نہیں چلتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس لیے واجب ہوتی ہے کہ آپ کی اطاعت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے۔ اور کسی چیز پر اجماع کرنے والے اہل ایمان کی اطاعت اس لیے واجب ہوتی ہے کہ حقیقت میں ان کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا اس لیے واجب ہے کہ آپ کا حکم حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ایسے ہی امت کے اجماع کا مسئلہ بھی ہے ۔ ان کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے : آپ نے فرمایا:
’’ جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی حکم عدولی کی، اور جس نے میرے امیر کے حکم سے سرتابی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب یقاتل من وراء الامام و یتقی بہ،(حدیث:۲۹۵۷) ، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ (حدیث: ۱۸۳۵) باختلاف۔]
بہت ساری احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی ۔بلکہ جس چیزکا حکم امت دے ؛ وہ اللہ اوراس کے رسول کا حکم ہوتا ہے۔
امت نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت میں ان کی اطاعت کا حکم دیا ؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے یہ حکم دیا تھا۔ پس جس نے آپ کی نافرمانی کی ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا ہے۔
اگر تمہارا(شیعہ کا) مقصد یہ ہے کہ اجماع کبھی حق کے موافق ہوتا ہے اور کبھی مخالف تو یہ حجیت اجماع پر طعن ہے ۔ جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ پوری امت خطا پر جمع ہو سکتی ہے جیسا کہ نظام اور بعض روافض کا خیال ہے؛ تو یہ غلط ہے۔[ ہم امامت صدیق رضی اللہ عنہ کے اثبات میں ایسے دعویٰ کے محتاج نہیں ہیں ۔اور ہمیں شرط لگانے کی بھی ضرورت نہیں ، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اجماع سے جو حکم ثابت ہوتا ہے، اس پر دلالت کرنے والی نص موجود ہوتی ہے، اجماع سے صرف اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے بارے میں نص موجود ہے۔]
اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا امام اور معصوم ہونا؛ اور اس کے علاوہ جو روافض کے اصول ہیں ؛ امامیہ نے انہیں اجماع سے ثابت کیا ہے۔ اس لیے کہ ان کے قول کے مطابق ان کی مذہب کی بنیاد اجماع اور عقلیات پراور ان کی منقولات پر ہے۔یہی لوگ کہتے ہیں کہ :
’’ عقل سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے لیے امام معصوم اور منصوص علیہ کا ہونا ضروری ہے۔اوربالاجماع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ نہ ہی کوئی دوسرا معصوم ہے اورنہ ہی منصوص علیہ ہے۔تو پھر معصوم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہوئے؛ [لہٰذاوہی امام ہوں گے ]۔‘‘ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے ان کے مقدماتی دلائل ہیں ۔ ‘‘
ان سے کہا جائے گا کہ : ’’ اگر اجماع حجت نہیں تو یہ تمام دلائل باطل ٹھہرے۔ پس ان کے اصول کی بنیاد جس عقیدہ پر کھڑی تھی وہ بھی باطل ٹھہری ۔اوران عقیدہ باطل ٹھہرا اور اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ثابت ہوگیا۔
اگر اجماع حق ہے ؛ تو پھر بھی اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ثابت ہوگیا۔اور روافض کے عقیدہ کا بطلان ثابت ہوگیا بھلے وہ اجماع کو حجت مانیں یا نہ مانیں ۔جب ان کا مذہب باطل ٹھہرا تو اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ثابت ہوگیا ؛ یہی چیز اصل میں مطلوب ہے۔
اگر روافض یہ کہیں کہ: ’’ہم اجماع کا دعوی نہیں کرتے ؛ اور نہ ہی اپنے دین کے اصولوں پر اس سے استدلال کرتے ہیں ۔ بلکہ ہماری بنیاد عقل اور ائمہ معصومین سے وارد نقل پرہے۔‘‘
تو ان سے کہا جائے گاکہ : ’’ اگر آپ لوگ اجماع سے استدلال نہیں کریں گے تو تمہارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول چند سمعی دلائل کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔اس لیے کہ جو چیز روافض حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے ائمہ سے نقل کرتے ہیں وہ اس وقت تک حجت نہیں ہوسکتی جب تک ان ائمہ میں سے کسی ایک کا معصوم ہونا معلوم نہ ہوجائے۔ اور ان میں سے کسی ایک کا معصوم ہونا کسی معصوم کی نقل سے ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ اور یہ معصوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے عقیدہ کے مطابق کو ئی نقل ثابت ہی نہیں تو پھر ان کے پاس سرے سے کوئی سمعی دلیل باقی ہی نہیں رہتی؛ نہ ہی اصول دین میں اور نہ ہی فروع میں ۔ تو اس صورت میں معاملہ پھر اس دعوی کی طرف لوٹے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے۔ اگر تم اس نص کو اجماع سے ثابت کرو گے تو ایسا کرنا[تمہارے نزدیک ]باطل ہے۔اور اگر تم اسے صرف نقل خاص سے ہی ثابت کرو جیسا کہ تمہارے بعض لوگوں کا عقیدہ ہے؛ تو پھر بھی کئی وجوہات کی بنا پر اس کاباطل ہونا ظاہر ہوجاتا ہے ۔ اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جمہور اوراکثر شیعہ جو اس قول کے خلاف نقل کرتے ہیں وہ یقینی طور پر جھوٹ ہے۔
جو کوئی اس مسئلہ پر غور کرے گا تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ امامیہ کے پاس جمہور سے ہٹ کر کوئی دلیل ہی نہیں ؛ نہ ہی عقلی دلیل نہ ہی نقلی دلیل۔ اور نہ ہی نص اور اجماع۔ بس ان کی بنیاد ایسی جھوٹی منقولات پر ہے جن کا جھوٹ ہونا ہر ایک کے لیے بالکل واضح ہے۔یا پھر ایسی نص اور قیاس کا دعوی کرتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کے حق میں ایسی نصوص میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ۔
روافض اور دوسرے تمام اہل بدعت اگرچہ حقیقت میں کسی بھی ایسی صحیح عقلی یا نقلی دلیل کی طرف رجوع نہیں کرتے جس سے ان کی حجت ثابت ہوسکے؛ بلکہ ان لوگوں کے کچھ شبہات ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کے دلائل روافض کے عقلی و سمعی دلائل کی نسبت زیادہ قوی ہیں ۔اور صحیح نصوص میں ان کا شبہ روافض کے شبہ سے زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔
مزید برآں تمام اہل بدعت روافض سے بڑھ کر حدیث وآثارکے عالم ہوتے ہیں ۔ روافض احادیث و آثار اور احوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے بڑھ کر جاہل ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں میں جو جہالت اور جھوٹ کی بھر مار ہے ؛ وہ دوسرے تمام اہل بدعت گروہوں کی کتابوں میں نہیں ہے۔ایسے ہی دیگر اہل بدعت کے قیاسات کمزور اور فاسد ہونے کے باوجود رافضہ کے قیاسات سے بہت زیادہ بہتر ہوتے ہیں ۔
مزید برآں ہم کئی مقامات پر تفصیلی دلائل کے ساتھ اجماع کے حجت ہونے کی جانب بھی اشارہ کر چکے ہیں ۔ اور ہر مقال کے لیے اس کے مناسب مقام ہوتا ہے۔
ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرنے کے لیے کسی اجماع کے محتاج نہیں ‘ اور نہ ہی کسی دوسرے خلیفہ کی خلافت ثابت کرنے کے لیے اجماع کے محتاج ہیں ۔ اور نہ ہی کسی کی امامت کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں ۔ مگر جب رافضی نے تذکرہ کیا ہے کہ اہل سنت والجماعت اجماع پر اعتماد کرتے ہیں تو ہم اس موضوع پر کلام کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یہاں پر ہم بعض ان امور کی طرف اشارہ کریں جو اجماع کے درست ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔
سب سے پہلی بات : ہم کہتے ہیں : کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس پر امت جمع ہوئی ہو ‘ مگر اس پر نص ضرور موجود ہوتی ہے۔ پس یہ اجماع ائمہ کے ہاں معلوم شدہ نص کے موجود ہونے پر دلیل ہوتی ہے۔ ان چیزوں میں سے نہیں ہوتا جن کا علم ختم ہوچکا ہو۔
اس بات میں علماء کا اختلاف ہے کہ اجتہاد کی اساس پر اجماع منعقد کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ ہم اس بات کو جائز کہتے ہیں کہ اجماع کرنے والے بعض لوگ اپنے اجتہاد سے کوئی بات کہیں ۔ لیکن یہ نص اجماع کرنے والے مجتہدین پر مخفی نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں اجماع کا علم ہو‘ مگر اس بات کا علم بھی ساتھ ہی ہوتا ہے کہ اس بارے میں نص بھی موجود ہے۔سو اس صورت میں اجماع نص کے وجود پر دلیل ہوتا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی﴾ (النساء:۱۱۵)
’’جو شخص بھی ظہور ہدایت کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا، اور مومنین کی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلے گا تو جدھر کو وہ مڑے گا ہم اس کو اسی طرف موڑ دیں گے۔‘‘
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے وعید کو رسول کی نافرمانی اور غیر سبیل المؤمنین کی اتباع کے ساتھ معلق کیا ہے۔حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہی وعید کو واجب کردیتی ہے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں متلازم ہیں ۔ اسی لیے وعید کوان دونوں باتوں کے ساتھ معلق کیا گیا ہے ۔جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کو ایک دوسرے کے ساتھ معلق کیا جاتا ہے ؛ اس لیے کہ یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو متلازم ہیں ۔
خلافت صدیقی بھی اسی قبیل سے ہے؟ اس کے بارے میں بہت ساری نصوص موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی امامت و خلافت مبنی برحق و صواب تھی۔ اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ۔ اختلاف کا مبنیٰ یہ ہے کہ آیا خلافت کا انعقاد نص خاص کی بنا پر ہوا ہے-جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت- یا اجماع و اختیار کی اساس پر؟
جب کہ دلالۃ النص کی روشنی میں آپ کی خلافت حق اور صواب ہے۔ علماء اہل سنت میں سے کسی ایک نے بھی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔ ہر ایک آپ کی خلافت کی صحت پر نصوص سے استدلال کرتا ہے۔ جب ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ جس چیز پر اجماع منعقد ہو وہ منصوص علیہ ہوتی ہے ۔تو یہی اجماع کا ذکر ہے ۔ اس لیے کہ اجماع نص پر دلیل ہے۔ جو اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوسکتا۔ [ہمارا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ نص و اجماع باہم لازم ملزوم ہے]۔
ہم یہاں پر کچھ دلائل ذکرکریں گے جن سے مطلق طور پر اجماع پر استدلال کیا جاسکتا ہے ۔ اوران سے وہ لوگ بھی استدلال کرتے ہیں جو کہتے ہیں :’’بسا اوقات اجماع کے ساتھ نص نہیں ہوتی ۔‘‘ اسکی دلیل یہ آیت ہے:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(آل عمران:۱۱۰)
’’تم بہترین جماعت ہو، جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘
اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ وہ ہر معروف بات کا حکم دیتے ہوں ‘ اور ہر منکر بات سے منع کرتے ہوں ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ کو واجب سمجھنا اور حرام کردہ کو حرام سمجھنا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ امت پر واجب ہے کہ ہر اس حکم کو واجب سمجھیں جیسے اللہ اور اس کے رسول نے واجب ٹھہرایا ہو۔اورہر اس چیز کو حرام سمجھیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو۔اس صورت میں یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ وہ کسی حرام کو واجب قرار دیں یا پھر کسی واجب کو حرام ٹھہرائیں ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ حق بات بیان کریں اور خاموش نہ رہیں ۔ پھر حق کے بیان سے خاموش رہنا اور اس کی نقیض باطل کی تائید میں بولنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تویہ لوگ برائی کا حکم دینے والے اور نیکی سے منع کرنے والے ہوتے جو کہ نص صریح کے خلاف ہے۔
نظر برایں اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت حرام و منکر ہوتی تو اس سے لوگوں کو باز رکھنا امت پر واجب اور اس سے خاموش رہنا ناروا ہوتا اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت واجب ہوتی تو یہ ایک بڑی نیکی تھی، جس کا حکم دینا نہایت ضروری تھا۔جب ایسا ہوا نہیں تو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس وقت نہ ہی معروف تھی؛ نہ ہی واجب اورنہ ہی مستحب۔اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں کوئی برائی نہیں تھی۔یہی چیز ثابت کرنا یہاں پر مطلوب و مقصود ہے۔مزید برآں اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (التوبہ:۷۱)
’’مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہم درد ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ۔‘‘
اس سے استدلال پہلے گزر چکا ہے۔
نیز فرمایا:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ﴾ (البقرۃ:۱۴۳)
’’اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وسط بنایا تاکہ تم دوسروں پر نگاہ رکھو۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَي النَّاسِ﴾ [الحج۷۸]
’’ اسی نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی، تاکہ رسول تم پر شہادت دینے والابنے اور تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو۔‘‘
جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت کو شاہد کا درجہ دیا گیا ہے تو ان کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس بات کی شہادت دیں گے۔اوروہ اپنی اس شہادت و گواہی میں عدل و انصاف سے کام لینے والے ہوں ۔ اگر یہ امت اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام اور محرمات کو حلال قرار دینے والی ہوتی؛اور جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے معاف رکھا ہے ‘ اسے واجب کرنے والی ہوتی؛ اور اس کے واجبات کو ساقط کرنے والی ہوتی تو اس کو شاہد نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر اس امت کے افراد قابل مدح اشخاص کی مذمت کرتے اور مذموم اشخاص کی مدح میں رطب اللسان ہوتے تب بھی وہ اس منصب پر فائز نہیں کیے جا سکتے تھے۔ بنا بریں جب یہ امت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی گواہی دے تو اس کااس گواہی میں صادق ہونا؛ اور جس چیز کی گواہی دے رہے ہیں اس کا عالم ہونا ضروری ہوجاتا ہے ۔اسی طرح جب یہ بالاتفاق کسی کے نیک یا بد ہونے کی شہادت دیں ؛ یا کسی کے ایسے فعل کی گواہی دیں جس پر وہ ثواب کا مستحق ہو‘ اور دوسرے کسی کے متعلق ایسے فعل کی گواہی دینا جس پر وہ عقاب کا مستحق ہو‘ تو ان کی یہ گواہی قبول کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ لوگوں پر گواہی دینا ان کے ممدوح یا مذموم افعال کو شامل ہوتاہے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں یہ گواہی دینا کہ فلاں فرمانبردار ہے اور فلاں نافرمان ہے ؛ یہ ان کے افعال اور افعال کے احکام اوران کی صفات کو متضمن ہوتی ہے اور یہی مطلوب ہے۔
صحیحین میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
’’بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس جنازے والے کی تعریف بیان کی گئی۔توآپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی برائی بیان کی گئی، تو آپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی ۔لوگوں نے پوچھا کہ:یارسول اللہ! کیا چیز واجب ہو گئی؟ توآپ نے فرمایا: ’’جس جنازہ پر تم نے خیر کے الفا ظ کہے ؛ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔اورجس جنازہ پر برے الفاظ کہے ‘ اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی ۔ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔‘‘[متفق علیہ و رواہ الترمذي و النسائی و ابن ماجۃ ]۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی﴾ ( نساء:۱۱۵)
’’جو شخص بھی ظہور ہدایت کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا، اور مومنین کی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلے گا تو جدھر کو وہ مڑے گا ہم اس کو اسی طرف موڑ دیں گے۔‘‘
اس آیت میں مخالفت رسول اور مومنین کی راہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں پر چلنے کی ممانعت کی گئی ہے،اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں مذموم ہیں ۔اس لیے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی بالاجماع مذموم ہے۔جب اس امت کے لوگ کسی چیز کی حلت یا حرمت پر متفق ہوں اور کوئی شخص ان کی مخالفت کرے تو اس نے مومنین کے سوا دوسروں کی راہ اختیار کی۔اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاo یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا﴾
’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔‘‘[الفرقان ۶۸۔۶۹]
اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان تینوں میں سے ہر ایک خصلت از روئے شریعت مذموم ہے۔
پس درایں صورت جب مومنین کسی چیز کو واجب قرار دیں اورکچھ چیزوں کو حرام ٹھہرائیں اور کوئی مخالفت کرنے والا ان کی مخالفت کرے ؛ او رکہے کہ: جس چیز کو انہوں نے واجب قراردیا ہے وہ واجب نہیں ہے او رجس چیزکو حرام ٹھہرایا ہے وہ حرام نہیں ہے؛ تو یقیناً اس صورت میں وہ اہل ایمان کے راستے کو چھوڑ کر غیر کی راہ پر چلتا ہے۔ اس لیے کہ اہل ایمان کی راہ سے مراد ان کے اعتقادات اور افعال ہیں ۔ جب یہی بات ہے تو ان کی مخالفت مذموم ٹھہری ۔ اگر ان اہل ایمان کی راہ حق اورصواب نہ ہوتی تو ان کی مخالفت کرنے والے کی مذمت نہ کی جاتی۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء۵۹]
’’ فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹا، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔‘‘
یہاں پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کے حکم کو تنازع کے ساتھ معلق کیا گیاہے۔ حکم شرط کے ساتھ معلق ہوتا ہے ۔ جب شرط نہ پائی جائے تو حکم نہیں پایا جاتا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ عدم تنازع کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا واجب نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا اجماع حق اور صواب ہے۔ اس لیے کہ اگر اجماع باطل اور خطاء ہوتا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رد کرنے کا وجوب ساقط نہ ہوتا‘ اس لیے کہ اہل اجماع کا حکم جو باطل اور غلط ٹھہرا۔اور اس لیے بھی کہ ان کے اجماع اورنزاع کسی بھی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم حق ہے۔ جب اجماع کی صورت میں واجب باقی نہ رہا تو معلوم ہوا کہ اجماع اس حق کے موافق تھا مخالف نہیں تھا۔ جب اجماع سے استدلال کرنے والا حقیقت میں نصوص شریعت کا پیروکار ہوتا ہے تو اسے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔
مزیدبرآں کہ فرمان ِالٰہی ہے:﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران:۱۰۳)
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو اور فرقے فرقے نہ بنو۔‘‘
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کا حکم دیا ہے اور فرقہ بندی سے منع کیا ہے۔ اگر اجتماع کی حالت میں بھی کبھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوتے اور کبھی نافرمان ہوتے تو پھر اجتماعیت کا حکم دینا جائز نہ ہوتا۔ سوائے اس صورت کے کہ جب اطاعت کے کاموں پر اجتماع ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر مطلق طور پر حکم دیاہے۔اگر حالت ِ اجتماع میں بھی مسلمانوں کے درمیان کامل اتحاد و یگانگت موجود نہ ہو تو پھر اجتماع و انتشار میں کیا فرق ہوا؟اس لیے کہ اگر افتراق کی صورت میں اطاعت تو یہ مامور بہ ہوجاتاہے۔مثال کے طور پر لوگوں کی دو اقسام ہوں ۔ ایک قسم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزار ہو اور دوسری قسم نافرمان۔تواس صورت میں واجب ہوتا ہے کہ اطاعت گزاروں کا ساتھ دیا جائے ۔ اگرچہ اس میں افتراق ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔پس جب اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کا حکم دیا ہے تو دلیل ہے کہ اجتماعیت اطاعت الٰہی کو مستلزم ہے۔
مزید برآں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (المائدۃ:۵۵)
’’اللہ تعالیٰ، اس کا رسول اور اہل ایمان تمہارے دوست ہیں ۔‘‘
اس آیت میں مومنین کی دوستی کو اللہ و رسول کی دوستی کی طرح قرار دیا گیا ہے۔اللہ اور اس کے رسول کی دوستی ان کی اطاعت کیے بغیر ممکن نہیں رہتی۔ایسے ہی اہل ایمان کی دوستی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ان کی اطاعت نہ کرلی جائے۔اورایسا کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد ہو۔اس لیے کہ اگر ان میں سے بعض ایک چیز کا حکم دیں ‘اور بعض دوسرے اس کے خلاف دوسری چیز کا حکم دیں ؛ تو اس صورت میں ایک گروہ کی اطاعت دوسرے گروہ کی اطاعت سے زیادہ اولی نہیں ہوسکتی۔اس اختلاف کی صورت میں اطاعت گزاری یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیاجائے۔
مزید برآں یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث مبارکہ میں جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے اور اجماعیت اختیار کرنے کا حکم ثابت ہے اور ایسا کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اور ان سے جدا ہونے والوں کی مذمت کی گئی ہے ۔
اور یہ خبر وارد ہوئی ہے کہ :خیر و رحمت اور ہدایت جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ اللہتعالیٰ اس امت کو ضلالت پر جمع نہیں ہونے دے گا؛ اور اس امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا؛ ان کی مخالفت کرنے اور انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔اور اللہ تعالیٰ اس دین میں ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے گا جو اس کی اطاعت کے کام کرتے رہیں گے۔اور یہ کہ اس امت کے بہترین لوگ قرن اول کے لوگ تھے۔پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ میری امت کو کبھی بھی گمراہ پر جمع نہیں کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔‘‘[سنن الترمذي ۳؍۳۱۵۔ ورواہ الہیثمي في مجمع الزوائد ۵؍۲۱۸۔ اس روایت کے الفاظ یوں ہیں : ’’لن تجتمع أمتي علی ضلالۃ ؛فعلیکم بالجماعۃ فإن یداللہ علی الجماعۃ۔‘‘ اس طبرانی نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور کہا: ان میں سے ایک سند کے راوی ثقہ ہیں ‘اورسند صحیح ہے۔امام حاکم نے مستدرک میں ۱؍۱۱۶ میں دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔ دوسری سند میں ابراہیم بن میمون عدنی ہے ۔اسے امام عبدالرزاق صنعانی نے عادل کہتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔ علامہ ذہبی کہتے ہیں : ابراہیم بن میمون کو عبدالرزاق نے عادل ہے اورابن معین نے ثقہ کہا ہے۔ ]
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس نے مسلمانوں کی جماعت کی ایک بالشت بھر بھی مخالفت کی ؛ اس نے اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار پھینکا۔‘‘[مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۷۔دو سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے۔ ایک سند صحیح اور بخاری ومسلم کی شرط پر ہے۔]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے مسلمانوں کی جماعت کی ایک بالشت بھر بھی مخالفت کی ؛ اس نے اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار پھینکا؛ یہاں تک کہ وہ اس سے رجوع کرلے۔اور جو انسان اس حالت میں مرا کہ اس پر کوئی امام نہ ہو ‘ وہ جاہلیت کی موت مرا ۔‘‘[مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۷۔یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط پر ہے۔ ]
حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی تم لوگوں کو پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے:۱۔ بات سننا۔ ۲۔اطاعت کرنا۔ ۳۔جہاد کرنا ۴۔ ہجرت کرنا۔ ۵۔مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنا۔ اس لیے کہ جو جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی الگ ہوا اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی نکال دی مگر یہ کہ وہ دوبارہ جماعت سے مل جائے۔‘‘[سنن الترمذي ۴؍۲۲۵؛ کتاب الأمثال ‘باب ما جاء مثل الصلاۃ و الصیام والصدقۃ۔ قال الترمذي: حسن صحیح غریب۔ وصححہ الألباني في ’’صحیح الجامع الصغیر ۲؍۹۷۔]
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو جماعت سے ایک بالشت کے لیے بھی علیحدہ ہوا وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘[مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۸۔ ولم یعلق علیہ الذہبي۔]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے امت سے علیحدگی اختیار کی ؛ یا پھر وہ ہجرت کے بعد دوبارہ بادیہ نشین ہوگیا تو قیامت والے دن اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی۔‘‘[مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۸۔ ولم یعلق علیہ الذہبي۔ ]
حضرت ربعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں ان راتوں میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا جب لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔تو آپ نے فرمایا: میں نے سنا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:
’’جس انسان نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی ‘ یا پھر امارت کو تبدیل کیا؛ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی۔‘‘[مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۹۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے۔ اور ابن قطان سے دوسرے بھی بہت سارے لوگوں نے روایت کیاہے۔ نیزدیکھیں : مجمع الزوائد ۵؍۲۲۲]
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا: ایک وہ آدمی جس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور اپنے امام کی نافرمانی کی ؛اور اسی نافرمانی کی حالت میں اس کی موت آئی ....‘‘ [مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۸۔قال الحاکم: صحیح علی شرط الشیخین؛ وافقہ الذہبي۔]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ایک فرض نماز دوسری فرض نماز تک درمیانی عرصہ کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔جمعہ سے جمعہ تک درمیانی وقت کے گناہوں کا کفارہ ہوتاہے۔ اور ایسے ہی ایک رمضان دوسرے رمضان تک ۔ درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔‘‘....
اس کے بعد فرمایا....:’’ سوائے تین چیزوں کے۔‘‘تو مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ کوئی نئی بات ہے۔‘‘
توآپ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا؛ اور خریداری کو توڑنا ؛ سنت کو ترک کرنا۔او ریہ کہ کوئی آدمی قسم پر کسی کی بیعت کرے اور پھر اس کی مخالفت کرے اور اپنی تلوار سے اس سے لڑائی کرے۔ سنت ترک کرنے سے مراد جماعت سے خارج ہونا ہے ۔‘‘[مستدرک الحاکم ۱؍۱۱۹۔ صححہ الحاکم وقال: علی شرط الشیخین ۔و وافقہ الذہبي۔]
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور سے یاد کیا یہاں تک کہ اسے آگے دوسروں تک پہنچایا۔ پس بہت سے فقہ کے حامل ایسے ہیں جو اس کو زیادہ فقیہ لوگوں تک پہنچا دیں گے۔‘‘اور تین باتیں ایسی ہیں جن پر مؤمن کا دل کبھی بھی بخل نہیں کرتا۔۱۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص عمل۔ ۲۔ حکام کی خیر خواہی ۔ ۳۔ اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ لزوم۔‘‘
یہ حدیث امام حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے ؛ اورکہا ہے: شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔[سنن ابوداؤد:کتاب العلم ‘ باب :فضل نشر العلم؛ ح268۔ سنن الترمذي کتاب العلم باب ماجاء في الحث علی التبلیغ والسماع ۴؍۱۴۱۔ وقال: حدیث حسن صحیح۔ وصححہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر ۶؍۳۰۔]
ان [آیات و احادیث مبارکہ ] کا تقاضا ہے کہ امت کا اجماع صرف حق و صواب اور ہدایت پرہی ہو۔ اس کے سب سے زیادہ حق دار صحابہ ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرنا ایک جائز اقدام تھا۔
مزیدبرآں سلف صالحین اس انسان پر بہت سخت انکار کرتے تھے جو اجماع کی مخالفت کرتا۔ اور ایسے انسان کو گمراہوں میں سے شمار کیا کرتے تھے۔ اگریہ بات ان کے ہاں مشہور ہوتی تو وہ اس کا انکار نہ کرتے۔اس لیے کہ وہ اسی چیز کا انکار کرتے تھے جس کے [غلط ہونے کے ]بارے میں انہیں دوٹوک طور پر معلومات ہوتی تھیں ۔اور کسی کو یہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اجماع کے خلاف کوئی بات کرے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سلف صالحین کے ہاں اجماع کو قطعی حجت سمجھا جاتا تھا۔
عقول کے مدارک مختلف ہوتے ہیں ۔کسی چیز کے قطعی ہونے پر ان کا اتفاق تواطی اور شعور کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ۔ وگرنہ قطعی ہونا واجب نہ ہوتا۔اور اگر کوئی ایسی چیز نہ ہوتی جو قطعیت کا فائدہ دیتی ؛ یا ظنیت کا ہی فائدہ دیتی ؛ تو بہت سارے گروہ اپنی ہمتوں اور طبائع کے اختلاف و افتراق کے باوجود کسی ایسی چیزکو ہر گز قطعی نہ کہتے جو کہ قطعی نہ ہوتی۔
پس اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں پاس ایسے قطعی دلائل موجود تھے جو کہ اجماع کی حجیت کو واجب کرتے تھے جس کی اتباع واجب ہوجاتی ہے اور مخالفت حرام ٹھہرتی ہے۔
مزید برآں کہ شیعہ اور اہل سنت والجماعت دونوں کا اتفاق ہے کہ: اگر علی رضی اللہ عنہ بھی ان تینوں کے ساتھ ہوں تو ان کا اجماع حجت ہوجاتا ہے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ ایسا صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے کی وجہ سے ہو۔ اس لیے کہ خود کسی کی عصمت اجماع کے بغیرثابت نہیں ہوسکتی۔اس باب میں ان کی بنیاد ہی دوسروں سے عصمت کی نفی ہے ۔ اس لیے کہ نص اور معقول میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے غیر کی عصمت کی نفی کی جاسکتی ہو۔
اس سے روافض کا تناقض واضح ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے دین کی اصل بنیاد ہی اجماع پر رکھی تھی؛ اورپھر خود ہی اس کے خلاف کرنے لگے۔اور یہ بات بھول گئے کہ اجماع پر قدح کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت پر قدح کرنے کے مترادف ہے۔پھر ان کے پاس کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کا سہارا لے سکیں ۔ان کا یہی حال ان کے ان اقوال و عقائد میں ہے جن میں یہ لوگ باقی امت سے منفرد ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ لوگ آخری سرے کو لے لیتے ہیں جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ۔‘‘ یعنی اصول کو چھوڑ دیتے ہیں اور فروع کو لے لیتے ہیں ۔
اگر ان لوگوں کے ہاں اجماع حجت نہیں ہے تو پھرعصمت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ اور اگر اجماع حجت ہے تو پھر معصوم کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔توثابت ہوا کہ ہر دو صورتوں میں یہ جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کا قول صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے حجت ہو۔اس سے لازم آتا ہے کہ اجماع حجت ہو۔ وگرنہ اس سے شیعہ اور سنہ ہر دو کے قول کا بطلان لازم آئے گا۔
[اجماع پر شیعہ کے اعتراضات]:
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ اجماع میں سب لوگوں کا قول معتبر ہوتا ہے اور یہ بات موجود نہ تھی۔بلکہ نہ ہی اہل مدینہ یا ان میں سے بعض لوگوں کا کوئی اجماع تھا۔اور یقیناً اکثر لوگ قتل عثمان پر متفق تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم قبل ازیں اس کا جواب دے چکے ہیں ، ہم نے بیان کیا تھا کہ ارباب حل و عقد کے اجماع میں چند افراد کے شرکت نہ کرنے سے کچھ حرج واقع نہیں ہوتا۔اس لیے کہ اس میں اہل شوکت اور ارباب حل و عقد کی موافقت درکار ہوتی ہے۔تاکہ امام مقاصد امامت کی تنفیذپرقادر ہوسکے۔بھلے سردارطبقہ کے اہل حل و عقد لوگ چند ایک ہی کیوں نہ ہوں ؛اورباقی لوگ ان کے موافق ہوں ۔ان کے بیعت کرلینے سے امامت منعقد ہو جائے گی۔یہی وہ درست بات ہے جس پر اہل سنت والجماعت کاربندہیں ۔اور امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کا مذہب ہے۔جب کہ اہل قدر میں سے ہر ایک نے اس کی تعداد متعین کی ہے؛ یہ سب باطل باتیں ہیں ۔
اگر اس سے مراد اولویت کے استحقاق پر اجماع ہو تو اس وقت یا تو تمام لوگ معتبر ہوتے ہیں یا پھر ان میں سے جمہور کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں باتیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پائی جاتی تھیں ۔
٭ یہ بات غلط ہے کہ اکثر لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ بخلاف ازیں آپ کو قتل کرنے پر باغیوں کی ایک چھوٹی اور ظالم جماعت متفق تھی۔جن کا تعداد کل امت کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بنتی تھی۔اور یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اکثر لشکر‘ اور آپ سے جنگ کرنے والے ‘ او رجنگ سے بیٹھ جانے والے لوگ قاتلین عثمان میں سے نہیں تھے۔ یہ چند ایک وہ لوگ تھے جو بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے۔
خلافت عثمان میں امت اسلامیہ کی تعداد کئی لاکھ تھی۔ جب کہ آپ کو قتل کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار بھی نہیں پہنچتی ۔حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’خداقاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت کرے، وہ چوروں کی طرح بستی کی پچھلی جانب سے داخل ہوئے۔ اللہان کو ہر طرح سے غارت کرے؛ان میں سے وہی لوگ بھاگنے میں کامیاب ہوئے جو راتوں رات بھاگ گئے تھے ۔‘‘