Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل :....[ غلطی کا احتمال اور اجماع]

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل :....[ غلطی کا احتمال اور اجماع]

[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’جب غلطی کا صدور امت کے ہر شخص سے ممکن ہے تو اجماع میں کذب کے احتمال سے کون سی چیز مانع ہے؟‘‘

[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ :جب اجماع منعقد ہوجائے تو اس سے وہ فوائد حاصل ہوتے ہیں جو[ خبر]احاد سے نہیں ہوتے ۔ بنابریں فرد واحد کو اجماع کا درجہ دینا بھی جائز نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اخبار احاد میں خبر دینے والے سے خطا و کذب کا صدور ممکن ہے، مگر جب وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں تو یہ احتمال باقی نہیں رہتا۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ جتنے لقمے کھائے جاتے ہیں یا گھونٹ پئے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی ایک لقمہ یا ایک گھونٹ سے کبھی سیری حاصل نہیں ہوتی۔ مگر ان کے مجموعہ سے آدمی سیر ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح تنہا ایک آدمی دشمن کے مقابلہ سے قاصر ہوتا ہے، جب چند افراد جمع ہو جائیں تو وہ آسانی سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ کثرت تعداد قوت و علم میں زیادتی کی موجب ہوتی ہے۔اس لیے کہ ایک یا دو تو بعض اوقات حساب میں غلطی کرسکتے ہیں ؛ مگرجب یہی تعداد کثرت کو پہنچ جاتے ہی تو وہ احتمال ممتنع ہوجاتا ہے جو کہ انفرادی حالت میں ممکن تھا ۔ ہم یہ بات اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ دو کا علم ان میں سے کسی ایک کے انفرادی علم سے زیادہ ہوتا ہے۔اور دو کی قوت ایک کی انفرادی قوت سے زیادہ ہوتی ہے۔ انفرادی حالت سے یہ لازم نہیں آتا کہ خطاء کا وقوع ہو اور یہی حال کثرت عدد کا بھی ہے۔ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اَنْ تَضِلَّ اِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدَاہُمَا الْاُخْرٰی﴾ (البقرۃ:۲۸۲)

’’اس لیے کہ اگر ایک عورت بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔‘‘

حساب میں لوگوں میں سے کوئی ایک کبھی خطاء کرسکتا ہے؛ مگر جماعت سے خطاء نہیں ۔ مثلاً چاندکو ہی لیجیے۔ ایک انسان یہ گمان کرسکتا ہے کہ یہ چاند ہے ‘ مگر حقیقت میں وہ ایسا ہوتا نہیں ۔جب کہ کثیر تعداد لوگوں سے ایسی غلطی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔

ہم جانتے ہیں کہ جب مسلمان کسی چیز پر جمع ہوجائیں اور ان کی تعداد بھی بڑھ جائے تو اس صورت میں ظلم و فواحش کے اسباب و دواعی کم ہوجاتے ہیں ۔اس لیے کہ اجتماع کی حالت میں یہ لوگ کبھی بھی خلاف شریعت اسلام امور پر جمع نہیں ہوسکتے؛ جیسا کہ ایک یا دو آدمی کرسکتے ہیں ۔ اس لیے کہ اجتماع اور تمدن کا عادلانہ قانون کے بغیر کوئی امکان نہیں ہوتا۔یہ ممکن نہیں کہ کسی شہر کے رہنے والوں کا مطلق طور پر ایک دوسرے پر ظلم کرنے پر اجتماع و اتفاق ہو جائے ۔ایسا کرنے میں تو ان کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ بلکہ حقیقت واقع میں ہم دیکھتے ہیں اگر کوئی امیر اپنی رعیت میں سے کسی پر ظلم کرتا ہے تواس کے بعض ساتھی ایسے ہوتے ہیں جو کسی پر ظلم نہیں کرتے۔اور جس چیز پر وہ تمام برابرمتفق ہیں ؛ اس میں کسی پر کوئی ظلم نہیں ہے۔ اور یہ بھی معلوم شدہ ہے کہ کبھی بعض افراد اجماع کے حکم کی مخالفت بھی کرتے ہیں ؛ بھلے یہ اجماع اعیان کا ہو یا اعراض کا۔

اس کی مثال یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ : یہ ایک بدیہی بات ہے کہ انسان ایک تیر کو بآسانی توڑ سکتا ہے، مگر بہت سے تیروں کو توڑنا مشکل ہے۔ایسے ہی ایک انسان پر دشمن غالب آسکتا ہے ‘ اور اسے پسپا کرسکتا ہے؛ مگر جب ان کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے تو پھر ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔

ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ اگر اجماع میں خطا کا امکان ہوتا ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت ثابت نہیں ہو سکے گی ۔ اس لیے کہ[شیعہ کے نزدیک] عصمت علی رضی اللہ عنہ کا اثبات بھی اجماع کا رہین منت ہے۔ اوریہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے لوگ معصوم نہیں ہیں ۔جب یہ جائز ہوگا کہ اجماع سے غلطی ہوسکتی ہے ؛ تو پھر اس بات کا بھی امکان رہتا ہے کہ: اس امت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کچھ دوسرے لوگ بھی معصوم ہوں ۔تو اس صورت میں یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ معصوم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔

اس سے واضح ہوگیا کہ: اگر شیعہ اجماع پر معترض ہوں گے تو امام کے معصوم ہونے کی جس بنیاد پر ان کا عتماد ہے ‘ وہ باطل ٹھہرے گی۔ اورجب عصمت کے متعلق ان کا ایک مذہبی قاعدہ ہی سرے سے باطل ٹھہرے گا تورافضی مذہب کی پوری عمارت ہی دھڑام سے گر پڑے گی۔ [اوراگر اسے حجت قرار دیں گے تو اصحاب ثلاثہ کی خلافت پر منعقد شدہ اجماع کو تسلیم کرنا پڑے گا]۔تو واضح ہوگیا کہ اجماع پر قدح کرنے سے ان کے مذہب کے اصول ہی باطل ثابت ہوتے ہیں ۔اور اگر اجماع کو حجت تسلیم کرتے ہیں تو پھر بھی ان کا مذہب باطل ثابت ہوتا ہے۔ پس ہر دو صورتوں میں ان کے مذہب کاباطل ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔